مبارکباد کس طرح دیں؟
----------------------------------
----------------------------------
’’اضافہ، زیادتی، کثرت، سعادت و خوش بختی“ کو عربی میں "بَرَکَة" کہتے ہیں۔
بارَكَ 'مفاعلة' سے ہے، اُسی سے "مُبارَكٌ" مفعول کا صیغہ ہے، جبکہ ”تبریک“ (تفعیل سے) مبارکباد دینے کو کہتے ہیں۔
مواقعِ خوشی ومسرت پہ کسی کو زیادتی کی دعاء دینے کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مبارکباد دینے کے لئے "بارَكَ الله فيك" "بارَكَ الله لَك" ، "بارَك اللهُ علَيك" تینوں تعبیرات احادیث میں استعمال ہوئی ہیں۔
جس شخص کو برکت وزیادتی کی دعا دی جائے، اصلاً اس کے لئے "مبارَكٌ فيه /مبارَكٌ فیك" استعمال ہونا چاہئے؛ لیکن سہولت کے پیش نظر ائمہ لغت اس کو بلاصلہ "فی" صرف "مبارک" استعمال کرنے کی بھی گنجائش دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں درج ذیل بیس سے زائد مقامات پہ لفظ "مبارک" مختلف صیغوں کے ساتھ استعمال ہوا ہے:
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ ﴿٩٦ آل عمران﴾
وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ ﴿٣١ مريم﴾
وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ ﴿٢٩ المؤمنون﴾
وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ ﴿٩ ق﴾
وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ﴿٩٢ الأنعام﴾
وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿١٥٥ الأنعام﴾
أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٥٤ الأعراف﴾
لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ﴿٩٦ الأعراف﴾
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ﴿١٣٧ الأعراف﴾
اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَكَ ﴿٤٨ هود﴾
رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ﴿٧٣ هود﴾
إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ﴿١ الإسراء﴾
وَهَٰذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ أَفَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ﴿٥٠ الأنبياء﴾
وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ ﴿٧١ الأنبياء﴾
تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ﴿٨١ الأنبياء﴾
ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ﴿١٤ المؤمنون﴾
كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ ﴿٣٥ النور﴾
فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ﴿٦١ النور﴾
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ﴿١ الفرقان﴾
تَبَارَكَ الَّذِي إِنْ شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِنْ ذَٰلِكَ ﴿١٠ الفرقان﴾
تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا ﴿٦١ الفرقان﴾
فَلَمَّا جَاءَهَا نُودِيَ أَنْ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا ﴿٨ النمل﴾
فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ ﴿٣٠ القصص﴾
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً ﴿١٨ سبإ﴾
وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ (١١٣ الصافات)
شادی کی تہنیت پیش کرنے میں افصح العرب والعجم رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک اس لفظ کے استعمال فرمانے کا یہ رہا ہے:
كانَ إذا رَفَّأ الإنسانَ إذا تزوَّجَ قالَ: باركَ اللهُ لكَ و باركَ عليكَ، و جمعَ بينَكُما في خيرٍ۔ (أخرجه أبوداود 2130)، والترمذي 1091)، وأحمد 8957) واللفظ لهم، وابن ماجه 1905) باختلاف يسير)
کھانے سے فراغت کے بعد دسترخوان اٹھاتے ہوئے بھی معمول نبوی یہی پڑھنے کا تھا:
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ: "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَعَ مَائِدَتَهُ قَالَ: (الحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، غَيْرَمَكْفِيٍّ، وَلاَ مُوَدَّعٍ، وَلاَ مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا۔ (البخاري 5458)
"بارك الله فيك" کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے لوگوں کو مختلف چیزوں میں زیادتی کی دعاء مرحمت فرمائی ہے کہ حد و حساب سے باہر ہے، ہم نے طوالت کے خوف سے ان مثالوں کا احصاء نہیں کیا ہے۔ ذخیرہ احادیث میں اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ قرآن و حدیث کی اس ماثور دعاء خیر وزیادتی کے مقابلے ان دنوں "مبروک" کے استعمال کی بڑی ارزانی و فراوانی ہے، کیا عوام کیا خواص! ہر کوئی اس کا بے دریغ استعمال کررہا ہے۔
لفظ "مبروك" کے معنی، کثرت ،برکت وزیادتی، دنیا کی کسی لغت میں نہیں ہے، یہ لفظ "بروك الإبل" باب نصر سے صیغہ مفعول بمعنی "اونٹ بٹھائے ہوئے شخص" کے ہیں، اگر ہم کسی کے لئے لفظ "مبروک" استعمال کررہے ہیں تو اوپر کی لغوی حقیقت و وضاحت کے تناظر میں خود اس کے معنی کا استحضار وتعین کرلیجئے! آج کل عرف عام میں اس لفظ مبروک کا مدلول بمعنی اونٹ بٹھائے ہوئے شخص کا اگرچہ نہیں ہے، جو بھی اسے استعمال کرتا ہے دعا ہی کے معنی مراد لیتا ہے، عرف واستعمال خود ایک حقیقت ہے، اس دلالت واستعمال عرفی کی وجہ سے گو کہ مبروک کے استعمال کی شرعاً گنجائش نکل جاتی ہے اور بایں وجہ علمائے محققین اسے ناجائز تو نہیں کہتے؛ لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ زبان رسالت مآب سے نکلے الفاظ کی نورانیت وآثار قبولیت ہی کچھ اور ہیں۔ عوام تو بیچارے سادہ لوح ہیں، ان سے کیا گلہ ہو؟ کم از کم حلقہ علماء تہنیتی مواقع پہ 'بارك الله لك' ، 'بارك الله عليك'، 'بارك الله فيك' یا اختصار میں "مبارک" کہنے کو رواج دیں، میں صاف کہتا ہوں کہ تہنیت کے باب میں مذکورہ تعبیرات کا استعمال توقیفی ہرگز نہیں؛ کہ ان کی پیروی شرعاً لازم ہو؛ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جو دعائیہ الفاظ وکلمات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہوئے ہیں ان میں آثار قبولیت آج کے در آمد کردہ وایمپورٹڈ کلمات کے مقابلے ہزاروں گنا زیادہ ہیں!! خواص اور پڑھا لکھا طبقہ اگر اپنی تحریروں میں اس کی ترویج کی فکر نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جس لفظ کو اپنی زبان مبارک سے استعمال فرمارہے ہیں وہ آج کل کے "اہل لسان" کے استعمالِ عامی کے مقابل بدرجہا زیادہ قابل اعتناء ولائق استدلال واحتجاج نہیں؟ ہمیں ادھر ادھر تاک جھانک کی کیا ضرورت ہے؟
شكيل منصور القاسمي
سیّدپور/ بیگوسرائے (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/06/blog-post_15.html
No comments:
Post a Comment