Saturday, 10 November 2018

مولانا سمیع الحق اہم کیوں؟

مولانا سمیع الحق اہم کیوں؟
مولانا سمیع الحق کو جمعے کی شام نامعلوم افراد نے راولپنڈی کے بحریہ ٹاؤن میں چھری کے وار کرکے ہلاک کر دیا تھا
اگرچہ مولانا سمیع الحق کی عام شہرت دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتم کے طور پر تھی جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں افغان طلباء فارغ التحصیل ہوئے جو بعد میں طالبان کے نام سے پہچانے گئے۔
(اِن میں سے کئی ایک تو افغانستان میں طالبان حکومت کے دور میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے)، لیکن ان کی حقیقی اہمیت اور ان کے اثرورسوخ کی اصل وجہ وہ سینکڑوں مدرسے ہیں جو ان کے شاگردوں نے قائم کیے۔
ماضی میں وفاق کے زیر انتطام رہنے والے قبائلی علاقوں میں قائم ان مدرسوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء نے ڈیورنڈ لائن سے اس پار جاکر غیر ملکی فوجوں کے خلاف ’جہاد‘ میں حصہ لینے کی بجائے پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں میں حصہ لے کر ملک کو غیر مستحکم کیا۔
یہ مدرسے کسی باقاعدہ تنظیمی ڈھانچے کے تحت دارالعلوم اکوڑہ خٹک سے منسلک تو نہیں لیکن دارالعلوم حقانیہ کے فاضل علماء کے زیر انتظام چلنے کی وہ سے نصاب، تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں یہ اسی کی پیروی کرتے ہیں۔
سرکاری طور پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق تمام سابقہ قبائلی ایجنسوں میں 584 مدرسے قائم ہیں جن میں سے 569 دیوبندی مدرسے ہیں۔ ان میں سے دو سو مدرسے صرف جنوبی وزیرستان میں واقع ہیں جبکہ شمالی وزیرستان ایجنسی میں قائم مدرسوں کی تعداد 92 ہے۔
ان میں وہ مدرسے بھی شامل ہیں جو دارالعلوم حقانیہ کے فاضل اور معروف افغان رہنما مولانا جلال الدین حقانی نے ڈیورنڈ لائن کے گردونواع میں 80 کی دہائی میں جنوبی اور شمالی وزیرستان میں قائم کیے تھے۔
یہ مدرسے ایک طویل عرصہ تک مولانا جلال الدین حقانی کے زیر انتظام چلتے رہے اور ان کی عسکری طاقت کا ایک اہم ماخذ سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اہنے انتقال سے چند سال بیشتر انھوں نے ان مدرسوں پر سے اپنا کنٹرول ختم کر دیا تھا اور ان کو مقامی علماء کے حوالے کر دیا تھا۔
قبائلی امور کے ماہر اور کئی سال تک بی بی سی سے منسلک رہنے والے صحافی دلاور خان وزیر کے مطابق ان مدرسوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں زیر تعلیم طلباء میں ایک کثیر تعداد افغانستان سے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی ہے۔
دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک: قیام پاکستان کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد کے نوشہرہ ضلع میں مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق کے ہاتھوں قائم ہونے والا یہ مدرسے دارالعلوم دیوبند کے باہر قائم ہونے والے دیوبندی مدرسوں میں اہم مقام رکھتا ہے۔
ایک دستاویزی فلم کے دیے گئے ایک انٹرویو میں مولانا سمیع الحق نے دارالعلوم حقانیہ کے قیام کا احوال کچھ یوں بیان کیا تھا:
’میرے والد صاحب نے اپنی دینی تعلیم دارالعلوم دیو بند سے مکمل کی تھی۔ وہ ایک ذہین طالبعلم تھے اور ان کے اساتذہ نے انہیں تاکید کی تھی کہ وہ خود ایک معلم بن جائیں۔ وہ تعطیلات کے سلسلے میں دیوبند سے اپنے گھر نوشہرہ آئے ہوئے تھے کہ اچانک پاکستان کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کی وجہ سے وہ یہیں پھنس کے رہ گئے کیونکہ ہندوستان جانے والے تمام راستے بند ہو گئے تھے۔‘
’اس صورتِ حال کا سامنا کرنے میں وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ دارالعلوم دیوبند کے کئی دیگر طلباء بھی سے طرح پھنس کر رہ گئے تھے۔ انھوں نے میرے والد صاحب سے درخواست کی وہ انہیں یہیں پڑھائیں۔ شروع میں تو یہ سلسلہ غیر رسمی طور پر شروع ہوا تھا لیکن بعد میں اسے ایک مستقل مدرسے کی شکل دے دی گئی۔‘
اپنے اسی انٹرویو میں مولانا سمیع الحق نے دارالعلوم دیوبند سے اپنے مدرسے کے تعلق پر بھی روشنی ڈالی تھی۔
’دارالعلوم دیو بند سے ہمارا تعلق ہمیشہ سے رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا کیونکہ دارالعلوم حقانیہ کی طرف سے جاری کی جانے والی تمام اسناد کی منظوری دارالعلوم دیوبند سے لی جاتی ہے۔‘
اسی طرح انھوں نے اپنے تعلیمی نصاب میں جہاد کی فضیلت بھی واضح کی تھی۔
’مسلمانوں کو تبلیغ کی ضرورت ہوتی ہے، ہم وہ ضرورت پوری کرتے ہیں، انھیں تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہم پوری کرتے ہیں، انھیں سیاسی سوجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ پارلیمانی پراسس کا حصہ بن سکیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں جہاد کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مسلمانوں کی دیگر ضرورتوں کی طرح خیال رکھا جاتا ہے۔‘
ساجد اقبال بی بی سی، لندن
سنیچر کو مولانا سمیع الحق کو ان کے آبائی علاقے اکوڑہ خٹک میں اپنے والد کے پہلو میں تدفین کر دی گئی


No comments:

Post a Comment