Tuesday 16 February 2016

کیا کریں جب قبلہ کی سمت کا نہ ہو علم؟

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب ہم کہیں جاتے ہیں اور نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو قبلہ معلوم کرتے ہیں اگر ایسا ہو کہ ایک شخص نے قبلہ ایک جانب بتایا اور دوسرے نے کہا بس اس سے تھوڑا ہٹ کر ہے تو ہم پریشان ہوجاتے ہیں کہ کس طرف پڑھیں بعض لوگ تو یہ سوچ کر نماز ہی نہیں پڑھتے کہ قبلہ معلوم نہیں جب تک یقین نہیں ہوگا کس طرف ہے ہم کیسے نماز پڑھیں تو ان کی اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی نے آپ کو قبلے کا رخ بتایا اور آپ نے نماز پڑھ لی بعد میں معلوم ہوا کہ قبلہ اس رخ سے تھوڑٓا ہٹ کر تھا تو آپ کی نماز ہوجائے گی لیکن اس کی حد کیا ہے کس حد تک قبلے سے انحراف ہوتو نماز ہوجائے گی ؟
’’عین قبلہ کے دونوں جانب 45 درجے تک کے انحراف میں نماز ہوجاتی ہے. ‘‘
اس بارے میں مسئلے کی تفصیل کچھ یوں ہے :
اگر قبلہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ معلوم نہ ہو مثلا کسی مسجد کے رخ سے یا ستاروں سے یا قطب نما وغیرہ سے اور نہ ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو قبلہ کی رہنمائی کرسکے تو تحری کرنا فرض ہے یعنی حسب قدرت غوروخوض کرنے پر جس طرف دل گواہی دے اس طرف نماز پڑھ لے ، نماز سے فراغت کے بعد اگر اس جہت کا غلط ہونا ثابت ہوجائے تو نماز کا لوٹانا واجب نہیں اور اگر قبلہ دریافت کرنے کا کوئی ذریعہ موجود ہوتے ہوئی بھی اس سے کام نہیں لیا بلکہ تحری کرکے نماز پڑھ لی تو اگر بیت اللہ کے ہر دو جانب 45  درجے کے اندر ہوتو نماز ہوگئی ورنہ واجب الاعادہ (لوٹانا ضروری) ہے ۔اگر قبلہ دریافت کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی حالت میں تحری کے بغیر نماز پڑھے گا تو یہ نماز صحیح نہ ہوگی۔
(احسن الفتاویٰ صفحہ 318 جلد 2)

No comments:

Post a Comment