Wednesday, 14 November 2018

ایک امام کی تقلید کرتے ہوئے کسی مسئلہ میں دوسرے امام کی رائے کو لینا

ایک امام کی تقلید کرتے ہوئے کسی مسئلہ میں دوسرے امام کی رائے کو لینا
سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں
ایک عام مقلد شخص اگر مجبوری کی وجہ سے دوسرے مسلک کے مطابق کسی ایک مسئلہ پر عمل کرے تو کیا اسکی گنجائش ھے؟
اور اگر مقلد عالم ہو تو اسکے لئے کیا اسکی اجازت ھے؟
اس سلسلہ میں مفصل  مدلل اور واضح جواب عنایت فرمائیں
جواب: ایک امام کی تقلید کرتے ہوئے کسی مسئلہ میں دوسرے امام کی رائے کو لینا درست نہیں ہے، اس کو تلفیق کہتے ہیں اور تلفیق باجماع امت باطل ہے۔ مذاہب کی دلیل مانگنا عامی آدمی کو اس کا حق نہیں ہے اور پھر دلائل میں تقابل کرکے اپنی فہم ناقص سے فیصلہ کرنا اور بھی برا ہے۔ کسی مسئلہ کی دلیل بسا اوقات صرف ایک حدیث نہیں ہوتی ہے بلکہ احادیث کے پورے ذخیرہ اور صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تعامل اور ان کے آثار کو پیش نظر رکھ کر مجتہد مسئلہ کا حکم نکالتا ہے اور اُن وجوہ ترجیح کی بنیاد پر جو مسلم ہیں کسی مسئلہ کو ترجیح دیتا ہے اب ان دلائل میں غور کرنا اور اُن کی تہہ تک پہنچنا ہرکس و ناکس کا کام نہیں ہے، لہٰذا جو لوگ اس طرح کا طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں اور قرآن پاک کی ہدایت
﴿فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ﴾
اگر تمھیں نہیں معلوم تو اہل علم سے دریافت کرلو۔ کے خلاف کرتے ہیں۔ ان کا طریقہ غلط ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
______
حنفی اور شافعی مسلک کے درمیان بہت سے مسائل اور فتووں میں فرق پایا جاتا ہے دونوں مسلک اہل حق میں سے ہیں۔ جس کی تقلید کرنا آپ کے لیے آسان ہو، یعنی مسائل وغیرہ معلوم کرنے میں دشواری نہ ہو اس کی تقلید کرلیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہ کریں کہ بعض مسائل میں حنفی طریقہ پر عمل کریں اور بعض مسائل میں شافعی طریقہ پر کیونکہ یہ تلفیق ہے جو کہ حرام ہے، نیز اس میں اتباع ہوا کا اندیشہ قوی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
----------
تمام مسائل شریعت میں ایک ہی امام کی تقلید کی جانی چاھے یا مختلف مسائل میں مختلف ائمہ کی تقلید کی جا سکتی ہے ؟دلائل میں عربی متن نہ دیں صرف ترجمہ کافی ہوگا؟
Published on: Jan 5, 2015
جواب # 57175
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 17-136/Sn=3-1436-U
جو آدمی جس امام کی اقتدا کرے ضروری ہے کہ تمام مسائل میں اسی امام کے اجتہادات اور تخریجات کے مطابق عمل کرے، ایک مسئلے میں کسی امام کا قول لینا، دوسرے میں کسی اور امام کا، شرعاً جائز نہیں ہے، اس سے خواہش پرستی کا دروازہ کھلے گا، نیز ”تلفیق بین المسالک“ کی نوبت آئے گی جو قطعا جائز نہیں ہے“۔ شرح مہذب میں معین امام کی اتباع کے ضروری ہونے کا ذکر کر تے ہوئے تحریر فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر جس مذہب کی چاہے اتباع کرنے کی اجازت دی جائے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے مذاہب کی رخصتوں کو چناجائے گا اور حلال وحرام، وجوب وجواز کے درمیان عمل کا اختیار دیا جائے گا، جس کا نتیجہ بالآخر شرعی تکلیف کا چولا اُتار پھینکنے کی صورت میں نمودار ہوگا، برخلاف دور اول (خیر القرون) کے کہ اس زمانہ میں وہ مذاہب جن میں سبھی مسائل کا حل ہومہذب ومرتب نہیں تھے، اس اعتبار سے آج مقلد پر لازم ہے کہ وہ ایک متعین مذہب کی اتباع میں اپنی پوری کوشش کرے: ووجھہ أنہ لو جاز اتباع أي مذھب شاء لا فضی إلی أن یلتقط رُخَص المذاھب متبعا ھواہ ویتخیر بین التحلیل والتحریم والوجوب والجواز وذلک یؤدي إلی انحلال ربقة التکلیف بخلاف العصر الأول فإنہ لم تکن المذاھب الوافیة بأحکام الحوادث مھذبة : فعلی ھذا یلزمہ أن یجتھد في اختیار مذھب یقلدہ علی التعیین (شرح المہذب: ۱/۵۵، ط: بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
...........
تقلید کی شرعی حیثیت
افادات: شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی

No comments:

Post a Comment