ایس اے ساگر
عصری تعلیم کے عنوان پردینی مدارس کے نصاب کو نشانہ بنانے کا عمل تقسیم وطن سے پہلے جاری ہے۔ اس کے کل اعدادوشمار کیا ہیں،یہ تو تحقیق طلب امر ہے تاہم دینی مضامین کی جگہ عصری مضامین کی بڑھتی ہوئی شمولیت کی بدولت دہلی کے اجمیری گیٹ پر واقع اینگلو عربک آج عبرت کا نمونہ بن چکا ہے ۔1749-1710کے دوران مغل فرمانروااورنگ زیب رحمة اللہ علیہ کے دربار سے وابستہ میر شہاب الدین صدیقی ،لقب نواب غازی الدین صدیقی بہادر،فیروز جنگ اول سپہ سالارکا قائم کردہ مدرسہ غازی الدین آج بھی موجود ہے۔نہ معلوم دینی ادارہ کے قائم کرنے والے کی روح پر کیا گذرتی ہوگی جب اس ادارہ میںمخلوط نظام تعلیم کے دلدادہ جوان لڑکے اور لڑکیاں اسلامی اقدر کے منہ چڑاتے ہوئے خوش گپیاں کرتے ہوں گے۔ایسی مثالوں سے قطع نظر مسلم مخالفت میں بدنام زمانہ ایک تجارتی گروہ کے روزنامہ کی خصوصی اشاعت میں دارالعلوم وقف دیوبند کے ایک استاذ اور حجةالاسلام اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا محمد شکیب قاسمی صاحب نے دینی مدارس کے نصاب تعلیم پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔غنیمت ہے کہ اس کے جواب میں امت خاموش نہیں بیٹھی ہے۔ مولانا محمد شکیب قاسمی صاحب کا مضمون پڑھے بغیراس کا جواب سمجھنے میںدشواری نہ ہو،لہذا یہاں ہم بدرجہ مجبوری مذکورہ مضمون کو جوں کا توں پیش کررہے ہیں:
کیا فرماتے ہیں مولانا محمد شکیب قاسمی صاحب؟
اپنے مضمون میں مولاناموصوف رقم طراز ہیں کہ’ اس بات کو قطعی طور پر مبالغہ آرائی پر محمول نہیں کیا جا سکتا کہ آج برصغیر میں اگر دینی شعور باقی ہے تو وہ مدارس اسلامیہ کا ہی رہین منت ہے، تاریخ کے سینہ میں مسلمانوں کے عروج و زوال ،حکومت و محکومیت ، ترقی و تنزل، عزت وذلت کے لاتعداد واقعات محفوظ ہیں، ہر زمانے میں مسلمانوں کو جن جاں گسل حالات سے گزرنا پڑا تاریخ پر سرسری نظر رکھنے والا شخص بھی بہتر طور پر جانتا ہے، اسلام کے دشمنوں نے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی، سرکاری پیمانے پر بھی اور غیر سرکاری طریقے پر بھی اسلام کے وجود کو عدم میں تبدیل کردینے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا؟
غرض مسلمانوں پر تباہ کن حالات کہ ایسی قیامتیں گزریں کہ اگر وہ کسی دوسری قوم کو چھو کر بھی گزر جاتیں تو اس کے ظاہری و باطنی نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیتیں؛ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب کبھی بھی ملت اسلامیہ پر برے حالات نے گھیرا تنگ کیااور ناسازی حالات کی تیز و تند آندھیوں نے اسلام کے وجود کو چیلنج کیا تو اللہ رب العزت نے ملت اسلامیہ کی پاسبانی کیلئے اپنے چیدہ اور چنیدہ بندوں کی ایسی جماعت کو میدان میں اتار دیا کہ جس نے ہر محاذ پر اور ہر میدان میں دین اسلام کے تشخص کی بقااور مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کیلئے عدیم النظیر خدمات انجام دیںاور ان کے ہاتھوں سے وجود میں آنے والے تعلیمی ادارے اور دینی مدارس آج بھی حفاظت دین کا کار عظیم انجام دے رہے ہیں۔یہ بات تو ہر خاص و عام جانتا ہے کہ دارالعلوم محض ایک دینی ادارہ نہیں بلکہ بانی دارالعلوم حجة الاسلام الام محمد قاسم الناناتوی قدس سرہ العزیز کی ایک عالمگیر تحریک کا حصہ ہے، اس پہلو پر آگے بات کی جائے گی مگر یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیںہوگا کہ حضرت نانوتوی ملک کے پرآشوب حالات اور اسلام سے لوگوں کی دوری کو لے کر نہایت فکر مند تھے، اسی لیے انھوں نے تعلیمی تحریک چلائی تاکہ بڑے پیمانے پر ایسا انقلاب رونما ہو جو انقلاب تعلیمی ہو اور اس میں دینی بیداری کا رنگ شامل ہو۔
انیسویں صدی عیسوی میں جب ہندوستان مکمل طور سے مغربی طاقتوں کے خوفناک سایہ میں آچکا تھا اور انگریز ہندوستان پر مکمل تسلط جما چکے تھے، یہ بات واضح طور پر کھل کر سامنے آچکی تھی کہ صرف مشرقی تہذیب و ثقافت میں نہیں بلکہ دینی و اسلامی علوم کو بھی ختم کردینے اور پوری قوم کو مسیحیت و عیسائیت کے رنگ میں رنگ دینے کیلئے ’باطل طاقتیں‘ نہ صرف متحد ہو چکی ہیں بلکہ اس سمت میں عملی اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں ، اسلامی اقدار اور دین شعور کو ذہنوں سے کھرچ پھینکنے کے ناپاک منصوبے تیار کئے جانے لگے ہیں اور اس مد میں غاصب حکومت اپنے بھر پور وسائل اور تدبیروں کیساتھ ساتھ کافی سرمایہ اور جد و جہد صرف کرنے کیلئے سنجیدہ طور پر پر سرگرم نظر آنے لگی ہے۔
ایسے پر آشوب حالات میں کہ جب فتنہ ارتداد اپنے پاوں پھیلا رہا تھا اور اسلامی تہذیب و تمدن کو بے راہ روی اورلا دینیت کی اندھیری کوٹھری میں قید کرنے کی عملی کوششیں کی جاری تھیں، تو اس وقت کے زندہ دل اورفکر و الی اللہی کے حامل علمائ نے اسلامی تشخص کی تھا، اور اسلامی تہذیب کی حفاظت کیلئے حجة الاسلام الامام محمد قاسم النانوتوی قدس سرہ العزیز کی قیادت میں چھوٹے سے قبصہ ’دیوبند‘ میں ایک خالص دینی تعلیم کی درسگاہ کی داغ بیل ڈالی۔
حضرت نانوتوی اور ان کے رفقائ کے اس بروقت اقدام، اور ان کی دینی حمیت کے حوالے سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا یہ اقتباس دیکھئے:
’انہوں نے اس کی فکر شروع کی کہ دینی جذبہ، اسلامی روح، اسلامی زندگی کے مظاہر اور تہذیب اسلامی کے جتنے بچے کھچے آثار باقی رہ گئے ہیں ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے اور اسلامی تہذیب اور ثقافت کیلئے قلعہ بندیاں کرلی جائیں اور پھر ان قلعوں میں (جن کو عربی مدارس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے) مبلغ اور داعی تیار کئے جائیں‘
(مسلم ممالک اور مغربیت کی کشمکش: 88)
حضرت مولانا ابوالحسن ندوی نے مزید لکھا کہ:
’اس عظیم اصلاحی اور تعلیمی تحریک کے (جس کا آغاز1283ھ مطابق1866ءمیںہوا) سر براہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند تھے‘۔اب غور طلب امر یہ ہے کہ بانی دارالعلوم نے اس دور میں جو نصاب تعلیم منتخب کیا تھا وہ کیا تھا؟ حضرت نانوتوی اور ان کے رفقاکہ جو نہ صرف یہ کہ خانوادہ والی اللہی سے نسبت رکھتے تھے بلکہ وہ دہلی کالج کے بھی تعلیم یافتہ تھے، معقولات سے گہری مناسبت اور ذوق انھیں علمائے خیر آباد سے حاصل ہوا تھا اس کیساتھ ان میں سے بعض حضرات کو سرکاری اداروں میں تدریس کا بھی تجربہ تھا، لہٰذا انھوں نے اپنے مدرسہ کیلئے جو نصاب تعلیم مرتب کیا اس میں مذکورہ تمام نسبتوں اور علم کے چشموں سے استفادہ کا خیال رکھا۔
حضرت نانوتوی کے منتخب کردہ نصاب تعلیم کی جامعیت اور معنویت کا صحیح طور پر اندازہ کرنے کیلئے قیام دارالعلوم سے قبل ہندوستان کے مراکز علم کے تعلیمی نظاموں کا سرسری جائزہ لینا ناگزیر ہے۔آئیے تیرہویں صدی ھجری کے نصاب تعلیم پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تمام علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم ہندوستان میں باضابطہ دی جارہی تھی مگر اس وقت جو تعلیمی مراکز تھے ان میں کسی خاص علم کو ہی بنیادی طور پر سامنے رکھا جاتا تھا اور ہر تعلیمی مرکز کسی ایک علم پر ہی اپنی کامل توجہ اور بھر پور ترکیز رکھتا تھا۔
ہندوستان میں اسلامی علوم کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت میں تین شہروں کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، دہلی، لکھنو ¿ اور خیرآباد، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کے خانوادے نے اپنی علمی خدمات کو تفسیر و حدیث تک محدود کر لیا تھا، کتاب و سنت کو ہی انھوں نے اپنا مجال عمل متعین کر لیا تھا، ان کے یہاں دیگر علوم کی حیثیت صرف ثانوی درجہ کی تھی۔
لکھنو ¿ کے علمی کارنامے فقہ اور اصول فقہ کے گھیرے میں قید تھے، فرنگی محل کی علمی فضا میں خالص فقہ کا رنگ غالب تھا، علمائے فرنگی محل ماواراءالنہر کے ساتویں صدی والے قدیم طرز سے علحیدگی کو نہ صرف ممنوع سمجھتے تھے بلکہ اپنے محدود دائرہ عمل سے ایک قدم بھی باہر آنے پر قطعی طور پر آمادہ نہیں تھے، یہ تسلیم کہ علمائے فرنگی محل نے اپنے میدان میں عدیم النظیر خدمات پیش کیں مگر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دیگر علوم کی جانب جو توجہ ہونی چاہئے تھی نہ ہو سکی، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں تفسیر میں جلالیں اور بیضاوی کی تدریس کو تفسیر سے مناسبت کیلئے کافی سمجھا جاتا تھا، اور حدیث میں مشکآ المصابیح کے علاوہ اور کچھ داخل نہیں تھا۔
علوم اسلامیہ کے تینوں عظیم مراکز اپنے اپنے میدان میں اپنی منفرد حیثیت رکھتے تھے وہ اپنے دائرہ کار میں اپنی مثال آپ تھے مگر زمانہ برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا، علوم اسلامیہ کی تحصیل کیلئے طویل اسفار کرنا، مشقتیں برداشت کرنا اور طلب علم کیلئے دردر کی خاک چھاننے کا جذبہ کم ہوتا دکھائی دے رہا تھا، حصول علم کے سخت ترین مراحل طے کرنے اور اس کی دشوار گزار راہوں پر چلنے سے ہمتیں جواب دینے لگی تھیں، دوسری طرف مالی اخراجات اور دیگرزندگی کے ظروف زیادہ وقت تعلیم میں صرف کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اور ایک ایسی درسگاہ کے قیام کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، جو تمام علوم پر یکساں توجہ اور یکساں اہمیت دیتے ہوئے علوم اسلامیہ کے تینوں اہم مراکز کی خصوصیات کو نہ صرف جامع ہو بلکہ ان تینوں مراکز کے مناہج کا ایک حسین امتزاج ہو، جس کے نصاب تعلیم میں تینوں مراکز کے علوم کو یکساں مقام حاصل ہو، تاکہ طالبان علوم نبویہ کو کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کا موقع فراہم ہو، اور تمام ہی علوم پر یکساں عبور حاصل ہو نیز تعلیم، رہائش اور دیگر اخراجات کے تکفل کی بھی کوئی سبیل نکلے کہ جس سے طالب علم مکمل یکسوئی کیساتھ طلب علم میں مشغول رہ سکے۔
پھر حضرت حجة الاسلام الامام محمد قاسم الناناتوی قدس سرہ العزیز کے مبارک ہاتھوں دارالعلوم دیوبند کا قیام ہوا جس سے کہ امت مسلمہ ہند کی ایک دیرینہ آرزو کی تکمیل ہوئی، دارالعلوم دیوبند نے دیگر مراکز علم کی طرح کسی خاص علم اور خاص فن کو مرکز نگاہ نہیں بنایا بلکہ وقت کے رائج مراکز علوم کے نصابوں کو سامنے رکھ کر ایک ایسا نصاب تعلیم تشکیل دیاجو ایک طرف دہلی لکھنو? اورخیرآباد کی خصوصیات کو جامع تھا دوسری طرف وقت کے تقاضوں اور چیلنجز سے بھی ہم آہنگ تھا۔
دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی نصاب تعلیم میں جہاں عربی، فارسی اور اسلامی علوم (قرآن، حدیث اور فقہ وغیرہ) کو بڑی اہمیت کیساتھ شامل کیا گیا وہیں ریاضی Mathematics،ہندسہ Geometry،علم ہیئت Astronomy بھی شامل نصاب تھے۔
بانی دارالعلوم حجة الاسلام الامام محمد قاسم النانوتوی رحمة اللہ علیہ نے 1290ھ مطابق11874 میں دارالعلوم کے سالانہ اجلاس میں ان مدارس کے نظام اور مقاصد پر ایک انتہائی اہم تقریر کی تھی، تقریر کے درج ذیل اقتباس پر غور کیجئے:
’ان مدارس میں علاوہ تعلیم مذہبی، غرض اعظم قوتِ استعداد ہے، فقط علوم دینی پر اکتفانہیں، بلکہ فنون دانشمندی کی تکمیل بھی حسب قاعدہ ساتھ کی گئی ہے، جس کا عمدہ نتیجہ پہلے زمانوں میں یہ ہوا تھا کہ بڑے بڑے عالم، بڑی بڑی استعداد و قوت کے اہل اسلام میں بکثرت پیدا ہوئے‘۔
یقینا قارئین کے ذہن میں اس اقتباس کو پڑھ کر یہ سوال پیدا ہوگا فنون دانشمندی سے حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی مراد کیا ہے؟ تو اس کا جواب بھی خود حضرت نانوتوی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں، اس تقریر کے دوران انھوں نے فرمایا:
’معقولات سے صرف منطق و فلسفہ مقصود نہیں بلکہ اس میں ہیئت، حساب، فلکیات ریاضی اور الہیات بھی شامل ہیں‘۔
گویا کہ حضرت نانوتوی کے قول کے مطابق وہ علوم جو معقولات کا حصہ ہیں اور اس زمانہ میں دارالعلوم میں شامل نصاب تھے، وہ یہ تھے:
حساب Mathematics
ریاضی Arithmatics
ہیئت Astronomy
فلکیاتCosmology
الہیات Metaphysics
دارالعلوم دیوبند کی قدیم رودادوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت الجبرا Algebra، مساحت اور اقلیدس بھی داخل نصاب تھے، ماہرین تعلیم کو غور کرنا چاہئے کہ حضرت نانوتوی مذکورہ فنون کو ’قوت استعداد‘ پیدا کرنے کا ذریعہ اور ’فنون دانشمندی‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔
اس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت نانوتوی محض ایک عالم دین نہیں تھے بلکہ وہ ایک عظیم ماہر تعلیم بھی تھے، ان کی نظر ان علوم پر بھی گہری تھی کہ جو عقل کو تیز اور قوت تدبر میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، اور انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ علوم نقلیہ کیساتھ ساتھ ان علوم کی تعلیم عمدہ نتائج بر آمد کرے گی، لہٰذا انہوں نے اس قسم کے کئی علوم و فنون اسلامی علوم کیساتھ شامل نصاب کئے تھے۔
صرف اتنا ہی نہیں اس زمانے میں میڈیکل سائنس کیلئے طب یونانی کا رواج تھا، دارالعلوم میںابتدائی ہی میں طب یونانی کی تعلیم شروع ہوگئی تھی، لیکن ذمہ داران مدرسہ اس سے مطمئن نہیں تھے، وہ چاہتے تھے کہ طب یونانی کی باضابطہ فاضلانہ تعلیم ہو، جس کا باقاعدہ انتظام ۱۲۹۵ھ مطابق میں ہوا، جس کا اعلان روداد ۱۲۹۵ھ میںان لفظوں میں شائع ہوا تھا:
’کیفیات سنین ماضیہ سے جملہ خیر خواہان مدرسہ کو واضح ہوا ہے کہ کتنے طلبہ اس مدرسہ سے علوم عربیہ میں عالم و فاضل ہوئے اورآئندہ کو ان شائ اللہ ہونے والے ہیں؟ مگر ارباب مشاورت مدرسہ ہذا نے جب فکر کامل دیگر فوائد رفاہ عام برادران اہل اسلام پر کیا تو ابھی تک ایک امر کثیر المنافع یعنی ترویج و تکمیل علم و طب یونانی کی کمی ہے، اور اس کی درستگی و تکمیل ضروریات بلکہ واجبات میں سے ہے، کیوں کہ اس سے فائدہ عام ہے‘۔
دارالعلوم دیوبند کی روئداد سے ماخوذ مذکورہ اقتباس کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران کویہ معلوم تھا کہ دارالعلوم کا جو نصاب تعلیم ہے اس سے ایک بہتر کھیپ تیار ہوئی ہے اور دارالعلوم آئندہ بھی اپنے جامع اور مفید نصاب تعلیم سے بہترین رجال علم تیار کرتا رہے گا، انہیں معلوم تھا کہ دارالعلوم کی تعلیمی سرگرمیوں سے عام و خاص مطمئن ہیں اورادارہ کے خیر خواہان ادارہ کی کار کردگی سے کلی اطمینان رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی ادارہ کے ذمہ داران کو یہ احساس ہے کہ مذکورہ تمام علوم کو شامل نصاب کرنے کے باوجود بھی ایک کمی کا ازالہ اب تک نہیں ہو سکا ہے، اور وہ کمی یہ تھی کہ کچھ علوم میں دارالعلوم کے فضلانمائندگی نہیں کر پا رہے ہیں ان علوم میں سے ایک فن طب ہے، مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ مکمل طور سے واضح ہوگیا ہے کہ اس وقت دارالعلوم کے ذمہ داران اس فکر میں تھے کہ فضلائے دارالعلوم زیادہ وسیع دائرہ میں معاشرہ کی خدمت انجام دے سکیں، اس ضرورت کو و ہ کتنی اہمیت سے دیکھ رہے تھے اس کا اندازہ ان کے اس خیال سے ہوتا ہے کہ فن طب کی اعلی تعلیم کا انتظام بھی واجبات میں سے ہے۔
1396ھ کی روداد کے مطابق اس تعلق سے ذمہ داران کے منصوبوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بشرط فراہمی سرمایہ سرجری اور دوا سازیSurgery And Pharmaologyی تعلیم کا بھی پروگرام تھا۔
جان پا مرنے اپنی شناخت کو مخفی رکھتے ہوئے دارالعلوم کی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد جو تاثرات رقم کئے ان کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے:
’ایک جگہ ایک صاحب مایہ قد، نہایت خوب صورت بیٹھے ہوئے تھے، سامنے بڑی عمر سے طلبہ کی ایک لمبی قطار تھی، قریب پہنچ کر سنا تو علم مثلث کی بحث ہو رہی تھی، میراخیال تھا کہ مجھے اجنبی سمجھ کر یہ لوگ چونکیں گے مگر کسی نے مطلق توجہ نہ کی ، میں قریب جا کربیٹھ گیا اور استاذ کی تقریر سننے لگا، میری حیرت کی کوئی انتہانہ رہی جب میں نے دیکھا کہ علم مثلث کے ایسے ایسے عجیب اور مشکل قاعدے بیان ہو رہے تھے جو میں نے کبھی ڈاکٹر اسپرنگر سے بھی نہیں سنے تھے، یہاں سے اٹھ کر دوسرے دالان میں آگیا تو دیکھا کہ ایک مولوی صاحب کے سامنے طالب علم معمولی کپڑے پہنے ہوئے بیٹھے ہیں، یہاں اقلیدس کے چھٹے مقالے کی دوسری شکل کے اختلافات بیان ہو رہے تھے اور مولوی صاحب اس بر جستگی سے بیان کر رہے تھے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ گویا اقلیدس کی روح ان میں آگئی ہے‘۔
مذکورہ واقعہ پر معروف محقق مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی دامت برکاتہم کے تآثرات کا ذکر یہاں بے محل نہیں ہوگا:
’یہ رائے اس شخص کی ہے جو مغربی فنون و معقولات کا پتلا اورڈاکٹر اسپر نگر جیسے ماہرین فن کا تربیت یافتہ تھا، کاش! اگر ہمارے یہاں یہ روایت اور ان فنون کے ایسے استادوں کا تسلسل باقی رہتا تو منقولات اور معقولات کے تمام مباحث اور مضامین ساتھ ساتھ چلتے اور یوں یہ مدارس نہ صرف علمااور مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے ماہرین فن کی تمناوں اور تعلیم کا مرکز ہوتے، اور کسی کو ایک دوسرے سے ’من دیگرم تو دیگری‘ ’کہنے کی ضرورت باقی نہ رہتی‘۔
یہاں یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس دور میں دارالعلوم کا معیار تعلیم نقطہ عروج کو پہنچ چکا تھا، مختلف فنون کے متخصصین موجود تھے، منقولات کیساتھ ساتھ معقولات کے ماہرین کی خدمات دارالعلوم کو حاصل تھیں، اور دارالعلوم کے ٹھوس نظام تعلیم پر اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ایک اجنبی انگریز جو اپنے فن میں حد درجہ مہارت رکھتا تھا دارالعلوم کے معیار درس و تدریس کو دیکھ کر خود کو کمتر محسوس کرنے لگا۔
مشہور مصری عالم دین صاحب منار علامہ رشید رضا مصری دیوبند میں قیام کے دوران دارالعلوم میں منعقد ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے اس طرح گویا ہوئے:
’ایک جماعت ہم میں ایسی بھی ہونی چاہئے جو ان شبہات کو رفع کرے، جو اسلام پر کئے جاتے ہیں، خصوصاً و شبہات جو موجودہ زمانے کے علوم و فنون کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں مگر ایسے شبہات کا رفع کرنا بغیر فلسفہ جدیدہ (سائنس) کی واقفیت کے ناممکن ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس جماعت کے اشخاص فلسفہ? جدید کے اہم مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے اس سلسلے کو شروع کیا، اور جدید فلسفہ کی ایک ابتدائی کتاب ’النقش کالحجر‘ کوکورس میں داخل کیا ہے، میرے نزدیک یہ کتاب ناکافی ہے، میں آپ کو ایسی کتابیں بتلاوں گا جو اس سے زیادہ مفید ہوں گی‘۔
علامہ رشید رضا مصری کے اس اقتباس میں جہاں ذمہ داران دارالعلوم دبوبند سے اس بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ دارالعلوم کے نصاب میں فلسفہ جدیدہ کی تعلیم پر خاص توجہ دی جائے تاکہ اسلام پر کئے گئے شبہات کا ازالہ ہو سکے، وہیں ذمہ داران کے اس اقدام کے تحسین ہے کہ انھوں نے نصاب میں ’النقش کالحجر‘ کو شامل کیا، ’النقش کالحجر‘ کتاب کے مشمولات پر ایک نظر مناسب معلوم ہوتی ہے:
۱- مبادی عامہ فی الطبیعیات Elements of Physics
۲-الکیمیاChemistry
۳-الطبیعیات Physics
۴-الجغرافیہ الطبیعیةPhysical Geography
۵-الجیولوجیا Geology
۶-الہیئة Astronomy
۷-علم النبات Botany
۸-اصول المنطق Principles of Logic
یہ بات گرہ سے باندھ لینے کی ہے کہ ارباب دارالعلوم دیوبند کے ذہن بہت ہی کشادہ تھے ان کے یہاں وسعت فکر کیساتھ ساتھ وسعت نظر بھی تھی، وہ وقت کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے عصری ادوات کے استعمال میں قباحت محسوس نہیں کرتے تھے، وہ اسلاف کی روایات کو سر آنکھوں پر سجا کر رکھتے مگر جدید وسائل اورعلوم و فنون کی تعلیم کو روایات کی پامالی تصور نہیں کرتے تھے، ارباب دارالعلوم کی وسعت فکر پر اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی کہ انھوں نے ایک ایسے امریکی مصنف کی کتاب کوشامل نصاب کرلیا کہ جو امریکن مشنریوںmissionaries کا عرب دنیا میں سب سے بڑا نمائندہ، بیروت کی امریکن یونیورسٹی کا بانی اور بائبل کا عربی مترجم تھا۔ دارالعلوم دیوبند کا معیار درس و تدریس کیا تھا؛ علمائے دیوبند کا ذوق و مزاج کیا تھا؟ وہ اپنی تعلیمی پالیسیوں میں کس حد تک صحیح تھے؟ ان سوالات کے جوابات مذکورہ باتوں سے تلاش کرنا آسان ہے، مگر اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے کہ وہ علوم و فنون جو اس دور میں شامل نصاب تھے اب کہاں گم ہوگئے؟ کیا ان کی افادیت ختم ہوگئی؟ یا اب وہ اساتذہ نہیں رہے جو ایسی اعلی استعداد کے حامل ہوں کہ ان دقیق علوم کو بہتر طور پر پڑھا سکیں؟
کچھ بھی ہو اتنا تو مسلم ہے کہ بہت سے ایسے علوم جن کو حاصل کرکے فضلائے دارالعلوم بہت سے میدانوں میں اپنی نمایاں شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتے تھے وہ اب بآسانی دستیاب نہیں ہیں۔
نصاب تعلیم کا دفاع:
دارالعلوم دیوبند کے شعبہ انگریزی کے سابق روحِ رواں اوردہلی یونیورسٹی کے لیکچرارمفتی عبیداللہ صاحب قاسمی نے مولانا موصوف کے اس مضمون کے جواب میںفرماتے ہیں کہ’ دارالعلوم دیوبند کے ذریعہ جدید وسائل اختیار نہ کرنے اور عصری علوم کو کما حقہ شامل نصاب نہ کرنے پر ماہِ محرم میں نوحہ خوانی کی گئی ہے اورتنبیہ کی گئی ہے کہ دار العلوم اپنے بانیین کے طریقہ تعلیم سے منحرف ہو چکا ہے کیونکہ دارالعلوم کے ابتدائی ادوار میں دینی علوم کے علاوہ علومِ دانشمندی وغیرہ (منطق وفلسفہ،جغرافیہ، حساب، ہیئت، طب، فلسفہ وغیرہ) کی بھی تکمیل کروائی جاتی تھی۔ یہ تاثر مضمون کے آخری حصہ میں اور زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ لگے ہاتھوں ولی اللٰہی طرزتعلیم پر بھی تنقید کر ڈالی اور بتایا کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیم تک محدود تھا۔ اخیر میں دارالعلوم کے موجودہ طرزتعلیم کے بارے میں اپنی نافہمی پر حیرت کا اظہار کیا۔
مگر حیرت اس پر ہے کہ مولانا کو حیرت ہے اور ان کیلئے ناقابل فہم ہے۔ نافہمی کے ازالہ کیلئے اپنے دادا محترم حضرت مولانا سالم صاحب دامت برکاتہم یا دیگر بڑے علماسے رجوع کافی ہوتا۔ اخبارات میں عوام قارئین کے سامنے اپنے سوالوں کو اچھالنے سے پہلے کیا انہیں حل نہیں کر لینا چاہئے تھا؟ موصوف کو اور ان کے مضمون کے اثر زدہ قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دار العلوم دیوبند کا اولین مقصد ہندوستانی مسلمانوں کے دین کی حفاظت کرنا، ان کو دینی تعلیمات سے واقف کرانا اور اس مقصد کیلئے ماہر راسخ فی العلم علماتیار کرنا ہے۔ الحمد للہ دارالعلوم اپنے اس مقصد میں مکمل طور پر کامیاب رہا۔محدثین، مفسرین، متکلمین، فقہااور جبال العلم کی ایک بڑی تعداد کا دارالعلوم سے تیار ہونا اس پر شاہد ہے۔ اسی وجہ سے دارالعلوم نے اپنے نصاب میں اِن علوم پر ترکیز کی ہے۔ رہی بات دیگر علوم کی تو دارالعلوم نے کبھی ان کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کے پڑھنے کو مفید بتایا۔ البتہ اپنے خاص مقصد کے حصول کے پیش نظر اپنے نصاب میں ان علومِ عصریہ پر ترکیز نہیں کی، صرف قدرِ ضرورت پر اکتفا کیا۔یہی وجہ ہے کہ از قیامِ دار العلوم اس کا کوئی بھی فارغ علومِ عصریہ میں فن کی نمائندگی کی حد تک ماہر نہ بن سکا کیونکہ نصاب میں ان پر ترکیز نہ تھی, چنانچہ انہوں نے ادھر اپنی توجہ نہیں کی۔ اس سے بڑے کام میں لگے رہے۔ رہی بات یہ کہ پچھلے زمانوں میں علمادینی و عصری علوم دونوں کے بیک وقت ماہر ہوتے تھے مثلاً غزالی، رازی، ابن رشد، ابن الھیثم وغیرہ تو اولاً یہ دعوی ہی غلط ہے پھر یہ کہ جو بھی چند علماعصری علوم میں بھی ماہر تھے تو وجہ یہ تھی موجودہ زمانہ کی طرح ا ±س وقت کے عصری علوم اِتنے زیادہ پھیلے ہوئے نہ تھے, ان پر بیک وقت گرفت نسبتاً آسان تھی۔آج تو ایک ایک عصری علم کی بیسیوں جزوی شاخیں ہیں۔ان سب پر عبور تو کجاتعارفی معلومات کا حصول بھی ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے آج پوری دنیا میں کوئی بھی عالمِ دین نہیں پایا جاتا جو دینی کیساتھ عصری علوم میں مہارتِ تامہ رکھتا ہو۔ اس لئے دارالعلوم کو عصری علوم کی مہارتی تعلیم نہ دینے پر مطعون کرنا غیر دانشمندانہ عمل ہے۔ غیر اسلامی ریاست میں اور بالخصوص تقسیم ملک کے بعد (جبکہ مسلمان اس ملک میں مزید کمزور پڑگئے) دار العلوم اگر اچھے جید الاستعداد علماامت کی دینی رہنمائی کیلئے تیار کرتا چلا جائے تب بھی دار العلوم کی طرف سے بہت بڑا کام ہے۔ دوسرے علوم میں ماہرین تیار کرنے کا کام ملک میں پھیلے ہوئے عصری تعلیمی ادارے کر لیا کریں۔ غالباً حضرت تھانوی کا قول ہے کہ وقت واحد میں اشتغالِ علومِ کثیرہ باعثِ نقصانِ جمیع علوم ہے۔ لہذا دارالعلوم کیلئے کمال کی بات اس میں ہوگی کہ وہ اپنے مقصدِ قیام یعنی دینی علوم کی تعلیم کو معیاری بنائے رکھے ورنہ انھی اداروں جیسا حشر ہوگا جو’الجمع بین القدیم والجدید‘کے خوشنما نعرے کیساتھ قائم ہوئے۔‘
علم اور فن میں تفاوت:
ایک موقع پرجب کسی یونیوسٹی میں پڑھنے والوں نے حضرت مولانا محمدسعد کاندھلوی صاحب سے اپنا تعارف بطور طالب علم کروایا تو آپ نے واضح کیا تھا کہ قبر کے تین سوالوں کا جواب علم ہے جبکہ باقی فن ہے۔آپ نے ان سے کہا کہ’ آپ طالب علم نہیں بلکہ طالب فن ہو۔‘کئی برس پہلے کی بات ہے کہ ایک روزمدرسہ کاشف العلوم کے حضرت مولانا الیاس بارہ بنکوی کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر کسی عصری مضمون کی شمولیت پر زور دیا۔پوری گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ مدرسہ کے طلبہ کیلئے یہ بھی ضروری ہے۔مولانا نے اس شخص کی گفتگو بڑے تحمل سے سنا اور آخر میں اس سے پوچھا کہ ایک شخص ماہر امراض چشم بنتا ہے،کیا آپ اس سے یہ مطالبہ کرتے ہوکہ آنکھوں سے ذرا اوپر دماغ بھی ہے،تمھیں اس کی بھی مہارت حاصل کرنی چاہئے ۔نیزآنکھ کے قریب ناک اور کان بھی ہیں ،لہذا اس کی بھی مہارت حاصل کرو؟بحث کرنے والا شخص اپنا سا لے کر رہ گیا۔کہتے ہیں کہ‘مغربی تہذیب سے مرعوب ایک شخص نے مدرسہ کے طالب علم سے کہا کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور تم ابھی تک بخاری شریف پڑھ رہے ہو؟طالب علم نے جواب دیاکہ آپ نے نہ تو بخاری شریف پڑھی ہے اور نہ ہی چاند پر گئے ، پھر خود ہی بتاو کہ افضل کون ہوا ؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ارباب عقد وحل کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ امت کو بتائیں کہ کون حق بجانب ہے!
The courtyard of Ghazi al-Din Khan's Madrassah at Delhi, 1814-15 |
کیا فرماتے ہیں مولانا محمد شکیب قاسمی صاحب؟
اپنے مضمون میں مولاناموصوف رقم طراز ہیں کہ’ اس بات کو قطعی طور پر مبالغہ آرائی پر محمول نہیں کیا جا سکتا کہ آج برصغیر میں اگر دینی شعور باقی ہے تو وہ مدارس اسلامیہ کا ہی رہین منت ہے، تاریخ کے سینہ میں مسلمانوں کے عروج و زوال ،حکومت و محکومیت ، ترقی و تنزل، عزت وذلت کے لاتعداد واقعات محفوظ ہیں، ہر زمانے میں مسلمانوں کو جن جاں گسل حالات سے گزرنا پڑا تاریخ پر سرسری نظر رکھنے والا شخص بھی بہتر طور پر جانتا ہے، اسلام کے دشمنوں نے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی، سرکاری پیمانے پر بھی اور غیر سرکاری طریقے پر بھی اسلام کے وجود کو عدم میں تبدیل کردینے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا؟
غرض مسلمانوں پر تباہ کن حالات کہ ایسی قیامتیں گزریں کہ اگر وہ کسی دوسری قوم کو چھو کر بھی گزر جاتیں تو اس کے ظاہری و باطنی نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیتیں؛ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب کبھی بھی ملت اسلامیہ پر برے حالات نے گھیرا تنگ کیااور ناسازی حالات کی تیز و تند آندھیوں نے اسلام کے وجود کو چیلنج کیا تو اللہ رب العزت نے ملت اسلامیہ کی پاسبانی کیلئے اپنے چیدہ اور چنیدہ بندوں کی ایسی جماعت کو میدان میں اتار دیا کہ جس نے ہر محاذ پر اور ہر میدان میں دین اسلام کے تشخص کی بقااور مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کیلئے عدیم النظیر خدمات انجام دیںاور ان کے ہاتھوں سے وجود میں آنے والے تعلیمی ادارے اور دینی مدارس آج بھی حفاظت دین کا کار عظیم انجام دے رہے ہیں۔یہ بات تو ہر خاص و عام جانتا ہے کہ دارالعلوم محض ایک دینی ادارہ نہیں بلکہ بانی دارالعلوم حجة الاسلام الام محمد قاسم الناناتوی قدس سرہ العزیز کی ایک عالمگیر تحریک کا حصہ ہے، اس پہلو پر آگے بات کی جائے گی مگر یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہیںہوگا کہ حضرت نانوتوی ملک کے پرآشوب حالات اور اسلام سے لوگوں کی دوری کو لے کر نہایت فکر مند تھے، اسی لیے انھوں نے تعلیمی تحریک چلائی تاکہ بڑے پیمانے پر ایسا انقلاب رونما ہو جو انقلاب تعلیمی ہو اور اس میں دینی بیداری کا رنگ شامل ہو۔
انیسویں صدی عیسوی میں جب ہندوستان مکمل طور سے مغربی طاقتوں کے خوفناک سایہ میں آچکا تھا اور انگریز ہندوستان پر مکمل تسلط جما چکے تھے، یہ بات واضح طور پر کھل کر سامنے آچکی تھی کہ صرف مشرقی تہذیب و ثقافت میں نہیں بلکہ دینی و اسلامی علوم کو بھی ختم کردینے اور پوری قوم کو مسیحیت و عیسائیت کے رنگ میں رنگ دینے کیلئے ’باطل طاقتیں‘ نہ صرف متحد ہو چکی ہیں بلکہ اس سمت میں عملی اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں ، اسلامی اقدار اور دین شعور کو ذہنوں سے کھرچ پھینکنے کے ناپاک منصوبے تیار کئے جانے لگے ہیں اور اس مد میں غاصب حکومت اپنے بھر پور وسائل اور تدبیروں کیساتھ ساتھ کافی سرمایہ اور جد و جہد صرف کرنے کیلئے سنجیدہ طور پر پر سرگرم نظر آنے لگی ہے۔
ایسے پر آشوب حالات میں کہ جب فتنہ ارتداد اپنے پاوں پھیلا رہا تھا اور اسلامی تہذیب و تمدن کو بے راہ روی اورلا دینیت کی اندھیری کوٹھری میں قید کرنے کی عملی کوششیں کی جاری تھیں، تو اس وقت کے زندہ دل اورفکر و الی اللہی کے حامل علمائ نے اسلامی تشخص کی تھا، اور اسلامی تہذیب کی حفاظت کیلئے حجة الاسلام الامام محمد قاسم النانوتوی قدس سرہ العزیز کی قیادت میں چھوٹے سے قبصہ ’دیوبند‘ میں ایک خالص دینی تعلیم کی درسگاہ کی داغ بیل ڈالی۔
حضرت نانوتوی اور ان کے رفقائ کے اس بروقت اقدام، اور ان کی دینی حمیت کے حوالے سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا یہ اقتباس دیکھئے:
’انہوں نے اس کی فکر شروع کی کہ دینی جذبہ، اسلامی روح، اسلامی زندگی کے مظاہر اور تہذیب اسلامی کے جتنے بچے کھچے آثار باقی رہ گئے ہیں ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے اور اسلامی تہذیب اور ثقافت کیلئے قلعہ بندیاں کرلی جائیں اور پھر ان قلعوں میں (جن کو عربی مدارس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے) مبلغ اور داعی تیار کئے جائیں‘
(مسلم ممالک اور مغربیت کی کشمکش: 88)
حضرت مولانا ابوالحسن ندوی نے مزید لکھا کہ:
’اس عظیم اصلاحی اور تعلیمی تحریک کے (جس کا آغاز1283ھ مطابق1866ءمیںہوا) سر براہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند تھے‘۔اب غور طلب امر یہ ہے کہ بانی دارالعلوم نے اس دور میں جو نصاب تعلیم منتخب کیا تھا وہ کیا تھا؟ حضرت نانوتوی اور ان کے رفقاکہ جو نہ صرف یہ کہ خانوادہ والی اللہی سے نسبت رکھتے تھے بلکہ وہ دہلی کالج کے بھی تعلیم یافتہ تھے، معقولات سے گہری مناسبت اور ذوق انھیں علمائے خیر آباد سے حاصل ہوا تھا اس کیساتھ ان میں سے بعض حضرات کو سرکاری اداروں میں تدریس کا بھی تجربہ تھا، لہٰذا انھوں نے اپنے مدرسہ کیلئے جو نصاب تعلیم مرتب کیا اس میں مذکورہ تمام نسبتوں اور علم کے چشموں سے استفادہ کا خیال رکھا۔
حضرت نانوتوی کے منتخب کردہ نصاب تعلیم کی جامعیت اور معنویت کا صحیح طور پر اندازہ کرنے کیلئے قیام دارالعلوم سے قبل ہندوستان کے مراکز علم کے تعلیمی نظاموں کا سرسری جائزہ لینا ناگزیر ہے۔آئیے تیرہویں صدی ھجری کے نصاب تعلیم پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تمام علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم ہندوستان میں باضابطہ دی جارہی تھی مگر اس وقت جو تعلیمی مراکز تھے ان میں کسی خاص علم کو ہی بنیادی طور پر سامنے رکھا جاتا تھا اور ہر تعلیمی مرکز کسی ایک علم پر ہی اپنی کامل توجہ اور بھر پور ترکیز رکھتا تھا۔
ہندوستان میں اسلامی علوم کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت میں تین شہروں کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، دہلی، لکھنو ¿ اور خیرآباد، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کے خانوادے نے اپنی علمی خدمات کو تفسیر و حدیث تک محدود کر لیا تھا، کتاب و سنت کو ہی انھوں نے اپنا مجال عمل متعین کر لیا تھا، ان کے یہاں دیگر علوم کی حیثیت صرف ثانوی درجہ کی تھی۔
لکھنو ¿ کے علمی کارنامے فقہ اور اصول فقہ کے گھیرے میں قید تھے، فرنگی محل کی علمی فضا میں خالص فقہ کا رنگ غالب تھا، علمائے فرنگی محل ماواراءالنہر کے ساتویں صدی والے قدیم طرز سے علحیدگی کو نہ صرف ممنوع سمجھتے تھے بلکہ اپنے محدود دائرہ عمل سے ایک قدم بھی باہر آنے پر قطعی طور پر آمادہ نہیں تھے، یہ تسلیم کہ علمائے فرنگی محل نے اپنے میدان میں عدیم النظیر خدمات پیش کیں مگر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دیگر علوم کی جانب جو توجہ ہونی چاہئے تھی نہ ہو سکی، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں تفسیر میں جلالیں اور بیضاوی کی تدریس کو تفسیر سے مناسبت کیلئے کافی سمجھا جاتا تھا، اور حدیث میں مشکآ المصابیح کے علاوہ اور کچھ داخل نہیں تھا۔
علوم اسلامیہ کے تینوں عظیم مراکز اپنے اپنے میدان میں اپنی منفرد حیثیت رکھتے تھے وہ اپنے دائرہ کار میں اپنی مثال آپ تھے مگر زمانہ برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا، علوم اسلامیہ کی تحصیل کیلئے طویل اسفار کرنا، مشقتیں برداشت کرنا اور طلب علم کیلئے دردر کی خاک چھاننے کا جذبہ کم ہوتا دکھائی دے رہا تھا، حصول علم کے سخت ترین مراحل طے کرنے اور اس کی دشوار گزار راہوں پر چلنے سے ہمتیں جواب دینے لگی تھیں، دوسری طرف مالی اخراجات اور دیگرزندگی کے ظروف زیادہ وقت تعلیم میں صرف کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اور ایک ایسی درسگاہ کے قیام کا شدت سے انتظار کر رہے تھے، جو تمام علوم پر یکساں توجہ اور یکساں اہمیت دیتے ہوئے علوم اسلامیہ کے تینوں اہم مراکز کی خصوصیات کو نہ صرف جامع ہو بلکہ ان تینوں مراکز کے مناہج کا ایک حسین امتزاج ہو، جس کے نصاب تعلیم میں تینوں مراکز کے علوم کو یکساں مقام حاصل ہو، تاکہ طالبان علوم نبویہ کو کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کا موقع فراہم ہو، اور تمام ہی علوم پر یکساں عبور حاصل ہو نیز تعلیم، رہائش اور دیگر اخراجات کے تکفل کی بھی کوئی سبیل نکلے کہ جس سے طالب علم مکمل یکسوئی کیساتھ طلب علم میں مشغول رہ سکے۔
پھر حضرت حجة الاسلام الامام محمد قاسم الناناتوی قدس سرہ العزیز کے مبارک ہاتھوں دارالعلوم دیوبند کا قیام ہوا جس سے کہ امت مسلمہ ہند کی ایک دیرینہ آرزو کی تکمیل ہوئی، دارالعلوم دیوبند نے دیگر مراکز علم کی طرح کسی خاص علم اور خاص فن کو مرکز نگاہ نہیں بنایا بلکہ وقت کے رائج مراکز علوم کے نصابوں کو سامنے رکھ کر ایک ایسا نصاب تعلیم تشکیل دیاجو ایک طرف دہلی لکھنو? اورخیرآباد کی خصوصیات کو جامع تھا دوسری طرف وقت کے تقاضوں اور چیلنجز سے بھی ہم آہنگ تھا۔
دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی نصاب تعلیم میں جہاں عربی، فارسی اور اسلامی علوم (قرآن، حدیث اور فقہ وغیرہ) کو بڑی اہمیت کیساتھ شامل کیا گیا وہیں ریاضی Mathematics،ہندسہ Geometry،علم ہیئت Astronomy بھی شامل نصاب تھے۔
بانی دارالعلوم حجة الاسلام الامام محمد قاسم النانوتوی رحمة اللہ علیہ نے 1290ھ مطابق11874 میں دارالعلوم کے سالانہ اجلاس میں ان مدارس کے نظام اور مقاصد پر ایک انتہائی اہم تقریر کی تھی، تقریر کے درج ذیل اقتباس پر غور کیجئے:
’ان مدارس میں علاوہ تعلیم مذہبی، غرض اعظم قوتِ استعداد ہے، فقط علوم دینی پر اکتفانہیں، بلکہ فنون دانشمندی کی تکمیل بھی حسب قاعدہ ساتھ کی گئی ہے، جس کا عمدہ نتیجہ پہلے زمانوں میں یہ ہوا تھا کہ بڑے بڑے عالم، بڑی بڑی استعداد و قوت کے اہل اسلام میں بکثرت پیدا ہوئے‘۔
یقینا قارئین کے ذہن میں اس اقتباس کو پڑھ کر یہ سوال پیدا ہوگا فنون دانشمندی سے حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی مراد کیا ہے؟ تو اس کا جواب بھی خود حضرت نانوتوی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں، اس تقریر کے دوران انھوں نے فرمایا:
’معقولات سے صرف منطق و فلسفہ مقصود نہیں بلکہ اس میں ہیئت، حساب، فلکیات ریاضی اور الہیات بھی شامل ہیں‘۔
گویا کہ حضرت نانوتوی کے قول کے مطابق وہ علوم جو معقولات کا حصہ ہیں اور اس زمانہ میں دارالعلوم میں شامل نصاب تھے، وہ یہ تھے:
حساب Mathematics
ریاضی Arithmatics
ہیئت Astronomy
فلکیاتCosmology
الہیات Metaphysics
دارالعلوم دیوبند کی قدیم رودادوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت الجبرا Algebra، مساحت اور اقلیدس بھی داخل نصاب تھے، ماہرین تعلیم کو غور کرنا چاہئے کہ حضرت نانوتوی مذکورہ فنون کو ’قوت استعداد‘ پیدا کرنے کا ذریعہ اور ’فنون دانشمندی‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔
اس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت نانوتوی محض ایک عالم دین نہیں تھے بلکہ وہ ایک عظیم ماہر تعلیم بھی تھے، ان کی نظر ان علوم پر بھی گہری تھی کہ جو عقل کو تیز اور قوت تدبر میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، اور انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ علوم نقلیہ کیساتھ ساتھ ان علوم کی تعلیم عمدہ نتائج بر آمد کرے گی، لہٰذا انہوں نے اس قسم کے کئی علوم و فنون اسلامی علوم کیساتھ شامل نصاب کئے تھے۔
صرف اتنا ہی نہیں اس زمانے میں میڈیکل سائنس کیلئے طب یونانی کا رواج تھا، دارالعلوم میںابتدائی ہی میں طب یونانی کی تعلیم شروع ہوگئی تھی، لیکن ذمہ داران مدرسہ اس سے مطمئن نہیں تھے، وہ چاہتے تھے کہ طب یونانی کی باضابطہ فاضلانہ تعلیم ہو، جس کا باقاعدہ انتظام ۱۲۹۵ھ مطابق میں ہوا، جس کا اعلان روداد ۱۲۹۵ھ میںان لفظوں میں شائع ہوا تھا:
’کیفیات سنین ماضیہ سے جملہ خیر خواہان مدرسہ کو واضح ہوا ہے کہ کتنے طلبہ اس مدرسہ سے علوم عربیہ میں عالم و فاضل ہوئے اورآئندہ کو ان شائ اللہ ہونے والے ہیں؟ مگر ارباب مشاورت مدرسہ ہذا نے جب فکر کامل دیگر فوائد رفاہ عام برادران اہل اسلام پر کیا تو ابھی تک ایک امر کثیر المنافع یعنی ترویج و تکمیل علم و طب یونانی کی کمی ہے، اور اس کی درستگی و تکمیل ضروریات بلکہ واجبات میں سے ہے، کیوں کہ اس سے فائدہ عام ہے‘۔
دارالعلوم دیوبند کی روئداد سے ماخوذ مذکورہ اقتباس کو غور سے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے ذمہ داران کویہ معلوم تھا کہ دارالعلوم کا جو نصاب تعلیم ہے اس سے ایک بہتر کھیپ تیار ہوئی ہے اور دارالعلوم آئندہ بھی اپنے جامع اور مفید نصاب تعلیم سے بہترین رجال علم تیار کرتا رہے گا، انہیں معلوم تھا کہ دارالعلوم کی تعلیمی سرگرمیوں سے عام و خاص مطمئن ہیں اورادارہ کے خیر خواہان ادارہ کی کار کردگی سے کلی اطمینان رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی ادارہ کے ذمہ داران کو یہ احساس ہے کہ مذکورہ تمام علوم کو شامل نصاب کرنے کے باوجود بھی ایک کمی کا ازالہ اب تک نہیں ہو سکا ہے، اور وہ کمی یہ تھی کہ کچھ علوم میں دارالعلوم کے فضلانمائندگی نہیں کر پا رہے ہیں ان علوم میں سے ایک فن طب ہے، مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ مکمل طور سے واضح ہوگیا ہے کہ اس وقت دارالعلوم کے ذمہ داران اس فکر میں تھے کہ فضلائے دارالعلوم زیادہ وسیع دائرہ میں معاشرہ کی خدمت انجام دے سکیں، اس ضرورت کو و ہ کتنی اہمیت سے دیکھ رہے تھے اس کا اندازہ ان کے اس خیال سے ہوتا ہے کہ فن طب کی اعلی تعلیم کا انتظام بھی واجبات میں سے ہے۔
1396ھ کی روداد کے مطابق اس تعلق سے ذمہ داران کے منصوبوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بشرط فراہمی سرمایہ سرجری اور دوا سازیSurgery And Pharmaologyی تعلیم کا بھی پروگرام تھا۔
جان پا مرنے اپنی شناخت کو مخفی رکھتے ہوئے دارالعلوم کی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد جو تاثرات رقم کئے ان کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے:
’ایک جگہ ایک صاحب مایہ قد، نہایت خوب صورت بیٹھے ہوئے تھے، سامنے بڑی عمر سے طلبہ کی ایک لمبی قطار تھی، قریب پہنچ کر سنا تو علم مثلث کی بحث ہو رہی تھی، میراخیال تھا کہ مجھے اجنبی سمجھ کر یہ لوگ چونکیں گے مگر کسی نے مطلق توجہ نہ کی ، میں قریب جا کربیٹھ گیا اور استاذ کی تقریر سننے لگا، میری حیرت کی کوئی انتہانہ رہی جب میں نے دیکھا کہ علم مثلث کے ایسے ایسے عجیب اور مشکل قاعدے بیان ہو رہے تھے جو میں نے کبھی ڈاکٹر اسپرنگر سے بھی نہیں سنے تھے، یہاں سے اٹھ کر دوسرے دالان میں آگیا تو دیکھا کہ ایک مولوی صاحب کے سامنے طالب علم معمولی کپڑے پہنے ہوئے بیٹھے ہیں، یہاں اقلیدس کے چھٹے مقالے کی دوسری شکل کے اختلافات بیان ہو رہے تھے اور مولوی صاحب اس بر جستگی سے بیان کر رہے تھے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ گویا اقلیدس کی روح ان میں آگئی ہے‘۔
مذکورہ واقعہ پر معروف محقق مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی دامت برکاتہم کے تآثرات کا ذکر یہاں بے محل نہیں ہوگا:
’یہ رائے اس شخص کی ہے جو مغربی فنون و معقولات کا پتلا اورڈاکٹر اسپر نگر جیسے ماہرین فن کا تربیت یافتہ تھا، کاش! اگر ہمارے یہاں یہ روایت اور ان فنون کے ایسے استادوں کا تسلسل باقی رہتا تو منقولات اور معقولات کے تمام مباحث اور مضامین ساتھ ساتھ چلتے اور یوں یہ مدارس نہ صرف علمااور مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے ماہرین فن کی تمناوں اور تعلیم کا مرکز ہوتے، اور کسی کو ایک دوسرے سے ’من دیگرم تو دیگری‘ ’کہنے کی ضرورت باقی نہ رہتی‘۔
یہاں یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس دور میں دارالعلوم کا معیار تعلیم نقطہ عروج کو پہنچ چکا تھا، مختلف فنون کے متخصصین موجود تھے، منقولات کیساتھ ساتھ معقولات کے ماہرین کی خدمات دارالعلوم کو حاصل تھیں، اور دارالعلوم کے ٹھوس نظام تعلیم پر اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ایک اجنبی انگریز جو اپنے فن میں حد درجہ مہارت رکھتا تھا دارالعلوم کے معیار درس و تدریس کو دیکھ کر خود کو کمتر محسوس کرنے لگا۔
مشہور مصری عالم دین صاحب منار علامہ رشید رضا مصری دیوبند میں قیام کے دوران دارالعلوم میں منعقد ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے اس طرح گویا ہوئے:
’ایک جماعت ہم میں ایسی بھی ہونی چاہئے جو ان شبہات کو رفع کرے، جو اسلام پر کئے جاتے ہیں، خصوصاً و شبہات جو موجودہ زمانے کے علوم و فنون کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں مگر ایسے شبہات کا رفع کرنا بغیر فلسفہ جدیدہ (سائنس) کی واقفیت کے ناممکن ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس جماعت کے اشخاص فلسفہ? جدید کے اہم مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے اس سلسلے کو شروع کیا، اور جدید فلسفہ کی ایک ابتدائی کتاب ’النقش کالحجر‘ کوکورس میں داخل کیا ہے، میرے نزدیک یہ کتاب ناکافی ہے، میں آپ کو ایسی کتابیں بتلاوں گا جو اس سے زیادہ مفید ہوں گی‘۔
علامہ رشید رضا مصری کے اس اقتباس میں جہاں ذمہ داران دارالعلوم دبوبند سے اس بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ دارالعلوم کے نصاب میں فلسفہ جدیدہ کی تعلیم پر خاص توجہ دی جائے تاکہ اسلام پر کئے گئے شبہات کا ازالہ ہو سکے، وہیں ذمہ داران کے اس اقدام کے تحسین ہے کہ انھوں نے نصاب میں ’النقش کالحجر‘ کو شامل کیا، ’النقش کالحجر‘ کتاب کے مشمولات پر ایک نظر مناسب معلوم ہوتی ہے:
۱- مبادی عامہ فی الطبیعیات Elements of Physics
۲-الکیمیاChemistry
۳-الطبیعیات Physics
۴-الجغرافیہ الطبیعیةPhysical Geography
۵-الجیولوجیا Geology
۶-الہیئة Astronomy
۷-علم النبات Botany
۸-اصول المنطق Principles of Logic
یہ بات گرہ سے باندھ لینے کی ہے کہ ارباب دارالعلوم دیوبند کے ذہن بہت ہی کشادہ تھے ان کے یہاں وسعت فکر کیساتھ ساتھ وسعت نظر بھی تھی، وہ وقت کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے عصری ادوات کے استعمال میں قباحت محسوس نہیں کرتے تھے، وہ اسلاف کی روایات کو سر آنکھوں پر سجا کر رکھتے مگر جدید وسائل اورعلوم و فنون کی تعلیم کو روایات کی پامالی تصور نہیں کرتے تھے، ارباب دارالعلوم کی وسعت فکر پر اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی کہ انھوں نے ایک ایسے امریکی مصنف کی کتاب کوشامل نصاب کرلیا کہ جو امریکن مشنریوںmissionaries کا عرب دنیا میں سب سے بڑا نمائندہ، بیروت کی امریکن یونیورسٹی کا بانی اور بائبل کا عربی مترجم تھا۔ دارالعلوم دیوبند کا معیار درس و تدریس کیا تھا؛ علمائے دیوبند کا ذوق و مزاج کیا تھا؟ وہ اپنی تعلیمی پالیسیوں میں کس حد تک صحیح تھے؟ ان سوالات کے جوابات مذکورہ باتوں سے تلاش کرنا آسان ہے، مگر اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے کہ وہ علوم و فنون جو اس دور میں شامل نصاب تھے اب کہاں گم ہوگئے؟ کیا ان کی افادیت ختم ہوگئی؟ یا اب وہ اساتذہ نہیں رہے جو ایسی اعلی استعداد کے حامل ہوں کہ ان دقیق علوم کو بہتر طور پر پڑھا سکیں؟
کچھ بھی ہو اتنا تو مسلم ہے کہ بہت سے ایسے علوم جن کو حاصل کرکے فضلائے دارالعلوم بہت سے میدانوں میں اپنی نمایاں شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتے تھے وہ اب بآسانی دستیاب نہیں ہیں۔
نصاب تعلیم کا دفاع:
دارالعلوم دیوبند کے شعبہ انگریزی کے سابق روحِ رواں اوردہلی یونیورسٹی کے لیکچرارمفتی عبیداللہ صاحب قاسمی نے مولانا موصوف کے اس مضمون کے جواب میںفرماتے ہیں کہ’ دارالعلوم دیوبند کے ذریعہ جدید وسائل اختیار نہ کرنے اور عصری علوم کو کما حقہ شامل نصاب نہ کرنے پر ماہِ محرم میں نوحہ خوانی کی گئی ہے اورتنبیہ کی گئی ہے کہ دار العلوم اپنے بانیین کے طریقہ تعلیم سے منحرف ہو چکا ہے کیونکہ دارالعلوم کے ابتدائی ادوار میں دینی علوم کے علاوہ علومِ دانشمندی وغیرہ (منطق وفلسفہ،جغرافیہ، حساب، ہیئت، طب، فلسفہ وغیرہ) کی بھی تکمیل کروائی جاتی تھی۔ یہ تاثر مضمون کے آخری حصہ میں اور زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ لگے ہاتھوں ولی اللٰہی طرزتعلیم پر بھی تنقید کر ڈالی اور بتایا کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیم تک محدود تھا۔ اخیر میں دارالعلوم کے موجودہ طرزتعلیم کے بارے میں اپنی نافہمی پر حیرت کا اظہار کیا۔
مگر حیرت اس پر ہے کہ مولانا کو حیرت ہے اور ان کیلئے ناقابل فہم ہے۔ نافہمی کے ازالہ کیلئے اپنے دادا محترم حضرت مولانا سالم صاحب دامت برکاتہم یا دیگر بڑے علماسے رجوع کافی ہوتا۔ اخبارات میں عوام قارئین کے سامنے اپنے سوالوں کو اچھالنے سے پہلے کیا انہیں حل نہیں کر لینا چاہئے تھا؟ موصوف کو اور ان کے مضمون کے اثر زدہ قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دار العلوم دیوبند کا اولین مقصد ہندوستانی مسلمانوں کے دین کی حفاظت کرنا، ان کو دینی تعلیمات سے واقف کرانا اور اس مقصد کیلئے ماہر راسخ فی العلم علماتیار کرنا ہے۔ الحمد للہ دارالعلوم اپنے اس مقصد میں مکمل طور پر کامیاب رہا۔محدثین، مفسرین، متکلمین، فقہااور جبال العلم کی ایک بڑی تعداد کا دارالعلوم سے تیار ہونا اس پر شاہد ہے۔ اسی وجہ سے دارالعلوم نے اپنے نصاب میں اِن علوم پر ترکیز کی ہے۔ رہی بات دیگر علوم کی تو دارالعلوم نے کبھی ان کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کے پڑھنے کو مفید بتایا۔ البتہ اپنے خاص مقصد کے حصول کے پیش نظر اپنے نصاب میں ان علومِ عصریہ پر ترکیز نہیں کی، صرف قدرِ ضرورت پر اکتفا کیا۔یہی وجہ ہے کہ از قیامِ دار العلوم اس کا کوئی بھی فارغ علومِ عصریہ میں فن کی نمائندگی کی حد تک ماہر نہ بن سکا کیونکہ نصاب میں ان پر ترکیز نہ تھی, چنانچہ انہوں نے ادھر اپنی توجہ نہیں کی۔ اس سے بڑے کام میں لگے رہے۔ رہی بات یہ کہ پچھلے زمانوں میں علمادینی و عصری علوم دونوں کے بیک وقت ماہر ہوتے تھے مثلاً غزالی، رازی، ابن رشد، ابن الھیثم وغیرہ تو اولاً یہ دعوی ہی غلط ہے پھر یہ کہ جو بھی چند علماعصری علوم میں بھی ماہر تھے تو وجہ یہ تھی موجودہ زمانہ کی طرح ا ±س وقت کے عصری علوم اِتنے زیادہ پھیلے ہوئے نہ تھے, ان پر بیک وقت گرفت نسبتاً آسان تھی۔آج تو ایک ایک عصری علم کی بیسیوں جزوی شاخیں ہیں۔ان سب پر عبور تو کجاتعارفی معلومات کا حصول بھی ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے آج پوری دنیا میں کوئی بھی عالمِ دین نہیں پایا جاتا جو دینی کیساتھ عصری علوم میں مہارتِ تامہ رکھتا ہو۔ اس لئے دارالعلوم کو عصری علوم کی مہارتی تعلیم نہ دینے پر مطعون کرنا غیر دانشمندانہ عمل ہے۔ غیر اسلامی ریاست میں اور بالخصوص تقسیم ملک کے بعد (جبکہ مسلمان اس ملک میں مزید کمزور پڑگئے) دار العلوم اگر اچھے جید الاستعداد علماامت کی دینی رہنمائی کیلئے تیار کرتا چلا جائے تب بھی دار العلوم کی طرف سے بہت بڑا کام ہے۔ دوسرے علوم میں ماہرین تیار کرنے کا کام ملک میں پھیلے ہوئے عصری تعلیمی ادارے کر لیا کریں۔ غالباً حضرت تھانوی کا قول ہے کہ وقت واحد میں اشتغالِ علومِ کثیرہ باعثِ نقصانِ جمیع علوم ہے۔ لہذا دارالعلوم کیلئے کمال کی بات اس میں ہوگی کہ وہ اپنے مقصدِ قیام یعنی دینی علوم کی تعلیم کو معیاری بنائے رکھے ورنہ انھی اداروں جیسا حشر ہوگا جو’الجمع بین القدیم والجدید‘کے خوشنما نعرے کیساتھ قائم ہوئے۔‘
علم اور فن میں تفاوت:
ایک موقع پرجب کسی یونیوسٹی میں پڑھنے والوں نے حضرت مولانا محمدسعد کاندھلوی صاحب سے اپنا تعارف بطور طالب علم کروایا تو آپ نے واضح کیا تھا کہ قبر کے تین سوالوں کا جواب علم ہے جبکہ باقی فن ہے۔آپ نے ان سے کہا کہ’ آپ طالب علم نہیں بلکہ طالب فن ہو۔‘کئی برس پہلے کی بات ہے کہ ایک روزمدرسہ کاشف العلوم کے حضرت مولانا الیاس بارہ بنکوی کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر کسی عصری مضمون کی شمولیت پر زور دیا۔پوری گفتگو کا نچوڑ یہ تھا کہ مدرسہ کے طلبہ کیلئے یہ بھی ضروری ہے۔مولانا نے اس شخص کی گفتگو بڑے تحمل سے سنا اور آخر میں اس سے پوچھا کہ ایک شخص ماہر امراض چشم بنتا ہے،کیا آپ اس سے یہ مطالبہ کرتے ہوکہ آنکھوں سے ذرا اوپر دماغ بھی ہے،تمھیں اس کی بھی مہارت حاصل کرنی چاہئے ۔نیزآنکھ کے قریب ناک اور کان بھی ہیں ،لہذا اس کی بھی مہارت حاصل کرو؟بحث کرنے والا شخص اپنا سا لے کر رہ گیا۔کہتے ہیں کہ‘مغربی تہذیب سے مرعوب ایک شخص نے مدرسہ کے طالب علم سے کہا کہ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور تم ابھی تک بخاری شریف پڑھ رہے ہو؟طالب علم نے جواب دیاکہ آپ نے نہ تو بخاری شریف پڑھی ہے اور نہ ہی چاند پر گئے ، پھر خود ہی بتاو کہ افضل کون ہوا ؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ارباب عقد وحل کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ امت کو بتائیں کہ کون حق بجانب ہے!
No comments:
Post a Comment