Friday 9 November 2018

ایمان واسلام کے مابین فرق، سند حدیث میں نسیان وخطاء کے صدور پہ مواخذہ نہیں

ایمان واسلام کے مابین فرق، 
سند حدیث میں نسیان وخطاء کے صدور پہ مواخذہ نہیں!
حضور دو تحقیقی مسائل میں رہنمائی جلد درکار ہے۔۔۔ امید ہے ہمیشہ کی طرح حوالہ جات کے ساتھ مکمل رہنمائی فرمائیں گے:
1: مشہور حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ "احفظ اللہ یحفظک احفظ اللہ تجدہ تجاھک الخ" میں حضرت ابن عباس کی عمر کیا تھی؟ 
اگر کسی نے اس میں صحابی کی عمر غلط بیان کر دی جبکہ حدیث ٹھیک بیان کی تو کیا اس کا یہ عمل "من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار" والی حدیث میں داخل ہوگا؟
2: اگر ایمان اور اسلام میں فرق بیان کیا جائے تو قرآن پاک کی آیات "یا ایھا الذین آمنو امنو باللہ ورسولہ الآیتہ" اور "قالت الاعراب امنا قل لم تومنو ولکن قولو اسلمنا الآیتہ " کو بیان کردیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ نیز قرآن و حدیث سے ایمان اور اسلام کا صحیح مفہوم بھی واضح فرما دیں کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جبرائیل سے تو ایمان اور اسلام بظاہر ایک ہی نظر آتے ہیں جبکہ قرآن پاک کی مندرجہ بالا آیات بظاہر اس سے متعارض ہیں۔ حوالہ جات کے ساتھ مکمل تفصیل فراہم فرمادیں۔ اللہ پاک آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے.

الجواب وباللہ التوفیق: 
اللہ تعالی کی شفقت و مہربانی ہے کہ اس نے ہم لوگوں سے بھول چوک میں کئے گئے اعمال پہ مواخذہ سے در گزر فرمادیا ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَال: (إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ لِي عَنْ أُمَّتِي الخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ)[268] حديث حسن ،رواه ابن ماجه والبيهقي وغيرهما.
جان بوجھ کر اور قصد وارادہ کے ساتھ کئے گئے اعمال پہ جزاء وسزا کا ترتب ہوتا ہے 
جھوٹ بولنا ویسے بھی حرام ہے، لیکن جان بوجھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا گناہ کبیرہ اور حرام ہونے کے ساتھ موجب دخول جہنم بھی ہے:
عن المغيرة رضي اللہ عنه، قال: سمعت النبي صلى اللہ عليه وسلم يقول: «إن كذبا علي ليس ككذب على أحد، من كذب علي متعمدا، فليتبوأ مقعده من النار.(صحیح البخاري:۱؍۱۷۲، رقم الحدیث:۱۲۹۱،کتاب الجنائز، باب مایکرہ النیاحۃ علی المیت، ط:البدر - دیوبند)

وعن أسامة بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "من تقول علي مالم أقل فليتبوأ مقعده من النار" . وذلك أنه بعث رجلا فكذب عليه فدعا عليه رسول الله صلى الله عليه و سلم فوجد ميتا وقد انشق بطنه ولم تقبله الأرض . رواهما البيهقي في دلائل النبوة
ترجمہ:
اور حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ عنہ ہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو شخص (قصداً) میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کرے جس کو میں نے نہ کہا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں تیار سمجھے اور اس ارشاد گرامی کا بس منظریہ ہے کہ (ایک مرتبہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو (کچھ لوگوں کی طرف یا کسی شخص کے پاس) بھیجا تھا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی جھوٹی بات بنا کر کہی، (جب) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (پر یہ منکشف ہوا یا کسی ذریعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر ہوئی تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے حق میں بددعا فرمائی، چنانچہ وہ شخص (ایک دن) اس حال میں مردہ پایا گیا کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا تھا اور (جب اس کو دفن کیا گیا تو) زمین نے اس کو قبول نہیں کیا۔ دونوں روایتوں کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس سے حدیث مروی ہے:
((يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ))
[رواه الترمذي  7957 (صحيح الجامع) وقال: حديث حسن صحيح]

جواب 2
لغوی اعتبار سے ایمان واسلام کے مفہوم میں فرق ہے 
اسی فرق کے پیش نظر حدیث جبریل میں دونوں کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے،
اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات وصفات کے موافق اور اس کے انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کو اور اللہ اور اس کے پاس سے آنے والی تمام خبروں کو رضاء ورغبت کے ساتھ دل سے مان لینے اور زبان سے اقرار کرلینے کانام ایمان ہے،
شرح الفقہ الاکبر میں ہے: والإیمان فی الشرع ہو الإقرار باللسان والتصدیق بالجنان بأن اللہ تعالیٰ واحد لاشریک لہ موصوف بصفاتہ الذاتیۃ والفعلیۃ (إلی قولہ) لأن من قال آمنت باللہ وبماجاء من عند اللہ وآمنت برسول اللہ وبماجاء من عند رسول اللہ فقد آمن بجمیع ما یجب الإیمان بہ فہو مؤمن‘‘ (ص:۱۴۸) 
بغیر چوں وچرا احکام خدا وندی پر راضی ہوجانے اور فرائض ومحرمات کو بلا طعن واعتراض قبول کرلینے کا نام اسلام ہے 
شرح الفقہ الاکبر میں ہے:
فمعنی الإسلام ہو الرضی بحکم اللہ تعالی بکون بعض الأشیاء فرضا وبکون بعض الأشیا حلالاً وبکون بعض الأشیاء حراماً بلا اعتراض واستقباح‘‘۔( ص:۱۵۱)
لیکن اس جزوی فرق کے علی الرغم اسلام وایمان باہم لازم ملزوم ہیں۔
یعنی شرعاً ایمان بغیر اسلام کے اور اسلام بغیرایمان کے معتبر نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محض دل میں تصدیق کرلینا شرعاً اس وقت تک معتبرنہیں ہے جب تک کہ زبان سے اس تصدیق کا اظہاراور اطاعت وفرمانبرداری کا اقرارنہ کرے، اسی طرح زبان سے تصدیق کا اظہار یا فرمانبرداری کا اقرار اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک کہ دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نہ ہو۔
حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایمان اور اسلام کی مسافت ایک ہے، فرق صرف ابتداء اور انتہاء کا ہے، یعنی ایمان قلب سے شروع ہوتاہے اور ظاہرپر پہنچ کر مکمل ہوتا ہے اور اسلام ظاہر عمل سے شروع ہوتا ہے اور قلب پر پہنچکر مکمل سمجھا جاتا ہے دونوں ایک دوسرے کے بغیر معتبر نہیں ہیں (ماخوذ از معارف القرآن)
مولانا عبد الماجد دریابادی رحمہ اللہ، آیت:
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
الحجرات: 14
ترجمہ:
(یہ بعض) گنوار کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان تو نہیں لائے ہو، یہ کہو کہ ہم مطیع ہوگئے ہیں، اور ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل ہوا نہیں ہے اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مان لو تو وہ تمہارے اعمال میں سے ذرا بھی کم نہ کرے گا بیشک اللہ بڑا مغفرت والا ہے، بڑا رحم والا ہے،۔
کے ذیل میں لکھتے ہیں:
"محققین اہل سنت نے آیت سے یہ نکالا ہے کہ اسلام عام ہے اور ایمان اس سے خاص تر ہے۔ وقد استفید من ھذہ الایۃ الکریمۃ ان الایمان اخص من الاسلام کما ھو مذھب اھل السنۃ والجماعۃ (ابن کثیر) حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) ابراہیم نخعی اور قتادہ اور ابن جریر نے بخلاف امام بخاری کے آیت سے یہی استدلال کیا ہے کہ جن لوگوں کا یہاں ذکر ہے۔ وہ منافق نہ تھے، تھے مسلمان ہی، اگرچہ ان کا ایمان کمزور تھا۔ دل ھذا علی ان ھؤلاء الاعراب المذکورین فی ھذہ الایۃ لیسوا بمنافقین وانما ھم مسلمون لم یستحکم الایمان فی قلوبھم فادعوا لانفسھم مقامااعلی مماوصلوا الیہ فادبوا فی ذلک وھذا معنی قول ابن عبا سرضی اللہ عنہ وابرھیم النخعی وقتادۃ واختارہ ابن جریر وانما قلنا ھذا لان البخاری (رح) ذھب الی ان ھؤلاء کانوا منافقین یظھرون الایمان ولیسوا کذلک (ابن کثیر) کوئی شخص اسلام کا دعوی کررہا ہو تو جزم کے ساتھ اس کی تکذیب (جیسی کہ یہاں وارد ہوئی ہے) کا حق صرف حق تعالیٰ عالم الغیب ہی کو پہنچتا ہے۔ ورنہ بندوں کا کام تو عام طور پر اس مدعی کے بیان کو تسلیم ہی کرلینا ہے۔ اشارۃ ان عمل القلب غیر معلوم واجتناب الظن واجب وانما یحکم بالظاھر فلایقال لمن یفعل فعلا ھو مراثی ولا لمن اسلم ھو منافق ولکن اللہ خبیر بما فی الصدور اذا قال فلان لیس بمومن فحصل الجزم (کبیر) آیت سے ظاہر ہوگیا کہ اسلام اور ایمان کے دو الگ الگ مفہوم ہیں۔ اسلام صرف ایک ضابطہ کی چیز ہے۔ جس کا تعلق قول اور ظاہر سے ہے۔ ایمان اس کے برعکس ایک باطنی حقیقت ہے جس کا تعلق قلب کی تصدیق سے ہے۔ فاخبران حقیقۃ الایمان التصدیق بالقلب وان الاقرار باللسان واظھار مرافعہ بالابدان لایکون ایمانا دون التصدیق بالقلب والاخلاص (معالم)"
(تفسیر ماجدی ،سورہ الحجرات ،آیت نمبر 14)
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment