Monday 16 November 2015

دین پر کیسے نصیب ہو استقامت؟

ایس اے ساگر

قرآن مجید میں اللہ جل شانہ نے فرمایا

ان الذين قالوا ربناالله ثم استقاموا تتنزل عليهم الملائكة الا تخافوا ولاتحزنوا وابشروابالجنة التي كنتم توعدون
دوسرى جگہ وارد ہے کہ 
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
هود: ١١٢

پس آپ جمے رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وه لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کر چکے ہیں، خبردار تم حد سے نہ بڑھنا، اللہ تمہارے تمام اعمال کا دیکھنے واﻻ ہے

عن سفيان بن عبد الله الثقفي قال قلت يا رسول الله قل لي في الإسلام قولا لا أسأل عنه أحدا بعدک وفي حديث أبي أسامة غيرک قال قل آمنت بالله فاستقم

سیدناسفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اسلام میں ایک ایسی بات بتا دیجئے کہ پھر میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی سے نہ پوچھوں ابواسامہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو کہہ میں ایمان لایا اللہ پر پھر ڈٹارہ۔
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 161کتاب الایمان

اس کے علاوہ جامع ترمذی ،سنن ابن ماجہ ،سنن دارمی اور مسند احمد میں بھی یہ روایت موجود ہے

جامع ترمذی ،سنن ابن ماجہ اور سنن دارمی میں حدیث ان الفاظ سے مروی ہے :
سیدنا سفیان بن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ایسے بات بتائے کہ میں اس کو مضبوطی سے عمل کروں آپ نے فرمایا کہو میرا رب اللہ ہے اور اسی پر قائم رہو
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ میرے بارے میں سب سے زیادہ کس چیز سے ڈرتے ہیں؟
آپ نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا ۔

ضرورت اور اہمیت:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک اعمال کرنے میں جلدی کیا کرو۔ فتنے رات کی تہہ در تہہ تاریکی کی طرح امڈتے چلے آئیں گے۔کئی مومن بھی صبح کے وقت ایمان کی حالت میں ہوں گے اور شام کفر کے عالم میں کریں گے۔ دنیا کی حقیر متاع کیلئے  دین کا سودا کرلیں گے۔ (مسلم، کتاب الایمان، ۳۱۳)

بعض معاون امور :

يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّـهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ ابراهيم: ٢٧

ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے (27)

کلمہ طیبہ کی برکات میں سے ایک یہ ہے کہ ایمان والا  کسی حال میں بھی نہیں گھبراتا۔ وہ مصائب و مشکلات کے دور میں بھی اللہ پر بھروسہ رکھتا، ثابت قدم رہتا اور استقلال سے سب کچھ برداشت کرجاتا ہے اور آخرت میں تو اسے بعینہ وہی حالات و مناظر پیش آئیں گے جن پر وہ پہلے ہی ایمان رکھتا تھا۔ لہذا وہاں بھی اس کے گھبرانے کی کوئی وجہ نہ ہوگی اور اس کلمہ کی برکت سے وہاں بھی وہ ثابت قدم رہے گا۔

قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ :

قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
النحل: ١٠٢

کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرائیل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہو جائے (102)

تفسیر تیسیر القرآن:
روح القدس سے مراد؟ پاکیزہ روح یا پاکیزگی کی روح اور اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں جو ہر طرح کی بشری کمزوریوں سے پاک ہیں۔ وہ نہ خائن ہیں نہ کذاب ہیں اور نہ مفتری۔ نہ وہ اللہ کے نازل کردہ کلام میں سے کچھ حذف کرتے ہیں اور نہ اس میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ نہ ترمیم و تنسیخ کرسکتے ہیں بلکہ اللہ کا کلام جوں کا توں نبی کے دل پہ نازل کرتے ہیں۔

نزول قرآن میں تدریج کیوں؟
قرآن اتارنے میں جو حالات کے تقاضوں کے تحت تدریج کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کے دو بڑے فائدے ہیں ایک یہ کہ تکرار احکام سے ایمان میں بتدریج پختگی واقع ہوتی رہتی ہے اور ان میں ثبات و استقلال پیدا ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جو کفار مکہ آئے دن مسلمانوں پر ناجائز مظالم اور سختیاں کرتے رہتے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی بار بار تسلی دینے، مصائب میں ثابت قدم رہنے۔ اس دنیا میں بھی سیدھی راہ پر گامزن رکھنے پر اور مصائب کی برداشت پر اور جنت کی خوشخبری دینے کی ضرورت پیش آتی رہی۔ نیز احکام میں تدریج اور تبدیلی کے سلسلہ میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٦ کا حاشیہ بھی قابل توجہ ہے.

دراصل قرآن مسلمانوں کیلئے  ہدایت اور بشارت کا ذریعہ ہے، کیونکہ قرآن بھی بارش کی طرح ہے، جس سے بعض زمینیں خوب شاداب ہوتی ہیں اور بعض میں کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں اگتا۔ مومن کا دل صاف اور شفاف ہے جو قرآن کی برکت سے اور ایمان کے نور سے منور ہو جاتا ہے اور کافر کا
دل زمین شور کی طرح ہے جو کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے، جہاں قرآن کی ضیا پاشیاں بھی بے اثر رہتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ذکر:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
الأنفال: ٤٥
اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ﺛابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو (45)

اللہ پر بھروسہ کرنا:

یہاں سے آگے جنگ سے متعلق مسلمانوں کو ہدایات اور ان کی جنگی داخلی اور خارجہ پالیسی کے متعلق احکام بیان کئے جا رہے ہیں:

سب سے پہلی ہدایت یہ ہے کہ اگر مقابلہ پیش آ جائے تو پھر پوری دلجمعی اور ثابت قدمی سے مقابلہ پر ڈٹ جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دشمن سے مقابلہ کی آرزو مت کرو اور اگر مڈبھیڑ ہو جائے تو پھر پوری ہمت اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرو۔ اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد، باب لاتمنوالقاء العدو)
اور اس دوران اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو۔ ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا تمہاری ثابت قدمی کا باعث بن جائے گا اور بالخصوص میدان جنگ میں بھی اپنی نمازوں کا خیال رکھو، اسی پر بھروسہ رکھو۔ یہی تمہاری کامیابی کا راز ہے۔ محض اسباب پر تکیہ نہ کرو۔

احکام پر سرِتسلیم خم کرنا:

وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا ﴿٦٦﴾

اور اگر وہ وہی کچھ کر لیتے جو انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ بات ان کے حق میں بہتر اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب بن جاتی

اس کی تفسیر میں وارد ہے کہ ایسے منافقین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اگر ہم کسی بنا پر ان پر قتل واجب کر دیتے جیساکہ بچھڑا پوجنے والوں پر واجب کیا تھا یا یہاں (مدینہ) سے کسی اور جگہ نقل مکانی یا ہجرت کرنے کو کہتے تو اس قسم کی قربانیاں یہ لوگ کیسے بجا لا سکتے تھے؟ اور اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے تو ان کی منزل مقصود قریب تر ہو جاتی اور یہ بہرحال فائدہ میں رہتے۔ یہاں دنیا میں بھی باوقار زندگی نصیب ہوتی اور آخرت میں بھی بڑے اجر کے مستحق ہوتے۔

انبیاء علیہم السلام کے حالات :

وَكُلًّا نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءَكَ فِي هَـٰذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
هود: ١٢٠

رسول علہم السلام کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کی تسکین کیلئے  بیان فرما رہے ہیں۔ آپ کے پاس اس سورت میں بھی حق پہنچ چکا جو نصیحت و وعظ ہے مومنوں کیلئے ۔

ذکر ماضی ہے سامان سکون :

پہلی امتوں کا اپنے انبیاءعلیہ السلام کو جھٹلانا، انبیاءعلیہ السلام کا ان کی ایذاؤں پر صبر کرنا۔ آخر اللہ کے عذاب کا آنا، کافروں کا برباد ہونا، نبیوں رسولوں علیم السلام اور مومنوں کا نجات پانا، یہ سب واقعات ہم تجھے سنا رہے ہیں۔ تاکہ تیرے دل کو ہم اور مضبوط کر دیں اور تجھے کامل سکون حاصل ہو جائے۔ اس سورت میں بھی حق تجھ پر واضح ہو چکا ہے کہ اس دنیا میں بھی تیرے سامنے سچے واقعات بیان ہو چکے ہیں۔ یہ عبرت ہے کفار کے لیے اور نصیحت ہے مومنوں کے لیے کہ وہ اس سے نفع حاصل کریں۔

تذکرہ کی تکرار کیوں ؟

انبیاء کرام علیہم السلام کے حالات بار بار بیان کرنے کے اللہ تعالیٰ نے تین فائدے بتلائے ہیں۔ ایک یہ کہ جن مشکلات سے آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دو چار ہیں ایسے ہی حالات سے تمام سابقہ انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کو بھی دوچار ہونا پڑا تھا۔ آخر اللہ نے مخالفین کا سر توڑ دیا اور انبیاء اور مومنوں کو بچا لیا اور کامیاب کیا لہذا آپ صبر سے کام لیں اور اپنے عزم کو مضبوط رکھیں۔ دوسرے یہ کہ آپ اور آپ کے پیروکاروں تک سابقہ انبیاء کے صحیح صحیح حالات پہنچ جائیں جن کی آپ کو پہلے سے خبر نہیں تھی۔ تیسرے یہ کہ ان لوگوں کے حالات میں آپ سب کے لیے بہت سے اسباق موجود ہیں یعنی
اللہ کے نافرمانوں کا بالآخر کیا انجام ہوتا ہے اور فرماں برداروں کا کیا؟

استقامت کی برکات:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
فصلت: ٣٠

(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو (30)

اس کی تفسیر میں وارد ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک رب بھی وہی اور معبود بھی وہی یہ نہیں کہ ربوبیت کا تو اقرار لیکن الوہیت میں دوسروں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔ یعنی سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان و توحید پر قائم رہے، اس سے انحراف نہیں کیا بعض نے استقامت کے معنی اخلاص کیے ہیں یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت واطاعت کی جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے ایسی بات بتلا دیں کہ آپ کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قل آمنت باللہ ثم استقم
(صحیح مسلم کتاب الایمان)
کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر، یعنی موت کے وقت، بعض کہتے ہیں، فرشتے یہ خوشخبری تین جگہوں پر دیتے ہیں، موت کے وقت، قبر میں اور قبر سے دوبارہ اٹھتے وقت، یعنی آخرت میں پیش آنے والے حالات کا اندیشہ اور دنیا میں مال و اولاد جو چھوڑ آئے ہو، ان کا غم نہ کرو۔ یعنی دنیا میں جس کا وعدہ تمہیں دیا گیا تھا۔
یعنی جن لوگوں نے دل و جان سے توحید باری تعالیٰ کا اقرار کیا۔ پھر تازیست اپنے اس قول و قرار کو پوری دیانتداری اور راست بازی سے نبھایا۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت والوہیت میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ نہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہے جو کچھ زبان سے کہا تھا اس کے تقاضوں کو اعتقاداً اور عملاً پورا کیا۔ جو عمل کیا خالص اس کی خوشنودی اور شکرگزاری کے لیے کیا۔ اپنے رب کے مقرر کردہ حقوق و فرائض کو سمجھا اور ادا کیا۔ ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے جنت کی خوشخبری دینے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔

واللہ تعالٰی اعلم
وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم

No comments:

Post a Comment