غیر مقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے بارے میں شیخ سلیمان بن محمد بن جمہور النجدی کا فتوی:
⬅تفسیر القرآن بکلام الرحمن میں جن آیات کی تفسیر میں نے دیکھی ہے اس کا مفسر خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے ـ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جہمی ہے، اس کی تمام کوششیں اس تصنیف میں ضائع ہوگئیں ـ اور الٹا ان سب لوگوں کا گناہ سمیٹ لیا، جنہوں نے اس کی مبتدعات کی اتباع کی، پس مولوی ثناء اللہ شرعا ہرطرح پایہ عدالت سے ساقط ( یعنی ان کی شہادت نامقبول) ہے، پس مسلمانوں پر تو یہ واجب ہے کہ مولوی ثناء اللہ سے مقاطعہ کریں........ ـ
( اصل فتوی عربی زبان میں ہے، ترجمہ کرنے والا غیر مقلد ہے
فیصلہ مکہ20
تنبیہ: نہ تو احقر مولانا مرحوم پر ضلالت وگمراہی کا فتوی لگارہا ہے، نہ اس لائق ہے اور نہ اس منقول شدہ عبارت سے کسی کو ناجائز فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے، نقل کرنے کا مقصد صرف اور صرف غیر مقلدین کو ان کی اور ان کے اکابرین کی پوزیشن سے آگاہ کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ جب تمہارے شیخ الاسلام کی خود تمہارے نزدیک یہ حقیقت ہے، تو تمہارا کیا حال ہوگا؟
آیات متشابہات پر ایمان کیسے لایاجائے؟
قرآن کریم میں دو قسم کی آیات ہیں ایک آیات محکمات (یعنی جن کے معنی واضح ہیں)
اور دوسری آیات متشابہات (یعنی جن کے معنی معلوم یا معین نہیں)
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿آل عمران ۷﴾
ترجمہ:”وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں ہیں وہ اصل ہیں کتاب کی اور دوسری ہیں متشابہ سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے اور مضبوط علم والے کہتےہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی
طرف سے اتری ہیں اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے“۔
اس میں کسی کو شبہ نہیں کہ كهيعص ، يٰس ، حٰم ، ن ، يد ، عين ، استويٰ علي العرش
وغیرہ آیات کی اصل مراد اللہ کے سوائے کوئی نہیں جانتا اور یہ آیات ِمتشابہات میں سے ہیں جس طرح سے كهيعص وغیرہ (حروف مقطعات) کی مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اسی طرح استویٰ ، يد ، عين
وغیرہ بلا شبہ متشابہات میں سے ہیں اور انکی مراد بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
لہذا ان پر ایمان لانے کیلئے پہلے ان کی مراد بھی معلوم ہو والی بات قطعاً غلط ہے۔ اللہ کی مراد کو اسی کے سپرد کرکے بھی ایمان لایا جاسکتا ہے اور ایسا لانا ہی اللہ کا حکم ہے جیسا دوسرے متشابہات پر لایا جاتا ہے۔ حروف مقطعات کے متعلق کوئی بیوقوف نہیں کہتا ہے کہ اگر تمہیں ان کی اصل مراد کا علم نہیں تو تم ان پر ایمان نہیں لاسکتے۔ اگر ایمان
لانے کیلئے اللہ کی مراد کا معلوم ہونا ضروری ہوتا تو اللہ تعالٰی پھر اپنی کتاب قرآن مجید میں ان کو تقسیم ہی کیوں کرتا ؟
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
”جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں“۔(الإتقان في علوم القرآن ج 3 ص 14)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا
کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو قرآن شریف کی متشابہ آیات کی ٹٹول میں لگے رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انہی کا ذکر فرمایا ہے لہٰذا ان کی صحبت سے پرہیز کرتے رہو۔ (بخاری ج 6 ص 33)
آپ ہی بتلائیں اس طرح کا عتیدہ رکھنے والے اگر یہ لامذہب غیر مقلد وہی نہیں جن کے متعلق اللہ اور رسول نے خبر دی ہے تو پھر اور کون ہیں۔؟؟؟؟؟؟؟؟
پیشکش : تحفظ سنت میڈیا تلنگانہ و آندھرا
No comments:
Post a Comment