Saturday 10 November 2018

ہاشم پورہ اور ملیانہ: مسلمانوں کے قتلِ عام کی کہانی

ہاشم پورہ اور ملیانہ: مسلمانوں کے قتلِ عام کی کہانی
علی سردار جعفری کا یہ شعر آج سے تقریباً اکتیس سال پہلے میں نے روزنامہ ساپتاہک روی وار میں اپنی اس رپورٹ میں لکھا تھا جسے ہاشم پورے قتلِ عام کے بعد شائع کیا گیا تھا۔ میری اس رپورٹ کا عنوان تھا 'دنگوں سے زیادہ خطرناک تھا دنگے روکنے کا طریقہ'۔
آپ کی زندگی میں کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو دل و دماغ پر کچھ اس طرح چسپاں ہو جاتے ہیں جنہیں آپ چاہ کر بھی نہیں فراموش نہیں کرپاتے۔
اکتیس سال پہلے میرٹھ میں ہونے والے دنگے میرے ذہن میں اس طرح بیٹھ گئے ہیں جو لگاتار میرے اعصاب پر سوار ہیں۔ میرا ضمیر مجھے لعنت بھیجاتا ہے کہ تمہارے سامنے اتنا بڑا ظلم ہوا اور تم محض اسے رپورٹ کر کے خاموش بیٹھ گئے۔
تم نے مظلموں کو انصاف دلوانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جن لوگوں کو تم دلاسہ دے کر آئے تھے کہ تم ان کے لیے لڑو گے اور انہیں انصاف دلاؤ گے ان کے پاس لوٹ کر بھی نہیں گئے۔
میرٹھ میں مذہبی فسادات کا سلسلہ اپریل 1987 میں شروع ہوا تھا جو تقریباً تین ماہ تک چلا۔ میں ان فسادات کا چشم دید گواہ تھا اور انہیں رپورٹ کر رہا تھا۔
اُس دوران فسادات میں تقریباً سو افراد ہلاک ہوئے لیکن سب سے ہولناک قتلِ عام شہر کے ہاشم پورہ اور نزدیک کے ایک گاؤں ملیانہ میں بائیس اور تیئیس مئی 1987 کو ہوا جن میں سوا سو بے گناہ مسلمانوں کو جن میں زیادہ تر نوجوان تھے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ آزاد بھارت میں کسٹوڈیل کلِنگ یا حراستی قتلِ عام کو انجام دینے کے لیے فوج کی مدد لی گئی تھی۔بائیس اور تیئیس مئی کی رات رمضان کے مہینے میں ہاشم پورہ سے فوج کی نگرانی میں پچاس مسلم نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا۔
بعد میں پی اے سی نے انہیں غازی آباد ضلع کے مراد نگر قصبے کے نزدیک گنگا نہر پر اور دلی یوپی بارلار پر واقع ماکن پور گاؤں کے نزدیک ہنڈن ندی میں گولی مار کو بہادیا۔
اب تقریباً اکتیس سال بعد اس قتلِ عام کے سولہ قصورواروں تو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
لیکن اسی سال اور اسی مہینے تیئیس مئی کو ملیانہ قتلِ عام کے سلسلے میں تو عدالتی کارروائی شروع تک نہیں کی گئی۔ جہاں پی اے سی نے 72 مسلمانوں کو گولیاں مارکر ایک کوئیں میں دفن کردیا تھا۔
ڈھائی سال پہلے 30 مارچ 2016 کو روزنامہ دی ہندو نے اس مقدمے کی کہانی شائع کرتے ہوئے لکھا تھا کہ 800 تاریخیں پڑنے کے باوجود بھی پینتیس گواہوں میں سے صرف تین کو کر'اس اگزامن' کیا گیا اور اس مقدمے کی اصل ایف آئی آر غائب ہے۔
ہاشم پورہ قتلِ عام کا معاملہ تو اس لیے لوگوں کے سامنے آگیا کیونکہ اس وقت غازی آباد میں ایک ایماندار پولیس افسر وبوتھی نارائن رائے ایس پی تھے اور انہوں نے اس واقعے کی ایف آئی آر تھانے میں کروادی تھی۔ اسی بنیاد پر مقدمہ شروع کیا جاسکا۔
ملیانہ کا واقعہ اس لیے سامنے نہیں آ سکا کیونکہ وہ میرٹھ کے نزدیک تھا جہاں پی اے سی نے مسلمانوں کو مار کر وہیں دفن کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قتلِ عام پی اے سی کے ایک کمانڈنٹ کی نگرانی میں کیا گیا تھا۔جس کے خلاف کارروائی ہونا تو دور کی بات ہے اس کی ترقی کر دی گئی۔
اس کے علاوہ میرٹھ شہر کے تقریباً دس اور مسلمانوں کی موت حراست میں ہوئی جن میں سے چھ کو فتح گڑھ جیل میں مار مار کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ چار کو میرٹھ کی عبداللہ پور جیل میں مارا گیا۔
ان دس لوگوں کی موت کے مقدمے تو درج ہوئے لیکن حکومت نے انصاف دینے کی بجائے ان کی فائل کو ہی بند کر دیا۔ اس وقت ملک میں انسانی حقوق کے بڑی بڑی شخصیات نے اپنی رپورٹ میں ان حقائق کا ذکر کیا تھا جن میں سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال، جسٹس سچر، کلدیپ نیئیر'بدر الدین طیب جی، سبدھرا جوشی، پروفیسر اے ایم خسرو، نندتا ہکسر وغیرہ شامل ہیں۔
اتنا ہی نہیں اس وقت انسانی حقوق کی بڑی بڑی تنظیموں جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی شامل ہے، قتلِ عام کے ان خوفناک واقعات پر رپورٹ پیش کی تھی۔
اتنا ہی نہیں اس وقت جنتا پارٹی کے رہنما اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی کے ممتاز رہنما ڈاکٹر سبرا منیم سوامی ہاشم پورہ معاملے کی تحقیقات کے مطالبے پر بھوک ہتال پر بھی بیٹھے تھے۔ انہوں نے اس وقت کے وزیر ریاستی داخلہ پی چدامبرم کو قصوروار قرار دیتے ہوئے ان پر مقدمہ چلانے کی بات بھی کہی تھی۔
2006 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کو ایک خط لکھ کر اس معاملے کو عالمی عدالت میں لے جانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
وہ اپنے اس مطالبے پر اب بھی قائم ہیں اور انہوں نے دلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔
قربان علی
بی بی سی ہندی کے لیے


No comments:

Post a Comment