پوری زندگی کبھی نماز نہ پڑھنے والے کا فدیہ
سوال ]۲۸۵۷[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ زید نے اپنی پوری زندگی میں ایک وقت کی بھی نماز نہیں پڑھی، اسی حال میں اس کا انتقال ہوگیا اور زید نے کسی کو وصیت بھی نہیں کی فائتہ نمازوں کے فدیہ کے بارے میں اور زید کے ورثاء اس کی تمام نمازوں کا فدیہ دینا چاہتے ہیں، تو اب یہ فدیہ کس مقدار سے اور کن کن لوگوں کو دیا جائے گا، اس کا بہترین مصرف کون ہوگا اگر وہ طالب علم کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہے یا نہیں؟ اگر دے سکتے ہیں تو کس اعتبار سے دیں گے؟ اس مسئلہ کی صاف وضاحت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتی: عطاء الرحمن ندیاوی، متعلم مدرسہ امدادیہ مرادآباد
المستفتی: عطاء الرحمن ندیاوی، متعلم مدرسہ امدادیہ مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر میت مذکور نے وصیت نہیں کی ہے تو ورثاء اپنے طور پر تبرعاً فدیہ ادا کر سکتے ہیں۔
إذا مات الرجل وعلیہ صلوات فائتہ (إلی قولہ) و إن لم یوص لورثتہ وتبرع بعض الورثۃ یجوز الخ (فتاوی عالمگیري، کتاب الصلاۃ، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، زکریا۱/۱۲۵، جدید زکریا دیوبند ۱/۱۸۴، ہکذا في مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في اسقاط الصوم والصلاۃ، جدید دارالکتاب دیوبند ۴۳۸، قدیم۲۳۸)
ہر نمازکے فدیہ کی مقدار ایک صدقۂ فطر یا اس کی قیمت ہے اور قیمت دینا زیادہ افضل ہے اور نماز پانچ فرض اور ایک وتر ہے، کل ملاکر روزانہ چھ نمازیں ہوتی ہیں۔
وکذا یخرج لصلوۃ کل وقت من فرض من الیوم واللیلۃ حتی الوتر؛ لأنہ فرض عملي عند الإمام-إلی قولہ- والصحیح أنہ کل صلوۃ فدتہ ہينصف صاع من بر (إلی قولہ) أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر الخ (مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في اسقاط الصلوۃ والصوم، جدید دارالکتاب دیوبند ۴۳۸، قدیم۲۳۸، ہکذا في عالمگیري، کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، زکریا۱/۱۲۵، جدید زکریا دیوبند۱/۱۸۴)
فقراء ومساکین اس کے مستحق ومصرف ہیں۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۴؍۱۷۴، جدید زکریا دیوبند ۴؍۱۸۳، جدید زکریا مطوف۶؍۸۱)
اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاِبْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ [سورۃ التوبہ:۶۰]
مصرف الزکوۃ والعشر ہو فقیر، ومسکین، وتحتہ في الشامي وہو مصرف أیضا لصدقۃ الفطر والکفارۃ، والنذر وغیر ذالک من الصدقات الواجبۃ۔(در مختار مع الشامي، کتاب الوکاۃ، باب المصرف، کراچي ۲/۳۳۹، زکریا ۳/۲۸۳)
طلبہ کو دینا بھی جائز اور افضل ہے ؛ البتہ ذیل کے طلبہ کو دینا ممنوع ہے۔
(۱) سید ہوں (۲) مستطیع صاحب نصاب ہوں (۳) وہ نابالغ طلبہ جن کے والدین مالک نصاب ہوں۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ قدیم ۲؍۱۰، جدید زکریا ۷؍۱۷۲)
لاتدفع إلی غني (قولہ) ولاإلی ولد غني إذاکان صغیرا (وقولہ) ولایدفع إلی بني ہاشم الخ (جوہرۃ، کتاب الزکوۃ، باب من یجوز دفع الصدقۃ إلیہ جدید، دارالکتاب دیوبند ۱/۱۵۷ قدیم ۱/۱۵۹)
اگر تمام نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو تخمینہ لگا کر ادا کیا جائے۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۴؍۱۶۸، جدید زکریا ۴؍۱۷۸، جدید زکریا مطول۶؍۳۸۳-۳۸۴)
من لایدري کمیۃ الفوائت یعمل بأکبر رأیہ، فإن لم یکن رأی یقضحتی یتیقن أنہ لم یبق علیہ شیئ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، قبیل باب إدراک الفریضۃ، دارالکتاب دیوبند ۴۴۷، حاشیۃ چلپي علی التبیین، باب قضاء الفوائت قدیم ۱/۱۹۰، جدید زکریا ۱/۴۶۸)
اگر اتنی گنجائش نہ ہو تو اس کی ادائے گی کی ایک صورت یہ ہے کہ جتنی گنجائش ہے کسی فقیر کو اس کا مالک بنادیا جائے، پھر فقیر وارث کو ہبہ کردے، پھر وارث فقیر کو مالک بنادے پھر فقیر مالک کو ہبہ کردے اور وارث اس کو قبضہ کر کے پھر فقیر کو مالک بنادے، اس طرح کرتے جائیں، یہاں تک کہ تعدا د پوری ہوجائے، امید ہے کہ میت کی نمازیں اس سے معاف ہوجائیں گی۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۴؍۱۴۳، جدید زکریا ۴؍۱۵۶، جدید مطول ۶؍۱۱۶)
وإن لم یترک مالاً یستقرض ورثتہ نصف صاع ویدفع إلی مسکین ثم یتصدق المسکین علی بعض ورثتہ، ثم یتصدق ثم وثم حتی یتم لکل صلوۃ الخ ( فتاوی عالمگیري، کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، زکریا ۱/۱۲۵، جدید زکریا دیوبند ۱/۱۸۴، نور الإیضاح، کتاب الصلاۃ، باب صلوۃ المریض، فصل في اسقاط الصلوۃ والصوم،امدادیۃ دیوبند ۱۰۶)
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر میت مذکور نے وصیت نہیں کی ہے تو ورثاء اپنے طور پر تبرعاً فدیہ ادا کر سکتے ہیں۔
إذا مات الرجل وعلیہ صلوات فائتہ (إلی قولہ) و إن لم یوص لورثتہ وتبرع بعض الورثۃ یجوز الخ (فتاوی عالمگیري، کتاب الصلاۃ، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، زکریا۱/۱۲۵، جدید زکریا دیوبند ۱/۱۸۴، ہکذا في مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في اسقاط الصوم والصلاۃ، جدید دارالکتاب دیوبند ۴۳۸، قدیم۲۳۸)
ہر نمازکے فدیہ کی مقدار ایک صدقۂ فطر یا اس کی قیمت ہے اور قیمت دینا زیادہ افضل ہے اور نماز پانچ فرض اور ایک وتر ہے، کل ملاکر روزانہ چھ نمازیں ہوتی ہیں۔
وکذا یخرج لصلوۃ کل وقت من فرض من الیوم واللیلۃ حتی الوتر؛ لأنہ فرض عملي عند الإمام-إلی قولہ- والصحیح أنہ کل صلوۃ فدتہ ہينصف صاع من بر (إلی قولہ) أو قیمتہ وہي أفضل لتنوع حاجات الفقیر الخ (مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في اسقاط الصلوۃ والصوم، جدید دارالکتاب دیوبند ۴۳۸، قدیم۲۳۸، ہکذا في عالمگیري، کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، زکریا۱/۱۲۵، جدید زکریا دیوبند۱/۱۸۴)
فقراء ومساکین اس کے مستحق ومصرف ہیں۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۴؍۱۷۴، جدید زکریا دیوبند ۴؍۱۸۳، جدید زکریا مطوف۶؍۸۱)
اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاِبْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ [سورۃ التوبہ:۶۰]
مصرف الزکوۃ والعشر ہو فقیر، ومسکین، وتحتہ في الشامي وہو مصرف أیضا لصدقۃ الفطر والکفارۃ، والنذر وغیر ذالک من الصدقات الواجبۃ۔(در مختار مع الشامي، کتاب الوکاۃ، باب المصرف، کراچي ۲/۳۳۹، زکریا ۳/۲۸۳)
طلبہ کو دینا بھی جائز اور افضل ہے ؛ البتہ ذیل کے طلبہ کو دینا ممنوع ہے۔
(۱) سید ہوں (۲) مستطیع صاحب نصاب ہوں (۳) وہ نابالغ طلبہ جن کے والدین مالک نصاب ہوں۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ قدیم ۲؍۱۰، جدید زکریا ۷؍۱۷۲)
لاتدفع إلی غني (قولہ) ولاإلی ولد غني إذاکان صغیرا (وقولہ) ولایدفع إلی بني ہاشم الخ (جوہرۃ، کتاب الزکوۃ، باب من یجوز دفع الصدقۃ إلیہ جدید، دارالکتاب دیوبند ۱/۱۵۷ قدیم ۱/۱۵۹)
اگر تمام نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو تخمینہ لگا کر ادا کیا جائے۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۴؍۱۶۸، جدید زکریا ۴؍۱۷۸، جدید زکریا مطول۶؍۳۸۳-۳۸۴)
من لایدري کمیۃ الفوائت یعمل بأکبر رأیہ، فإن لم یکن رأی یقضحتی یتیقن أنہ لم یبق علیہ شیئ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، قبیل باب إدراک الفریضۃ، دارالکتاب دیوبند ۴۴۷، حاشیۃ چلپي علی التبیین، باب قضاء الفوائت قدیم ۱/۱۹۰، جدید زکریا ۱/۴۶۸)
اگر اتنی گنجائش نہ ہو تو اس کی ادائے گی کی ایک صورت یہ ہے کہ جتنی گنجائش ہے کسی فقیر کو اس کا مالک بنادیا جائے، پھر فقیر وارث کو ہبہ کردے، پھر وارث فقیر کو مالک بنادے پھر فقیر مالک کو ہبہ کردے اور وارث اس کو قبضہ کر کے پھر فقیر کو مالک بنادے، اس طرح کرتے جائیں، یہاں تک کہ تعدا د پوری ہوجائے، امید ہے کہ میت کی نمازیں اس سے معاف ہوجائیں گی۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۴؍۱۴۳، جدید زکریا ۴؍۱۵۶، جدید مطول ۶؍۱۱۶)
وإن لم یترک مالاً یستقرض ورثتہ نصف صاع ویدفع إلی مسکین ثم یتصدق المسکین علی بعض ورثتہ، ثم یتصدق ثم وثم حتی یتم لکل صلوۃ الخ ( فتاوی عالمگیري، کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، زکریا ۱/۱۲۵، جدید زکریا دیوبند ۱/۱۸۴، نور الإیضاح، کتاب الصلاۃ، باب صلوۃ المریض، فصل في اسقاط الصلوۃ والصوم،امدادیۃ دیوبند ۱۰۶)
فقط والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ
۱۳؍ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ
(الف فتویٰ نمبر:۲۳ ؍۶۲۳)
ناقل نورالحسن پرتاپ گڑھی
.......
سوال # 47308
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ
۱۳؍ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ
(الف فتویٰ نمبر:۲۳ ؍۶۲۳)
ناقل نورالحسن پرتاپ گڑھی
.......
سوال # 47308
میرے والد اور والدہ بیمار ہیں اور وہ روزہ نہیں رکھ سکتے تو اب مجھے اس روزے کے بدلے میں جو رقم نکالنی ہوتی ہے وہ کیا کہلاتی ہے اور اسے للہ نکالی جاتی ہے اور کیا حساب ہے اس کا ؟براہ کرم، جلد جواب دیں۔
Published on: Sep 18, 2013
جواب # 47308
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1231-828/L=11/1434-U
اگر آدمی اس عمر کو پہنچ جائے کہ وہ سال کے چھوٹے دنوں میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتا تو روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے جو رقم نکالی جاتی ہے وہ فدیہ کی رقم کہلاتی ہے اور فدیہ کی مقدار نصف صاع (تقریباً پونے دو کلو) گندم یا اس کی قیمت ہے، واضح رہے کہ فدیہ کا حکم اسی صورت میں ہے جب کہ آدمی پر روزہ کی قضا ممکن نہ ہو یعنی وہ اتنا معذور ہو کہ سال کے چھوٹے دنوں میں بھی روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو۔ اگر آپ کے والدین اس حالت میں ہیں کہ وہ سال کے چھوٹے دنوں میں روزہ کی قضا کرسکتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ روزہ کی قضا کریں ان کے لیے فدیہ دینے کا حکم نہیں ہے۔ اور اگر اتنے معذور وبیمار ہوچکے ہیں کہ وہ سال کے چھوٹے دنوں میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتے تو ان کے لیے فدیہ دینے کی اجازت ہوگی، فدیہ دینے کے بعد بھی اگر روزہ رکھنے کی طاقت ہوجاتی ہے تو فدیہ دینا لغو ہوجائے گا اور روزہ کی قضا لازم ہوجائے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
=============
سوال # 148023
قضا نمازوں کے حوالے سے سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا فتوٰی ملاحظہ کیجیے :علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے ۔ کیونکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے جو آدمی کو اسلام سے نکال کر زمرہ کفار میں داخل کر دیتا ہے ۔ اور کافر پر حالت کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے :آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز کو چھوڑ دینے (کا فرق) ہے ۔(صحیح مسلم الإیمان (82),سنن الترمذی الإیمان (2620),سنن أبو داود السنة (467\n,سنن ابن ماجہ إقامة الصلاة والسنة فیہا (107,مسند أحمد بن حنبل (3/370),سنن الدارمی الصلاة (1233)نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں جو ان پر حالتِ کفر میں فرض تھیں نہ ان کے بعد صحابہ نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا جو مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوئے ۔بھول جانے ،سوئے رہنے کی وجہ سے اور بے ہوشی کی وجہ سے رہ جانے والی نمازوں کو قضا کیا جائے گا۔بہت سے لوگ سابقہ نمازوں کی قضا کے خوف سے نماز کی باقاعدہ ادائیگی شروع نہیں کرتے ۔دین آسان ہے ، اسے اسی طرح رہنا چاہیے جیسے اللہ کے نبی ﷺ نے پیش کیا تھا۔ ادھر تو یہ حال ہے کہ کوئی مسجد میں چلا جائے تو آسانی پیدا کرنے کی بجائے اسے کہا جاتا ہے کہ میاں پچھلے بیس تیس برس کدھر تھے ، سابقہ نمازوں کی گنتی پوری کرو، پھر آگے چلنا۔ یہ بات عقل کے بھی خلاف ہے کہ توبہ کرنے والے انسان کو حوصلہ دینے کی بجائے الٹا پچاس سال کی نمازوں کی قضا کا مژدہ سنا دیا جائے ۔فرمان رسول ﷺ ہے :\"بَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا خوشخبری سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ\"یَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوالوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو مشکلات نہ بناؤصحیح بخاری:قضا نمازوں کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا مسئلہ کفر اسلام کا مسئلہ نہیں ہے ۔ صحیح قول یہی ہے کہ ان کی ادائیگی ضروری نہیں۔\nاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِکَ یُبَدِّل اللَّہ سَیِّئَاتہمْ حَسَنَات (الفرقان:70) الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرے اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگے ، ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکی سے بدل دے گا۔اور فرمایا:وَإنّی لَغَفَّار لمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَملَ صَالحًا ثُمَّ اہْتَدَی (طہ:82)، جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، پھر سیدھا چلتا رہے ، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں اگر کسی شخص نے شرعی عذر کی بنا پر نماز ترک کی مثلا نیند یا بھول کر تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب اسے یاد آئے اور سویا ہوا بیدار ہو تو اسی وقت نماز ادا کر لے ، اس کے علاوہ کوئی اور کفارہ نہیں۔جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :\" جو کوئی بھی نماز بھول جائے یا اس سے سویا رہے تو جب اسے یاد آئے وہ نماز ادا کر لے ، اس کا کفارہ یہی ہے \"صحیح بخاری حدیث نمبر :572 صحیح مسلم:1564،کوئی فدیہ چھوڑی ہوئی نماز کے لیے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ بات دین میں ثابت نہیں ہے ۔جس نے ایک یا زیادہ فرض نمازیں بغیر کسی عذر کے ترک کردیں اسے اللہ تعالی کے ہاں سچی توبہ کرنی چاہیے ، اور اس کے ذمہ کوئی قضاء اور کفارہ نہیں، کیونکہ فرضی نماز جان بوجھ کر ترک کرنا کفر ہے ۔کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :\" ہمارے اور ان کے مابین عہد نماز ہے ، جس نے بھی نماز ترک کی اس نے کفر کیا \"مسند احمد حدیث نمبر ( 22428 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2621 ) سنن نسائی حدیث نمبر ( 462 )۔اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "آدمی اور شرک اور کفر کے مابین نماز کا ترک کرنا ہے \"صحیح مسلم حدیث نمبر ( 242 )۔ اور اس میں سچی اور پکی توبہ کے علاوہ کوئی کفارہ نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
Published on: Apr 9, 2017
جواب # 148023
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 734-700/sn=7/1438
استفتاء میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی طرف منسوب جو فتوی نقل کیا گیا ہے، ہمارے نزدیک وہ صحیح نہیں ہے، جس شخص کی کوئی فرض یا واجب نماز چھوٹ جائے یا قصدا سستی وتکاسل کی وجہ سے چھوڑدے اس پر اس کی قضاء شرعاً واجب ہے، چنانچہ البحر الرائق میں ہے: فالأصل فیہ أن کل صلاة فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاوٴہا، سواء ترکہا عمداً أو سہواً أو بسبب نوم وسواء کانت الفوائت قلیلةً أو کثیرةً الخ (البحر الرائق: ۲/ ۱۴۰، ط: زکریا)
یہ صرف امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نہیں؛ بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی قضاء کے نفسِ وجوب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ ہیں، یعنی ان تمام حضرات کے نزدیک عمداً کی صورت میں بھی قضا واجب ہے؛ ہاں تفصیلات میں ان حضرات ائمہ کے درمیان قدرے اختلاف ہے۔ (دیکھیں: المدونة الکبری: ۱/ ۴۴۳، باب شروط الصلاة، بیروت، فقہی مقالات: ۴/۱۳، ط: نعیمیہ) یہاں تک کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی عمد کی صورت میں وجوبِ قضا کے سلسلے میں جمہور کے ساتھ ہیں چنانچہ فتاوی ابن تیمیہ میں ہے: ومن علیہ فائتة فعلیہ أن یبادر إلی قضائہا علی الفور سواء فاتتہ عمداً أو سہواً عند جمہور العلماء کمالک وأحمد وأبي حنیفة وغیرہم وکذلک الراجح في مذہب الشافعي أنّہا إذا فاتت عمدًا کان قضاوٴہا واجبًا علی الفور (فتاوی ابن تیمیہ: ۲۳/ ۲۵۹، ط: مجمع الملک، سعودی عربیہ)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ شاملِ استفتاء فتوے میں جو یہ دعوی کیا گیا ہے کہ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر اس کی قضا واجب نہیں ہے، یہ دعویٰ خلافِ حقیقت ہے اور عدمِ وجوب کا قول صحیح ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ یہ بات طے ہے کہ جو چیز دلیل قطعی سے ثابت ہو، اس کے اسقاط کے لیے بھی کم ازکم اس درجے کی دلیل ضروری ہے اور زیر بحث مسئلے میں اسقاط کے لیے قطعی نص تو کجا کوئی کمزور نص بھی نہیں ہے۔ مذکور فی الاستفتاء فتوے میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ عمداً ترکِ صلات کفر ہے اورکافر پر حالتِ کفر میں چھوڑے ہوئے کاموں کی قضا نہیں ہوتی، اس سلسے میں عرض ہے کہ اکر کوئی شخص سستی وکاہلی کی وجہ سے عمداً نماز ترک کردے جمہور علماء کے نزدیک وہ فاسق ہے کافر نہیں ہے، صرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ایک روایت اور معدودے چند لوگوں کا یہ قول ہے کہ وہ کافر ہوجاتا ہے، ظاہر ہے کہ جمہور کے بالمقابل یہ قول شاذ اور مرجوح قرار پائے گا؛ لہٰذا یہ استدلال مرجوح اور نادرست ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: شرح مہذب: ۳/ ۱۶، فروع فی مذاہب العلماء، ط: دار الکفر، المغني: ۲/ ۲۹۸، ط: بیروت) عمداً ترک صلات کفر ہے، اس پر دلیل کے طور پر جن نصوص کا ذکر کیا گیا ہے، یہ استدلال انتہائی کمزور ہے؛ کیوں کہ شراح حدیث کے مطابق جمہور علماء کے نزدیک اس طرح کے نصوص اس صورت پر محمول ہیں جب کہ نماز ترک کرے اس بنا پر کہ وہ نماز کو فرض نہیں سمجھتا یا فرض تو سمجھتا ہے لیکن اس کے ساتھ استہزاء کرتا ہے یا پھر ان نصوص کے معنی یہ ہیں کہ جس شخص نے نماز عمداً ترک کیا اس نے کافروں والا عمل کیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: فتح الباری: ۲/ ۳۲،ط: دار المعرفة، مرقاة: ۲/ ۵۱۲،ط: دار الفکر) وغیرہ۔ اور فتوے میں یسر اور عسر کی جو بحث کی گئی ہے وہ بھی بے جوڑ اور نادرست ہے، کیوں کہ تمام نماز میں علی الفور قضاء کرنا واجب ہو ایسا نہیں؛ بلکہ آدمی حسب سہولت ادا کرے گا، اگر اخیر عمر تک نہ کرسکے تو فدیہ کی وصیت کرجائے اور یہ استدلال بھی صحیح نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام قبول کرنے والوں سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ وہ سابقہ نمازیں دہرائیں الخ یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ کفار حالت کفر میں فروع کے مخاطب ہی نہیں ہوتے؛ لہٰذا ان پر نماز فرض نہیں تھی تو مطالبہ کی بات بے محل ہے، الغرض اگر کوئی شخص عمداً یا سہواً نماز ترک کردے تو اس پر اس کی قضاء بہرحال واجب ہے؛ البتہ اگر کسی شخص نے بہت سی نماز یں عمداً یا سہواً چھوڑی ہے تو وہ اپنی معاشی تگ ودو کے ساتھ حسب سہولت تھوڑی تھوڑی قضا کرتا رہے، اگر بالفرض اخیر عمر تک ادا نہ کرسکے تو فدیہ کی وصیت کرجائے۔
چھوٹ جانے والی نمازوں کا فدیہ: https://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/21287 |
No comments:
Post a Comment