Sunday, 1 November 2015

غیرمسلم ممالک میں سودی لین دین

جب تم سودی لین دین کرنے لگوگے،گائے کی دم تھام لوگے، کھیتی باڑی پر راضي ہوگے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالی تم پر ذلت مسلط کردے گا اور اس وقت تک اسے دور نہیں کرے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہ آؤگے
سنن ابی داؤد:3003
کیا غیرمسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے؟
سوال:مسلمانوں میں ایک طبقہ ایساہے، جو بینک اور حکومت کے دیگر اداروں کی طرف سے دیے جانے والے سود کو جائز قرار دیتاہے۔ اس کا یہ بھی خیال ہے کہ ہندستان دارالحرب ہے، اس لیے یہاں کے مسلمان غیرمسلموں سے ہی نہیں، بلکہ مسلمانوں سے بھی سود لے سکتے ہیں۔ اگر کوئی ملک واقعی دارالحرب ہے تو کیا اس ملک میں سود کا لین دین مسلمانوں کے درمیان جائز ہے؟ فقہ کے اس مسئلے کا تعلق قیاس سے ہے یا حدیث سے؟ اس کے جواز میں بطور دلیل کوئی حدیث ہے تو براہ مہربانی نقل کیجیے۔ سود کا تعلق گہرے طورپر اخلاقیات سے ہے۔ یہ بات اسلامی روح کے خلاف نظر ٓرہی ہے کہ دارالاسلام میں توسود حرام ہو، لیکن دارالحرب میں مسلمان غیرمسلموں سے سود لے۔ جس طرح زنا اور چوری مسلم ملک میں حرام ہے، اسی طرح سود بھی مسلمانوں کے لیے ہر ملک اور ہر صورت میں حرام ہونا چاہیے۔ جواب براہ کرم مدلّل طورپر اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں:
                                                                                                                                                           محمد اشفاق حسین
الاوہ بی بی، حیدرآباد
جواب: فقہ و فتاویٰ کی کتابیں دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس مسئلے پر فقہائ احناف کے دو گروپ ہیں۔ کچھ علمائ غیرمسلم ممالک میں سودی لین دین کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ وہ ’ربا‘ نہیں ہے، جس سے قرآن و حدیث میں سختی سے منع کیاگیا ہے۔ جب کہ دیگر اسے ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کی حرمت کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ یہ اختلاف فقہاے احناف میں ابتدا ہی سے پایاجاتاہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگرد امام محمدؒ جواز کے قائل ہیں، جبکہ ان ک دوسرے شاگرد امام یوسفؒ کے نزدیک یہ حرام اور ممنوع ہے۔ دیگر فقہائ: امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک بھی سودی کاروبار ، خواہ کسی مسلم ملک میں ہو یا غیرمسلم ملک میں، ہرحال میں حرام ہے۔ یہ بحث فقہ حنفی کی تمام مشہور کتابوںمیں ملتی ہے۔ مثلاً ملاحظہ کیجیے اسرالکبیر ﴿خسی﴾، المبسوط ﴿خسی﴾، المختصر﴿قدوری﴾، الھدایۃ ﴿مرغینانی﴾، فتح القدیر ﴿ابن ہمام﴾، کنزالدقائق ﴿نسفی﴾، البحرالرائق ﴿ابن بخیم﴾، فتاویٰ عالم گیری اور ردالمحتار﴿ابن عابدین شامی﴾ وغیرہ۔ یہ اختلاف فقہاے متاخرین میں بھی پایاجاتا ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالحی لکھنؤیؒ ﴿مجموعۃ الفتاویٰ﴾، مفتی کفایت اللہ ﴿کفایت المفتی﴾، مفتی محمود حسن گنگوہیؒ ﴿فتاویٰ محمودیہ﴾، مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ ﴿فتاویٰ رضویہ﴾ اور بعض دیگر فقہاے احناف نے غیرمسلم ممالک میں غیرمسلموں سے سودی لین دین کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ دونوں فریقوں کے دلائل میں غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ جواز کے قائلین کا موقف کم زور ہے۔ ان حضرات نے عام طورپر اپنی تائیدمیں یہ حدیث پیش کی ہے :
لاَرِبَابَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ بَیْنَ اَھْلِ الْحَرْبِ فِی دَارِالحَرْبِ
‘‘دارالحرب میں مسلمانوں اور اہل حرب کے درمیان ربا نہیں’’
اس حدیث کو امام ابوحنیفہؒ نے امام مکحولؒ سے روایت کیا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ مکحولؒ صغار تابعین میں سے ہیں۔ معلوم ہواکہ درمیان میں صحابی کا نام چھوٹ گیاہے۔ یعنی یہ حدیث مرسل ہے۔ اگرچہ احناف اور مالکیہ نے فقہ تابعی کی مرسل روایت کو قابل استدلال قرار دیاہے، لیکن دیگر علمائ اس کا شمار حدیث ضعیف کی اقسام میں کرتے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ حدیث اپنے مضمون میں صریح نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں نفی نہی کے معنی میں ہو۔ یعنی دارالحرب میں بھی مسلمان اہل حرب کے ساتھ سودی معاملے نہ کریں۔ جواز کے قائلین نے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ حرمتِ ربا کی آیت ﴿آل عمران: ۱۳۰﴾۳/ہجری میں غزوۂ احد کے موقعے پر نازل ہوئی تھی۔ اس وقت حضرت ابن عباسؓ مسلمان ہوچکے تھے اور مکہ میں مقیم تھے۔وہ اس کے بعد بھی سالوں تک مکہ میں رہے اور وہاں کے مشرکین سے سودی کاروبار کرتے رہے۔ یہ دلیل بھی قوی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ممکن ہے کہ مکہ میں رہنے کی وجہ سے انھیں اس حکم کا علم نہ ہوپایاہو۔
واقعہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میںحرمتِ سود کاحکم اتنے سخت الفاظ میں بیان کیاگیا ہے کہ انھیں پڑھ کر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَّذِیْنَ یَاکُلُوْنَ الرِّبوٰ لَایَقُوْمُوْنَ اِلَّاکَمَا یُقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ط ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَآلُوا اِنَّمَا البَیْعُ مِثْلُ الرِّبوٰ ط وَاَحَلّ اللّٰہُ البَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰ ط فَمَنْ جَآئَ ہ‘ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَبِّہِ فَانْتَھِی فَلَہ‘ مَاسَلَفَ ط وَاَمَرُہ‘ الٰی اللّٰہِ ط وَمَنْ عَادَ فَاُولٰئکَ اَصْحٰبُ النّارِ ج ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَo          ﴿البقرۃ:۲۷۵﴾
‘‘جو لوگ سود کھاتے ہیں،ان کاحال اس شخص کا سا ہوتاہے، جسے شیطان نے چھوکر باولاکردیا ہو، اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : ’’تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے۔ حالاں کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آیندہ کے لیے وہ سودخوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا، سو کھاچکا، اس کامعاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کااعادہ کرے وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔’’
اسی سورت میں آگے چند آیتوں کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَٰآیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا تَّقُوا اللّٰہ وَ ذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوآ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِیْنَo فِاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٰ ج وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وُسُ اَمْوَالِکُمْ ج لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَاتُظْلِمُوْنَ o                                            ﴿البقرہ: ۲۷۹﴾
‘‘اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیاہے اسے چھوڑدو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو، لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولﷺکی طرف سے تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو ﴿اور سود چھوڑدو﴾ تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیاجائے۔’’
سورۂ آل عمران میں ہے:
یَٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تَاکُلُوا الرِّبٰوآَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً ص وَاتَّقُوااللّٰہ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ  ﴿آل عمران: ۱۳                         
‘‘اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑدو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤگے۔’’
حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الرِّبَاسَبْعُوْنَ جُزْئ اً اَیْسَرُھَا اَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہ‘  ﴿بیہقی، شعب الایمان، حدیث: ۳۳۱۵، ابن ماجہ، سنن، حدیث: ۳۷۲۲﴾
‘‘ود کے گناہ کے ستر درجے ہیں۔ اس کا سب سے کم تر درجہ ایساہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔’’
قرآن کریم کی مذکورہ بالاآیات مطلق ہیں۔ ان میں مسلمانوں کو سود سے بچنے کاحکم دیاگیاہے اور باز نہ آنے والوں کو شدید وعید سنائی گئی ہے۔ اس بنا پر سودی لین دین چاہے مسلمانوں کے درمیان ہو یا مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان، کسی مسلم ملک میں ہو یا غیرمسلم ملک میں، ہر جگہ اور ہر حال میں حرام اور ناجائز ہے۔ ماضی قریب کے متعدد اکابر علمائ نے یہی فتویٰ دیاہے۔ مثلاً ملاحظہ کیجیے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ﴿فتاویٰ رشیدیہ﴾ مولانا اشرف علی تھانویؒ ﴿امدادالفتاویٰ﴾، مولانا مفتی محمد شفیع ؒ ﴿امداد المفتین﴾، مولانا سیدنذیرحسین دہلویؒ ﴿فتاویٰ نذیریہ﴾ اور مولانا ثنائ اللہ امرتسریؒ ﴿فتاوی ثنائیہ﴾ کے فتاوے۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی.

No comments:

Post a Comment