قرآن محکم کی شان عظیم
از: رشید احمد فریدی، مدرسہ مفتاح العلوم، تراج ضلع سورت
پہلی قسط قرآن کیا ہے:
اللہ رب العالمین کا وہ کلام جو سید الملائکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ رحمة للعالمین خاتم النّبیین سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کے قلب اطہر(۱) پر تیئس سال کے طویل عرصہ میں بتدریج مختلف مقامات و احوال میں متنوع ضرورت وحکمت کے تحت(۲) اصلاً بنی نوع انسان اور تبعاً جن کی ہدایت اور آخرت کی فلاح ونجات کے لیے خالص عربی زبان میں نازل کیا گیا، جس کے بیان میں یقین وصداقت ہے اور فصاحت وبلاغت کے اعلیٰ معیار پر ہونے کی وجہ سے اعجازی شان رکھتا ہے جو معانی اورحقائق کا خزینہ اور اسرار ومعارف کا غیرمتناہی گنجینہ ہے۔(۳)
آں کتابِ زندہ قرآن حکیم حکمتِ او لایزال است و قدیم
نسخہٴ اسرارِ تکوینِ حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
نوعِ انساں را پیام آخریں حاملِ او رحمة للعالمیں
------------------
چیست قرآن اے کلام حق شناس رونمائے ربِّ ناس آمد بہ ناس
حرف حرفش راست در بر معنئے معنئے در معنئے در معنئے
اسی کلام ربّانی کو اہل ایمان کے سینوں میں اوراس کے نقوش کو صحیفوں میں حتی کہ اس کے لب ولہجہ کو زبان و ذہن میں اس طرح محفوظ کردیاگیا، ترمیم و تحریف سے مأمون ہوگیا۔ پھر اسی طرح یعنی سینہ بہ سینہ اور صحیفہ بہ صحیفہ ہر زمانہ میں تسلسل کے ساتھ اہل اسلام کا اتنا بڑا طبقہ اُسے مِن وعَن نقل کرتا چلا آرہا ہے کہ جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً ناممکن ہے۔(۴) یہی وہ خدا کا ابدی پیغامِ ہدایت ہے جسے قرآن کہتے ہیں اس پرایمان لانا ہر فرد پر لازم و فرض ہے اوراس کے کسی بھی جزء کا انکار کفر ہے۔(۵)
عظمتِ قرآن:
انسان کی فطرت میں ایسی قوت و صلاحیت ہی کہاں کہ پاک اور بے عیب ذات یعنی خالق کی صفات کو پاسکے اوراس کے کلام پرُانوار کواِس دنیا میں بلاواسطہ سُن اور سمجھ سکے۔ یہ تو اللہ رب العزت کی ضعیف الخلقت اشرف المخلوقات حضرت انسان پر بے حد عنایت و مہربانی ہے کہ اُس نے اُن حروف و اصوات میں جو کہ بشری صفات اور حادث ہیں اپنی صفتِ کلام کی تجلّی فرمائی یعنی اپنی قدرت سے جلالتِ کلام کی حقیقت کو حروف کے لباس میں پوشیدہ کردیا ورنہ اس کے بغیر اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اس میں کلام الٰہی کے سننے کی ہرگز طاقت نہیں تھی چہ جائیکہ اسے سمجھے۔
... وکیف تجلّت لہم تلک الصفة فی طی حروف واصوات ہی صفات البشر ان یعجز البشر عن الوصول الی فہم صفات اللّٰہ عزوجل الا بوسیلة صفات نفسہ. ولولا استتار کنہِ جلالةِ کلامہ بکسوة الحروف لما ثبت لسماع الکلام عرش ولاثری ولتلاشی ما بینہما من عظمة سلطانہ وسبحاتِ نورہ الخ (احیاء العلوم ۱/۳۳۹)
پس جس طرح انسان کا جسم اس کی روح کے لیے لباس و مکان ہے اور روح کی تعظیم و تکریم کی وجہ سے جسد خاکی بھی قابل تعظیم ہوگیا، اسی طرح قرآنی حروف وآواز کی تعظیم بھی اس لیے واجب ہے کہ کلام الٰہی کا نور اور حروف تجلی گاہ ہے۔ حضرت جعفرصادق رحمة الله عليه فرماتے ہیں ”واللہ خدا نے اپنے کلام میں تجلی فرمائی ہے جو مخلوق کے درمیان ہے لیکن لوگ اس کا مشاہدہ نہیں کرتے۔ (احیاء :۱ /۳۳۹)
کسی نے خوب کہا ہے:
چیست قرآن اے کلام حق شناس رونمائے ربِ ناس آمد بہ ناس
اے کلام حق کو پہچاننے والے قرآن کیا ہے؟ یہ لوگوں کے پروردگار کا جلوہ دکھانے والا ہے جو سب لوگوں کے پاس آیا ہے۔
اسی عظمت کے پیش نظر صاحبِ الشفاء قاضی عیاض رحمة الله عليه فرماتے ہیں ”جس شخص نے قرآن یا اس کے کسی جزء کا استخفاف کیا یااُسے بُرا بھلا کہا یا کسی حرف کا انکار کیا یا کسی ایسی چیز کا انکار کیا جو صراحتاً مذکور ہے خواہ وہ کوئی حکم ہو یا خبر یا ثابت کیا جس کی قرآن نے نفی کی ہے یا نفی کی جس کو قرآن نے ثابت کیا ہے درانحالیکہ وہ اُسے جانتا بھی ہے یا قرآن کی کسی چیز میں شک کرتا ہے تو ایسا شخص باتفاق المسلمین کافر ہے (التبیان لامام النووی ص:۱۶۴) کنزالعمال ۱/۲۷۵ میں ہے مَن تَہاوَن بالقرآن خسر الدنیا والآخرة. جس نے قرآن کے ساتھ تحقیر کی وہ دنیاو آخرت میں برباد ہوگیا۔
اور کیوں نہ ہو کہ کلام الملوک ملوک الکلام شاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے۔ پس کیا نہیں معلوم کہ شاہ کی یا اس کے کسی فرمان کی ادنی گستاخی و بے حرمتی گستاخ کو کیفرِ کردار تک پہنچادیتی ہے۔ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ کلام کو اپنا کلام محبوب ہوتا ہے اور اس کی ناقدری مبغوض ہوتی ہے۔ قرآن پاک بھی اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے القرآن احب الی اللّٰہ مِن السموات والارض (مشکوٰة) قرآن اللہ تعالیٰ کو آسمان وزمین یعنی کائنات سے زیادہ محبوب ہے۔
کلام الٰہی کے اسمائے گرامی:
کسی چیز کو اگر مختلف ناموں سے پکارا اور مختلف لقبوں سے یاد کیا جاتا ہے تو یہ اس کی قدر ومنزلت اور عظمت و رفعت کا پتہ دیتا ہے اس لیے کہ ناموں کی کثرت مسمّیٰ کے پوشیدہ حقائق وکمالات کے اظہار کا آئینہ ہے کثرة الاسماء دالةٌ علی شرف المسمّٰی (اتقان ۱/۷۰ طبع دہلی) اس اعتبار سے دنیا کی کوئی کتاب بجز قرآن کے ایسی نہیں ہے جس کے لیے بہت نام تجویز کیے گئے ہوں، پس کہنا چاہیے کہ جس طرح معبود حقیقی کے صفات و کمالات کا اظہار اس کے ننانوے یا زائد ناموں سے کیا جاتا ہے اسی طرح اس کے کلام بلاغت نظام کو مختلف ناموں سے پہچاننا بیشک اس کے علوشان کا قرینہ ہے۔
شیخ ابوالمعالی عزیزی بن عبدالملک نے اپنی کتاب ”البرہان“ میں لکھا ہے اعلم ان اللّٰہ تعالٰی سمی القرآن بخمسة وخمسین اسما اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے پچپن نام رکھے ہیں اور بقول بعض اس سے بھی زائد۔ یہاں ان میں سے چند مخصوص ناموں کی کچھ وضاحت کی جاتی ہے تاکہ کلام اللہ کی عظمت و وقعت دلوں میں اجاگر ہو۔
(۱) ”الکتاب“ کلام الٰہی نے سب سے پہلے اپنا تعارف ”الکتاب“ کے نام سے کرایا ہے۔ الٓم ذلک الکتٰب لاریب فیہ، الٓم کتٰب اُحکِمت آیٰتُہ.
کتاب کے اصل معنی ”ضم“ (ملانا)اور ”جمع“ ہے۔ ویسے تو ہر کلام اپنے اندرمحدود معانی وحقائق کو شامل ہونے کی وجہ سے ”کتاب“ کہلاسکتا ہے،مگر لامحدود حقائق وعجائب علوم ومعارف،احکام واَمثال اور قصص و عِبَر وغیرہ کو علی وجہ الکمال جامع ہونے کی وجہ سے ”الکتاب“ کہے جانے کا مستحق حقیقت میں یہی کلام الٰہی ہے جس میں قطعاً شک کا شائبہ تک نہیں ہے۔ (مفردات للراغب ص۴۲۳، اتقان ۱/۶۷) نیز کتاب کے عرفی معنی ”نوشتہ“ (لکھا ہوا) ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پہلے ہی قدم پر لوگوں کے ذہنوں میں یہ جواب نقش کررہاہے کہ وہ توابتدائے نزول سے ہی مکتوب ونوشتہ شکل میں مخلوق کے پاس محفوظ رہنے والا ہے۔ اس لئے یہ کہہ کر ”قرآن عہد صدیقی کا مرتب کردہ ہے“ قرآن کے کسی جزء کو مشکوک ٹھہرانا باطل ہے۔ (تدوین قرآن ازافادات مولانا مناظراحسن گیلانی)
(۲) ”القرآن“ اس کتاب کا سب سے مشہور نام ”قرآن“ ہے شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن، انا انزلناہ قرآناً عربیًا، ان علینا جمعہ و قرآنہ.
کلامِ الٰہی کا یہ نام جس کو خود اللہ تعالیٰ نے ساٹھ(۶۰) سے زائد مقام پر ذکر کیا ہے ایسا منفرد نام ہے جو ناخواندہ (اَن پڑھ) قوم کو قرأت(۶) (پڑھنے) سے مانوس کرنے اور علم وعدل سے وابستہ کرنے کیلئے کفار کے علی الرغم تجویز کیاگیا ہے جن کی کوشش یہ تھی کہ شوروغوغاء کرکے اس کلام کو پڑھے اور سنے جانے کے قابل نہ رکھیں۔(۷)
امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں ”نہ تو کسی شئی کے مجموعہ کو اور نہ ہی ہر کلام کے مجموعہ کو ”قرآن“ کہا جاتاہے بلکہ یہ صرف آخری پیغام خداوندی پر بولاجاتا ہے جو کتب سماویہ متقدمہ کے مضامین اور تمام علوم کے ثمرات کو جامع ہے“ (منفردات ص۴۰۲) مولانا رحمت اللہ لدھیانوی رحمة الله عليه لکھتے ہیں ”یہ کتاب زبور کی طرح مجموعہٴ مناجات بھی ہے اورانجیل کی طرح مجموعہٴ امثال بھی ہے توریت کی طرح گنجینہٴ شریعت بھی ہے اور کتب دانیال و یسعیاہ کی طرح خزینہٴ اخبار مستقبل بھی ہے۔ (مخزن اخلاق ص۴۵۷)
لفظ ”قرآن“ کے اشتقاق میں علماء کا نقطئہ نظر مختلف ہے۔ امام محمد بن ادریس الشافعی رحمة الله عليه تواسم جامد ہونے کے قائل ہیں اور مشتق ہونے کے اقوال میں سے دو ذکر کئے جاتے ہیں۔
۱- قرآن فُعْلان بالضم کے وزن پر مصدر بمعنی المفعول ہے جو ”قرء“ یا ”قرأت“ (مہموز اللام) سے ماخوذ ہے اس کے اصل لغوی معنی ”جمع الکلمات بعضہا الی بعض فی الترتیل“ یعنی ”پڑھنا“ ہے گویا قرآن کا نزول ہی پڑھنے کے لیے ہوا ہے چنانچہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کلام مجید ہی ساری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی۔ کبھی کسی زمانہ میں بالکلیہ اس کی قرأت نہ متروک ہوسکتی ہے اور نہ ہی اہل اسلام اس کے پڑھنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
۲- قرآن ”قَرْن“سے ماخوذ ہے جس کے معنی ملانا ہے یعنی فصاحت وبلاغت میں اس کے تمام کلمات مربوط اور سورتوں اور آیتوں کا تناسب و تناسق ایسا ہے کہ ہر آیت اعجاز میں اپنے ماقبل و مابعد سے مستقل ہونے کے باوجود پورا کلام معناً مقرون ومرتبط ہے۔ (مفردات ص۴۰۲، اتقان ص۶۸)
(۳) ”الفرقان“ قرآن پاک کا ایک امتیازی نام ”الفرقان“ ہے وانزل الفرقان، تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ.
فرق کے معنی دو چیزوں کے درمیان فصل کرنا خواہ وہ فصل آنکھوں سے دکھائی دے یا دل سے ادراک کیاجائے (مفردات ص۳۷۷) یعنی قرآن مجید بنی آدم کو ایسے احکام و تعلیمات سے آگاہ کرتا ہے کہ جن سے ایمان وکفر، حق وباطل اور مطیع و عاصی کے درمیان ایک حد فاصل پیدا ہوجاتا ہے اور اس سے حق یعنی اسلام کا پسندیدہ ومقبول ہونا اور غیراسلام کا باطل و مردود ہونا عیاں ہوجاتا ہے۔ لیحق الحق ویبطل الباطل اور اُس فرقان پر صحیح عمل کرنے والوں کو ایسی شان عطا کرتا ہے جس سے وہ دوسروں سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔
(۴) ”برہان“ قرآن کا ایک اہم نام ”برہان“ ہے قد جاء کم برہان من ربکم ”برہان“ ایسی مستحکم دلیل کو کہتے ہیں جس میں قطعی اور ابدی سچائی نمایاں ہو (مفردات ص۴۵) یعنی یہ کلام الٰہی ماضی کے واقعات اور مستقبل کے اخبار واحوال کو حتمی صداقت وحقانیت کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ شکوک و اوہام کا پردہ چاک کرکے یقین تک پہنچادیتا ہے اور جواس کی سچائی میں رخنہ اندازی کرے اُن سے ان کے دعوی پر اسی طرح کی مضبوط ومستحکم دلیل کا مطالبہ کرتا ہے۔ قل ہاتوا برہانکم ان کنتم صٰدقین.
(۵) ”تنزیل“ قرآن شریف کا ایک بنیادی نام ”تنزیل“ ہے تنزیل من حکیم حمید، تنزیلٌ من ربِّ العٰلمین.
یعنی یہ کلام جو فرقان اور برہان ہے اس کا مبدأ ومصدر عرب کے کسی فصیح وبلیغ ادیب یا غیب کی جھوٹی خبر دینے والے کاہن و نجومی یا کسی بڑے مصلح اور ریفارمر کی ذات حتی کہ نبی کی ذات بھی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی بے عیب و بے نظیرہستی لیس کمثلہ شیء کی طرف سے نازل کیاگیا ہے جو سارے ہی کمالات کا سرچشمہ اور ساری قوتوں کا تنہا مالک ہے جہاں عجز و ضعف اور جہل کا ادنی واہمہ تک نہیں ہے اور جو تمام مخلوق کا یکتا حقیقی مربی ہے جس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا انسان بلکہ ہر مخلوق کا فطری جذبہ اور اس کی دعوت ہے۔
(۶) ”الذکر“ قرآن کا ایک خصوصی نام ”الذکر“ ہے انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون، وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس، ان ہو الا ذکر للعٰلمین.
یعنی قرآن شریف دینی ودنیوی انعامات یاد دلاکر نافرمان قوموں کی عبرت خیز ہلاکت اور مومنین کی حیرت انگیز نجات کے سچے واقعات بیان کرتے ہوئے تمام انسانوں کے لیے عبرت پذیری اور نصیحت گیری کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اور افلا یتذکرون، لعلکم تذکرون جیسے کلمات سے لوگوں کو خواب غفلت سے ہوشیار کرتاہے تاکہ موت اور مابعد الموت کی حقیقی دائمی زندگی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیں۔
(۷) ”حبل اللّٰہ“ قرآن کا ایک وصفی نام ”حبل اللہ“ ہے واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعًا ولا تتفرقوا.
خدا کی زمین پر جو انسان (وجن) دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے خالق کی طاعت و بندگی سے بیزار ہیں اور کفر و معصیت کے گڑھے اور دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور قعرِ مذلت سے نکل کر منزل کی تلاش اور قرب الٰہی کے طلبگار ہیں ایسے تمام لوگوں کے لیے قرآن مجید اللہ کی اتاری ہوئی رسی ہے جو اسے مضبوطی سے تھام لے گا وہ کفر و عصیان کے گڑھے سے نجات پاکر بلند مقام پر پہنچ جائے گا۔ حبل اللّٰہ ہو القرآن (کنزل العمال ۱/۲۷۷)
(۸) ”النور“ قرآن کا ایک روشن وصف ”النور“ ہے وانزلنا الیکم نورا مبیناً، قد جاء کم من اللّٰہ نورٌ.
اللہ تعالیٰ نے انسان کو نور بصراور نور عقل دونوں نعمت سے نوازا ہے پس جب انسان نور عقل کے ذریعہ اللہ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہ کی رسالت تسلیم کرکے قرآنی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے تو یہ قرآن اُسے نور معرفت عطا کرتاہے جس سے وہ موٴمن گناہوں کی ظلمت سے بچتے ہوئے ان ہذ القرآن یہدی للتی ہی اقوم قرآن کی روشنی میں جنت کا راستہ طے کرتا چلا جائیگا۔ یسعی نورہم بین ایدیہم وبایمانہم (مفردات ص۵۰۷، اتقان ۱/۶۸)
(۹) ”الشفاء“ قرآن کا ایک دل پذیر نام ”شفاء“ ہے قل ہو للذین آمنوا ہدیً وشفاء، وشفاء لما فی الصدور.
روئے زمین پر قرآن مجید ہی وہ نسخہٴ صحت ہے جس کی ہدایت پر کما حقہ عمل کرنا امراضِ قلبیہ (کفر، جہل، کبر، حسد، خیانت، بغض، وغیرہ) سے صحت وشفاء کا ضامن ہے ویشف صدور قوم موٴمنین بلکہ قرآن کے ظاہری الفاظ بھی انسان کی جسمانی بیماریوں کے لیے دوائے شیریں ہے حتی کہ اسی تاثیر کی وجہ سے ایک مستقل سورة کا نام بھی ”سورة الشفاء“ ہے۔ (اتقان ۱/۶۸)
مختلف سورتوں کے مختلف نام:
جس طرح مکمل قرآن پاک کے مختلف اسماء ہیں اسی طرح اس کی سورتوں کے بھی ایک سے زائد نام وارد ہوئے ہیں بلکہ بعض بعض آیتوں کے بھی مستقل نام حدیث سے ثابت ہیں،مثلاً سورئہ فاتحہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمة الله عليه لکھتے ہیں قد وقفت لہا علی نیف وعشرین اسما.
یہاں صرف نمونہ پیش کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
(۱) فاتحة الکتاب (۲) ام القرآن (۳) السبع المثانی (۴) سورة الحمد (۵) سورة الصلاة (۶) سورة الشفاء (۷) سورة المناجاة (۸) سورة الادب وغیرہ۔
سورئہ بقرہ کو سنام القرآن فسطاط القرآن بھی کہا گیا ہے
سورئہ مائدہ کو سورة العقود سورة المنقذہ بھی کہتے ہیں
سورئہ انفال کو سورة البدر بھی کہتے ہیں
سورئہ برأة کو سورة التوبة سورة الفاضحة سورة العذاب بھی کہا گیا ہے
(تفصیل کے لیے اتقان کی مراجعت فرمائیں)
چند آیتوں کے نام:
آیة الکرسی، آیة المباہلہ، آیة الربا، آیة المیراث،آیة الحجاب، آیة التخییر، وغیرہا۔
نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں سورتوں کے ایک سے زائدنام آئے ہیں اس کے برعکس چند سورتوں کے مشترک نام بھی آئے ہیں۔ کماسمیت السورة الواحدة باسماء سُمیت سُورٌ باسم واحد (اتقان۱/۷۴)
(۱) زہراوین: سورہٴ بقرہ وآل عمران
(۲) جامدات: وہ سورتیں جن کے شروع میں ”الحمد“ ہے جیسے سورئہ فاتحہ، انعام، کہف، سبا، فاطر۔
(۳) حوامیم: وہ سورتیں جن کے شروع میں ”حم“ ہے جیسے سورہٴ موٴمن، حم سجدہ، شوریٰ، زخرف، دخان، جاثیہ، احقاف۔
(۴) مُسَبِّحات: وہ سورتیں جن کے شروع میں تسبیح کا کوئی صیغہ سبّح یا یسبح وغیرہ ہے جیسے اسراء، حدید، حشر، جمعہ، تغابن، اعلیٰ۔
(۵) معوّذتین: سورئہ فلق، سورئہ ناس۔
بعض سورتوں کو ایسے بھی نام دئے گئے ہیں جن سے انکا مقام یا شان واضح کی گئی ہے مثلاً:
(۱) ام القرآن سورئہ فاتحہ (۲) سنام القرآن سورة البقرہ
(۳) نواجب القرآن سورئہ انعام (۴) قلب القرآن سورة یس
(۵) عروس القرآن سورئہ رحمن (۶) دیباج القرآن الحوامیم
(۷) ریاض القرآن المفصلات
(تفصیل کے لیے اتقان، برہان، اورفتح العزیز ملاحظہ فرمائیں)
جمع قرآن اور اس کی حفاظت:
حفاظت کلام کے دو بنیادی طریقے ہیں الضبط ضبطان (نخبة الفکر) ایک حفظ (ازبر) کرنا دوسرا کتابت یعنی کسی چیز پر نقش کرنا اِن دونوں میں بھی اصل واہم حفظ ہے ان المعوّل علیہ وقتئذ کان ہو الحفظ والاستظہار (مناہل العرفان ۱/۲۵۳) اس لیے کہ مکتوب علیہ (جس پر کلام لکھا گیا ہے) کے پھٹنے یا جلنے، ڈوبنے یا چھن جانے سے نوشتہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے جبکہ لوح قلب پر جو محفوظ ہوگیا وہ اِن تمام خدشات سے مامون ہوتا ہے اِلا یہ کہ تقدیر الٰہی کے ماتحت صفحہٴ دل سے محو کردیا جائے تو یہ امر آخر ہے۔
قادر مطلق نے اپنے کلام کی حفاظت کے لیے دونوں نظام چلائے ہیں چنانچہ سب سے پہلے عام کتب سماویہ کی طرح قرآن کو کتابی شکل میں نازل کرنے کے بجائے لوح محفوظ سے نبی كريم صلى الله عليه وسلم کے لوحِ قلب پر نازل کیا نزل بہ الروح الامین علی قلبک اور اس کی حفاظت کا وعدہ فرماکر دل سے محو ہوجانے کے اندیشہ کو زائل فرمایا انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون، ان علینا جمعہ وقرآنہ یعنی خدائے حافظ نے اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم کو کلام کا حافظ بنادیا۔ اور ثانیاً ذلک الکتٰب کہہ کر کتابت کے ذریعہ محفوظ کرنے کا اشارہ فرمادیا۔
جمع نبوی:
صاحب وحی نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر وحی کا نزول ختم ہوتے ہی قرآن آپ کے سینہ میں محفوظ ہوجاتا تھا پھر سب سے پہلے تحریراً ضبط کرنے کے لیے کاتبانِ وحی میں سے کسی کو طلب فرماتے جیسے خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام اور عموماً حضرت زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه حاضر خدمت ہوتے اور نازل شدہ حصہ کو کسی پائدار چیز پر لکھ کر محفوظ کرلیتے تھے۔ پھر یہ لکھا ہوا کلام صحابہ کے سامنے پیش کیا جاتا اور پڑھ کر سنایا جاتا تھا اس طرح پورا قرآن ”رقاع“ چمڑے کے ٹکڑوں ”اکتاف“ اونٹ کی گول چوڑی ہڈیوں ”اقتاب“ کجاوہ کی چوڑی پٹیوں ”لَخاف“ سطیٹ نما سفید پتھرکی پلیٹوں ”ادیم“ دباغت شدہ چمڑوں ”عسیب“ کھجور کے پتوں کی جڑ کا حصہ(۸) وغیرہ اشیاء میں محفوظ کرلیا جاتا تھا اور پھر صحابہٴ کرام حضور صلى الله عليه وسلم کے روبرو لکھے ہوئے حصہٴ قرآن کی نقل اتار لیا کرتے تھے کنّا نوٴلف القرآن عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (کنزالعمال) اور رسالتمآب صلى الله عليه وسلم سے سن کر حفظ کرلیتے تھے۔ غرض پورا کلام الٰہی صرف نبیٴ پاک ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے پاس بھی مذکورہ بالا دونوں طریقوں سے نزول کے ساتھ ساتھ محفوظ ہوتا چلاگیا۔ اور جب سلسلہٴ وحی بند ہوا تو اس وقت تک سوپچاس نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد کم و بیش حصہٴ قرآن کے حافظ وقاری صحابہ میں موجود تھے اور کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہیں جنھیں فاتحہ الکتاب سے والناس تک مکمل قرآن حفظ تھا اسی طرح مکمل قرآن پاک کی نقلیں بھی محفوظ تھیں (مناہل العرفان ۱/۲۴۵)
پس مستشرقین کا یہ کہنا کہ ”قرآن صاحب وحی کی حیات میں محفوظ نہیں تھا“ یا ”صدیق اکبررضى الله تعالى عنه کے زمانہ ہی میں جمع کیاگیا“ بے بنیاد اعتراض ہے بلکہ دانستہ طور پر حقیقت کا انکار ہے۔
جمع صدیقی:
پھر اس کے بعد ایک طرف تو حفظِ قرآن کا سلسلہ چلتا رہا، مگر دوسری طرف چھوٹے بڑے معرکوں میں حافظِ قرآن صحابی بھی جام شہادت پی کر داغ مفارقت دیتے رہے یہاں تک کہ جنگ یمامہ میں جو حضور صلى الله عيله وسلم کی وفات سے قریب ہی مدت میں لڑی گئی ہے ستر یا سات سو حفاظِ صحابہ کی شہادت نے فاروق اعظم رضى الله تعالى عنه جیسے وزیر باتدبیر کی وزارت میں لرزہ پیدا کردیا اور امت مسلمہ مرحومہ کا بیڑا منجدھار میں نہ پھنس جائے مُلْہَم ومُوفَّق من اللّٰہ شخص جس کی زبان پر حق ہی جاری ہوتا ہے یعنی حضرت عمررضى الله تعالى عنه نے خلیفہ رسول صدیق اکبر سے عرض کیا کہ قرآن کو یکجا محفوظ کرلیا جائے کہ حضور صلى الله عليه وسلم سے براہ راست کلام اللہ کو سن کو حفظ کرنے والے اور آپ کے سامنے قرآن کو لکھ کر اس کی حفاظت کرنے والے ابھی بے شمار صحابہ موجود ہیں جو قرآن کے تواتر کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمررضى الله تعالى عنه کی فرمائش پر صدیق اکبر رضى الله تعالى عنه کے سینہ کو اِس عظیم خدمت کے لیے منشرح فرمادیا۔ اب شیخین نے مل کر حضرت زید بن ثابت رضى الله تعالى عنه کو اس خدمت کے لیے مستعد کیا، اللہ رب العزت نے ان کو بھی شرح صدر کی دولت سے سرفراز کیا۔ چنانچہ خلیفہ رسول کی نگرانی میں انتہائی تفتیش و تحقیق اور شرعی شہادت اور غایت درجہ احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے مذکورہ بالا اشیاء ”رقاع“ وغیرہ سے جس ترتیب سے حضور صلى الله عليه وسلم نے ضبط کرایا تھا اور جس کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی بعینہ اس کو دوسرے اوراق میں یکجا کردیاگیا اور گتے لگاکر دھاگوں سے باندھ دیاگیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ جو ان ہی کے لیے ازل سے مقدر تھا کہ اللہ تعالیٰ جس سے امت کی شیرازہ بندی کا کام لینے والا ہے اسی سے امت کے ہدایت نامہ کی شیرازہ بندی کرائیں کان القرآن فیہا منتشرًا فجمعہا جامع وربطہا بخیط (کنز العمال) تاکہ مجموعہٴ واحد کی حفاظت آسان ہو اور پورے قرآن کی تلاوت اور اس سے استفادہ سہل ہوجائے۔
اس طرح قرآن کا یکجا کرنا حضور صلى الله عليه وسلم کی وفات کے بعد ہی ممکن تھا اس لیے کہ آپ کے انتقال تک نسخ وغیرہ کا احتمال موجود تھا۔ انما لم یجعلہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی مصحف واحد لما کان یتوقع من زیادتہ ونسخ بعض المتلو ولم یزل ذلک التوقع الی وفات النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم. (التبیان ص۱۸۶، مناہل العرفان، تدوین قرآن لمناظر گیلانی رحمة الله عليه)
جمع فاروقی:
عرف عام میں ”جامعِ قرآن“ کا مہتم بالشان لقب حضرت عثمان غنی رضى الله تعالى عنه کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِس لفظ ”جامعِ قرآن“ سے مراد عین قرآن کو جو منتشر تھا جمع کرنا ہے تو جامعِ قرآن حضرت ابوبکر صدیق رضى الله تعالى عنه ہیں جس کے محرک اور داعی فاروق اعظم ہیں اوراگر امت کو قرآن پر جمع کرنا مراد ہے جیساکہ حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه کو غالباً اسی اعتبار سے ”جامعِ قرآن“ کہا جاتا ہے تو پھر پورے وثوق اور یقین سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ حضرت عمررضى الله تعالى عنه واقعتا ”جامعِ قرآن“ ہیں چنانچہ حکمت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اوّلاً نبیٴ امی صلى الله عليه وسلم نے نفس قرآن کو محفوظ فرمایا پھر صدیق اکبررضى الله تعالى عنه نے مصحف واحد میں یکجا فرمایا جس سے اصل قرآن کی حفاظت ہوگئی اب ضرورت تھی نزولِ قرآن کے اولین مقصد یعنی تلاوت پر امت کو کسی خاص ڈھنگ سے جمع کردیا جائے یہ کارنامہ حضرت عمررضى الله تعالى عنه کے لیے مقدر تھا۔ چنانچہ فاروق اعظم رضى الله تعالى عنه نے اپنی خلافت کے زمانہ میں حفاظت قرآن کا ایک عجیب نظام قائم کیا رہنمائی خود صاحب قرآن صلى الله عليه وسلم نے فرمادی تھی لیکن بعض مصالح کی بناء پر آپ صلى الله علیہ وسلم نے حتمی شکل وصورت متعین نہیں کی تھی اور خلیفة الرسول حضرت صدیق اکبر کو اپنی خلافت کی قلیل مدت میں امت کی شیرازہ بندی کی وجہ سے موقع میسر ہی نہیں آیا کہ اس طرح متوجہ ہوتے۔ بہرحال اب تک صحابہ کرام اور تابعین عظام انفرادی طور پر نماز میں قرآن پڑھا کرتے تھے بالخصوص رمضان شریف میں پڑھنے والوں کی کثرت ہوتی تھی۔ بالآخر حضرت عمررضى الله تعالى عنه نبوی ہدایت کی روشنی میں اجتماعی طریقہ سے حفظاً قرأت اور سماع پر سب لوگوں کو جمع کیا یعنی ماہ مبارک (افضل الشہور) میں شب کی نماز کی بیس رکعتوں میں جماعت کے ساتھ قرآن کے پڑھنے اور سننے کا سلسلہ جاری فرمایا جسے شریعت کی زبان میں تراویح کہتے ہیں۔ تمام صحابہ اور تابعین نے بلا نکیر اس انوکھے اورمستحکم طریقہ کو بہت پسند فرمایا اور عملاً اس پر متفق و متحد ہوگئے لہٰذا حضرت عمر بھی جامع للقرآن ہوئے یعنی جامع الامة علی قرأة القرآن فی التراویح اجماع صحابہ و تابعین نے حضرت عمررضى الله تعالى عنه کے اس طریق عمل کو قطعی بنادیا اور قیامت تک کے لیے (۲۰) بیس رکعت تراویح سنت موٴکدہ قرار پائی۔
پس حضرت صدیق اکبررضى الله تعالى عنه کا جمع قرآن اجماعی ہے اور حضرت عثمان رضى الله تعالى عنه کا رسم الخط بھی اجماعی ہے بالکل اسی طرح حضرت عمررضى الله تعالى عنه کا مسئلہ تراویح بھی اجماعی ہے اور ان میں سے کسی بھی اجماع کا انکار اہل السنة والجماعة سے انحراف اور ضلالت ہے۔
جمع عثمانی:
حفاظتِ قرآن کے سلسلہ میں اب ایک اہم کام باقی رہ جاتا ہے کہ ایک سے زائد طریقہٴ اداء سے قرآن پڑھنے کی جو اجازت دی گئی ہے جیساکہ حضرت اُبَی بن کعب کی حدیث میں ہے ان اللّٰہ یامرک ان تقرء امتُک القرآن علی سبعة احرف فایما حرف قرء وا علیہ فقد اصابوا (مسلم) وہ کہیں آگے چل کر حق وباطل کے اختلاف کا سبب نہ بن جائے اس طرح پر کہ مختلف قبائل کے لوگ جب اپنے اپنے طریق ادا کے مطابق رسم الخط میں قرآن کی نقل تیار کرنے لگیں گے اوراس کی وجہ سے ہر قبیلہ کا قرآن دوسرے قبیلہ کے قرآن سے رسم الخط میں جدا نظر آئے گا پھر ہر ایک اپنے طریق ادا ء کو حق بتانے کے لیے اپنا قرآن پیش کرے گا تو مستقبل میں فتنہٴ عظیم برپا ہوگا (اتقان، الفوز الکبیر، تاریخ طبری ۱/۶۵۱) اس لیے حکمت الٰہیہ کا تقاضہ ہوا کہ رسم الخط کے اعتبار سے الگ الگ مصحف کو ایک مصحف پر جمع کردیا جائے۔ عثمان جمع المصاحف علی مصحف واحد (مقنع للدانی ص۸) تاکہ امت اختلاف کا شکار نہ ہو اور رسم الخط کی وحدت پر مجتمع ہوجائے اور قرأتِ متواترہ جو منزل من اللہ ہے اور اس میں امت کے لیے سہولت بھی ہے وہ بھی سالم اور محفوظ رہے۔(۹)
مذکورہ تحریر سے معلوم ہوا کہ قرآن کا نزول جس طرح بتدریج ہوا ہے اسی طرح اس کی حفاظت میں بھی تدریجی حکمت پنہاں ہے بلکہ دونوں کی مدت بھی تقریباً یکساں ہے۔ الفاظ کے بعد معانی کا درجہ ہے جس کا دروازہ خلیفہ رابع حضرت علی ہیں انا مدینة العلم وعلی بابہا (جامع الصغیر ۳/۴۶) ماشاء اللہ کیا خوب ترتیب ہے۔ (جاری)
--------------
حواشی:
(۱) نزل بہ الروح الامین علی قلبک پ :۱۹
(۲) نزل فی نیف و عشرین سنة فی احکام مختلفة لاسباب مختلفة (اتقان۲/۱۳۸)
انزل الملِک علی الاطلاق جلّ شانہ علی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لہدایة عبادہ سورة بعد سورة حسب متطلّبات الظروف (الفوز الکبیر ص۸۷)
(۳) القرآن ہو الوحی المنزل علی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم للبیان والاعجاز (اتقان۲/۱۳۸)
(۴) انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون (قرآن)
ہو المنزل علی الرسول المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ الینا نقلا متواتراً بلاشبہة (نورالانوار، تعریفات للجرجانی ص۷۵)
(۵) فتح الباری ص۹
(۶) اشارة الی اشتقاقہ من القرأة او القرن.
(۷) لاتسمعوا لہٰذا القرآن والغوا فیہ پ ۲۶
(۸) عرب میں کھجور کے پتوں کی جڑ ہمارے یہاں کے ناریل کے پتوں کی جڑ کی طرح چوڑی ہوتی تھی نہ کہ ہندوستانی کھجور کے پتوں کی جڑ (از تدوین قرآن مولانا مناظراحسن گیلانی)
(۹) جمع عثمانی کا مزید بیان رسم عثمانی کے ذیل میں آ ئے گا، ان شاء اللہ۔
No comments:
Post a Comment