Saturday, 5 June 2021

اہل مدارس کا چندہ کرنا یا کروانا کیا وہ سنت کے مطابق ہے؟

اہل مدارس کا چندہ کرنا یا کروانا کیا وہ سنت کے مطابق ہے؟

ضرورت پر چندہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، البتہ آج کل اہل مدارس کا چندہ کرنا یا کروانا قابل نظر ہے، کہ کیا وہ سنت کے مطابق ہے یا اس میں اصولِ شرع کی خلاف ورزی کی بھی آمیزش رہتی ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چندے کا طریقہ اگر آپ بغور دیکھیں تو ہمارے رائج طریقے کو اس نبوی طریقے سے یکسر موافقت نہیں ہے.

جیسے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود کو ذاتی طور پر ایسا مستغنی رکھنا کہ اپنی ضرورت کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور فاقے پر فاقے فرما رہے ہیں؛ لیکن کوئی سائل آیا تو دوسروں سے کہہ کر امداد کردی یا دینے کا وعدہ کرلیا.

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کسی دینی امر کے لیے چندہ جمع کرنے کی ضرورت آئی (اور وہاں تو قتال فی سبیل اللہ کے لیے ہی زیادہ ضرورت تھی جو کہ اہم ترین ضرورت ہے؛ بل کہ اسلامی ریاست کی بقا پیش نظر ہے) تو زبان مبارک سے اعلان فرمایا اور اپنی مسند ذیشان پر ہی پوری شان تشریف فرما رہے نہ یہ کہ گھر گھر جانا ہورہا ہے یا لوگوں کو بلاکر خصوصی توجہ دلائی جارہی ہے.

جب کہ ہم جیسوں کا حال یہ ہے کہ صرف کہنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے؛ بل کہ مکمل چپک جاتے ہیں بقول حضرت شیخ کے کچھ تو دو ورنہ چھوڑنے کا نہیں

اس سے عوام پر جو اثر پڑا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور اسی کو حضرت حکیم الامۃ مجدد الملۃ رحمۃ اللہ علیہ نے بھانپ لیا تھا تو سداللباب ہی منع فرمایا ہے اور غالباً یہی نبوی مزاج حضرت محی السنۃ رحمہ اللہ کا رہا ہے.

ہمارے اکابر میں سے حضرت فقیہ الامۃ رحمہ اللہ کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ آپ بھی سورت شہر کے اطراف و اکناف دیہاتوں میں جاتے تو کسی ایک جگہ قیام فرماکر لوگوں کو اطلاع کردیتے جو تعاون کرنا چاہے کردے، یہ بھی بہتر ہے اور أقرب الی السنۃ ہے کہ وقار عالمانہ مجروح نہیں ہوتا ہے.

اسی طرح ایک فرق یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چندہ فرمایا اور مال آنے کے بعد خرچ کیا جہاں بھی ضرورت دیکھی.

ہمارے یہاں پہلے ہی قرضہ لیکر خرچ کر دیا اور خرچ بھی کیا آرائش و زیبائش میں، پھر گوشوارہ میں لکھ دیا قرضہ حسنہ، تعجب ہے ایسے قرضے پر جو حسن بھی ہے اور ظلم بھی کروا رہا ہے (مچندین کے لئے درد سر بن جاتا ہے اساتذہ کی تنخواہوں میں سے روک لیا جاتا ہے)

اس طرح کے فروق کے بعد بھی ہم لوگ اپنے چندے کے دھندے کو مسنون کہتے ہیں اور معاذاللہ سنت کو بدنام کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور بہت سے مظالم کے بھی مرتکب ہوتے ہیں

اور اگر طبیعت پر بار نہ ہو تو عرض کروں!

اس چندے کی بے ہنگم اور غیرشرعی دوڑ میں سب سے اہم رول مدارس کے نام پر لامتناہی مدرسیوں کی ایجاد ہے بقول مولانا نورعالم خلیل امینی رحمہ اللہ  پیت العلوم کھول لئے ہیں

حضرت مفتی خالد سیف اللہ صاحب رحمانی نے بھی شمع فروزاں میں ایک مضمون اس بابت لکھا ہے، ہمارے ملک میں ایسا کوئی نظام نہیں جس سے ایک معیار ہم لوگوں کے درمیان ہو.

صرف کثرت کی ہوس نے ایسا اندھا کیا ہے کہ گلی در گلی درگلی در گلی مدرسے بنالئے ہیں اور کچھ افہام و تفہیم کی جائے تو کہتے ہیں کہ ہمارے اکابر کی دلی خواہش تھی کہ مدارس کا جال بچھا دینا چاہئے اس کو سن کر یاد آتا ہے كلمة حق اريد بها الباطل.

دنیا کی محبت سے اللہ ہم سب کے دلوں کو پاک رکھے ورنہ آبرو تو ختم ہونے کے انتظار میں ہے. 

عبدالباسط جے پوری (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_42.html




No comments:

Post a Comment