حجام کی کمائی کا کیا حکم ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
حجام کا غیرشرعی بال کاٹنا، یا لوگوں کی ڈاڑھیاں مونڈنا مکروہ تحریمی ہے، اور حجام تعاون علی الاثم کی بنیاد پر اپنے اس عمل کی وجہ سے گنہگار بھی ہوگا.
لیکن اس عمل کی وجہ سے حجام کی اجرت کو حرام نہیں کہا جاسکتا، اس کی آمدنی حلال اور جائز ہے.
فقہی جزئیات میں اس کی بہت سی نظیریں ملتی ہیں. مثلا:
۱: کوئی درزی کسی کے لئے فساق وفجار جیسا لباس سلتا ہے، پینٹ شرٹ بناتا ہے، تو اگرچہ اس کا یہ فعل حرام ہے لیکن اس کی اجرت جائز ہے..
أو خياطا أمره أن يتخذ له ثوبا على زي الفساق يكره له أن يفعل لأنه سبب التشبه والفسقة.
شامي كتاب الحظر والإباحة. ج:٩.ص: ٥٦٢....
................................
۲: کوئی شخص تصویر سازی کا کام کرتا ہے اور کسی کے لیے جاندار کی تصویر بناتا ہے تو اگرچہ اس کا یہ فعل حرام ہے، لیکن اس کی اجرت حلال ہے..
في نوادر هشام: عن محمد رحمه الله تعالى: رجل استأجر رجلا ليصورله صورا، أو تماثيل الرجال في بيت أو فسطاط، فإني أکره ذلك وأجعل له الأجر.
هنديه. كتاب الإجارة. ج.:٤. ص: ٤٨٦.......
................................
۳: کوئی آدمی گھر تعمیر کرنے کا کام کرتا ہے، اور کفار کے لئے مندر، گرجا گھر تعمیر کرتا ہے، تو اگرچہ ایسا کرنا جائز نہیں اور یہ ایسا کرنے کی وجہ سے یہ گنہگار بھی ہے، لیکن اس کی اجرت حلال ہے.
لو استأجر الذمي مسلما ليبني له بيعة أو كنيسة ‘جاز ويطيب له الأجر. كذا في المحيط.ج:٤. ص: ٤٨٧......
................................
ان تمام فقہی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ حجام کی اجرت حرام نہیں ہے...
واللہ اعلم بالصواب.
کتبہ: احقر الطلاب محمود حسن التاؤلوی.
خادم جامعہ محمود دیوبند (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_6.html?m=1
No comments:
Post a Comment