اولیاء کرام کی اقسام
1۔ سالک
2۔ مجذوب
3۔ قلندر
یہ سب ولائیت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں، ایک مشترک لفظ ’ولی‘ ان سب کے لئے بولا جاتا ہے۔ ان کو پھر ہر درویش نے اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔ ان میں سے بعض ظاہری کام پر تعینات ہوتے ہیں۔ اور بعض کو صرف باطنی کام کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔
1۔ سالک :
راہِ سلوک میں رہ کر ظاہری شرع پر عمل کرنے والا سالک کہلاتا ہے۔ یہ شرع پر کاربند رہتا ہے۔ تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر طریقت کو عام کرتا ہے۔ اس کا مقام انتہائی اہم اور اعلیٰ ہے۔ اس پر تمام کیفیات گزرتی ہیں۔ یہ ہوش میں رہ کر ہوش مندوں کی صحیح تربیت کرتا ہے۔ اس کا سلسلہ ہوتا ہے اور مریدین ہوتے ہیں۔ عوام الناس رجوع کرتے ہیں اور شریعت اور طریقت کی مے انہیں ان کے میخانوں سے پلائی جاتی ہے۔ سلسلے کا معنی اللہ والے سے مل کر اللہ کے راستے کا پتہ چلانا ہے۔
2 ۔ مجذوب :
جذب شدہ۔ اللہ کی محبت میں جذب شدہ ایسا اللہ کا دوست جو اپنی ذات کی نفی کر کے اسی اللہ کی ذات میں ضم ہو گیا ہو۔ اس پر ظاہری شرع ساقط ہو جاتی ہے۔ کیونکہ شریعت ہوش مند پر لاگو ہوتی ہے۔ یہ ظاہری اعتبار سے بے ہوش ہوتا ہے۔
مجذوب کا سلسلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مریدین۔ یہ اپنے باطنی اسرار و رموز میں محو و مست رہتا ہے۔ جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں۔
مجذوب مانگنے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی اپنی خواہشِ نفس سے مانگتا ہے ایک سے لے کر دوسرے کو دے دیتا ہے اسی طرح کسی کے پاس زادِ سفر نہ تھا تو مجذوب نے کسی ایک سے لیا اور جِس کے پاس زادِ سفر نہ تھا اس کو دے دیا۔ ان کا ہر عمل، ہر حرکت، ہر ہر ادا مصلحت سے بھرپور ہوتی ہے۔ ہر بات کے پیچھے کوئی تمثیل ہوتی ہے۔ بعض اوقات غیر متوقع بات کر دے گا۔ کسی کو گالی دے دے گا۔ مگر ہر بات کسی مصلحت کی بناء پر ہوتی ہے۔
3۔ قلندر :
یہ سالک اور مجذوب دونوں کے مزاج اور کیفیات کا حامل ہوتا ہے۔ سلوک اور جذب کا مجتمع ہو جانا۔ دونوں کی خصوصیات کا کسی میں مل جانا۔ قلندریت کا حامل کر دیتا ہے۔ قلندر پر جذب غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں۔ ہوش غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں۔ یہ کبھی باہوش اور کبھی بے ہوش ہوتا ہے۔ دو نوں طرح کی عطائیں اِس پر ہوتی ہیں۔
قلندر کا ایک معنی ’’ دین و دنیا سے آزاد ‘‘ بھی لیا جاتا ہے۔ کہ بعض اوقات جذب کی کیفیات غالب آگئیں تو اہل ظاہر کے نزدیک بے ہوش اور دین و دنیا سےآزاد ہے ۔
مفلس کے لئے ہے نہ تونگر کے لئے ہے
کونین کی ہر شے تو قلندر کے لئے ہے
قلندر سے ایک مراد ’ کُل اندر ‘ بھی لیا جاتا ہے۔ کہ عالمین اور کُل جہاں اس کے اندر پوشیدہ ہیں ۔سب کچھ سمیٹے ہوئے ہے ۔
( م ۔ ا )
اولیاء ظاھرین اور اولیاءِ مستورین
حضرت شاہ سید محمّد ذوقی اپنی کتاب " سّرِ دلبراں " میں فرماتے ھیں کہ " اولیاء اللہ کا وجود آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزّماں صلیّ اللہ علیہ و سلّم کے زمانے تک اور اسکے بعد ظہورِ مھدی علیہ السلام اور نزول عیسیٰ علیہ السلام تک رھا اور رھیگا...یہ حضرات دو اقسام پر منقسم ھیں...۱ اولیاء ظاھرین.......۲ اولیاء مستورین...
اولیاء ظاھرین کے سپرد خدمتِ ھدایت ِ خلق ھوتی ھے، یہ ظاھر ھوتے ھیں کیونکہ خدمتِ ھدایت ان کو اپنے اظہار پر مجبور کرتی ھے............. .....اولیاءِ
مستورین کے سپردانصرامِ امورِ تکوینی ھوتا ھے اور یہ اغیار کی نگاہ سے
مستور رھتے ھیں، یہ صاحبِ خدمت ھوتے ھیں انہیں رجال الغیب اور مردانِ غیب
کہتے ھیں...وہ نہ پہچانے جاتے ھیں نہ ان کا وصف بیان کیا جا سکتا ھے
حالانکہ وہ انسان ھیں....ان میں ایسے لوگ بھی ھوتے ھیں جو صرف اپنے ھی
ٹھکانوں میں پائے جاتے ھیں، عالمِ احساس میں جس انسان کی صورت چاھیں اختیار
کر لیتے ھیں، لوگوں پر ظاھر بھی ھوتے ھیں اور غائب بھی ھو جاتے ھیں، جنگل،
پہاڑ اور نہروں کے کنارے بستے ھیں لیکن ان میں سے جو قوی تر ھیں وہ شہروں
میں بستے ھیں، صفاتِ بشری کو اپنے اوپر اوڑھے لپیٹے رھتے ھیں....اچھے اچھے
مکانوں میں رھتے ھیں....بیاہ شادی کرتے ھیں....کھاتے پیتے ھیں ...بیمار
پڑتے ھیں اور علاج بھی کرتے ھیں...اولاد و اسباب، اموال و املاک رکھتے
ھیں....لوگ ان سے حسد بھی کرتے ھیں انھیں ایزا بھی پہنچاتے ھیں....مگر! حق
تعالیٰ ان کے حسنِ احوال اور کمالاتِ باطنی کو اغیار کی نگاہوں سے پوشیدہ
رکھتا ھے.
انہی کی شان میں فرمایا گیا ھے کہ " اولیآئی تحتَ قبآئی لا یعرِفُھم غیری " ترجمہ....میرے اولیاء میری قبا کے نیچے ھیں، غیر ان کو نہیں جانتا .......
الٰہی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ھے ذوقِ خدائی!
حضرت شاہ سید محمّد ذوقی رح کی کتاب " سّرِ دلبراں "
سے اقتباس
سالکین کی بھی دو قسمیں ہیں یعنی طالبان حق اور طالبان آخرت و بہشت
. پھر طالبان حق کی دو قسمیں ہیں. پہلی متصوفہ دوسری ملامتیہ.
متصوفہ وہ حضرات ہیں جو اپنے نفس کی بعض صفات سے خلاصی حاصل کر لیتے ہیں اور اوصاف حسنہ میں سے بعض اوصاف اور احوال سے متصف ہوجاتے ہیں. لیکن ملامتیہ وہ لوگ ہیں جو اخلاص کی سختی سے نگہداشت کرتے ہیں اور اپنے تمام اوقات میں اخلاص کی تحقیق کی طرف متوجہ رہتے ہیں. جس طرح ایک گنہگار اپنے گناہ کے ظہور سے پرخوف رہتا ہے. اسی طرح یہ لوگ اپنی طاعت کے ظہور سے ڈرتے رہتے ہیں. کیونکہ اس سے ریا کا گمان پیدا ہوتا ہے. اس ملامتیہ فرقہ کے بعض لوگ فرقہ قلندریہ کو بھی اپنے اندر شمار کرتے ہیں.
از "مرأۃ الاسرار" مؤلفه حضرت شیخ عبدالرحمن چشتی قدس سره
تحقیق و ترجمه مولانا الحاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری
اولیاء الله میں سے چار ہزار تو وہ ہیں جو پوشیدہ رہتے ہیں.وہ نہ تو ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ، اور نہ اپنے حال کی خوبی و جمال کو جانتے ہیںان کی حالت خود اپنے سے اور تمام لوگوں سے پوشیدہ رہتی ہے.
اولیا کی مختلف جماعتیں:
جو اولیا حق تعالیٰ کی بار گاہ کے لشکری اور مشکلات کو حل کرنے والے اور حل شدہ کو بند کرنے والے ہیں، ان کی تعداد تین سو ہے. ان کو اخیار کہا جاتا ہےاور چالیس وہ ہیں جن کو ابدال اور سات وہ ہیں جن کو ابراراور چار وہ ہیں جن کو اوتاد اور تین وہ ہیں جن کو نقباءاور ایک وہ ہے جسے قطب اور غوث کہا جاتا ہے -
یہ اولیاء وہ ہیں جو ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور امور وہ معاملات میں ایک دوسرے کی اجازت کے محتاج ہوتے ہیں. اس پر مروی صحیح حدیثیں ناطق ہیں.
[حضرت داتا گنج بخش علی ھجویری رحمتہ الله علیہ، کشف المحجوب]
عارف اس شخص کو کہتے ھیں جس کو اپنی ذات کا عرفان ھو جائے
عالمِ راز میں عارف کا دل ایک آئینہ ھے، جب وہ اس آئینے میں دیکھتا ھے تو اللہ کو دیکھتا ھے، اس کے دل میں ایک جگہ ایسی ھے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کےکوئی اور اس میں جگہ نہیں پاتا
طاھر مقّدسی کا قول ھے کہ اگر لوگ عارف کا نور دیکھ پائیں تو اس میں جل جائیں اور اگر عارف وجود کے نور کو دیکھ لے تو سوخت ھو جائے
.یہ مقامِ عشق ھے مقامِ فنا ھےاس مقام پر عشق، عاشق اور معشوق ایک ھو جاتے ھیں.ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تعلّق اسقدر بڑھ جاتا ھے کہ حالتِ محوّیت طاری ھو جاتی ھے..
حضرت نظام الدّین اولیاء رح فرماتے ھیں" عشق آیا، اور میرے رگ و ریشہ میں خون کی طرح داخل ھو گیا، عشق نے مجھے اپنے آپ سے خالی کردیا، اور میرے اندر دوست بھر دیا، میرے وجود کے سب اجزاء دوست نے لے لئے اور میرا نام ھی رہ گیا
باقی سب وھی ھے ...وھی ھے...وھی ھے !!!!!!
قدرت اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے دئیے سے دیا جلاتی رھتی ھے...معرفت کی مشعل ایک ھاتھ سے دوسرے ھاتھ میں منتقل ھوتی رھتی ھے. صوفی، ولی، غوث، قطب، مجذوب، اوتار، قلندر، ابدال.... قدرت کے وہ ھاتھ ھیں جن میں روشنی کی مشعل روشن ھے ... یہ پاکیزہ لوگ اس روشنی سے اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ھیں اور دوسروں کو بھی روشنی کا انعکاس دیتے ھیں...صرف تاریخ کے اوراق ھی نہیں، لوگوں کے دلوں پر بھی ان بزرگوں کی داستانیں اور چشم دید واقعات زندہ اور محفوظ ھیں
ان بندوں میں سے جو قلندر بندے ھیں وہ زمان ومکان کی قید سے آزاد ھو جاتے ھیں...اللہ کے یہ نیک بندے غرض، طمع، حرص اور لالچ سے بے نیاز ھوتے ھیں...مخلوق جب ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ھے تو وہ اس کو سنتے بھی ھیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ھیں، کیونکہ قدرت نے انہیں اسی کام کے لئے مقررّ کیا ھے.یہی وہ پاکیزہ بندے ھیں جن کے بارے میں اللہ کہتا ھے ...." میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ھوں اور ان کے کان، آنکھ، اور زبان بن جاتا ھوں...پھر وہ میرے ذریعے بولتے ھیں، میرے ذریعے سنتے ھیں ، اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ھیں..."
ان ازلی سعید بندوں کی تعلیمات یہ ھیں کہ ھر بندہ کا اللہ کے ساتھ محبوبیّت کا رشتہ قائم ھے، ایسی محبوبّیت کا رشتہ جس میں بندہ اپنے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کرتا ھے ....!!!!
ستاروں میں کہاں تم کھوجتے ھو....
خدا تو خود درونِِِ ِآدمی ھے !!!
خواجہ شمس الدّین عظیمی ....
............... ............... ............... .............
گفتہء او گفتہء الله بود
گرچہ از حلقوم عبدالله بود
الله تعالی کے دوستوں کا بولنا دراصل الله تعالی ہی کا بولنا ہے- اگرچہ زبان تو بندے کی ہوتی ہے لیکن اس پہ کلام الله تعالی خود فرماتے ہیں-
مولانا رومی رحمت الله علیہ
1۔ سالک
2۔ مجذوب
3۔ قلندر
یہ سب ولائیت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں، ایک مشترک لفظ ’ولی‘ ان سب کے لئے بولا جاتا ہے۔ ان کو پھر ہر درویش نے اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔ ان میں سے بعض ظاہری کام پر تعینات ہوتے ہیں۔ اور بعض کو صرف باطنی کام کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔
1۔ سالک :
راہِ سلوک میں رہ کر ظاہری شرع پر عمل کرنے والا سالک کہلاتا ہے۔ یہ شرع پر کاربند رہتا ہے۔ تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر طریقت کو عام کرتا ہے۔ اس کا مقام انتہائی اہم اور اعلیٰ ہے۔ اس پر تمام کیفیات گزرتی ہیں۔ یہ ہوش میں رہ کر ہوش مندوں کی صحیح تربیت کرتا ہے۔ اس کا سلسلہ ہوتا ہے اور مریدین ہوتے ہیں۔ عوام الناس رجوع کرتے ہیں اور شریعت اور طریقت کی مے انہیں ان کے میخانوں سے پلائی جاتی ہے۔ سلسلے کا معنی اللہ والے سے مل کر اللہ کے راستے کا پتہ چلانا ہے۔
2 ۔ مجذوب :
جذب شدہ۔ اللہ کی محبت میں جذب شدہ ایسا اللہ کا دوست جو اپنی ذات کی نفی کر کے اسی اللہ کی ذات میں ضم ہو گیا ہو۔ اس پر ظاہری شرع ساقط ہو جاتی ہے۔ کیونکہ شریعت ہوش مند پر لاگو ہوتی ہے۔ یہ ظاہری اعتبار سے بے ہوش ہوتا ہے۔
مجذوب کا سلسلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مریدین۔ یہ اپنے باطنی اسرار و رموز میں محو و مست رہتا ہے۔ جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں۔
مجذوب مانگنے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی اپنی خواہشِ نفس سے مانگتا ہے ایک سے لے کر دوسرے کو دے دیتا ہے اسی طرح کسی کے پاس زادِ سفر نہ تھا تو مجذوب نے کسی ایک سے لیا اور جِس کے پاس زادِ سفر نہ تھا اس کو دے دیا۔ ان کا ہر عمل، ہر حرکت، ہر ہر ادا مصلحت سے بھرپور ہوتی ہے۔ ہر بات کے پیچھے کوئی تمثیل ہوتی ہے۔ بعض اوقات غیر متوقع بات کر دے گا۔ کسی کو گالی دے دے گا۔ مگر ہر بات کسی مصلحت کی بناء پر ہوتی ہے۔
3۔ قلندر :
یہ سالک اور مجذوب دونوں کے مزاج اور کیفیات کا حامل ہوتا ہے۔ سلوک اور جذب کا مجتمع ہو جانا۔ دونوں کی خصوصیات کا کسی میں مل جانا۔ قلندریت کا حامل کر دیتا ہے۔ قلندر پر جذب غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں۔ ہوش غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں۔ یہ کبھی باہوش اور کبھی بے ہوش ہوتا ہے۔ دو نوں طرح کی عطائیں اِس پر ہوتی ہیں۔
قلندر کا ایک معنی ’’ دین و دنیا سے آزاد ‘‘ بھی لیا جاتا ہے۔ کہ بعض اوقات جذب کی کیفیات غالب آگئیں تو اہل ظاہر کے نزدیک بے ہوش اور دین و دنیا سےآزاد ہے ۔
مفلس کے لئے ہے نہ تونگر کے لئے ہے
کونین کی ہر شے تو قلندر کے لئے ہے
قلندر سے ایک مراد ’ کُل اندر ‘ بھی لیا جاتا ہے۔ کہ عالمین اور کُل جہاں اس کے اندر پوشیدہ ہیں ۔سب کچھ سمیٹے ہوئے ہے ۔
( م ۔ ا )
اولیاء ظاھرین اور اولیاءِ مستورین
حضرت شاہ سید محمّد ذوقی اپنی کتاب " سّرِ دلبراں " میں فرماتے ھیں کہ " اولیاء اللہ کا وجود آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزّماں صلیّ اللہ علیہ و سلّم کے زمانے تک اور اسکے بعد ظہورِ مھدی علیہ السلام اور نزول عیسیٰ علیہ السلام تک رھا اور رھیگا...یہ حضرات دو اقسام پر منقسم ھیں...۱ اولیاء ظاھرین.......۲ اولیاء مستورین...
اولیاء ظاھرین کے سپرد خدمتِ ھدایت ِ خلق ھوتی ھے، یہ ظاھر ھوتے ھیں کیونکہ خدمتِ ھدایت ان کو اپنے اظہار پر مجبور کرتی ھے.............
انہی کی شان میں فرمایا گیا ھے کہ " اولیآئی تحتَ قبآئی لا یعرِفُھم غیری " ترجمہ....میرے اولیاء میری قبا کے نیچے ھیں، غیر ان کو نہیں جانتا .......
الٰہی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ھے ذوقِ خدائی!
حضرت شاہ سید محمّد ذوقی رح کی کتاب " سّرِ دلبراں "
سے اقتباس
سالکین کی بھی دو قسمیں ہیں یعنی طالبان حق اور طالبان آخرت و بہشت
. پھر طالبان حق کی دو قسمیں ہیں. پہلی متصوفہ دوسری ملامتیہ.
متصوفہ وہ حضرات ہیں جو اپنے نفس کی بعض صفات سے خلاصی حاصل کر لیتے ہیں اور اوصاف حسنہ میں سے بعض اوصاف اور احوال سے متصف ہوجاتے ہیں. لیکن ملامتیہ وہ لوگ ہیں جو اخلاص کی سختی سے نگہداشت کرتے ہیں اور اپنے تمام اوقات میں اخلاص کی تحقیق کی طرف متوجہ رہتے ہیں. جس طرح ایک گنہگار اپنے گناہ کے ظہور سے پرخوف رہتا ہے. اسی طرح یہ لوگ اپنی طاعت کے ظہور سے ڈرتے رہتے ہیں. کیونکہ اس سے ریا کا گمان پیدا ہوتا ہے. اس ملامتیہ فرقہ کے بعض لوگ فرقہ قلندریہ کو بھی اپنے اندر شمار کرتے ہیں.
از "مرأۃ الاسرار" مؤلفه حضرت شیخ عبدالرحمن چشتی قدس سره
تحقیق و ترجمه مولانا الحاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری
اولیاء الله میں سے چار ہزار تو وہ ہیں جو پوشیدہ رہتے ہیں.وہ نہ تو ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ، اور نہ اپنے حال کی خوبی و جمال کو جانتے ہیںان کی حالت خود اپنے سے اور تمام لوگوں سے پوشیدہ رہتی ہے.
اولیا کی مختلف جماعتیں:
جو اولیا حق تعالیٰ کی بار گاہ کے لشکری اور مشکلات کو حل کرنے والے اور حل شدہ کو بند کرنے والے ہیں، ان کی تعداد تین سو ہے. ان کو اخیار کہا جاتا ہےاور چالیس وہ ہیں جن کو ابدال اور سات وہ ہیں جن کو ابراراور چار وہ ہیں جن کو اوتاد اور تین وہ ہیں جن کو نقباءاور ایک وہ ہے جسے قطب اور غوث کہا جاتا ہے -
یہ اولیاء وہ ہیں جو ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور امور وہ معاملات میں ایک دوسرے کی اجازت کے محتاج ہوتے ہیں. اس پر مروی صحیح حدیثیں ناطق ہیں.
[حضرت داتا گنج بخش علی ھجویری رحمتہ الله علیہ، کشف المحجوب]
عارف اس شخص کو کہتے ھیں جس کو اپنی ذات کا عرفان ھو جائے
عالمِ راز میں عارف کا دل ایک آئینہ ھے، جب وہ اس آئینے میں دیکھتا ھے تو اللہ کو دیکھتا ھے، اس کے دل میں ایک جگہ ایسی ھے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کےکوئی اور اس میں جگہ نہیں پاتا
طاھر مقّدسی کا قول ھے کہ اگر لوگ عارف کا نور دیکھ پائیں تو اس میں جل جائیں اور اگر عارف وجود کے نور کو دیکھ لے تو سوخت ھو جائے
.یہ مقامِ عشق ھے مقامِ فنا ھےاس مقام پر عشق، عاشق اور معشوق ایک ھو جاتے ھیں.ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تعلّق اسقدر بڑھ جاتا ھے کہ حالتِ محوّیت طاری ھو جاتی ھے..
حضرت نظام الدّین اولیاء رح فرماتے ھیں" عشق آیا، اور میرے رگ و ریشہ میں خون کی طرح داخل ھو گیا، عشق نے مجھے اپنے آپ سے خالی کردیا، اور میرے اندر دوست بھر دیا، میرے وجود کے سب اجزاء دوست نے لے لئے اور میرا نام ھی رہ گیا
باقی سب وھی ھے ...وھی ھے...وھی ھے !!!!!!
قدرت اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے دئیے سے دیا جلاتی رھتی ھے...معرفت کی مشعل ایک ھاتھ سے دوسرے ھاتھ میں منتقل ھوتی رھتی ھے. صوفی، ولی، غوث، قطب، مجذوب، اوتار، قلندر، ابدال.... قدرت کے وہ ھاتھ ھیں جن میں روشنی کی مشعل روشن ھے ... یہ پاکیزہ لوگ اس روشنی سے اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ھیں اور دوسروں کو بھی روشنی کا انعکاس دیتے ھیں...صرف تاریخ کے اوراق ھی نہیں، لوگوں کے دلوں پر بھی ان بزرگوں کی داستانیں اور چشم دید واقعات زندہ اور محفوظ ھیں
ان بندوں میں سے جو قلندر بندے ھیں وہ زمان ومکان کی قید سے آزاد ھو جاتے ھیں...اللہ کے یہ نیک بندے غرض، طمع، حرص اور لالچ سے بے نیاز ھوتے ھیں...مخلوق جب ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ھے تو وہ اس کو سنتے بھی ھیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ھیں، کیونکہ قدرت نے انہیں اسی کام کے لئے مقررّ کیا ھے.یہی وہ پاکیزہ بندے ھیں جن کے بارے میں اللہ کہتا ھے ...." میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ھوں اور ان کے کان، آنکھ، اور زبان بن جاتا ھوں...پھر وہ میرے ذریعے بولتے ھیں، میرے ذریعے سنتے ھیں ، اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ھیں..."
ان ازلی سعید بندوں کی تعلیمات یہ ھیں کہ ھر بندہ کا اللہ کے ساتھ محبوبیّت کا رشتہ قائم ھے، ایسی محبوبّیت کا رشتہ جس میں بندہ اپنے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کرتا ھے ....!!!!
ستاروں میں کہاں تم کھوجتے ھو....
خدا تو خود درونِِِ ِآدمی ھے !!!
خواجہ شمس الدّین عظیمی ....
...............
گفتہء او گفتہء الله بود
گرچہ از حلقوم عبدالله بود
الله تعالی کے دوستوں کا بولنا دراصل الله تعالی ہی کا بولنا ہے- اگرچہ زبان تو بندے کی ہوتی ہے لیکن اس پہ کلام الله تعالی خود فرماتے ہیں-
مولانا رومی رحمت الله علیہ
----------------------
جذب اور طریقت
مجذوب اور سالک
بقاء ہوش وحواس کے ساتھ عمل بالشریعہ کو سلوک وطریقت اور عامل کو “سالک“
غیبی وارد سے مغلوب الحال ہوجانے، جمال یار کے مشاہدہ پہ ہوش وہواس سے بیگانہ ہوجانے اور از خود رفتہ ہوجانے کو جذب اور اس کیفیت سے مغلوب ہوجانے والے کو “مجذوب“ جمع مجاذیب کہتے ہیں
مجذوبیت دلیل کمال نہیں
حسن یار کو اپنے اندر برداشت کرکے دلوں میں سمیٹے رہنا اور حضرت حق سے مربوط رہنا
اصل کمال ہے
جذب دلیل کمال ہوتا تو سوا لاکھ انبیاء اور قریب اِسی تعداد میں اصحاب رسول
بھی از خود رفتہ ہوجاتے
جبکہ ہمارے ہادی ومعلم اعظم کا حال یہ ہے کہ:
موسی ز ہوش رفت بہ یک جلوہ صفات
تو عین ذات می نگری در تبسمی
﴿موسی تو محض ایک صفاتی جلوہ سے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عین ذات کا مشاہدہ کرتے بھی حالت تبسم میں ہیں﴾
اصحاب رسول کی نبوی تربیت کی کرشمہ سازی تھی کہ انہیں جمال یار کی حسن تابیوں سے چھلک جانا نہیں آیا۔
مجاذیب کی شناخت جامع طریقت و شریعت شخصیات ہی کرسکتی ہیں
یا پہر جن کی طرف وقت کے اولیاء اللہ وصلحاء کی کشش یا میلان ہو وہ مجذوب ہوسکتا ہے ان کی تعظیم کی جانی چاہئے۔ اور بی ادبی توقیری سے بچنا چاہیے ۔
خستہ حالی اور اوّل فول بکنے اور بڑبڑانے کی وجہ سے کوئی
مجذوبیت کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتا
مجاذیب کی کئی قسمیں ہیں
بعض عام انسانوں کی طرح عقل وخرد اور فہم وفراست رکھتے ہیں
جبکہ بعض عقل سے محروم ہوتے ہیں
عقل سے محروم مجاذیب میں مدار تکلیف “عقل“ کے فقدان کی وجہ سے وہ دیگر حیوانات کی طرح غیر مکلف رہتے ہیں
ایسوں کے اعمال قابل اتباع نہیں ہوتے
سلوک جذب پہ مقدم ہے
سالک اعمال سے مربوط رہتا ہے اس کی ترقی ہوتی رہتی ہے
جبکہ جذب ترک عمل کا نام ہے اس سے ترقی مسدود ہوجاتی ہے مجذوب کو اپنی ذات سے سروے کار ہوتا ہے جبکہ سالک دوسروں کے لئے گھلتا اور پگھلتا ہے
اس لئے سالک مجاذیب سے بہرحال افضل وبہتر ہے
بیگوسرائے
No comments:
Post a Comment