اسلامی سلام کی سنت حضرت آدم علیہ السلام سے چلی آرہی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ارشاد فرمایا: اے آدم! فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام گئے اور فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم فرمایا، فرشتوں نے جواب میں عرض کیا وعلیکم السلام ورحمة اللہ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم یہ سلام تمہاری اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے۔ (بخاری کتاب الاستیذان ۲/۲۱۹)
دنیا کی تمام متمدن ومہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت، جذبہٴ اکرام وخیراندیشی کا اظہار کرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے، آج کے نام نہاد ترقی یافتہ زمانہ میں گڈ مارننگ اور گنائی تک کی نوبت آگئی ہے جبکہ بعض روشن خیال حضرات صبح بخیر و شب بخیر کہنے سے بھی نہیں چوکتے.حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبل از اسلام عرب کی عادت تھی، کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو
حَیَّاکَ اللہ
اللہ تم کو زندہ رکھے
أنْعَمَ اللہ بِکَ عَیْنًا
اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے
أَنْعِمْ صَبَاحًا
تمہاری صبح خوش گوار ہو
وغیرہ جملے استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کی بجائے
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں
تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو
ابن العربی نے احکام القرآن میں فرمایا: لفظ ”سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے اور ”السلام علیکم“ کے معنی ہیں ”اللہ رقیب علیکم“ اللہ تمہارا محافظ ہے (مستفاد ازمعارف القرآن ۲/۵۰۱)
سلام کی جامعیت ومعنویت:
سلام نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے کہ یہ کلمہ پیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں:
(1) سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ہے۔ (بخاری ۲/۹۲۰ کتاب الاستیذان)
(2) اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھیں۔
(3) عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی دعا نہیں؛ بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعاء ہے۔
(4) سلام کرنے والا اپنی زبانِ حال سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں۔
(5) تذکیرہے، یعنی اس لفظ کے ذریعہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو اس کے ارادہ ومشیت کے بغیر نفع، ونقصان پہنچانہیں سکتے۔
(6) یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی۔
(7) قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء ورسل علیہم السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال ہوا ہے اوراس میں عنایت اور محبت کا رس بھرا ہوا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِي الْعَالَمِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ، سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ، سَلاَمٌ عََٰی الْمُرْسَلِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی․
(8) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کیا جاتاہے۔
(9) تمام ایمان والوں کو نماز میں بھی اس لفظ سے نبی علیہ الصلوٰة والسلام پر دُرود بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(۱۰) آخرت میں موٴمنین کے جنت میں داخلہ کے وقت کہا جائے گا ”أُدخلُوہا بسلامٍ، سلامٌ عَلَیکُمْ بما صَبَرْتُم، فَنِعْمَ عُقبی الدارِ“ (مستفاد از معارف القرآن ۲/۵۰۱، معارف الحدیث۶/۱۴۹)
سلام کی اہمیت وفضیلت:
سلام، اسلام کا شعار، سلام جنتیوں کا سلام، اللہ سے قریب کرنے والا، محبتوں کو پیداکرنے والا، نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو مٹانے والا ہے، باہمی تعلق واعتماد کا وسیلہ اور فریقین کے لیے موجبِ طمانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہم سلام کارواج دینے اور عام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی کہ اسلامی دنیا کی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اوراس کے فضائل وبرکات اور اجر وثواب کو بیان فرمایا ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے؛ جب تک کہ مومن نہ بن جاؤ اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا؛ جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرو۔(مسلم کتاب الایمان۱/۵۴)
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لوگو! خداوند رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ (محتاج اور مسکین بندوں کو بطور صدقہ کے اور دوستوں عزیزوں اور اللہ کے نیک بندوں کو بطور ہدیہ، اخلاص اورمحبت کے کھانا کھلایا جائے، جو لوگوں کو جوڑنے اور باہم محبت والفت پیداکرنے کا بہترین وسیلہ ہے) اور سلام کو پھیلاؤ تو تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤگے (ترمذی، باب الاستیذان ۲/۹۸، ابوداؤد، ابواب السلام ۲/۷۰۶)
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اے بیٹے جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاؤ تو سلام کیاکرو، یہ سلام تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت کا سبب ہوگا۔(ترمذی ۲/۹۹)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے (بخاری۲/۹۲۱)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۷)
حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا حضرات صحابہ کرامرضی اللہ عنہم پر غیرمعمولی اثر ہوا اور ان حضرات نے سلام کو اپنی عملی زندگی کا ایک جزء لا ینفک بنالیا، اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگاسکتے ہیں، حضرت طفیل بن ابی بن کعب فرماتے ہیں: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ مجھے لے کر اکثر بازار جایا کرتے تھے، بازار میں تاجر، خریدار، مسکین، گری پڑی چیز اٹھانے والا، غرض ہر کسی کو جس سے ملاقات ہوتی سلام کرتے، ایک دن میں نے عرض کیا، حضرت بازار میں آپ نہ خریدو فروخت کرتے ہیں، نہ بازار میں آپ کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بازار جانے کے بجائے، آپ یہاں تشریف رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کریں ہم سنیں گے، تو حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے بطین (پیٹ والے) ہم بازار صرف مسلمانوں کو سلام کرنے کے لیے جاتے ہیں (کہ بازار میں لوگ ضروریات کی وجہ سے زیادہ رہتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں سے ملاقات کریں گے، انھیں سلام کریں گے اور زیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
سلام کا اجر وثواب:
سلام کرنا سنت ہے اورجواب دینا واجب ہے، واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتاہے، لیکن سلام کرنے کی سنت کا ثواب جواب دینے کے واجب سے زیادہ ہے۔ (مرقاة المفاتیح ۸/۴۲۱ باب السلام)
جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے، اگربغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دے تو گنہگار ہوگا؛ البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے، دوسرے یہ کہ بعینہ انھیں الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ (معارف القرآن ۲/۵۰۴)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور السلام علیکم کہا، آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا، اور وہ شخص بیٹھ گئے، آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: دس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک دوسرے آدمی حاضر حدمت ہوئے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کہا، آپ علیہ السلام نے جواب دیا اور وہ آدمی بیٹھ گئے اور آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بیس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک تیسرے شخص حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا: تیس نیکیاں۔ (ترمذی ۲/۹۸، ابوداؤد۲/۷۰۶)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے کے بعد تیس اور ہر ایک کلمہ پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔
حَیَّاکَ اللہ
اللہ تم کو زندہ رکھے
أنْعَمَ اللہ بِکَ عَیْنًا
اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے
أَنْعِمْ صَبَاحًا
تمہاری صبح خوش گوار ہو
وغیرہ جملے استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کی بجائے
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں
تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو
ابن العربی نے احکام القرآن میں فرمایا: لفظ ”سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے اور ”السلام علیکم“ کے معنی ہیں ”اللہ رقیب علیکم“ اللہ تمہارا محافظ ہے (مستفاد ازمعارف القرآن ۲/۵۰۱)
سلام کی جامعیت ومعنویت:
سلام نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے کہ یہ کلمہ پیار ومحبت اوراکرام کے اظہار کے لیے بہترین لفظ ہے اوراس کی کئی معنوی خصوصیات ہیں:
(1) سلام اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ میں سے ہے۔ (بخاری ۲/۹۲۰ کتاب الاستیذان)
(2) اس کلمہ میں صرف اظہارِ محبت ہی نہیں؛ بلکہ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ تمام آفات اور آلام سے محفوظ رکھیں۔
(3) عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی دعا نہیں؛ بلکہ حیاتِ طیبہ کی دعاء ہے۔
(4) سلام کرنے والا اپنی زبانِ حال سے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ یہ وعدہ بھی کرتا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال اور آبرو کا میں محافظ ہوں۔
(5) تذکیرہے، یعنی اس لفظ کے ذریعہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو اس کے ارادہ ومشیت کے بغیر نفع، ونقصان پہنچانہیں سکتے۔
(6) یہ کلمہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت، مرحمت اور پیار ومحبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لیے اکرام وتعظیم کا لفظ بھی۔
(7) قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء ورسل علیہم السلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال ہوا ہے اوراس میں عنایت اور محبت کا رس بھرا ہوا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے، سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍ فِي الْعَالَمِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ، سَلاَمٌ عَلٰی مُوْسٰی وَہَارُوْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ، سَلاَمٌ عََٰی الْمُرْسَلِیْنَ، سَلاَمٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی․
(8) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کیا جاتاہے۔
(9) تمام ایمان والوں کو نماز میں بھی اس لفظ سے نبی علیہ الصلوٰة والسلام پر دُرود بھیجنے کی تلقین کی گئی ہے۔
(۱۰) آخرت میں موٴمنین کے جنت میں داخلہ کے وقت کہا جائے گا ”أُدخلُوہا بسلامٍ، سلامٌ عَلَیکُمْ بما صَبَرْتُم، فَنِعْمَ عُقبی الدارِ“ (مستفاد از معارف القرآن ۲/۵۰۱، معارف الحدیث۶/۱۴۹)
سلام کی اہمیت وفضیلت:
سلام، اسلام کا شعار، سلام جنتیوں کا سلام، اللہ سے قریب کرنے والا، محبتوں کو پیداکرنے والا، نفرتوں، کدورتوں اور عداوتوں کو مٹانے والا ہے، باہمی تعلق واعتماد کا وسیلہ اور فریقین کے لیے موجبِ طمانیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہم سلام کارواج دینے اور عام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی کہ اسلامی دنیا کی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اوراس کے فضائل وبرکات اور اجر وثواب کو بیان فرمایا ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے؛ جب تک کہ مومن نہ بن جاؤ اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا؛ جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرو۔(مسلم کتاب الایمان۱/۵۴)
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لوگو! خداوند رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ (محتاج اور مسکین بندوں کو بطور صدقہ کے اور دوستوں عزیزوں اور اللہ کے نیک بندوں کو بطور ہدیہ، اخلاص اورمحبت کے کھانا کھلایا جائے، جو لوگوں کو جوڑنے اور باہم محبت والفت پیداکرنے کا بہترین وسیلہ ہے) اور سلام کو پھیلاؤ تو تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤگے (ترمذی، باب الاستیذان ۲/۹۸، ابوداؤد، ابواب السلام ۲/۷۰۶)
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اے بیٹے جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاؤ تو سلام کیاکرو، یہ سلام تمہارے لیے اور تمہارے گھر والوں کے لیے برکت کا سبب ہوگا۔(ترمذی ۲/۹۹)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے بندوں کو کھانا کھلانا اور جانا پہچانا اورانجان ہر ایک کو سلام کرنا، سب سے افضل عمل ہے (بخاری۲/۹۲۱)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کو مسلم معاشرہ میں عام کرنے کی انتہائی تاکید فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے، پھر کچھ دیر بعد دیوار، درخت یا پتھر درمیان میں حائل ہوجائے تو پھر دوبارہ سلام کرے، یعنی جتنی بار ملاقات ہواتنی بار سلام کرتا رہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۷)
حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل کرتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا حضرات صحابہ کرامرضی اللہ عنہم پر غیرمعمولی اثر ہوا اور ان حضرات نے سلام کو اپنی عملی زندگی کا ایک جزء لا ینفک بنالیا، اس کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگاسکتے ہیں، حضرت طفیل بن ابی بن کعب فرماتے ہیں: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ مجھے لے کر اکثر بازار جایا کرتے تھے، بازار میں تاجر، خریدار، مسکین، گری پڑی چیز اٹھانے والا، غرض ہر کسی کو جس سے ملاقات ہوتی سلام کرتے، ایک دن میں نے عرض کیا، حضرت بازار میں آپ نہ خریدو فروخت کرتے ہیں، نہ بازار میں آپ کسی مجلس میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا بازار جانے کے بجائے، آپ یہاں تشریف رکھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کریں ہم سنیں گے، تو حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے بطین (پیٹ والے) ہم بازار صرف مسلمانوں کو سلام کرنے کے لیے جاتے ہیں (کہ بازار میں لوگ ضروریات کی وجہ سے زیادہ رہتے ہیں اور ہم زیادہ مسلمانوں سے ملاقات کریں گے، انھیں سلام کریں گے اور زیادہ ثواب حاصل کریں گے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
سلام کا اجر وثواب:
سلام کرنا سنت ہے اورجواب دینا واجب ہے، واجب کا ثواب سنت سے زیادہ ہوتاہے، لیکن سلام کرنے کی سنت کا ثواب جواب دینے کے واجب سے زیادہ ہے۔ (مرقاة المفاتیح ۸/۴۲۱ باب السلام)
جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے، اگربغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دے تو گنہگار ہوگا؛ البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ میں سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے، دوسرے یہ کہ بعینہ انھیں الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ (معارف القرآن ۲/۵۰۴)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور السلام علیکم کہا، آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا، اور وہ شخص بیٹھ گئے، آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: دس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک دوسرے آدمی حاضر حدمت ہوئے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کہا، آپ علیہ السلام نے جواب دیا اور وہ آدمی بیٹھ گئے اور آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بیس نیکیاں، کچھ دیر بعد ایک تیسرے شخص حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے ارشاد فرمایا: تیس نیکیاں۔ (ترمذی ۲/۹۸، ابوداؤد۲/۷۰۶)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ مکمل سلام کرنے کے بعد تیس اور ہر ایک کلمہ پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔
سلام کے آداب:
اااااااااااااااااااااااااااا
(1) سلام کرنے میں پہل کرے؛ اس لیے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیداہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرنے والا ہو۔ (ترمذی ۲/۹۹، ابوداؤد۲/۷۰۶)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا کبرونخوت سے بری ہوتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
(2) سلام کرنے والا اور سلام کا جواب دینے والا ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ صیغہٴ جمع استعمال کریں، اگرچہ مخاطب اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔ (الاذکار النوویة:۱۹۴)
(3) سلام اتنی بلند آواز سے کرے کہ سلام کیے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ورنہ جواب کا مستحق نہ ہوگا، نیز جواب دینے والا بھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دے ورنہ جواب ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ (الاذکار النوویة:۱۹۵)
(4) جب کوئی سلام کرے تو بہتر طریقہ پر جواب دینا، کم از کم ویسے ہی الفاظ سے جواب دینا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب تمہیں سلام کیاجائے تو تم سلام سے بہتر الفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔ (النساء:۸۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی کہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ آپ نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا کہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ“ پھر ایک صاحب آئے انھوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة اللہ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ“ پھر ایک اور صاحب آئے انھوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھا کر کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ ”وعلیک“ ارشاد فرمایا: ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں دعاء کے کئی کلمات ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ”وعلیک“ پر اکتفاء فرمایا، آپ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے، اس لیے ہم نے تمہارے سلام کا جواب قرآنی تعلیم کے مطابق جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کرلیا، اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیاہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۳)
(5) عزیز، دوست، چھوٹے، بڑے، جانے پہچانے اور انجانے سب کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(6) چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(7) سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔(بخاری۲/۹۲۱)
(8) پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(9) چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(10) اپنے محارم کو سلام کرے۔ (ترمذی۲/۹۹)
(11) جب گھر یا مسجد میں داخل ہو، وہاں اس کے علاوہ کوئی نہ ہوتو ان الفاظ سے سلام کرے، السلامُ علینا وعلی عبادِ اللّٰہ الصالحین(ہندیہ۵/۳۲۶)
(12) اگر کوئی غائب شخص سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے، وعلیک وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ (ترمذی۲/۹۹)
(13) اگر ایک شخص ایک جماعت کو سلام کرے تو جماعت میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے، تمام حاضرین کا جواب دینا افضل ہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۸)
(14) اگر سلام کرنے والی ایک جماعت ہوتو صرف ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے؛ البتہ تمام کا سلام کرنا افضل ہے۔ (الاذکار النوویة:۱۹۶)
(15) اگر مسلم اور غیرمسلم کا مخلوط مجمع ہوتو مسلمان کی نیت سے سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
(16) جب کسی کی ملاقات سے فارغ ہوکر رخصت ہونے لگے تو سلام وداع کرے، یہ بھی سنت ہے۔ (ترمذی۲/۱۰۰)
(17) جب کسی کے پاس کوئی تحریر لکھے تو السلام علیکم سے کلام کا آغاز کرے۔ (بخاری۲/۹۲۶)
(18) اگر مسلمان دو ہو یا بہرا ہوتو ہاتھ سے اشارہ بھی کرے اور زبان سے لفظ سلام بھی کہے، صرف اشارہ پر اکتفاء نہ کرے۔ (الاذکارالنوویة:۱۹۶)
(19) سلام یا جوابِ سلام میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر مزید کلمات کا اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۴)
(20) اگر کسی غیرمسلم کے پاس خط لکھے تو ”السلام علی من اتبع الہدی“ تحریر کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
اااااااااااااااااااااااااااا
(1) سلام کرنے میں پہل کرے؛ اس لیے کہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع پیداہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اللہ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرنے والا ہو۔ (ترمذی ۲/۹۹، ابوداؤد۲/۷۰۶)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سلام میں پہل کرنے والا کبرونخوت سے بری ہوتا ہے۔ (مشکوٰة:۴۰۰)
(2) سلام کرنے والا اور سلام کا جواب دینے والا ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ صیغہٴ جمع استعمال کریں، اگرچہ مخاطب اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔ (الاذکار النوویة:۱۹۴)
(3) سلام اتنی بلند آواز سے کرے کہ سلام کیے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ورنہ جواب کا مستحق نہ ہوگا، نیز جواب دینے والا بھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دے ورنہ جواب ذمہ سے ساقط نہ ہوگا۔ (الاذکار النوویة:۱۹۵)
(4) جب کوئی سلام کرے تو بہتر طریقہ پر جواب دینا، کم از کم ویسے ہی الفاظ سے جواب دینا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب تمہیں سلام کیاجائے تو تم سلام سے بہتر الفاظ سے جواب دو، یا اسی کے مثل جواب دو۔ (النساء:۸۶)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی کہ ایک مرتبہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ آپ نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا کہ ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ“ پھر ایک صاحب آئے انھوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة اللہ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ“ پھر ایک اور صاحب آئے انھوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھا کر کہا ”السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ ”وعلیک“ ارشاد فرمایا: ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں دعاء کے کئی کلمات ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ”وعلیک“ پر اکتفاء فرمایا، آپ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے، اس لیے ہم نے تمہارے سلام کا جواب قرآنی تعلیم کے مطابق جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کرلیا، اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیاہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۳)
(5) عزیز، دوست، چھوٹے، بڑے، جانے پہچانے اور انجانے سب کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(6) چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(7) سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔(بخاری۲/۹۲۱)
(8) پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(9) چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۱)
(10) اپنے محارم کو سلام کرے۔ (ترمذی۲/۹۹)
(11) جب گھر یا مسجد میں داخل ہو، وہاں اس کے علاوہ کوئی نہ ہوتو ان الفاظ سے سلام کرے، السلامُ علینا وعلی عبادِ اللّٰہ الصالحین(ہندیہ۵/۳۲۶)
(12) اگر کوئی غائب شخص سلام پہنچائے تو اس طرح جواب دے، وعلیک وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ (ترمذی۲/۹۹)
(13) اگر ایک شخص ایک جماعت کو سلام کرے تو جماعت میں سے ایک شخص کا جواب دینا کافی ہے، تمام حاضرین کا جواب دینا افضل ہے۔ (ابوداؤد۲/۷۰۸)
(14) اگر سلام کرنے والی ایک جماعت ہوتو صرف ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے؛ البتہ تمام کا سلام کرنا افضل ہے۔ (الاذکار النوویة:۱۹۶)
(15) اگر مسلم اور غیرمسلم کا مخلوط مجمع ہوتو مسلمان کی نیت سے سلام کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
(16) جب کسی کی ملاقات سے فارغ ہوکر رخصت ہونے لگے تو سلام وداع کرے، یہ بھی سنت ہے۔ (ترمذی۲/۱۰۰)
(17) جب کسی کے پاس کوئی تحریر لکھے تو السلام علیکم سے کلام کا آغاز کرے۔ (بخاری۲/۹۲۶)
(18) اگر مسلمان دو ہو یا بہرا ہوتو ہاتھ سے اشارہ بھی کرے اور زبان سے لفظ سلام بھی کہے، صرف اشارہ پر اکتفاء نہ کرے۔ (الاذکارالنوویة:۱۹۶)
(19) سلام یا جوابِ سلام میں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ پر مزید کلمات کا اضافہ کرنا خلافِ سنت ہے۔ (معارف القرآن۲/۵۰۴)
(20) اگر کسی غیرمسلم کے پاس خط لکھے تو ”السلام علی من اتبع الہدی“ تحریر کرے۔ (بخاری۲/۹۲۴)
کن لوگوں کو سلام کرنا مکروہ ہے؟
اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا
(1) بے ایمان کو سلام کرنا مکروہ تحریمی ے، اگر وہ ابتداءً سلام کرے تو ”علیک“ پر اکتفاء کرے۔ (مرقات۸/۴۲۰)
(2) زندیق کو سلام کرنا (شامی۲/۳۷۷، مفسدات الصلوٰة)
(3) جو شخص برسرعام گناہ اور فسق میں مبتلا ہو اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے۔(بخاری۲/۹۲۵)
(4) جوان اجنبی عورتوں اور اجنبی مردوں کو سلام کرنا مکروہ ہے،اگر اجنبی نہایت بوڑھا یا بوڑھی ہوتو سلام کرنا جائز ہے۔ (ہندیہ۵/۳۲۶)
(5) بدعتی کو سلام کرنا۔ (مرقات ۸/۴۲۰)
نوٹ: بے ایمان کو کسی ضرورت کی وجہ سے سلام کرنا یعنی معاشرتی الفاظ استعمال کرنا مثلاًصبح بخیر، آداب وغیرہ جائزہے، مذہبی الفاظ ”نمستے“ کہنا جائز نہیں۔ (الاذکار النوویة:۲۰۲، فتاویٰ رحیمیہ ۶/۲۵۶)
مندرجہ ذیل مواقع میں سلام نہ کرے:
ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا
(1) نمازپڑھنے والے (2) تلاوت کرنے والے (3) دینی باتوں (حدیث، فقہ وغیرہ) کے بیان کرنے والے (4) ذکر کرنے والے (5) اذان دینے والے (6) اقامت کہنے والے (7) جمعہ اور عیدین وغیرہ خطبات دینے والوں کو دینی امور میں مصروف ہونے کی وجہ سے سلام کرنا مکروہ ہے۔
(8) اذان، اقامت اور خطبات کے دوران سلام کرنا مکروہ ہے،
اگر کوئی ان مواقع میں سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)
(9) کھانے والے کو سلام کرنا۔
(10) قضاء حاجت میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
(11) جماع میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
(12) جس آدمی کا ستر کھلا ہوا ہو اس کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے؛ اس لیے کہ موجودہ صورت حال میں جواب دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)
مندرجہ بالا صورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں؛ البتہ بعض صورتوں میں عمل موقوف کرکے جواب دے سکتا ہے، بعض صورتوں میں جواب کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔
اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا
(1) بے ایمان کو سلام کرنا مکروہ تحریمی ے، اگر وہ ابتداءً سلام کرے تو ”علیک“ پر اکتفاء کرے۔ (مرقات۸/۴۲۰)
(2) زندیق کو سلام کرنا (شامی۲/۳۷۷، مفسدات الصلوٰة)
(3) جو شخص برسرعام گناہ اور فسق میں مبتلا ہو اس شخص کو سلام کرنا مکروہ ہے۔(بخاری۲/۹۲۵)
(4) جوان اجنبی عورتوں اور اجنبی مردوں کو سلام کرنا مکروہ ہے،اگر اجنبی نہایت بوڑھا یا بوڑھی ہوتو سلام کرنا جائز ہے۔ (ہندیہ۵/۳۲۶)
(5) بدعتی کو سلام کرنا۔ (مرقات ۸/۴۲۰)
نوٹ: بے ایمان کو کسی ضرورت کی وجہ سے سلام کرنا یعنی معاشرتی الفاظ استعمال کرنا مثلاًصبح بخیر، آداب وغیرہ جائزہے، مذہبی الفاظ ”نمستے“ کہنا جائز نہیں۔ (الاذکار النوویة:۲۰۲، فتاویٰ رحیمیہ ۶/۲۵۶)
مندرجہ ذیل مواقع میں سلام نہ کرے:
ااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا
(1) نمازپڑھنے والے (2) تلاوت کرنے والے (3) دینی باتوں (حدیث، فقہ وغیرہ) کے بیان کرنے والے (4) ذکر کرنے والے (5) اذان دینے والے (6) اقامت کہنے والے (7) جمعہ اور عیدین وغیرہ خطبات دینے والوں کو دینی امور میں مصروف ہونے کی وجہ سے سلام کرنا مکروہ ہے۔
(8) اذان، اقامت اور خطبات کے دوران سلام کرنا مکروہ ہے،
اگر کوئی ان مواقع میں سلام کرے تو جواب کا مستحق نہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)
(9) کھانے والے کو سلام کرنا۔
(10) قضاء حاجت میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
(11) جماع میں مشغول آدمی کو سلام کرنا۔
(12) جس آدمی کا ستر کھلا ہوا ہو اس کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے؛ اس لیے کہ موجودہ صورت حال میں جواب دینے کی حالت میں نہیں ہیں۔ (شامی ۲/۳۷۵)
مندرجہ بالا صورتوں میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں؛ البتہ بعض صورتوں میں عمل موقوف کرکے جواب دے سکتا ہے، بعض صورتوں میں جواب کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔
از: مولانا عبداللطیف قاسمی، استاذ جامعہ غیث الہدیٰ بنگلور
سلام کرنے کی اہمیت
س… اسلام میں سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا اہمیت رکھتا ہے، کیا مسلمان کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہئے؟ صرف مسلمان کے سلام کا جواب دینا چاہئے یا غیرمسلم کو بھی سلام کا جواب دینا چاہئے؟
ج… سلام کہنا سنت ہے، اور اس کا جواب دینا واجب ہے، جو پہلے سلام کرے اس کو بیس نیکیاں ملتی ہیں اور جواب دینے والے کو دس۔ غیرمسلم کو ابتدا میں سلام نہ کہا جائے اور اگر وہ سلام کہے تو جواب میں صرف “وعلیکم” کہہ دیا جائے۔
سلام کے وقت پیشانی پر ہاتھ رکھنا اور بوسہ دینا
س… اسلام میں ملاقات کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ پیشانی تک ہاتھ اُٹھاکر سر کو ذرا جھکاکر سلام کرنا کیسا ہے؟ نیز بعض ملاقاتوں میں دیکھا گیا ہے کہ گلے ملتے وقت پیشانی یا کنپٹی کو بوسہ دیتے ہیں، یہ جائز ہے یا نہیں؟
ج… سلام کے وقت پیشانی پر ہاتھ رکھنا یا جھکنا صحیح نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ مصافحے کی اجازت ہے، اور تعظیم یا شفقت کے طور پر چومنے کی بھی اجازت ہے۔
مصافحہ ایک ہاتھ سے سنت ہے یا دونوں سے؟
س… مصافحہ ایک ہاتھ سے ہوتا ہے یا دونوں ہاتھوں سے سنت ہے؟ حدیث سے ثبوت فراہم فرمائیں۔
ج… صحیح بخاری (ج:۲ ص:۹۲۶) میں حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
“علمنی النبی صلی الله علیہ وسلم التشھد وکفّی بین کفّیہ۔”
ترجمہ:… “مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سکھائی، اور اس طرح سکھائی کہ میرا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔”
اِمام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث “باب المصافحة” کے تحت ذکر فرمائی ہے، اور اس کے متصل “باب الأخذ بالیدین” کا عنوان قائم کرکے اس حدیث کو مکرّر ذکر فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنتِ نبوی ہے، علاوہ ازیں مصافحہ کی رُوح، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تحریر فرمایا ہے:
“اپنے مسلمان بھائی سے بشاشت سے پیش آنا، باہمی اُلفت و محبت کا اظہار ہے۔” (حجة الله البالغہ ص:۱۹۸)
اور فطرتِ سلیمہ سے رُجوع کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تواضع، انکسار، اُلفت و محبت اور بشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیں پائی جاتی۔
نمازِ فجر اور عصر کے بعد نمازیوں کا آپس میں مصافحہ کرنا
س… نمازِ فجر اور عصر میں موجود نمازی آپس میں اور اِمام صاحب سے مصافحہ کرتے ہیں، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بہ نیت ثواب۔ یہ بھی علماء فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم معانقہ، مصافحہ برابر کیا کرتے تھے، اس سلسلے میں جو حدیث صحابہ کی ہو وہ بھی تحریر فرماکر مشکور فرمائیں۔
ج… سلام اور مصافحہ ان لوگوں کے لئے مسنون ہے جو باہر سے مجلس میں آئیں۔ فجر و عصر کے بعد سلام اور مصافحہ کا جو رواج آپ نے لکھا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے یہاں اس کا معمول نہیں تھا، لہٰذا یہ رواج بدعت ہے۔
کسی غیرمحرَم عورت کو سلام کرنا
س… کسی غیرمحرَم مرد کا کسی غیرمحرَم عورت کو سلام دینا جائز ہے یا کہ نہیں؟ یا سلام کا جواب دینا ضروری ہے؟
ج… اگر دِل میں غلط وسوسہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو جائز نہیں، ورنہ دُرست ہے۔ چونکہ جوان مرد و عورت کے باہم سلام کرنے سے غلط خیالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے یہ ممنوع ہے، البتہ سن رسیدہ بڑھیا خاتون کو سلام کرسکتے ہیں۔
نامحرَم عورت کے سلام کا جواب دینا شرعاً کیسا ہے؟
س… عورتوں کو نامحرَم مرد سلام نہیں کرسکتا، اگر عورت سلام میں پہل کردے تو جواب دیا جائے یا نہیں؟ میرے کام کاج میں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ مختلف گھروں میں جانا پڑتا ہے، بعض خواتین کو میں، اور وہ مجھے جانتی ہیں، گو کہ ہم سلام نہ کریں مگر اوّل تو وہ خواتین پردہ نہیں کرتیں، دوئم یہ کہ جس کام کے متعلق میں ان کے گھر گیا ہوں اس پر بات چیت ہوتی ہے، لہٰذا پوچھنا یہ ہے کہ ایسی عورتوں کو سلام کیا جائے یا نہیں؟ یا سلام کا جواب دیا جائے یا نہیں؟
ج… جوان عورتوں کو سلام کہنا جائز نہیں، اگر وہ سلام کریں تو دِل میں جواب دے دیا جائے۔ نامحرَم مردوں اور عورتوں کو ایک دُوسرے کے سامنے بے محابا آنا جائز نہیں، اگر کوئی شخص فسادِ معاشرت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہو تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ اِستغفار کرتا رہے۔
کسی مخصوص آدمی کو سلام کہنے والے کے سلام کا جواب دینا
س… میں ایک کمپنی میں ملازم ہوں، اور میرے ساتھ دیگر دوست صاحبان بھی کام کرتے ہیں، اور کوئی شخص باہر سے آتا ہے اور ایک شخص کو مخاطب کرکے سلام کرتا ہے، اور جس شخص کو اس نے مخاطب کیا وہ اس وقت بہت مصروفیت کی وجہ سے سلام کا جواب نہ دے، تو کیا اس سلام کا جواب ہم جو دُوسرے موجود ہوں، دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر ہم بھی سلام کا جواب نہ دیں تو وہ شخص ہم سب کو بُرا بھلا کہہ کر چل دیتا ہے۔
ج… مجلس میں کسی شخص کو مخاطب کرکے سلام نہ کہا جائے، جب چند لوگ کسی جگہ موجود ہوں اور باہر سے آکر کوئی شخص سلام کرے، ان لوگوں میں اگر کچھ آدمی اس کے سلام کا جواب دے دیں تو جواب کا حق ادا ہوجاتا ہے، اس لئے آپ لوگوں کو سلام کا جواب ضرور دینا چاہئے۔
مسلم و غیرمسلم مرد و عورت کا باہم مصافحہ کرنا کیسا ہے؟
س… عورت مسلمان ہو اور مرد غیرمسلم، یا مرد مسلمان ہو اور عورت غیرمسلم تو ایسی صورت میں باہم مصافحہ کے لئے اسلام میں کوئی گنجائش ہے؟
ج… نہیں!
غیرمسلم کو سلام کرنا اور اس کے سلام کا جواب دینا
س… آج کل ملا جلا معاشرہ ہے، جس میں غیرمسلم بھی ہیں، لوگ ان کو بھی سلام کرتے ہیں، غیرمسلم بھی سلام کردیتے ہیں، جس کا جواب بھی دیا جاتا ہے، یہ بتایا جائے کہ غیرمسلم کو سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا کتاب و سنت کی روشنی میں حدیث کی رُو سے منع ہے یا کہ صرف اخلاقی طور پر منع ہے؟ کیا ایسی کوئی حدیث موجود ہے جس کے تحت منع کیا گیا ہو کہ غیرمسلم کو سلام و جواب نہ کیا جائے؟
ج… سلام ایک دُعا بھی ہے اور اسلام کا شعار بھی، اس لئے کسی غیرمسلم کو “السلام علیکم” نہ کہا جائے، اور اگر وہ سلام کہے تو اس کے جواب میں صرف “وعلیکم” کہہ دیا جائے، یہ مضمون حدیث شریف میں آیا ہے:
“عن أنس رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اذا سلّم علیکم أھل الکتاب فقولوا: وعلیکم۔ متفق علیہ۔” (مشکوٰة ص:۳۹۸)
ترجمہ:… “حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اہلِ کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم جواب میں “وعلیکم” کہہ دیا کرو۔”
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
والدین یا کسی بزرگ کو جھک کر ملنا
س… والدین یا کسی بزرگ کو جھک کر ملنا جائز ہے؟
ج… جھکنے کا حکم نہیں۔
کسی بڑے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا
س… میں کئی مرتبہ اخبار “جنگ” میں “فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم” کے عنوان کے تحت شائع ہونے والی حدیثوں میں ایک حدیث پڑھ چکا ہوں، جس کا لب لباب کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی محفل میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو صحابہ کرام ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سخت ناپسند فرمایا اور اپنے احترام کے لئے کھڑے ہونے کو منع فرمایا۔
اب صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ آج کل کافی افراد اساتذہ یا بزرگوں یا پھر بڑے عہدوں پر فائز حکمراں افراد کے احترام میں کھڑے ہوکر استقبال کرتے ہیں، حدیث مبارکہ کی حقیقت سے انکار تو ممکن نہیں لیکن شاید ہم کم فہم لوگ اس کی تشریح صحیح نہ کرسکے ہیں۔ لہٰذا مہربانی فرماکر اس بات کی مکمل وضاحت فرمائیں کہ آیا کسی بھی شخص (چاہے وہ والدین ہوں یا ملک کا صدر ہی کیوں نہ ہو) کے لئے (اس حدیث کی روشنی میں) کھڑا ہونا جائز نہیں؟ یا پھر اس حدیث شریف کا مفہوم کچھ اور ہے؟
ج… یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک یہ کہ کسی کا یہ خواہش رکھنا کہ لوگ اس کے آنے پر کھڑے ہوا کریں، یہ متکبرین کا شیوہ ہے، اور حدیث میں اس کی شدید مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے: “جس شخص کو اس بات سے مسرّت ہو کہ لوگ اس کے لئے سیدھے کھڑے ہوا کریں، اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔”
(مشکوٰة ص:۳، ۴ بروایت ترمذی و ابوداوٴد)
بعض متکبر افسران اپنے ماتحتوں کے لئے قانون بنادیتے ہیں کہ وہ ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوا کریں، اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کی شکایت ہوتی ہے، اس پر عتاب ہوتا ہے اور اس کی ترقی روک لی جاتی ہے، ایسے افسران بلاشبہ اس ارشادِ نبوی کا مصداق ہیں کہ: “انہیں چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائیں۔”
اور ایک یہ کہ کسی دوست، محبوب، بزرگ اور اپنے سے بڑے کے اکرام و محبت کے لئے لوگوں کا ازخود کھڑا ہونا، یہ جائز بلکہ مستحب ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمد پر کھڑے ہوجاتے تھے، ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے تھے اور ان کو اپنی جگہ بٹھاتے تھے، اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر کھڑی ہوجاتیں، آپ کا دست مبارک پکڑ کر چومتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (مشکوٰة ص:۴۰۲) یہ قیام، قیامِ محبت تھا۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضراتِ انصار رضی اللہ عنہم سے فرمایا تھا:
“قوموا الٰی سیّدکم! متفق علیہ۔” (مشکوٰة ص:۳، ۴)
یعنی “اپنے سردار کی طرف کھڑے ہوجاوٴ” یہ قیام اِکرام کے لئے تھا۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہم سے گفتگو فرماتے تھے، پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہرات میں سے کسی کے دولت کدے میں داخل نہ ہوجاتے۔ (مشکوٰة ص:۴۰۳)
یہ قیام تعظیم و اِجلال کے لئے تھا، اس لئے مریدین کا مشائخ کے لئے، تلامذہ کا اساتذہ کے لئے اور ماتحتوں کا حکامِ بالا کے لئے کھڑا ہونا، اگر اس سے مقصود تعظیم و اِجلال یا محبت و اِکرام ہو تو مستحب ہے، مگر جس کے لئے لوگ کھڑے ہوتے ہوں اس کے دِل میں یہ خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ لوگ کھڑے ہوں۔
اِمام صاحب سے جھک کر مصافحہ کرنا
س… خصوصاً نمازِ جمعہ کے بعد اور عموماً جب نماز ختم ہوجاتی ہے تو بہت سے نمازی حضرات اِمام صاحب سے بڑھ چڑھ کر مصافحہ کرنے لگتے ہیں، اور اس دوران اچھا خاصا جھک جاتے ہیں گویا کہ رُکوع کے مشابہ ہوجاتا ہے، اور اِمام صاحب اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے، کیا یہ سنت ہے کہ اِمام صاحب سے جھک کر مصافحہ کیا جائے؟
ج… مصافحہ کرتے وقت جھکنا نہیں چاہئے۔
جوڈو کراٹے سینٹر کا سلام میں جھکنے کا قانون خلافِ شرع ہے
س… درج ذیل مسئلے میں شریعتِ اسلامیہ کا حکم درکار ہے: ہم چند طلباء جوڈو کراٹے کے ایک سینٹر میں ٹریننگ حاصل کرتے ہیں، ہماری ٹریننگ کا یہ اُصول ہے کہ جب بھی طلباء سینٹر میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں اپنے اساتذہ وغیرہ کے سامنے ہاتھ کھلے چھوڑتے ہوئے اس قدر جھکنا پڑتا ہے جیسے نماز میں رُکوع کی حالت ہوتی ہے۔ ہمارے سینٹر میں بعض دفعہ غیرملکی اور غیرمسلم اساتذہ بھی آتے ہیں اور ٹریننگ کے اُصول کے مطابق ہمیں ان کے سامنے بھی جھکنا پڑتا ہے، ہم نے اس معاملے میں احتجاج بھی کیا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اساتذہ نے کہا کہ اگر آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل پیش کریں تو یہ قانون ختم کیا جاسکتا ہے تاکہ اسلامی اَحکام کی خلاف ورزی نہ ہو۔ آپ سے گزارش ہے کہ اگر اسلام مذکورہ بالا صورت میں کسی کے سامنے جھکنے کی اجازت نہیں دیتا تو اس کی وضاحت فرمائیں تاکہ ہم اپنے اساتذہ کو قائل کرسکیں۔
ج… آپ کی ٹریننگ کا یہ اُصول کہ سینٹر میں داخل ہوتے وقت یا باہر سے آنے والے اساتذہ وغیرہ کے سامنے رُکوع کی طرح جھکنا پڑتا ہے، شرعی نقطئہ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کرتے وقت جھکنے کی ممانعت فرمائی ہے، چہ جائیکہ مستقل طور پر اساتذہ کی تعظیم کے لئے ان کے سامنے جھکنا اور رُکوع کرنا جائز ہو۔ حدیث شریف میں ہے، جس کا مفہوم ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: “ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی یا دوست سے ملے تو اس کے سامنے جھکنا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں!” (مشکوٰة ص:۴۰۱، بروایت ترمذی)
مجوسیوں کے یہاں یہی طریقہ تھا کہ وہ بادشاہوں، امیروں اور افسروں کے سامنے جھکتے تھے، اسلام میں اس فعل کو ناجائز قرار دیا گیا۔ ٹریننگ کا مذکورہ اُصول اسلامی اَحکام کے منافی ہے، لہٰذا ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ وہ فوراً اس قانون کو ختم کریں۔ اگر وہ اسے ختم نہیں کرتے تو طلباء کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس سے انکار کریں، اس لئے کہ خدا کی ناراضی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
مسجد میں بلند آواز سے سلام کرنا
س… مسجد میں بلند آواز سے “السلام علیکم” کہنا چاہئے یا نہیں؟ جبکہ “السلام علیکم” کہنے سے نمازیوں کی توجہ سلام کی طرف ہوجائے اور سنتوں یا نفلوں میں خلل پڑے، اور مسجد میں سلام کا جواب بلند آواز سے دینا چاہئے یا نہیں؟
ج… اس طرح بلند آواز سے سلام نہ کیا جائے جس سے نمازیوں کو تشویش ہو، البتہ کوئی فارغ بیٹھا ہو تو قریب آکر آہستہ سے سلام کہہ دیا جائے۔
السلام علیکم کے جواب میں السلام علیکم کہنا
س… دورِ حاضر میں جہاں نت نئے فیشن وجود میں آئے ہیں وہاں ایک جدید فیشن یہ بھی عام ہوتا جارہا ہے کہ جب دو آدمی آپس میں ملاقات کرتے ہیں تو دونوں “السلام علیکم” کہتے ہیں، جواباً “وعلیکم السلام” کوئی نہیں کہتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ نمازیوں کی اکثریت بھی اس فیشن کو تیزی سے اپنا رہی ہے، نہ جانے کیوں لوگ “وعلیکم السلام” کہنے میں جھجکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وعلیکم السلام کہنے سے ان کے وقار میں کچھ کمی آجائے گی۔
ج… وعلیکم السلام کہنے میں عار نہیں بلکہ جو شخص السلام علیکم کہنے میں پہل کرے، اس کے جواب میں “وعلیکم السلام” کہنا واجب ہے۔ غلط رواج کی اصلاح یوں ہوسکتی ہے کہ اگر دونوں ایک ساتھ سلام کہہ دیں تو دونوں ایک دُوسرے کے جواب میں “وعلیکم السلام” کہا کریں، اور اگر ایک پہلے “السلام علیکم” کہہ دے تو دُوسرا صرف “وعلیکم السلام” کہے۔
ٹی وی اور ریڈیو کی نیوز پر عورت کے سلام کا جواب دینا
س… ٹی وی اور ریڈیو پر خبروں سے پہلے نیوز ریڈر (خواتین) سلام کرتی ہیں، جیسا کہ تاکید ہے کہ سلام کا جواب دینا چاہئے، کیا یہ خواتین جو سلام کرتی ہیں، اس کا جواب دینا چاہئے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اگر ہاں تو اس کی کوئی دلیل؟ اُمید ہے تفصیلی جواب سے میری اور کئی مسلمانوں کی اُلجھن ختم کردیں گے۔
ج… میرے نزدیک تو عورتوں کا ٹی وی اور ریڈیو پر آنا ہی شرعاً گناہ ہے، کیونکہ یہ بے پردگی اور بے حیائی ہے۔ ان کے سلام کا جواب بھی نامحرَموں کے لئے ناروا ہے۔
تلاوتِ کلامِ پاک کرنے والے کو سلام کہنا
س… جب کوئی آدمی کلام پاک کی تلاوت کر رہا ہو، ایسی حالت میں اسے سلام دیا جاسکتا ہے کہ نہیں؟ اگر سلام دے دیا جائے تو کیا اس پر جواب دینا واجب ہوجاتا ہے؟
ج… اس کو سلام نہ کہا جائے اور اس کے ذمے سلام کا جواب ضروری نہیں۔
عید کے روز معانقہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟
س… عید کے روز لوگ اظہارِ خوشی کے لئے گلے ملتے ہیں، شریعت میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ یہ سنت ہے، مستحب ہے یا بدعت ہے؟
ج… عیدین کا معانقہ کوئی دِینی، شرعی چیز تو ہے نہیں، محض اظہارِ خوشی کی ایک رسم ہے، اس کو سنت سمجھنا صحیح نہیں، اگر کوئی شخص اس کو کارِ ثواب سمجھے تو بلاشبہ بدعت ہے، لیکن اگر کارِ ثواب یا ضروری نہ سمجھا جائے محض ایک مسلمان کی دِلجوئی کے لئے یہ رسم ادا کی جائے تو اُمید ہے گناہ نہ ہوگا۔
عید کے بعد مصافحہ اور معانقہ
س… مصافحہ اور معانقہ کی فضیلت سے انکار نہیں، مگر اس کی عید کے دن سے کیا خصوصیت ہے؟ ایک ہی گھر میں رہنے والے عید پڑھنے کے بعد مصافحہ یا معانقہ کرتے ہیں، کیا ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عید پڑھنے کے بعد ایسا ہی کیا کرتے تھے؟
ج… عید کے بعد مصافحہ یا معانقہ کرنا محض ایک رواجی چیز ہے، شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں، اس لئے اس کو دِین کی بات سمجھنا بدعت ہے، لوگ اس دن گلے ملنے کو ایسا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اس رواج پر عمل نہ کرے تو اس کو بُرا سمجھتے ہیں، اس لئے یہ رسم لائقِ ترک ہے۔
پرچم کو سلام
س… اسکولوں میں صبح کو اسمبلی کرتے وقت ترانے کے بعد پرچم کو سلام کرتے ہیں، یہ کس قدر غلط یا صحیح ہے؟ یا یہ اپنے وطن سے محبت کی علامت ہے؟
ج… پرچم کو سلام کرنا غیرشرعی رسم ہے، اس کو تبدیل کرنا چاہئے۔ وطن سے محبت تو ایمان کی علامت ہے، مگر اظہارِ محبت کا یہ طریقہ کفار کی ایجاد ہے، مسلمانوں کو کفار کی تقلید روا نہیں۔
جس شخص کا مسلمان ہونا معلوم نہ ہو اس کے سلام کا جواب
س… میں ایک محفل میں بیٹھا کرتا ہوں، اس محفل میں ایسا آدمی آیا جن کے متعلق مجھے سو فیصد پتا ہے کہ یہ آدمی غیرمسلم ممالک سے تعلق رکھتا ہے، مگر مجھے یہ معلوم نہیں کہ آیا یہ مسلم ہے یا غیرمسلم؟ تو اس بارے میں یہ لکھ دیں کہ میں ان کو “السلام علیکم” کا جواب “وعلیکم السلام” میں دے سکتا ہوں یا نہیں؟
ج… اس کا “السلام علیکم” کہنا تو بظاہر اس کے مسلمان ہونے کی علامت ہے، پس اگر غالب گمان یہ ہو کہ یہ مسلمان ہے تو “وعلیکم السلام” سے جواب دینا چاہئے، لیکن اگر اس کا مسلمان ہونا دِل کو نہ لگے تو صرف “وعلیکم” کہہ دیا جائے۔
بڑے بزرگ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا
س… میں نے ایک حدیث پڑھی تھی کہ ایک جگہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیٹھتے تھے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر صحابہ کرام کھڑے ہوگئے، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جاوٴ،بیٹھ جاوٴ، تعظیم صرف خدا کو زیب دیتی ہے۔ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو ۱-اُستاد جب کلاس میں داخل ہوتا ہے تو اُستاد کو دیکھ کر لڑکے کھڑے ہوجاتے ہیں، ۲-جب کسی آفس میں کوئی افسر داخل ہوتا ہے تو تمام کارکن اس کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، ۳-فوجی افسر بھی اپنے آفیسروں کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور سلیوٹ مارتے ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ تمام حرکات دُرست ہیں یا ان کو ختم کردینا چاہئے؟ براہِ کرم تمام مسائل کا جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
ج… بڑے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے، مگر بڑے کو دِل میں یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں، اس حدیثِ پاک کا یہی محمل ہے۔
سلام میں پہل کرنا افضل ہے تو لوگ پہل کیوں نہیں کرتے؟
س… اسلام میں سلام کرنے کو ایک افضل کام قرار دیا گیا ہے، اوّل سلام کرنے والے کو زیادہ ثواب ہے، عموماً دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ سلام میں پہل کرنے میں عمداً احتراز کرتے ہیں، کچھ عالم لوگوں کو بھی دیکھا ہے وہ سلام کا جواب تو دیتے ہیں لیکن پہل کبھی نہیں کرتے۔ اس بارے میں شرعی اَحکام کیا ہیں؟
ج… سلام میں پہل کرنا افضل ہے، عالم کے لئے بھی اور دُوسروں کے لئے بھی۔
کیا سلام نہ کرنے والے کو سلام کرنا ضروری ہے؟
س… میں ایک شخص کو اکثر و بیشتر سلام کرتا رہا ہوں، جب کبھی وہ شخص مجھے دُوسری جگہ راستے میں ملا، میں نے عمداً اس کو سلام نہیں کیا، یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا یہ شخص بھی مجھے سلام کرتا ہے یا نہیں؟ وہ شخص بغیر سلام کئے گزر گیا، ایسا دو تین بار ہوا، اب وہ شخص مجھے ملتا ہے تو میں بھی اس کو سلام نہیں کرتا ہوں۔ یوں وہ سلسلہ جو میری طرف سے شروع ہوا تھا، منقطع ہوگیا ہے۔ آیا اس شخص کا اخلاقی جواز نہیں تھا کہ جب سلام قبول کرتا تھا تو اَب موقع پر وہ خود بھی سلام کرے؟ کیونکہ جتنا سلام کرنے کا احترام یا خیال میرا تھا، اس کا بھی ہونا چاہئے، ہم دونوں میں سے کون گناہگار ہے؟
ج… آپ کو اس کا انتظار نہیں کرنا چاہئے تھا کہ وہ آپ کو سلام کرے، اور سلسلہٴ سلام کو منقطع کرنے کی نوبت آئے۔
نامحرَم کو سلام کرنا
س… کیا نامحرَم عورتوں کو سلام کرنا چاہئے یا ان کے سلام کا جواب دینا چاہئے؟ اگر سلام نہیں کرتے تو کہتے ہیں کہ ان کو ان کے ماں باپ نے کچھ سکھایا نہیں ہے، اور اگر کوئی سلام کرتا ہے اور اس کا جواب نہیں دیتے تو ان کی دِل آزاری ہوتی ہے، کیا نامحرَم عورتوں کو سلام کرنا یا جواب دینا جائز ہے؟ ذرا تفصیل سے جواب دیں۔
ج… نامحرَم جوان عورت کو سلام کرنا اور اس کے سلام کا جواب دینا خوفِ فتنہ کی وجہ سے ناجائز ہے، البتہ کوئی بڑی بوڑھی ہو تو اس کو سلام کہنا جائز ہے۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ماں باپ نے کچھ سکھایا ہی نہیں، ان سے یہ کہا جائے کہ ماں باپ نے نہیں بلکہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سکھایا ہے کہ فتنے کی جگہ سے بچا جائے، اگر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے سے کسی کی دِل آزاری ہوتی ہے تو اس کی پروا نہ کی جائے، کیونکہ کسی کی دِل شکنی سے بچنے کے بجائے اپنی دِین شکنی سے بچنا زیادہ اہم ہے۔
http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-7/1475-salam-o-musafha
No comments:
Post a Comment