Sunday, 1 November 2015

'एक दुखियारी भैंस का खुला ख़त'ایک دکھیاری بھینس کا کھلا خط

ایس اے ساگر
بخدمت وزیراعظم ،
پتہ نہیں کیا بات ہے کہ جب سے آپ کی حکومت بر سراقتدار آئی ہے ہماری زبوں حالی نے مزید ترقی کی ہے اور ان دنوں تو حد ہی ہو گئی جب گﺅکشی کیخلاف تحریک میں ہم چھری کے نیچے آگئے مزید فریاد کرنے سے قبل میں یہ واضح کر دوں کہ میں نہ اعظم خاں کی بھینس ہوں اور نہ لالو یادو کی!
نہ میں کبھی رام پور گئی نا پٹنہ!
میرا ان بھینسوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ سب میں اس لئے بتا رہی ہوں کہ کہیں آپ مجھے مخالف پارٹی کی بھینس نہ سمجھ لیں۔
میں تو بھارت کے مخصوص انسانوں کی طرح آپ کی بہت بڑی فین ہوں۔
جب آپ کی حکومت بنی تو جانوروں میں سب سے زیادہ خوشی ہم بھینسوں کو ہی ہوئی تھی۔
ہمیںایسا لگا کہ’اچھے دن‘ سب سے پہلے ہمارے ہی آئیں گے لیکن ہوا بالکل الٹا!
قیمتیںایسی بے قابو ہوئیں کہ ہمارا چارہ سکڑتا چلاگیا، مہنگائی سے راحت ملتی تو ہمار چھپر کے دن بھی پھرتے،
ریلوے باربرداری کی شرح میں 6.5 فیصداضافہ کی مار ہم پر ہی پڑی،
غیر ممالک سے کالی دولت واپس آنے پر ہمارے مالکوں نے15 لاکھ روپے کے جانے کتنے خواب دیکھے،
ان کے شرمندہ تعبیر نہ ہونے پر ڈنڈے ہم پر پڑے، بھلا گائے کا کوئی کیسے پیٹتا،مرجاتی تو؟
اس کا تو ریکارڈ بنے گا ،لیکن ہمارا کوئی پرسان حال نہیں،
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے بھی گائے کا گوشت کھانا ترک کر نے کی بات کی لیکن ہمیں بھول گئے!
آپ کے راج میں تو ہماری بھی حالت زار ہو گئی۔
اب تو جسے دیکھو وہی گائے کی پیٹھ تھپتھپانے پر مستعد ہے۔
کوئی اسے ماں بتا رہا ہے تو کوئی بہن! اگر گائے ماتا ہے، تو ہم بھی تو آپ کی چاچی، تائی، خالہ، پھوپھی کچھ تو لگتی ہی ہوں گی!
ہم سب سمجھتی ہیں، ہم بدبخت، جنم جلی ابھاگنوں کا رنگ سیاہ ہے نا! یہی وجہ ہے کہ آپ بنی نوع انسان ہمیشہ ہمیں نپ صرف ذلیل کرتے رہے ہیں بلکہ گائے کو سر پہ بھی چڑھاتے رہے ہیں !
آپ کس کس طرح سے ہم بھینسوں کی توہین کرتے ہو، اس کی مثال دیکھئے ....
آپ کا کام بگڑتا ہے اپنی غلطی سے،
اور ہدف کرتے ہو ہمیں کہ
’دیکھو گئی بھینس پانی میں‘
گائے کو کیوں نہیں بھیجتے پانی میں!
 کیاوہ ملکہ معظمہ ہے کہ پانی میں گل جائے گی؟
آپ لوگوں میں جتنے بھی لالو ہیں، ان سب کو بھی ہمیشہ ہمارے نام پر ہی گالی دی جاتی ہے۔
’کالا اکشر بھینس برابر‘
تاریخ سے لیکر نصاب تک میں آپ نے بیشمار تبدیلیوں کا بیڑا اٹھا رکھا ہے ،کیا اس کہاوت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ’غیرقانونی‘قرار نہیں دیا جاسکتا؟
مانا کہ ہم ان پڑھ ہیں، لیکن گائے نے کیا پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے؟
جب آپ میں سے کوئی، کسی کی بات نہیں سنتا، تب بھی ہمیشہ یہی بات ہو کہ
’بھینس کے آگے بین بجانے سے کیا فائدہ!‘
آپ سے کوئی کہہ کے مر گیا تھا کہ ہمارے آگے بین بجاو ¿؟ ارے تو بجا لو اپنی بین اسی پیاری گائے کے آگے!
اگر آپ کوئی عورت موٹی اور پھیل کر بے ڈول ہو جائے تو اسے بھی ہمیشہ ہم پر ہی رکھ کے طعن کرو گے کہ
’بھینس کی طرح موٹی ہو گئی ہو‘
کرینہ، قطرینہ گائے اور ڈالی بندرا بھینس! واہ جی واہ!
گالی گلوچ کرو آپ اور نام بدنام کرو ہمارا کہ
’بھینس دم اٹھائے گی تو گوبر ہی کرے گی‘
ہم گوبر کرتی ہیں تو گائے کیا کھیر کرتی ہے؟
جس کی لاٹھی ،اس کی بھینس کہتے ہو،
کیا گائے کو پھولوں کی چھڑی سے مارتے ہو؟
اپنی چہیتی گائے کی مثال آپ صرف اس صورت دیتے ہو، جب آپ کو کسی کی ستائش کرنی ہوتی ہے تو کہتے ہو کہ....
وہ تو بے چارہ گائے کی طرح سیدھا ہے، 
یا....
اجی وہ تو اللہ میاں کی گائے ہے!
حتی کہ مذکر مونث کی تمیز تک بالائے طاق رکھ دی جاتی ہے ...سننے والا مرد ہونے کے باوجود یہ بھی نہیں کہتا کہ میرا موازنہ’صنف نازک ‘قبیل سے کیوں کیا...
گویا گائے تو ہو گئی اللہ میاں کی اور ہم ہو گئے لالو جی کے!
واہ رے حضرت انسان! یہ حال اس صورت میں ہے جبکہ تم میں سے زیادہ تر لوگ ہم بھینسوں کا دودھ پی کر ہی سانڈ بنے گھوم رہے ہیں۔
اس دودھ کا قرض چکانا تو دور کی بات ،
الٹا ہماری توہین کرتے ہو ! 
کوئی شاعر کہتا ہے کہ....
گاوں سے جب آئے گائے
پہلے تو شرمائے گائے
شہروں کا جب پی لے پانی
پھر خود پر اترائے گائے
کیا ایسے اشعار ہماری شان میں نہیں کہلوائے جاسکتے؟
ہم پر کیا گذرتی ہے جب ہم بچوں کے منہ سے مولوی اسماعیل میرٹھی کی نظم سنتے ہیں کہ....
 رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی

اس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں

خاک کو اس نے سبزہ بنایا
سبزہ کو پھر گائے نے کھایا

کل جو گھاس چری تھی بن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں

سبحان اللہ دودھ ہے کیسا
تازہ گرم سفید اور میٹھا

دودھ میں بھیگی روٹی میری
اس کے کرم نے بخشی سیری

دودھ دہی اور مٹھا مسکا
دے نہ خدا تو کس کے بس کا

گائے کو دی کیا اچھّی صورت
خوبی کی ہے گویا مورت

دانہ دنکا بھوسی چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر

کھا کر تنکے اور ٹھیڑے
دودھ ہے دیتی شام سویرے

کیا ہی غریب اور کیسی پیاری
صبح ہوئی جنگل کو سدھاری

سبزہ سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے

پانی موجیں مار رہا ہے
چرواہا چمکار رہا ہے

پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر

دوری میں جو دن ہے کاٹا
بچّہ کو کس پیار سے چاٹا

گائے ہمارے حق میں ہے نعمت
دودھ ہے دیتی کھا کے بنسپت

بچھڑے اس کے بیل بنائے
جو کھیتی کے کام میں آئے

رب کی حمد و ثنا کر بھائی
جس نے ایسی گائے بنائی
آخر کیا وجہ ہے کہ بھینس کی شان میں ایسی قصیدہ خوانی نہیں کی گئی؟
لہذا ایسی نظموں پر قطعی پابندی عائد کی جائے!
جبکہ آپ کی چہیتی گایوں کی تعداد تو ہمارے مقابلے کچھ بھی نہیں ہے ... پھر بھی، اکثریت میں ہونے کے باوجود ہمارے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا ہے گویا ملک میں جمہوریت نہیں فسطائیت ہے !
بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ثقافتی قوم پرست سیاست کی بدولت گائے کے گن گائے جائیں اور ہمیں فراموش کردیا جائے،
سی ایس ڈی ایس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ابی کمار دوبے گائے کے دفاع کو پارٹی کی ثقافتی قوم پرستی کی اہم بنیادبتائیں اور ہمیں بالائے طاق رکھ دیں، 
جبھی تواس بنیادی عقیدے کو پورے ملک میں یکساں طور پر نافذ کرنے کی بجائے صرف انہی ریاستوں میں آزما رہی ہے جہاں دوسری جماعتوں کی حکومت ہے، اپنی ریاستوں میں نہیں،اندازہ لگائیے کہ اس سے بھینسوں کی کیسی توہین ہوئی ہے۔
جب گائے کے ذبیحہ کی افواہ پر اتر پردیش یا ہماچل پردیش میںپرتشدد واقعات ہوسکتے ہیں تو پھر ہمارے گلے پر چھری چلانے کی آزادی کیوں ہے؟
اگرگائے کیلئے بی جے پی اور اس کی حامی تنظیمیںبشمول بجرنگ دل، گاو ¿ رکشا دل اور ہندو جاگرن منچ قائم ہوسکتی ہیں تو ہمارے لئے کیوں نہیں؟
وزیر اعظم جی، آپ تو اکثریتی طبقہ کے حامی ہو،
کون نہیں جانتا کہ جب سے آپ نے گدی سنبھالی ہے بارہ سو سالہ تاریخ تک نشانہ پر آگئی ہے ... پھر ہمارے ساتھ ہی ایسا ظلم کیوں ہونے دے رہے ہو؟ پلیز کچھ کیجئے !
آپ کے’کچھ‘ کرنے کی منتظر....
آپ کی ایک چھوٹی سی پرستار:
بھینس

An Open Letter from a buffalo to PM Modi
By: S. A. Sagar
Pain of a highly neglected buffalo, jealous of cows.

प्रधानमंत्रीजी के नाम
'एक दुखियारी भैंस का खुला ख़त'
माननीय प्रधानमंत्री जी,
सबसे पहले तो मैं यह स्पष्ट कर दूं कि मैं ना आज़म खां की भैंस हूं और ना लालू यादव की!
ना मैं कभी रामपुर गयी ना पटना!
मेरा उनकी भैंसों से दूर-दूर तक कोई नाता नहीं है।
यह सब मैं इसलिये बता रही हूं कि कहीं आप मुझे विरोधी पक्ष की भैंस ना समझे लें।
मैं तो भारत के करोड़ों इंसानों की तरह आपकी बहुत बड़ी फ़ैन हूं।
जब आपकी सरकार बनी तो जानवरों में सबसे ज़्यादा ख़ुशी हम भैंसों को ही हुई थी।
हमें लगा कि ‘अच्छे दिन’ सबसे पहले हमारे ही आयेंगे।लेकिन हुआ एकदम उल्टा!
आपके राज में तो हमारी और भी दुर्दशा हो गयी।
अब तो जिसे देखो वही गाय की तारीफ़ करने में लगा हुआ है।
कोई उसे माता बता रहा है तो कोई बहन! अगर गाय माता है, तो हम भी तो आपकी चाची, ताई, मौसी, बुआ कुछ लगती ही होंगी!
हम सब समझती हैं। हम अभागनों का रंग काला है ना! इसीलिये आप इंसान लोग हमेशा हमें ज़लील करते रहते हो और गाय को सर पे चढ़ाते रहते हो!
आप किस-किस तरह से हम भैंसों का अपमान करते हो, उसकी मिसाल देखिये....
आपका काम बिगड़ता है अपनी ग़लती से,
और टारगेट करते हो हमें कि
"देखो गयी भैंस पानी में"
गाय को क्यूं नहीं भेजते पानी में!
वो महारानी क्या पानी में गल जायेगी?
आप लोगों में जितने भी लालू /लल्लू हैं, उन सबको भी हमेशा हमारे नाम पर ही गाली दी जाती है।
"काला अक्षर भैंस बराबर"
माना कि हम अनपढ़ हैं, लेकिन गाय ने क्या पीएचडी की हुई है?
जब आपमें से कोई, किसी की बात नहीं सुनता, तब भी हमेशा यही बोलते हो कि
"भैंस के आगे बीन बजाने से क्या फ़ायदा!"
आपसे कोई कह के मर गया था कि हमारे आगे बीन बजाओ? अरे तो बजा लो अपनी बीन उसी प्यारी गाय के आगे!
अगर आपकी कोई औरत फैलकर, बेडौल हो जाये, तो उसे भी हमेशा हमसे ही कंपेयर करोगे कि
"भैंस की तरह मोटी हो गयी हो"
करीना,कैटरीना गाय और डॉली बिंद्रा भैंस! वाह जी वाह!
गाली-गलौच करो आप और नाम बदनाम करो हमारा कि
"भैंस पूंछ उठायेगी तो गोबर ही करेगी"
हम गोबर करती हैं तो गाय क्या हलवा करती है?
अपनी चहेती गाय की मिसाल आप सिर्फ़ तब देते हो, जब आपको किसी की तारीफ़ करनी होती है-
वो तो बेचारा गाय की तरह सीधा है, या- अजी, वो तो राम जी की गाय है!
तो गाय तो हो गयी राम जी की और हम हो गये लालू जी के!
वाह रे इंसान! ये हाल तो तब है, जब आप में से ज़्यादातर लोग हम भैंसों का दूध पीकर ही सांड बने घूम रहे हैं।
उस दूध का क़र्ज़ चुकाना तो दूर,
उल्टे हमें बेइज़्ज़त करते हैं! आपकी चहेती गायों की संख्या तो हमारे मुक़ाबले कुछ भी नहीं हैं। फिर भी, मेजोरिटी में होते हुए भी हमारे साथ ऐसा सलूक हो रहा है!
प्रधानमंत्री जी, आप तो मेजोरिटी के हिमायती हो, फिर ऐसा अन्याय क्यूं होने दे रहे हो? प्लीज़ कुछ करिये!
आपके ‘कुछ’ करने के इंतज़ार में –
आपकी एक तुच्छ प्रशंसिका-भॆंस





courtesy
http://my.fakingnews.firstpost.com/2015/10/15/pradhanmantri-ke-naam-ek-dukhiyari-bhains-ka-khula-khat/


http://www.justshutup.in/News/an-open-letter-from-a-buffalo-to-pm-modi-1247.html

No comments:

Post a Comment