'ایک ضروری اصلاح' کی اصلاح
میرے خیال ناقص میں یہ اعلان غیرمناسب تفریط اور ایک لفظ کے وسیع تر معنی ومفہوم کی تحدید ہے۔ یہ آواز آج کی صرف محترم مولانا ایوب ندوی صاحب کی ہی نہیں ہے؛ بلکہ بہت پہلے سے عرب کے بعض ظاہری بھائیوں کی طرف سے اٹھائی جارہی ہے. شاید وہیں سے درآمد شدہ ہے۔ 'الخِذلان' باب 'نصر' سے مستعمل ہے، اس کا بنادی مفہوم، گرچہ، ترک نصرت، دست تعاون کھینچ لینے اور بے یار و مددگار چھوڑ دینا ہے:
(الصحاح للجوهري (4/1683)، (تهذيب اللغة للأزهري (7/140)، (مقاييس اللغة لابن فارس (2/132)، (لسان العرب لابن منظور (11/202)
لیکن موقع، محلِ استعمال، اور افراد و شخصیات کے اختلاف سے مفہوم میں بھی فرق ہوتا ہے. قرآن پاک میں جہاں یہ لفظ نصرت و معاونت کے بالمقابل استعمال ہوا ہے:
{وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ} [آل عمران: 160]
تو وہیں اختلافِ محل کی وجہ سے ضلالت و گمراہی، ذلت و خواری اور راہ حق سے پہیر کر باطل امور میں لگادینے کے معنی میں بھی اس کا استعمال موجود ہے:
{وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا}
[الفرقان: 29 اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہی تھا]
قال ابن كثير: (يخذله عن الحقِّ، ويصرفه عنه، ويستعمله في الباطل، ويدعوه إليه (تفسير القرآن العظيم) (6/108)
{لَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَخْذُولًا}
[الإسراء : 22 ۔۔ اے انسان اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود نہ بنانا؛ ورنہ تو پشیمان و خوار ہوکر بیٹھے گا۔]
مذکورہ چند قرآنی مثالوں سے واضح ہے کہ ہر جگہ ہر مقام پر 'خذلان' کے معنی یکساں مراد نہیں لئے جاتے. اسلام اور مسلمانوں کو جب بھی باطل دشمنوں کے بالمقابل نصرت و معاونت کی ضرورت ہوگی مسلمانوں پر اپنے دین اور دینی بھائیوں کی قدر استطاعت مدد کرنا ضروری اور لازم اور انہیں بے یار و مددگار چھوڑدینا ناجائز ہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المسلم أخو المسلم، لا يظلمه، ولا يخذله، ولا يحقره ۔ رواه مسلم (2564).
قال النَّوويُّ: (وأمَّا: لا يَخْذُله. فقال العلماء: الخَذْل: ترك الإعانة والنَّصر، ومعناه إذا استعان به في دفع ظالم ونحوه، لزمه إعانته إذا أمكنه، ولم يكن له عذر شرعيٌّ (شرح النَّووي على مسلم 16/120)
وعن معاوية بن قرَّة رضي الله عنه قال: سمعت النَّبيَّ صلى الله عليه وسلم يقول: لا يزال مِن أمَّتي أمَّة قائمة بأمر الله، لا يضرُّهم مَن خذلهم ولا مَن خالفهم، حتى يأتيهم أمر الله وهم على ذلك (رواه البخاري :3641)، ومسلم: 1037)
قال علي القاري: (... مَن خَذَلهم أي: مَن ترك عونهم ونصرهم، بل ضرَّ نفسه، وظلم عليها بإساءتها
(مرقاة المفاتيح: 9/4047)
اگر کوئی دین اسلام کی تنقیص وتوہین، استہزاء و تمسخر کے ذریعہ ذلیل ورسوا کرنے کا ناپاک ارادہ رکھتا اور شیطانی کھیل کا حصہ بنتا ہے تو اس کے لئے اللہ سے ذلت ورسوائی کی بدعاء کرنے ("اللهم اخذل من خذل الدين" کہنے ) میں کیا قباحت ہے؟
"اللهم انصر من نصر الدين، واخذل من خذل الدين"
جیسے الفاظ سے گرچہ کوئی دعاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا اصحاب رسول سے ماثور و منقول نہیں ہے؛ لیکن غیرماثور دعائیں نہ مانگنے کی کوئی ممانعت وبندش بھی تو کہیں نہیں ہے! اغلب یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں دعاے نبوی
(وانصُرْ مَنْ نصَره واخذُلْ مَنْ خذَله (أحمد شاكر. مسند أحمد: 2/201)
سے جزوی تبدیلی کے بعد، دعاء
"اللهم انصر من نصر الدين، واخذل من خذل الدين"
زبان زد خاص ہوگئی ہے. عجم سے زیادہ عرب علماء، ائمہ وخطباء اپنی دعائوں میں پیہم اس فقرے کا استعمال کرتے ہیں، جمہور اہل زبان کا یوں بکثرت استعمال بھی تو قرینہ جواز ہے۔ اگر کوئی اسے دعاء ماثورہ سمجھے بغیر محض دعاء کے بطور پڑھتا ہے تو اس میں شرعاً گنجائش ہے، اس کی تغلیط کرنا تفریط ہے. اسے اپنے خلاف بد دعاء سمجھنا بھی درست نہیں؛ کہ 'خذلان' کا مفہوم اختلاف محل و نسبت سے مختلف ہوجاتا ہے، ہر جگہ ترک نصرت ہی مراد نہیں ہوتا۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي. (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_3.html
No comments:
Post a Comment