Monday 8 February 2016

ورفعنہ مکانا علیا

وَرَفَعْنَٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا ترجمہ، اور ہم نے (کمالات میں) ان کو اونچی جگہ تک پہنچایا، بعض علماء نے کہا مکاناً علیاً سے مراد ہے نبوت اور قرب خدا کا اونچا درجہ، بعض کے نزدیک جنت ،بعض کے نزدیک چھٹا یا چوتھا آسمان مراد ہے۔ حضرت انس بن مالک رحمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مالک بن صعصعہ کی روایت سے بیان کیا کہ شب معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا تھا ،یہ حدیث سورت بنی اسرائیل اور سورۃ النجم میں بیان کر دی گئی ہے۔
حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا قصہ کعب الاحبار وغیرہ نے بیان کیا کہ حضرت ادریس علیہ السلام ایک روز دن بھر چلے اور دھوپ کی تیزی اور تپش سے آپ کو تکلیف ہوئی بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا میرے رب ایک روز دھوپ کی تپش میں چلنے سے مجھے اتنی تکلیف ہوئی پانچ سو برس کی مسافت جو ایک دن میں چلنے پر مجبور ہو اس کی کیا حالت ہوگی اے میرے رب اس سورج کی گرمی ہلکی کر دے اور جو فرشتہ اس کو چلاتا ہے اس کا بار کم کر دے۔ دوسری صبح کو فرشتہ کو محسوس ہوا کہ سورج میں گرمی ہلکی ہوگئی جو روز کے معمول کے خلاف تھی عرض کیا اے میرے رب تیرے اس حکم (تخفیف) کی کیا وجہ ہے اللہ نے فرمایا میرے بندے ادریس نے درخواست کی تھی کہ میں سورج کی گرمی کم کر کے تیرے اوپر سے اس کا بار ہلکا کر دوں میں نے اس کی دعا قبول کرلی فرشتہ نے عرض کیا پروردگار میری اس سے دوستی کرا دے اللہ نے اجازت دے دی آفتابی فرشتہ حضرت ادریس کے پاس آیا ‘ ادریس نے اس سے دریافت کیا اور کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو بڑا معزز فرشتہ ہے اور ملک الموت کے پاس تیری بڑی عزت ہے تو ملک الموت سے میری سفارش کر دے کہ وہ میری موت میں کچھ مدت ڈھیل کر دے تاکہ میں اللہ کے شکر و عبادت میں مزید اضافہ کر سکوں، فرشتے نے کہا آئی ہوئی اجل کو تو اللہ کسی کے لئے نہیں ٹالتا بہرحال میں ملک الموت سے کہوں گا۔ اس کے بعد آفتابی فرشتہ ادریس کو آسمان پر اٹھا کر لے گیا اور طلوع آفتاب کے مقام کے قریب ان کو ٹھہرایا پھر ملک الموت سے جا کر کہا میرا آپ سے ایک کام ہے بنی آدم میں سے میرا ایک دوست ہے جس نے مجھ سے سفارش کروائی ہے کہ آپ اس کی موت کو کچھ پیچھے کر دیں ملک الموت نے کہا مجھے اس کا اختیار نہیں ہاں اگر تم چاہتے ہو تو اتنا کرسکتا ہوں کہ اس کو اس کے مرنے کی اطلاع پہلے سے دے دوں تاکہ وہ پہلے سے تیاری کر لے۔ آفتابی فرشتے نے کہا اچھا ملک الموت نے اپنے رجسٹر میں ادریس کا نام دیکھا ‘ دیکھ کر بولا آپ نے مجھ سے ایسے شخص کے متعلق گفتگو کی ہے جو میرے خیال میں آئندہ کبھی نہیں مرے گا (کیونکہ اس کا نام زندوں کے اس رجسٹر میں نہیں ہے جو مرنے والے ہیں) آفتابی فرشتے نے کہا یہ کیسے ملک الموت نے کہا میں انپے رجسٹر میں یہ بات پائی کہ وہ آدمی طلوع آفتاب کے قریب مرے گا (چنانچہ وہ مر گیا اب زندہ نہیں ہے) آفتابی فرشتے نے کہا میں جو آپ کے پاس آیا ہوں تو اس کو چھوڑ کر آیا ہوں ملک الموت نے کہا اب جا کردیکھو تم اس کو مردہ پاؤ گے اس کی زندگی کا کوئی حصہ باقی نہیں ہے فرشتے نے جا کر دیکھا تو ادریس کو مردہ پایا۔
وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ نے کہا آسمان پر ادریس زندہ ہیں یا مردہ علماء کے اقوال اس کے متعلق مختلف ہیں ایک گروہ نے کہا وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور صرف وہ ہی نہیں بلکہ چار انبیاء زندہ ہیں خضر اور الیاس زمین پر اور ادریس و عیسیٰ آسمان پر۔ وہب نے بیان کیا آسمان پر روزانہ ادریس کی اتنی عبادت پہنچتی تھی جتنی ساری زمین کے باشندوں کی فرشتوں کو اس پر تعجب ہوا اور ملک الموت کو ادریس سے ملنے کا شوق ہوا اور اللہ سے اجازت لے کر وہ ادریس کی ملاقات کو آدمی کی شکل میں آیا ادریس ہمیشہ روزے رکھتے تھے جب افطار کا وقت آیا تو ملک الموت کو بھی انہوں نے کھانے پر بلایا ملک الموت نے کھانے سے انکار کردیا تین روز ایسا ہی ہوتا رہا اب ادریس کو ملک الموت کا انکار ناگوار ہوا اور تیسری شب کو ملک الموت سے پوچھا میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کون ہیں ‘ ملک الموت نے کہا میں موت کا فرشتہ ہوں اپنے رب سے آپ کے ساتھ رہنے کی اجازت لے کر آیا ہوں ‘ ادریس نے کہا میرا آپ سے ایک کام ہے ‘ ملک الموت نے کہا کیا کام ہے ‘ ادریس نے کہا آپ میری روح قبض کر لو۔ فرشتے نے روح قبض کرلی پھر تھوڑی دیر کے بعد اللہ نے روح واپس کر دی ‘ ملک الموت نے پوچھا آپ نے جو روح قبض کرنے کی درخواست کی تھی اس کی غرض کیا تھی ‘ ادریس نے کہا میں موت کی تکلیف اور گہرائی کا مزہ چکھنا چاہتا تھا (بالکل مر جانا میرا مقصد نہیں تھا) تاکہ موت کے لئے میری قابلیت زیادہ قوی ہو جائے (یعنی آئندہ جب مجھ پر موت آئے تو میرے اندر اس کی تکلیف اٹھانے کی صلاحیت کامل ہو اور کیفیت موت سے میں آشنا ہو چکا ہوں) اس کے بعد حضرت ادریس نے ملک الموت سے کہا میرا آپ سے ایک کام اور ہے ملک الموت نے پوچھا وہ کیا ہے ادریس نے کہا آپ مجھے آسمان پر لے جائیں تاکہ میں وہاں کے احوال دیکھ لوں اور جنت و دوزخ کی طرف بھی لے جائیں اللہ نے ملک الموت کو ادریس کی درخواست پوری کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ ملک الموت ادریس کو لے گئے دوزخ پر پہنچے تو ادریس نے ملک الموت سے کہا ‘ آپ مالک (مہتمم دوزخ) سے کہہ کر دوزخ کے دروازے کھلوا دیجئے کہ میں (اندر جا کر اور) اتر کر دیکھ لوں ‘ ملک الموت نے ایسا ہی کردیا ‘ ادریس نے کہا دوزخ تو آپ نے دکھا دی اب جنت بھی دکھا دیجئے۔ ملک الموت جنت کی طرف لے گئے اور جنت کے دروازے کھلوا کر اندر لے گئے اندر پہنچ گئے تو فرشتے نے کہا اب یہاں سے باہر نکلو اور اپنی اصلی قرارگاہ پر واپس جاؤ ادریس ایک درخت کی ٹہنی پکڑ کر چمٹ گئے اور بولے اب میں یہاں سے باہر نہیں جاؤں گا (دونوں میں گفتگو کا ردوبدل ہونے لگا) اللہ نے فیصلہ کرنے کے لئے ایک فرشتہ کو بھیجا ‘ فرشتے نے آ کر ادریس سے پوچھا ‘ آپ باہر کیوں نہیں جاتے ‘ ادریس نے جواب دیا وجہ یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے ہر شخص موت کا مزہ چکھنے والا ہے ‘ میں موت کا مزہ چکھ چکا اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر شخص دوزخ میں ضرور اترے گا تو میں دوزخ میں اتر چکا اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ جنت سے باہر کبھی نہیں نکلیں گے اس لئے میں اب نہیں نکلوں گا ‘ اللہ نے ملک الموت کے پاس وحی بھیجی میری اجازت سے یہ جنت میں داخل ہوا اور میری اجازت (حکم) سے باہر نکلے گا (تم نکالنے کی کوشش مت کرو) یہی وجہ ہے کہ ادریس وہاں زندہ ہیں.
رَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا
کی یہی تشریح ہے۔
مظہری

کیا حضرت الیاس (علیہ السلام) حیات ہیں؟
مورخین اور مفسرین کے درمیان یہاں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) زندہ ہیں یا وفات پا چکے؟ تفسیر مظہری میں علامہ بغوی کے حوالہ سے جو طویل روایت بیان کی گئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کو ایک آتشیں گھوڑے پر سوار کر کے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح زندہ ہیں (مظہری ص ١٤١ ج ٨) علامہ سیوطی نے بھی ابن عساکر اور حاکم وغیرہ کے حوالے سے کئی روایات ایسی نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں ۔ کعب الاحبار سے منقول ہے کہ چار انبیاء علیہم السلام اب تک زندہ ہیں، دو زمین میں، حضرت خضر اور حضرت الیاس اور دو آسمان میں حضرت عیسیٰ اور حضرت ادریس علیہم السلام (در منثور، ص ٥٨٢، ٦٨٢، ج ٥) یہاں تک کہ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہما السلام ہر سال رمضان کے مہینہ میں بیت المقدس میں جمع ہوتے ہیں، اور روزے رکھتے ہیں ۔ (تفسیر قرطبی، ص ٦١١ ج ٥١)
لیکن حافظ ابن کثیر جیسے محقق علماء نے ان روایات کو صحیح قرار نہیں دیا، وہ ان جیسی روایتوں کے بارے میں لکھتے ہیں :۔
”یہ ان اسرائیلی روایتوں میں سے ہے جن کی نہ تصدیق کی جاتی ہے نہ تکذیب، بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ان کی صحت بعید ہے“
نیز فرماتے ہیں :۔
”ابن عساکر نے کئی روایتیں ان لوگوں کی نقل کی ہیں جو حضرت الیاس (علیہ السلام) سے ملے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی قابل اطمینان نہیں، یا تو اس لئے کہ ان کی سند ضعیف ہے یا اس لئے کہ جن اشخاص کی طرف یہ واقعات منسوب کئے گئے ہیں وہ مجہول ہیں“ (البدایة والنہایة، ص ٩٣٢ ج ١)
ظاہر یہی ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کے رفع آسمانی کا نظریہ اسرائیلی روایات ہی سے ماخوذ ہے، بائبل میں لکھا ہے کہ :
”اور وہ آگے چلتے اور باتیں کرتے جاتے تھے کہ دیکھو ایک آتشی رتھ اور آتشی گھوڑوں نے ان دونوں کو جدا کردیا اور ایلیاہ (واضح رہے کہ بائبل میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کا نام ایلیاہ مذکور ہے) بگولے میں آسمان پر چلا گیا۔“ (٢ سلاطین ٢: ١١)
اسی وجہ سے یہودیوں میں یہ عقیدہ پیدا ہوا تھا کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے، چنانچہ جب حضرت یحییٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو انہوں نے ان پر الیاس (علیہ السلام) ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔ انجیل یوحنا میں ہے :
”انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟ کیا تو ایلیاہ ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں“ (یوحنا ۔ ١: ١٢)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کعب الاحبار اور وہب بن منبہ جیسے علماء نے جو اہل کتاب کے علوم کے ماہر تھے، یہی روایتیں مسلمانوں کے سامنے بیان کی ہوں گی، جن سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی کا نظریہ بعض مسلمانوں میں پھیل گیا، ورنہ قرآن یا حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی یا آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہو، صرف ایک روایت مستدرک حاکم میں ملتی ہے، جس میں مذکور ہے کہ تبوک کے راستے میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات حضرت الیاس (علیہ السلام) سے ہوئی۔ لیکن یہ روایت بتصریح محدثین موضوع ہے، حافظ ذہبی فرماتے ہیں :۔
”بلکہ یہ حدیث موضوع ہے، خدا بری کرے اس شخص کا جس نے یہ حدیث وضع کی، اس سے پہلے میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ امام حاکم کی بےخبری اس حد تک پہنچ سکتی ہے کہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیں“
خلاصہ یہ کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کا زندہ ہونا کسی معتبر اسلامی روایت سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں سلامتی کی راہ یہ ہے کہ اس میں سکوت اختیار کیا جائے اور اسرائیلی روایات کے سلسلے میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم پر عمل کیا جائے کہ ”نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب“ کیونکہ قرآن کریم کی تفسیر اور عبرت و موعظت کا مقصد اس کے بغیر بھی پوری طرح حاصل ہو جاتا ہے، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
الصافات

No comments:

Post a Comment