مولانا،
مولوی، ملا اور عالم؛
ان تین لفظوں میں بہت ہی
کم حرفی اور لغوی تفریق ہوگی
البتہ اصطلاحی معنی میں بعینہ ایک دوسرے
کی موافقت رکھتے ہیں.. اس حوالے سے ایک تحقیق میرے سامنے آئی ہے جو آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.
"مولانا"
مولا کا معنی حمایتی، دوست، غلام کا آقا، رشتہ دار، سردار اور محترم ہے، علماء دین کو اس موخر الذکر معنی کے طور پر مولانا کہا جاتا ہے، پہلے یہ لفظ امراء اور علماء دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے پھر علماء کے لیے اس کا استعمال خاص رہا، سب سے پہلے لفظ مولانا صحابی حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حسن بصری کے لیے بولا تھا، طبقات ابن سعد جلد نمبر ٧صفحہ ١٢٨میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک سوال کیا گیا " فقال( تو آپ نے کہا)فیکم مولانا حسن" تم میں ہمارے مولا حضرت حسن بصری رحمة الله عليه موجود ہیں.
تیسری چوتھی صدی ہجری میں امراء یا بیوروکریٹس کے لیے یہ لفظ بولا جاتا تھا.(ابن خلکان)
قرآن مجید میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے.
"فإن اللہ ھو مولاہ و جبريل و صالح المؤمنين"
(سورة تحريم)
پس اللہ آپ کا مددگار ہے اور جبریل اور ہر نیک مومن آپ کے مددگار ہیں. یہاں مولا بمعنی مددگار استعمال ہوا ہے.
"انت مولانا فانصرنا علی القوم الكافرين."
یہاں بھی مولانا بمعنی مددگار ہے، خلاصہ یہ کہ علماء کے لیے مولانا کا لفظ بمعنی محترم استعمال ہوتا ہے.
" مولوی"
غیاث اللغات میں یوں لکھا ہے ترجمہ:
"مولوی بفتح میم و لام منسوب بمولا بمعنی خداوند کے ہے بعد میں یائی نسبت کی وجہ سے الف جو کہ چوتھا حرف تھا واؤ پر بدل گیا کیونکہ الف مقصورہ جب تین حرفی کلمہ کے آخر میں ہو تو نسبت کے وقت واؤ پر بدل جاتا ہے. "
اس تصریح سے سے معلوم ہوا کہ مولوی کا لفظ مولا اور خداوند کی طرف منسوب ہے مولوی کا مطلب مولا والا، خدا والا.
مولانا روم رحمہ اللہ نے یہ لفظ اپنے لئے استعمال کیا ہے
مولوی ہرگز نشد مولائے روم
تا غلام شیخ تبریزے نشد.
"ملا"
ملا کا معنی بھرا ہوا،
"ملئت حرسا" (سورة الجن) محافظوں اور شہابوں سے بھرا ہوا. ملا کا معنی جس کا سینہ علم سے بھرا ہوا ہو، جیسے کہ ملا عبدالرحمن جامی، ملا عبدالحکیم سیالکوٹی، ملا علی قاری، ملا جیون، ملا میر زاہد، ملا جلال.
یہ لفظ سویت یونین کی آزاد ریاستوں اور افغانستان میں بکثرت استعمال ہوتا ہے. علامہ اقبال بھی افغانیوں کے متعلق ایک شعر میں یوں کہتے ہیں کہ
افغانیوں کے غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو.
پہلے یہ لفظ بڑا محترم سمجھا جاتا تھا اب یہ لفظ عام طور پر علماء دین سے بیزار طبقہ ان کے خلاف بطور حقارت کے استعمال کرتے آ رہے ہیں لیکن اب تو دینداری کا دعوٰی کرنے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ ملا، مولوی اور مولانا میں بلکہ ان تینوں اور عالم میں فرق ہے. ایک ہی مدرسہ، ایک ہی استاد اور ایک ہی نصاب کی کتابیں پڑھنے والے کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ تو ملا یا مولوی ہے (خصوصاً جو علما سیاست میں حصہ لیتے ہوں یعنی اس کی کوئی علمی حیثیت ہی نہیں) اور یہ تو عالم ہے (جو علماء سیاست اور دنیا کے جمگھٹوں سے دور ایک الگ بستی آباد کئے ہوئے ہوتے ہیں)
جیسے کہ فلاں میڈیکل ٹیکنیشن ہے اور فلاں ڈاکٹر... ارے اللہ کے بندو! یہ تفریق تو فنی دنیا میں ہوتی ہے. علوم الہیہ میں جس کی بھی علمی سند حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچتی ہو اسے ملا، مولوی، مولانا اور عالم کہا جاتا ہے جیسے کہ مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب، مولانا طارق جمیل صاحب، مولانا ارشد مدنی صاحب، مولانا سلمان ندوی صاحب اور مولانا سجاد نعمانی صاحب، وغیرہ ہم. یہ سارے ملا بھی ہیں مولوی بھی مولانا بھی اور عالم بھی ہیں.
اور جن کی علمی سند حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک نہ پہنچتی ہو وہ نہ تو ملا ہیں نہ ہی مولوی نہ ہی مولانا اور نہ ہی عالم ہیں جیسے کہ ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر ذاکر نائیک، ڈاکٹر غامدی اور ابوالاعلی مودودی. (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
No comments:
Post a Comment