Wednesday 10 February 2016

قصہ چاند کے فرضی سفر کا؟

ایس اے ساگر 

انگریزی داں طبقہ کیلئے اب یہ موضوع اجنبی نہیں رہا ہے تاہم اردو داں حضرات ضرور چونکنے پر مجبور ہیں کہ کیا انسان واقعی چاند پر گیا تھا ؟؟ 

ریاستہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین اور ان کے متعلقہ اتحادیوں کے درمیان 1940ء سے 1990ء کی دہائی تک جاری رہنے والے تنازع، کشیدگی اور مقابلے کو سرد جنگ کہا جاتا ہے۔ اس پورے عرصے میں یہ دو عظیم قوتیں مختلف شعبہ ہائے حیات میں ایک دوسرے کی حریف رہیں جن میں عسکری اتحاد، نظریات، نفسیات، جاسوسی، عسکری قوت، صنعت، تکنیکی ترقی، خلائی دوڑ، دفاع پر کثير اخراجات، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور کئی دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ یہ امریکہ اور روس کے درمیان براہ راست عسکری مداخلت کی جنگ نہ تھی لیکن یہ عسکری تیاری اور دنیا بھر میں اپنی حمایت کے حصول کیلئے سیاسی جنگ کی نصف صدی تھی۔"
اس سرد جنگ کے اجمالی تعارف کے بعد سنئے کہ سب سے پہلے خلائی سفر کیلئے  روسی خلاء باز لیفٹینینٹ یوری گاگرین نے 12 اپریل 1961 کو اپنے پر تولے," زمین سے ایڑیاں اٹھائیں "اور خود " کو زمین کے بوجھ سے آزاد کیا "اسی لئے 12 اپریل کو خلائی سفر کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے..
امریکہ نے جلد بازی تو نہ کی تھوڑا انتظار کیا 1969میں امریکی خلائی جہاز اپالو گیارہ Apollo 11  نے 16 جولائی کو کینیڈی اسپیس سینٹر سے اپنے تاریخی سفر کا آغاز کیا اور چار دن کے بعد اس جہاز کے ساتھ جڑا کیپسول ایگل چاند کی سطح پر اترا۔
اس خلائی گاڑی کی سیڑھی سے اترتے ہوئے نیل آمسٹرانگ نے جب اپنا پہلا قدم چاند کی سطح پر رکھا تو ان کا نام اس پہلے انسان کے طور پر ہمیشہ کے لئے تاریخ کے صفحات پر ثبت ہوگیا جس نے زمین سے جاکر چاند پر قدم رکھا۔ چاند کی سطح پر قدم رکھتے ہوئے نیل آمسٹرونگ نے بھی اس چھوٹے سے قدم کو انسانیت کیلئے ایک بڑی چھلانگ قرار دیا۔
امریکی خلائی گاڑی ایگل Eagle کے چاند کی سطح پر اترنے اور خلابازوں کی چاند کی سطح پر اولین چہل قدمی کو زمین پر موجود کروڑوں انسانوں نے اپنے ٹی وی سیٹس پر براہ راست دیکھا۔
نیل آرمسڑونگ Neil Armstrong نے ساتھی خلاباز بز آلڈرن Buzz Aldrin کیساتھ ڈھائی گھنٹے چاند کی سرزمین کو جانچنے، تصاویر لینے اور مٹی اور پتھروں کے مختلف نمونے جمع کرنے میں صرف کئے۔ امریکی خلابازوں نے چاند کی سطح پر امریکی جھنڈا نصب کیا۔
خلاباز اس کے بعد خلائی گاڑی ایگل کے ذریعے چاند کے گرد چکر لگاتے ہوئے اپولو گیارہ جہاز تک پہنچے اور پھر 24 جولائی کو واپس زمین پر اترے۔....
یہاں تک پڑھ لیا ہو تواب اس واقعے پر سمجھ بوجھ رکھنے والوں کے  چند سوالات پر بھی نظر دوڑادیں!

چاند کی سطح پر اندھیرا دکھایا گیا ہے۔ ان افراد کا یہ کہنا ہے کہ چاند کی سطح پر لی گئی ان تصاویر میں آسمان تو نمایاں ہے مگر وہاں کوئی ایک بھی ستارہ دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ ہوا کی غیر موجودگی اور آلودگی سے پاک اس فضا میں آسمان پر ستاروں کی تعداد زیادہ بھی دکھائی دینی چاہئے تھی اور انہیں چمکنا بھی زیادہ چاہئے تھا۔ ان لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ناسا کی ویڈیو میں خلانورد جب امریکی پرچم چاند کی سطح پر گاڑ دیتے ہیں تو وہ لہراتا ہے جب کہ چاند پر ہوا کی غیر موجودگی میں ایسا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
ان لوگوں کا اصرار رہا ہے کہ ان تمام نکات کی موجودگی میں چاند کو مسخر ماننا ناممکن ہے اور یہ تمام تصاویر اور ویڈیوز ہالی وڈ کے کسی بڑے اسٹوڈیو کا شاخسانہ ہیں۔
کیا انسان نے واقعی چاند پہ قدم رکھا یا نہیں یہ بحث پہلی دفعہ 1974 میں شروع ہوئی جب ایک امریکی خلائی ماہر Bill Kaysing کی کتاب
We Never Went to the Moon: America146s Thirty Billion Dollar Swindle
جو کہ 1976 میں شائع ہوئی جس میں سائنسی بحث سے ثابت کیا گیا تھا کہ کوئی انسان چاند پہ نہیں اترا یہ سب روس کو خلائی دوڑ میں نیچا دکھانے کے لیے ایک ڈرامہ تھا۔
ایک اندازے کے مطابق ’’ دی فلیٹ  ارتھ سوسائٹی ‘‘ The flat earth society وہ پہلا ادارہ تھا جس نے اس کاز کو سب سے پہلے اٹھایا تھا کہ ناسا نے دنیا کو بیوقوف بنایا اور بے تحاشا ڈالر ایک جھوٹے پروجیکٹ پہ جھونک دیئے۔
اس سلسلے میں جو سب سے حالیہ پیش رفت ہے وہ مشہور زمانہ فوکس نیوز Fox News کی ڈاکومنٹری ?? Did we land on the Moon ہے جو کہ 2001 میں منظر عام پہ آئی اور یوٹیوب پہ بھی دستیاب ہے.
اور ہالی وڈ کے فلم ڈائریکٹر سیٹینلے کبرک Stanley Kubrick کا یہ انٹرویو جو حال ہی میں ایوٹیوب پر اپلوڈ کیا گیا ہے جس میں سٹینلے کا کہنا ہے کہ ناسا نے چاند پر اترنے کے منظر کو ایک اسٹوڈیو مین فلمایا تھا اور وہ خود اس کو ترتیب دے رہے تھے۔
                                                                                                                                
چاند پر انسانی قدم پر اعتراضات کو پڑھنے کے بعد عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے کوئی انسان چاند پر نہیں گیا اور نہ جاسکتا ہے یہ ناممکن ہے خاص طور پر دین دار طبقہ اس بات سے بہت خوش ہے کہ انسان کے چاند پر پہنچنے کے دعوے پر بعض لوگوں نے اعتراضات کئے ہیں اور ان اعتراضات کو پذیرائی ملی ہے ۔مذہبی طبقے کا عمومی خیال یہ ہے کہ چاند پر پہنچنا اسلام کے منافی ہے ۔
ان تمام باتوں کے باوجود ہم آپ کو حقیقت سے آگاہ کرنے جارہے ہیں اور یہ بتانے جارے ہیں کہ انسان کا چاند پر پہنچنا کوئی ناممکن بات نہیں نہ سائنسی حساب سے نہ شرعی حساب سے ۔
قرآن و حدیث میں کہیں نہیں کہ انسان چاند پر نہیں پہنچ سکتا ہاں البتہ ایک آیت ایسی ہے ہوسکتا ہے اس سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوگیا ہو ۔ وہ سورۃ الرحمٰن کی آیت نمبر 33 ہے جس کا ترجمہ یہ ہے :
’’اے انسانوں اور جنات کے گروہ ! اگر تم میں یہ بل بوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی حدود سے پار نکل سکو ، تو پار نکل جاؤ۔ تم زبردست طاقت کے بغیر پار نہیں ہوسکو گے ‘‘۔
(ترجمہ : آسان ترجمہ قرآن [مفتی محمد تقی عثمانی ])
اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ کوئی انسان خلا میں (یعنی زمین کی فضا سے باہر) نہیں جاسکتا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں سماوات سے مراد آسمان ہے خلا نہیں اور آسمان ہمیں نظر آنے والی نیلی فضا نہیں بلکہ اس سے اوپر بکھرے تاروں سے بھی بالا ایک ٹھوس چھت ہے جو پہلا آسمان ہے۔ اس پر قرآن و حدیث کے کافی دلائل موجود ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا مقصود نہیں ۔
اس کی مکمل تفصیل قدیم و جدید فلکیات کے ماہر عالم دین مولانا موسیٰ روحانی بازی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’فلکیات جدیدہ و قدیمہ‘‘ میں مکمل دلائل کے ساتھ بیان کی ہے ۔
اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انسان چاند پر  نہیں پہنچا پھر بھی یہ بات تو یقینی ہے کہ خلا میں تو پہنچ ہی گیا ہے لہذا اس آیت کو دلیل مان کر امریکہ کے چاند پر پہنچنے کو قرآن کے منافی نہیں قرار دیا جاسکتا ۔
کیا کوئی ایسے واضح ثبوت ہیں جن کی بنا پر یہ تسلیم کیا جاسکے کہ انسان واقعی چاند پر پہنچ چکا ہے ؟؟؟
جی ہاں ! ایسے بہت سے واضح ثبوت موجود ہیں جن سے انسان کا چاند پر پہنچنا معلوم ہوتا ہے ۔

1۔ ناسا نے 18 جون 2009 کو چاند کے مدار میں LRO (Lunar Reconnaissance Orbiter)  نامی ایک خلائی گاڑٰی بھیجی تھی جو ابھی بھی چاند کے گرد چکر لگا رہی ہے اس خلائی گاڑی کا مقصد چاند کی سطح کا قریب سے مشاہدہ کرنا ہے اس خلائی گاڑی نے ناسا کی جانب سے چاند پر پہنچنے والے چھ کے چھ مشن کے اترنے کی جگہ کی HD  ہائی ڈیفینیشن تصاویر بھیجی ہیں جن میں وہاں چاند کی سطح پر خلا بازوں کے قدموں کے نشانات (قدموں کے نشانات سے مراد ہر ایک قدم کا نشان نہیں بلکہ قدموں کے یہ نشانات لکیروں کی صورت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں) ، خلائی گاڑی Rover کے ٹائروں کے نشانات، خلابازوں کی طرف سے گاڑے گئے امریکی پرچم اور لینور لینڈر Lunar Lander (خلابازوں کو چاند پر اتارنے والی خلائی گاڑی) دکھائی دے رہے ہیں ۔ ناسا کی جانب سے چاند پر بھیجے گئے چھ کے چھ مشن اپولو 17,16,15,14,12,11 میں خلابازوں نے وہاں امریکی پرچم گاڑے تھے جن میں پانچ اسی طرح کھڑے ہیں جبکہ اپولو 11 کا جھنڈا خلائی گاڑی کے چاند سے اڑان بھرتے وقت شدید دباؤ کی وجہ سے گرگیا تھا جو ابھی تک چاند کی سطح پر اسی حالت میں موجود ہے ۔

2۔ بی بی سی کے مطابق برطانیہ کی آکسفرڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ گرائمز کا کہنا ہے کہ سازش کو چھپائے رکھنا بہت مشکل ہے اور کبھی نا کبھی سازش کرنے والے اس کو عیاں کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر گرائمز نے ریاضی کا فارمولا تیار کیا ہے اس کو چار سازشی تھیوریز پر لاگو کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ سازش عیاں ہونے میں تین اہم عوامل ہیں۔ ایک اس سازش میں کتنے افراد شامل تھے، دوسرا سازش کو کتنا وقت گزر گیا ہے اور تیسرا سازش کی ناکامی کے امکانات کیا ہیں۔
انہوں نے اس فارمولے کو چار مشہور سازشی تھیوری پر لاگو کیا۔ ایک ہے کہ چاند پر جانا جھوٹ ہے، موسمی تبدیلی ایک دھوکہ ہے، اوٹزم ویکسین کی وجہ سے ہوتا ہے اور ادویات بنانے والی کمپنیاں سرطان Cancer کے علاج کو چھپا رہی ہیں۔
ڈاکٹر گرائمز کا کہنا ہے کہ ان چاروں سازشی تھیوریز میں اگر سچائی ہوتی تو اب تک ان کی حقیقت عیاں ہو چکی ہوتی۔
ان کا کہنا ہے کہ چاند پر جانے کی حقیقت 3.7 سالوں (3 سال 7 ماہ) میں سامنے آ جاتی، موسمی تبدیلی 3.7 سے 26.8 سالوں میں، اوٹزم 3.2 سالوں میں اور کینسر 3.2 سالوں میں عیاں ہو جاتی۔
ان کا کہنا ہے کہ انسان کو چاند پر بھیجنے کے ناسا کے پروگرام میں چار لاکھ سے زیادہ اہلکار شامل تھے۔ اتنی بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے یہ سازش 3.7 سالوں میں بے نقاب ہو چکی ہوتی۔
ڈاکٹر گرائمز کے فارمولے کے تحت چاند کا سفر ڈھونگ تھا تو اس کو 50 سال ہو چکے ہیں اور فارپولے کے تحت اس سازش میں زیادہ سے زیادہ 251 افراد شامل ہو سکتے ہیں۔
اس لیے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ چاند کا سفر حقیقت ہے سازش نہیں۔
(ماخوذ : بی بی سی اردو )
http://www.bbc.com/urdu/science/2016/01/160127_conspiracy_theory_revealed_rh

3۔ ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عام طور پر معترضین کا یہ خیال ہے کہ یہ سب روس کو نیچا دکھانے کے لئے کیا گیا تاکہ امریکہ خلائی دوڑ میں روس سے آگے نکل سکے اسی وجہ سے چاند پر اترنے کا ڈرامہ رچایا گیا اگر یہی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ روس نے اب تک سرکاری طور پر اپنے مخالف امریکہ کے دعووں کو ڈرامہ کیوں قرار نہیں دیا ؟ اور آسانی سے امریکہ کو ساری دنیا کو متاثر کرنے کا موقع کیوں دیا ؟ اور اب تک کیوں دے رہا ہے ؟ یقینا روس ایک بڑی طاقت تھا اور اس کے پاس خلائی ٹیکنالوجی وسائل اور جاسوسی ادارے بھی تھے کہ وہ اس مشن کو غلط ثابت کر سکتا تھا۔ اور یوں اپنے مخالف کو جھوٹا اور دھوکے باز ثابت کر کے دنیا میں اس کی جگ ہنسائی کروا سکتا تھا۔ لیکن روس نے کبھی بھی سرکاری طور پر اپولو کے متعلق کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ بلکہ اعتراضات اس مشن کے کئی سال بعد ایک امریکی شہری کی جانب سے اٹھائے گئے۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روس بھی سرکاری طور پر ناسا کے اس دعوے کو تسلیم کرتا ہے ۔

4. ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بل کیسنگ (جن کا ہم نے اوپر بھی ذکر کیا تھا) نے 1974 میں کتاب لکھ کر سب سے پہلے اعتراضات اٹھائے اور 2001 والی Fox News کی دستاویزی فلم میں بھی وہ شریک ہیں۔ وہ اس فلم کے آخر میں کہتے ہیں کہ آپ طاقتور ترین دوربین کو چاند کی طرف کریں اور اگر لیونز لینڈر Lunar Lander اور باقی ماندہ چیزیں چاند پر نظر آگئیں تو میں کبھی بھی سازشی نظریے پر کوئی لفظ نہیں کہوں گا۔ بل کیسنگ تو 2005 میں دنیا سے چل بسے لیکن 2009 میں LRO نے اپولو 11 اور دیگر مشن کے مقامات کی تصویریں بھیجیں جس میں مهم کی باقیات چاند کی سرزمین پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ بل کیسنگ کا مطالبہ LRO نے پورا کر دیا ہے کیونکہ دنیا کی کوئی دوربین اتنے اعلی معیار کی تصویریں نہیں لے سکتی۔

فوکس نیوز Fox News  کی ڈاکومینٹری کا لنک دیا جارہا ہے آپ اس میں بل کیسنگ کی یہ بات ویڈیو ٹائم 43:00 پر سن کر اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں :
https://www.youtube.com/watch?v=ybJMuowl0UU

اب آتے ہیں ان اعتراضات کی جانب جو کہ  ناسا کے چاند پر اترنے کے  بعد رفتہ رفتہ مشہور ہونے لگے جن کا سہارا لے کر بہت سے لوگوں نے ناسا کے اس اقدام کو جھوٹ اور دھوکا دہی کہنا شروع کردیا ہم یہاں آپ کو تین مشہور اعتراضات کا جواب دیں گے جو زبان زد عام ہیں اس کے علاوہ دیگر تمام اعتراضات کا تفصیلی جواب آپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں ۔
http://www.badastronomy.com/bad/tv/foxapollo.html

جھنڈا کیوں لہرا رہا تھا ؟؟
سائنس کا ادنیٰ طالب علم اور آج کل تو ہر پڑھا لکھا شخص یہ جانتا ہے کہ چاند پر ہوا نہیں لیکن پھر بھی ناسا کی جانب سے دکھائی گئی فوٹیج میں امریکی جھنڈا لہراتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس کو ایک خلاباز چاند کی سطح پر گاڑ رہا ہے جب چاند پر ہوا نہیں تو جھنڈا کیسے لہراتا رہا ؟؟
یہ ایک بنیادی سوال ہے جو ہر شخص چاند پر انسانی قدم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اٹھاتا ہے اس کا جواب بہت آسان ہے۔
جس طرح بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ چاند پر ہوا نہیں تو کیا ناسا والے اس بنیادی بات سے بے خبر تھے جو اتنی بڑی غلطی کرڈالی ؟؟
بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ ناسا نے یہ منظر اسٹوڈیو میں فلمایا ہے تو کیا ناسا نے جان بوجھ کر پنکھا لگا کر جھنڈے کو لہرایا حالانکہ ناسا جانتا ہے کہ چاند پر ہوا نہیں ؟
اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ جھنڈا ہوا سے ہلا ہے تو اتنی تیز ہوا میں تو مٹی بھی اڑتی ہے لہذا جھنڈے کے ساتھ ساتھ اسٹوڈیو میں پھیلائی گئی مٹی بھی اڑنی چاہئے تھی اور ایسا نہیں ہوا لہذا معلوم ہوا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جھنڈے کو اوپر کی جانب سے  لکڑی سے باندھا گیا تھا اور نیچے کا حصہ کھلا تھا جب خلاباز نے جھنڈے کو چاند کی سطح پر گاڑنا چاہا تو اس کو ہلایا جس کی وجہ سے جھنڈے کے کپڑے کا وہ حصہ جو لکڑی کے سے خالی تھا زور سے ہلا جس سے جھنڈا لہراتا ہوا محسوس ہوا۔

ستارے کیوں نظر نہیں آرہے تھے ؟؟
خلابازوں کے چاند پر اترنے کی جو تصاویر ناسا کی جانب سے جاری کی گئی ہیں ان میں آسمان پر ستارے کیوں نظر نہیں آرہے حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ چاند پر ہوا نہیں جس کی وجہ سے وہاں آسمان انتہائی صاف شفاف ہوتا ہے لہذا ستارے واضح نظر آنے چاہئے تھے جب ستارے نظر نہیں آئے تو معلوم ہوا کہ یہ منظر اسٹوڈیو میں فلمایا گیا ہے ۔
جواب : زمین پر ستارے رات کے وقت سورج کی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے واضح دکھائی دیتے ہیں اور دن کے وقت زمین کی فضا میں سورج کی روشنی داخل ہونے کی وجہ سے آسمان نیلا نظر آتا ہے اسی وجہ سے تارے نظر نہیں آتے اور چاند پر اس کے خلاف فضا نہ ہونے کی وجہ سے دن کے وقت بھی آسمان سیاہ ہوتا ہے اور تارے صاف نظر آتے ہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناسا کی شائع کی گئی تصاویر میں ستارے بلکل نظر نہیں آرہے اس کی کیا وجہ ہے ؟؟
اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجیں کہ اگر بالفرض آپ چاند پر جارہے ہوں اور یہ قیمتی مناظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کررہے ہوں اور آپ نے سفید خلائی لباس پہنا ہو اور خلائی جہاز کا رنگ بھی سفید ہوتو اس پر سورج کی روشنی پرنے کی وجہ سے منظر کافی روشن ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کو کیمرے کی سیٹنگ ایسی کرنی پڑے گی جس میں روشن چیزوں کو آسانی سے محفوظ کیا جاسکے۔آپ کو کیمرے کا Exposure Time  کم رکھنا ہوگا تاکہ روشن چیزوں کی تصاویر باآسانی آسکیں۔
لہذا جب چاند کی سطح پر اترتے وقت کیمرے سے روشن منظر کی تصویر کشی کی گئی تو کیمرے کو کم Exposure Time  پر ہی سیٹ کیا گیا تھا لہذا آسمان پر موجود ستارے منظر سے بلکل اوجھل ہوگئے ۔
اس کا تجربہ آپ بھی کرسکتے ہیں ایسی تاریک رات میں جس میں ستارے صاٖف دکھائی دے رہے ہوں آپ کیمرے کے Exposure Time کو کم کرکے تصویر لیں گے تو تصویر میں آسمان پر کوئی ستارہ نظر نہیں آئے گا ۔

ناسا کی شائع کردہ تصاویر میں سائے کے رخ مختلف جانب کیوں ہیں ؟
ناسا کی جاری کردہ تصاویر مین چند تصاویر ایسی ہیں جن میں دو مختلف سائے کا رخ مختلف جانب ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سورج کے علاوہ دوسری لائٹ بھی تھی جو منظر کشی میں استعمال ہوئی اور ہو نہ ہو یہ اسٹوڈیو کی مختلف لائٹس کی وجہ سے سائے کے رخ مختلف دکھائی سے رہے ہیں ۔۔
جواب :
اگر واقعی وہاں دو روشنیاں تھیں تو سائے بھی دو ہونے چاہئے تھے جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے لیکن سایا ایک ہی ہے لہذا یہ تو طے ہوگیا کہ روشنی فقط ایک ہی تھی یعنی سورج کی روشنی ۔
البتہ سائے کے زاویوں میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے وہ یہ کہ جب سورج افق کے بلکل قریب ہو (غروب سے پہلے یا طلوع کے بعد) تو اس وقت چیزوں کے سائے لمبے ہوتے ہیں اس وقت اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ کے قریب والی چیز کا اور دور واقع کسی اور چیز کا سایا دونوں قدرے مختلف رخ پر نظر آئیں گے اور اگر انہیں دو سایوں کو اوپر سے دیکھا جائے تو دونوں کے رخ میں حقیقت میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔یہی چیز چاند پر اترتے وقت ہوئی تھی اس وقت سورج افق کے قریب تھا اور سائے بھی لمبے تھے ۔ ناسا کی تصاویر میں جہاں آپ دیکھیں کہ دو چیزیں جو ایک دوسرے سے دور ہوں اور ان کے سائے کا رخ مختلف ہو تو اس کی بھی یہی وجہ ہوگی۔

اب آتے ہیں اسٹینلے کبرک Stanley Kubrick کے انٹرویو کی جانب جو حال ہی میں یوٹیوب پر اپلوڈ کیا گیا ہے ۔ برطانیہ کی ویب سائٹ Express.co.uk کے مطابق اس انٹرویو کی کوئی حقیقت نہیں۔ ویب سائٹ کے مطابق اسٹینلے کبرک کی بیوہ نے اپنے ایک بیان مین کہا ہے کہ اسٹینلے نے کبھی بھی T. Patrick Murray  نامی شخص کو انٹرویو نہیں دیا یہ پوری کہانی گھڑی ہوئی ہے اور جھوٹ اور دھوکا ہے ۔
اس بارے مین مزید تفصیل آپ اس ربط پر دیکھ سکتے ہین :
http://www.express.co.uk/news/science/626119/MOON-LANDINGS-FAKE-Shock-video-Stanley-Kubrick-admit-historic-event-HOAX-NASA

ان تمام دلائل اور اعتراضات کے جوابات سے یہ واضح ہوگیا کہ ناسا کا چاند پر پہنچنے کا دعویٰ جھوٹ اور دھوکا نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے ۔
پوسٹ کے ساتھ لگائی گئی تصاویر کو بھی دیکھیں اس میں مضمون میں ذکر کئے گئے نکات کی وضاحت کی گئی ہے ۔

نوٹ : واضح رہے یہ رویت ہلال ایڈمن کا ذاتی موقف ہے اس کو کسی ادارے کی طرف منسوب نہ کیا جائے اور ہاں ہرکوئی اس موقف سے اختلاف کا حق رکھتا ہے ۔ یہ معلومات اپنے دوستوں کو ضرور شیئر کریں۔

1 comment: