Tuesday, 13 November 2018

توہین رسالت یا گستاخی پیغمبر؛ جامع مانع تعریف Definition کیا ہے؟

توہین رسالت یا گستاخی پیغمبر؛ جامع مانع تعریف Definition کیا ہے؟
سوال: یہ جو توہین رسالت یا گستاخی پیغمبر پر قانون یا فتوی قتل وغیرہ ہے تو سمجھنا یہ ہے کہ گستاخی یا توہین کس کو کہینگے..... جامع مانع تعریف Definition کیا ہے؟؟؟؟؟
جواب: گستاخ رسول کی توبہ کے بارے میں متقدمین ومتاخرین احناف کے اقوال کا محاکمہ
گستاخ رسول کی موضوع پر لکھی گئی کتب میں قاضی عیاض ؒ کی الشفا، علامہ ابن تیمیہ ؒ کی الصارم المسلول کی رو سے گستاخ کی سزا صرف قتل ہے، یہی رائے متاخرین حضرات ِحنفیہ اور بعض حضراتِ شافعیہ کی بھی ہے، جب کہ متقدمین حضراتِ حنفیہ جن میں امام ابو حنیفہؒ، امام ابویوسفؒ، امام طحاویؒ اور اسی طرح امام سغدی ؒاور دیگر حضرات کے نزدیک گستاخِ رسول سب وشتم سے کافر ہوجاتا ہے اور ایسا شخص اگر ذمی ہے تو اس کو ہر قسم کی سزادینے میں حاکم ِ وقت کو اختیار حاصل ہے، جب کہ مسلمان گستاخی کرنے سے مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کے بارے میں راجح مسلک یہی ہے کہ اس سے توبہ طلبی کی جانی چاہیے، علامہ ابن عابدین شامی کی کتاب تنبیہ الولاۃ والحکام کا یہی خلاصہ ہے، عصر حاضر میں گستاخ رسول کے حوالے سے متعدد حلقوں میں آئین ِ پاکستان میں موجودہ امتناع توہین رسالت ایکٹ کی ترمیم کرانے پر چہ میگوئیاں ہورہی ہیں اسی سے متعلق حضرات ِ احناف کے آراء نقل کرکے ان میں محاکمہ کی کوشش قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
-----------------------------------------------
اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں کہ گستاخِ رسول کی سزا جمہور فقہائے کرام کے نزدیک قتل ہے، لیکن کیا قتل سے پہلے اس کا توبہ قابل قبول ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں فقہائے احناف کے آراء مختلف ہیں ، متقدمین حضراتِ حنفیہ گستاخ رسول کا توبہ قبول کرنے کے قائل ہیں ، جب کہ متاخرین حضرات قبولیت توبہ سے انکار کرتے ہیں ،عصر حاضر میں یہ موضوع زیادہ زیر بحث ہیں کہ کیا گستاخ رسول کا توبہ قبول ہے؟ جیسا کہ متقدمین حضراتِ حنفیہ کی رائے ہیں ، یا پھر متاخرین کی رائے کے مطابق ان کا توبہ بالکل قبول نہیں اور اس جرم کی سزا صرف قتل ہے۔
گستاخ ِ رسول کی سزا کے بارے میں حضرات احناف کے اقوال:
حضراتِ احناف کے مذہب کا حاصل دواقوال ہیں : پہلا قول: گستاخ ِرسول کے بارے میں متقدمین قبولیتِ توبہ کے قائل ہیں ، دوسرا قول: گستاخِ رسول کو بغیر توبہ طلبی کے قتل کیا جائے گا
واضح رہے کہ حضرات فقہائے حنفیہ نے گستاخ رسول کے بحث کو مستقل باب کی شکل میں ذکر نہیں کیا، بلکہ مسلمان گستاخ رسول کے احکام کتاب الردۃ میں، حربی گستاخ کے احکام کتاب السیرمیں، جب کہ ذمی گستاخ کے احکام نقضِ عہد کے ابواب میں نقل کیے ہیں، اس انداز تحریر سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ احناف کے نزدیک گستاخ رسول کا حکم مرتد کی طرح ہے، لہٰذا اس پر مرتد کے احکام لاگو ہوں گے، علامہ تقی الدین السبکیؒ نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
شوافع اور احناف گستاخی کے مسئلے کو مستقل زیر بحث نہیں لاتے، بلکہ اسے باب الرد اور نقض عہد کے ضمن میں ذکر کرتے ہیں (۱)کتب احناف اور کتب شوافع گستاخ رسول کا توبہ بغیر استثنا ء قبول کرتے ہیں ، جب کہ مالکیہ اور حنابلہ چند صورتوں میں مرتد کا توبہ قضائًً قبول نہیں کرتے:پہلی صورت: متعدد بار ارتداد کرنے والا دوسری صورت: زندیق تیسری صورت: گستاخ رسالت جب کہ شوافع اور حنفیہ زندیق کے علاوہ تمام مرتدین کا توبہ قبول کرتے ہیں (۲)
گستاخ رسول کے بارے میں فقہائے احناف کی رائے
٭ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے یہ تصریح منقول ہے کہ گستاخ رسالت اگر توبہ تائب ہوجائے، تو تعزیر دینے کے بعد اس کا توبہ قبول کیا جائے گا(۳)
٭ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان مرد شان رسالت میں گستاخی کریں یا پھر برا بھلا کہہ کر توہین آمیز کلمات استعمال کریں ، تو یہ شخص کافر ہے،اس کی بیوی بائنہ ہوگئی، اگر توبہ کریں ، تو ٹھیک وگرنہ پھر اسے قتل کر دیا جائے گا(۴)
٭ امام محمد رحمہ اللہ نے الجامع الصغیر میں لکھا ہے کہ آزاد اور غلام مرتد مرد پر پہلے اسلام پیش کیا جائے گا اور انکار کی صورت میں قتل کر دیا جائے گا، جب کہ مرتدہ عورت کے مسلمان ہونے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی جائے گی، لیکن اسے قتل نہیں کیا جا سکتا(۵)
٭ امام ابو الحسن الکرخی رحمہ اللہ نے مرتد کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے ہر حال میں توبہ طلبی کرنی چاہیے(۶)
٭ علامہ سغدی رحمہ اللہ نے گستاخ رسول کے بارے میں لکھا ہے کہ شان رسالت میں توہین کرنے والا مرتد ہے، اس کا وہی حکم ہے، جو دوسرے مرتدین کا ہے(۷)
٭ علامہ خیر الدین رملی رحمہ اللہ نے گستاخ رسول کو مرتد قرار دے کر اس حکم کو فقہ حنفی کا عام مسلک کہا ہے(۸)
٭ علامہ سید احمد حموی رحمہ اللہ نے گستاخ رسول کے بارے میں علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ کی رائے پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی اس رائے پر معاصرین علما ء نے بھی خوب تنقید کی، چونکہ یہ رائے قاضی عیاضؒ سے منقول ہے، جو کہ مسلکاً مالکی ہے، گستاخ رسول کا حکم اگر فقہ حنفی کی رو سے دیکھا جائے، تو اس کا توبہ قابل قبول ہونا چاہیے(۹)
٭ علامہ حسام الدین چلپی رحمہ اللہ نے گستاخ رسول کے بارے میں امام بزازی کی تنقید پر ایک رسالہ تحریر کیا ہے، جس میں کتباحناف کی روشنی میں گستاخ رسول کی قبولیت توبہ کو دلائل سے ثابت کرکے یہ فیصلہ کیا ہے کہ توبہ قبول نہ کرنے کی رائے حضرات احناف میں امام بزازی کے علاوہ کسی اور کا نہیں (۱۰)
٭ علامہ تمرتاشیؒ نے شیخ الاسلام ابن عبدالعال ؒسے گستاخ رسول کے بارے میں علامہ ابن الہمام اور امام بزازی ؒکی اس رائے کی حقیقت نقل کی ہے کہ درحقیقت یہ رائے ان دونوں حضرات نے علامہ ابن تیمیہؒ کی الصارم المسلول سے نقل کی ہے، جب کہ اس رائے کو نقل کرکے ان دونوں حضرات نے الصارم المسلول کے علاوہ فقہ حنفی کی کسی کتاب کا حوالہ پیش نہیں کیا، جب کہ فقہ حنفی کے اکثر کتب میں گستاخ رسول کو مرتد کہا ہے، جس میں النتف فی الفتاوی، معین الحکام، شرح الطحاوی، حاوی الزاہدی اور دوسری کتب شامل ہیں، جس میں احناف کے مذہب پر گستاخ ِرسول کی توبہ کو قبول کیا ہے(۱۱)
٭ شیخ المشائخ علامہ رحمتی رحمہ اللہ نے گستاخ رسول کے بارے میں امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا مذہب احناف کی طرح نقل کیا ہے کہ اس کا توبہ قبول کیا جائے گا، اگر چہ امام مالکؒ سے یہ روایت قوی نہیں ، جب کہ امام شافعی ؒکا راجح مسلک وہی ہے، جو حضرات احناف کا ہے اور حضرات احناف گستاخ رسول کو مرتد کہتے ہیں ، لہٰذا مفتی کو چاہیے کہ احکام بیان کرنے میں دقت نظر اور بصیرت سے کام لے کر ہر غیر مانوس قول سے احتراز کرنا چاہئے(۱۲)
٭ ابن افلاطون زادہ رحمہ اللہ نے شرح الطحاوی کے حوالے سے بھی گستاخ ِرسول کو حکماً مرتد قرار دیا ہے(۱۳)
٭ شیخ المشائخ علامہ سائحانی رحمہ اللہ سے علامہ ابن عابدین ؒ گستاخ رسول کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ میرے ذہن میں یہ بات نہیں آتی، کہ کیوں علامہ تمرتاشیؒ نے شیخ الاسلام علامہ ابن عبدالعال سے گستاخ رسول کے بارے میں یہ رائے سنی اور پھر بھی ان نقل کے خلاف اپنے کتاب کے متن میں گستاخ رسول کے قبولیت توبہ سے انکار کیا(۱۴)
٭ علامہ مصطفی بن محمد الطائی(۱۱۹۲ھ)نے لکھا ہے کہ اگر شاتم رسول کی گستاخی علی الاعلان ببانگ دہل ہو یا گستاخی کا عادی ہو، تو پھر اس کی سزا صرف قتل ہے(۱۵)
٭ علامہ ابن کمال باشاؒ نے لکھا ہے کہ اگر گستاخ رسول علی الاعلان گستاخی کرے، تو اس کی سزا صرف قتل ہے(۱۶)
٭ علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ نے آخر میں بطور فیصلہ لکھا ہے کہ گستاخ رسول کا توبہ قبول نہ کرنے کے بارے میں حضرات احناف کے مستند متون وشروح،فتاوی اور کتب شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے نقول سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ حنفیہ کا مسلک نہیں ۔
گستاخ رسول کے بارے میں حضرات فقہائے احناف کی دوسری رائے:
متاخرین حضرات حنفیہ گستاخ کی قبولیت توبہ کے بارے میں قدرے تفصیل سے کام لیتے ہیں.


No comments:

Post a Comment