اصحاب رسول
------------------------------
صحِبَ يَصحَب، صَحابةً وصُحبةً،
ساتھ رہنا،
الصحبة اور الصحابة (مصدر)
کی لغوی حقیقت و اصلی مفہوم دو چیزوں کے مابین اتصال ولقاء ہے
جب کوئی کسی سے ملے تو ملنے والے کو 'صاحب' یا 'صحابی' کہتے ہیں
جس کی جمع
'أصحاب' و 'صَحابة' آتی ہے
ملنے کی زمانی مقدار حقیقت لغویہ سے خارج ہے
معمولی لمحے کے لئے ملنے والے کو بھی لغوی اعتبار سے صاحب کہیں گے
جیسے مطلق مارنے والے کو 'ضارب'
کہتے ہیں
خواہ تھوڑا مارے یا زیادہ!
اسی طرح مطلق ملاقات کرنے والے کو صاحب کہیں گے
ملنے کی زمانی مقدار کو لازم کرنا لفظ کی لغوی حقیقت میں زیادتی کرنا ہے۔.
أبو بكر الباقلانى 'الكفاية' ص 100
میں تحریر کرتے ہیں:
"لا خلاف بين أهل اللغة فى أن القول "صحابى" مشتق من الصحبة، وأنه ليس بمشتق من قدر منها مخصوص، بل هو جار على كل من صحب غيره قليلاً كان أو كثيراً … يقال صحبت فلاناً حولاً، ودهراً، وسنة، وشهراً، ويوماً، وساعة، فيوقع اسم المصاحبة بقليل ما يقع منها وكثيرة وذلك يوجب فى حكم اللغة: إجراء هذا على من صحب سيدنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أى قدر من الوقت"
إمام ابن تيمية 'الصارم المسلول' ص 575
میں لکھتے ہیں:
''والأصحاب جمع صاحب، والصاحب اسم فاعل من صحبه يصحبه، وذلك يقع على قليل الصحبه وكثيرها"
لسان العرب میں ہے:
الصحابة فى اللغة: يقال صحب أى دعاه إلى الصحبة ولازمه، وكل شئ لازم شيئاً فقد استصحبه- لسان العرب 1/519
حضرات علماء کے صحابی کی اصطلاحی تعریف میں اگرچہ چھ مختلف نقطہائے نظر ہیں، لیکن مرکزی موقف دو ہیں
ایک محدثین کا موقف ہے
اور دوسرا اصولیین کا،
حضرات محدثین نے لفظ کی لغوی حقیقت کی رعایت کرتے ہوئے لفظ صحابی کی جو شرعی تعریف کی ہے وہ اپنے جلو میں کافی وسعت وجامعیت رکھے ہوئی ہے:
حضرت خطیب بغدادی اور ابنِ جماعہ نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے صحابی کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے:
کُلُّ مَنْ صَحِبَهُ سَنَةً أَوْ شَهْرًا أَوْ یَوْمًا أَوْ سَاعَةً أَوْ رَآهُ، فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ، لَهُ مِنَ الصُّحْبَةُ عَلَی قَدْرِ مَا صَحِبَهُ.
ہر وہ شخص جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو‘ ایک سال یا ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھڑی یا اُس نے (فقط حالتِ ایمان میں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو وہ صحابی ہے۔ اسے اسی قدر شرفِ صحابیت حاصل ہے جس قدر اس نے صحبت اختیار کی۔
خطیب بغدادی، الکفایة في علم الروایة، 1: 51، مدینه منوره، سعودی عرب: المکتبة العلمیة
ابن جماعة، المنهل الروی، 1: 111، دمشق شام: دار الفکر)
امام بخاری رحمہ اﷲ صحابی کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
وَمَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم أَوْ رَآهُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَهُوَ مِنْ أَصْحَابِهِ.
مسلمانوں میں سے جس نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے۔
بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبی صلی الله علیه وآله وسلم ، 3: 1335، دار ابن کثیر الیمامة، بیروت)
حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اﷲ نے صحابی کی درج ذیل تعریف کی ہے جو بہت جامع ومانع اور اہل علم کے ہاں مقبول اور راجح ہے:
وَهُوَ مَنْ لَقِيَ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم مُؤمِناً بِهِ، وَمَاتَ عَلَی الْإِسْلَامِ، وَلَوْ تَخَلَّتْ رِدَّةٌ فِي الْأَصَحَّ.
صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو اگرچہ درمیان میں مرتد ہو گیا تھا (مگر وفات سے پہلے مسلمان ہو گیا)۔
ابن حجر مذکورہ تعریف کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
وَالْمُرَادُ بِاللِّقَاءِ: مَا هُوَ أَعمُّ: مِنَ الْمُجَالَسَةِ، وَالْمُمَاشَاةِ، وَ وَصُولِ أَحَدِهِمَا إِلَی الآخَرِ، وَإِنْ لَمْ یُکَالِمْهُ، وَیَدْخُلُ فِیهِ رُؤیَةُ أَحَدِهِمَا الآخَرَ، سَوَاءٌ کَانَ ذَلِکَ بِنَفْسِهِ أَو بِغَیْرِهِ.
لقاء سے مراد (ایسی ملاقات) ہے جو باہم بیٹھنے، چلنے پھرنے اور دونوں میں سے ایک کے دوسرے تک پہنچنے اگرچہ اس سے مکالمہ بھی نہ کیا ہو، یہ مجلس اس لحاظ سے عام ہے (جس میں صرف کسی مسلمان کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنا ہی کافی ہے) اور لقاء میں ہی ایک دوسرے کو بنفسہ یا بغیرہ دیکھنا داخل ہے۔
عسقلاني، نزهَة النظر بشرح نخبة الفکر: 64، قاہرة، مصر: مکتبة التراث الاسلامي
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا جس نے حالت ایمان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور اس کا خاتمہ بالایمان ہوا تو وہ صحابی کہلاتا ہے۔
إمام بدر الدين الزركشى کا بھی یہی کہنا ہے:
"ذهب الأكثرون إلى أن الصحابى من اجتمع - مؤمناً - بسيدنا محمد - صلى الله عليه وسلم- وصحبه ولو ساعة ، روى عنه أو لا، لأن اللغة تقتضى ذلك، وإن كان العرف يقتضى طول الصحبة وكثرتها وهو ما ذهب إليه جمهور الأصوليين، أما عند أصحاب الحديث فيتوسعون فى تعريفهم لشرف منزلة النبى - صلى الله عليه وسلم - البحر المحيط فى أصول الفقه 4/301 , 349)
علامہ ابن حزم کہتے ہیں:
فأما الصحابة - رضي الله عنهم - فهم كل من جالس النبى - صلى الله عليه وسلم - ولو ساعة، وسمع منه ولو كلمة فما فوقها، أو شاهد منه عليه السلام أمراً يعيه " الإحكام فى أصول الأحكام لابن حزم 5/86)
علي بن المديني شیخ البخاری بھی یہی کہتے ہیں:
"من صحب النبي صلى الله عليه وسلم أو رآه ولو ساعة من نهار فهو من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم"فتح الباري (7/5)..
حافظ ابن حجر، سیوطی، نووی، سخاوی، ابن تیمیہ ،آمدی ابن حاجب اور جمہور محدثین کا مذہب بھی یہی ہے:
(الإصابة 1/10 - 12، ونزهة النظر ص 51، 52
مقدمة النووي على صحيح مسلم .صفحة 39
"تدريب الراوى 2/216)
وقال الإمام ابن تيمية في الصارم المسلول ص 575
"والأصحاب جمع صاحب، والصاحب اسم فاعل من صحبه يصحبه، وذلك يقع على قليل الصحبه وكثيرها"
فأما الصحابة - رضي الله عنهم - فهم كل من جالس النبى - صلى الله عليه وسلم - ولو ساعة، وسمع منه ولو كلمة فما فوقها، أو شاهد منه عليه السلام أمراً يعيه " الإحكام فى أصول الأحكام لابن حزم 5/86)
علي بن المديني شیخ البخاری بھی یہی کہتے ہیں:
"من صحب النبي صلى الله عليه وسلم أو رآه ولو ساعة من نهار فهو من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم"فتح الباري (7/5)..
حافظ ابن حجر، سیوطی، نووی، سخاوی، ابن تیمیہ ،آمدی ابن حاجب اور جمہور محدثین کا مذہب بھی یہی ہے:
(الإصابة 1/10 - 12، ونزهة النظر ص 51، 52
مقدمة النووي على صحيح مسلم .صفحة 39
"تدريب الراوى 2/216)
وقال الإمام ابن تيمية في الصارم المسلول ص 575
"والأصحاب جمع صاحب، والصاحب اسم فاعل من صحبه يصحبه، وذلك يقع على قليل الصحبه وكثيرها"
صحابی کی تعریف اصولیین کے نزدیک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرات اصولیین نے لفظ کی لغوی حقیقت سے سے زیادہ عرف کو ملحوظ رکھا
اور صحابی کی تعریف میں محض حضور سے ملاقات کو کافی نہ سمجھا
بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بار بار آنے اور احادیث سننے کی شرط لگاتے ہوئے رویت کو عام اور صحابیت کو خاص قرار دیا
اس لحاظ سے ان کے نزدیک صحابی وہی ہوگا جو ایمان و بیداری کی حالت میں حضور کو دیکھا ہو، صحبت نبوی سے لمبے زمانہ تک فیض یاب ہوا ہو، مجلس نبوی کا بار بار حاضر باش ہو، حضور سے احادیث سنا ہو اگرچہ دوسروں سے روایت نہ کی ہو! اور پھر ایمان کی حالت میں وفات پائی ہو!
من لقى النبي صلى الله عليه وسلم يقظة مؤمنا به على سبيل التتبع له ،والأخذ عنه، وإن لم يرو عنه شيأً ،ومات على الإيمان ( صحبة رسول الله في الكتاب والسنة ص :62
مقدمة إبن الصلاح ،النوع التاسع والثلاثون ،ص 146)
یہ علماء اصولیین کا مذہب
ہے، دیکھئے:
الإحكام للآمدى 2/84 ، 85
وابن عبد الشكور فى فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت فواتح الرحموت 2/ 158 ، والزركشى فى البحر المحيط 4/302، 305)
سعید بن مسیب سے بھی ایک ضعیف اور غیر ثابت روایت میں تقریباً اسی مفہوم کی روایت منقول ہے:
وقال سعيد بن المسيب: "الصحابة لا نعدهم إلا من أقام مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سنة أو سنتين وغزا معه غزوة أو غزوتين"الكفاية (68-69) وانظر أيضاً أسد الغابة (1/18).
فقہاء اصولیین کے قول کی بنیاد درج ذیل ہے:
(۱) استعمال وعرف،
کیونکہ عرف عام میں حضور کو صرف ایک نظر دیکھ لینے والے کو صحابی نہیں کہا جاتا ہے بلکہ صحابی ہونے کے لئے صحبت وملازمت طویلہ ضروری ہے
(۲) حضرت انس بن مالک نے حضور کو ایک نظر دیکھنے والوں سے صحابی ہونے کی نفی کی ہے:
أتيتُ أنسَ ابن مالِكٍ فقُلتُ هل بقيَ من أصحابِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ أحدٌ غيرُكَ قالَ بقيَ ناسٌ منَ الأَعرابِ قد رأوهُ فأمَّا مَنْ صَحِبَه فلا .
الراوي: موسى السيلاني المحدث: العراقي - المصدر: التقييد والإيضاح - الصفحة أو الرقم: 299
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
التخريج : لم نجده مسنداً، لكن ذكره العراقي في ((التقييد والإيضاح)) (ص299)
و فتح المغیث ،صفحہ 110)
یعنی حضرت انس سے سوال ہوا کہ کیا (بصرہ)
میں آپ کے علاوہ بھی کوئی صحابی رسول بچا ہے؟
جواب دیا کہ ہاں البتہ کچھ بدو ہیں جنہوں نے حضور کو دیکھا ہے، صحابہ میں میرے علاوہ اور کوئی موجود نہیں)
(۳) حضرت خالد بن ولید کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ مبشرہ صحابی حضرت عبد الرحمن بن عوف کو برا بھلا کہنے سے منع کرتے ہوئے انہیں (عبد الرحمن بن عوف) 'اصحابی' کہا
جس سے واضح ہے کہ صحابی کا اطلاق ہر کسی پہ نہیں ہوسکتا ،بلکہ اس کے لئے طویل ہم نشینی و استفادہ ضروری ہے:
روى البخاري (3397) ومسلم (4611) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخدري قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله ـ صلَّى الله عليه وسلَّم ـ: «لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي؛ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ»
محدثین کی تعریف صحابی کی بنیاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) لفظ کی لغوی حقیقت یہی ہے کہ ایک لمحہ دیکھنے اور چند قدم ساتھ چلنے والے پر بھی 'صاحب' اور 'صحابی' کا اطلاق درست ہے، کما بینا من قبل۔
جب تک کوئی شرعی مانع نہ ہو کسی بھی لفظ کی حقیقت شرعیہ اس کی حقیت لغویہ سے جدا نہیں ہوسکتی
یہاں حقیقت لغویہ کو مہجور کرنے کا کوئی صارف نہیں
اگر اس بابت محض عرف کی وجہ سے ہی اصطلاحات قائم کرلیے
جائیں تو پھر تو صحابی کی کوئی ایک تعریف قائم ودائم نہیں رہ سکتی، کیونکہ عرف تو ہمیشہ بدلتا رہتا ہے!
(۲) حافظ ابن حجر عسقلانی نے صحیح سند سے یہ روایت نقل کی ہے:
(عن نبيح العنزي، عن أبي سعيد الخدري قال: كنا عنده وهو متكئ فذكرنا علياً ومعاوية، فتناول رجل معاوية فاستوى أبو سعيد الخدري جالساً ثم قال: كنا ننزل رفاقاً مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فكنا في رفقة أبو بكر، فنزلنا على أهل أبيات وفيهم امرأة حبلى، ومعنا رجل من أهل البادية، فقال: للمرأة الحامل: أيسرك أن تلدي غلاماً؟ ، قالت: نعم، قال: إن أعطيتني شاة ولدت غلاماً، فأعطته فسجع لها أسجاعاً، ثم عمد إلى الشاة فذبحها وطبخها وجلسنا نأكل منها، ومعنا أبو بكر، فلما علم بالقصة قام فتقيأ كل شيء أكل، قال: ثم رأيت ذلك البدوي أتى به عمر بن الخطاب وقد هجا الأنصار، فقال: لهم عمر: لولا أنه له صحبه من رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ما أدري ما نال فيها لكفيتكموه، ولكن له صحبه من رسول الله - صلى الله عليه وسلم -) .
إصابة ابن حجر ج ١ ص ١٦٤)
اس میں قابل غور یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک بدوی صحابی کو محض حضور سے شرف زیارت کی وجہ سے برا بھلا کہنے سے
رک گئے، اور انہوں نے رویت محضہ پہ صحابی ہونے کا اطلاق فرمایا ۔ حالانکہ اس بدوی صحابی کو حضور کی صحبت طویلہ نصیب نہ ہوئی تھی!
(۳) ایمان کی حالت میں صرف ایک نظر دیدار نبوی کرنے والوں کے لئے بشارت سنائی گئی ہے:
طُوبى لمنْ رآنِي و آمنَ بِي، و طُوبى لمنْ رأى منْ رآنِي، و لمنْ رأَى منْ رآني و آمنَ بِي.
الراوي: عبدالله بن بسر المازني المحدث: السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 5286
خلاصة حكم المحدث: صحيح
(۴) صحیحین کی روایت میں
صرف رویت پر اصحاب رسول ہونے کا اطلاق کیا گیا ہے
''روى الشيخان واللفظ لمسلم عن أبي سعيد رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «يأتي على الناس زمان يغزو فئام (جماعة) من الناس. فيقال لهم: فيكم من رأى رسول الله صلى عليه وسلم؟ فيقولون: نعم! فيفتح لهم. ثم يغزو فئام من الناس، فيقال لهم: فيكم من رأى من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فيقولون: نعم! فيفتح لهم. ثم يغزو فئام من الناس، فيقال لهم: هل فيكم من رأى من صحب من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فيقولون: نعم! فيفتح لهم».
روی البخاری برقم 2897 كتاب فضائل الصحابة ،باب فضائل أصحاب النبي .
ومسلم 2532
كتاب فضائل الصحابة
باب فضل الصحابة
اس میں مسلم شریف کی روایت میں تصریح ہے کہ صرف رویت نبویہ کی وجہ سے لوگ مجاہدین اسلام کے لئے اپنے شہروں کے دروازے کھول دیں گے، بخاری کی روایت میں اسی رویت پہ صحابی کا اطلاق ہوا ہے۔
حضرت انس بن مالک کے قول کی حقیقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت انس بن مالک نے جو ایک سوال میں بصرہ میں اپنے علاوہ دیگر اصحاب رسول کے بقاء کی نفی کی تھی تو ان کی نفی عام نہیں بلکہ خاص تھی
مطلب یہ تھا کہ میرے علاوہ اس وقت شہر بصرہ میں خصوصی صحبت یافتہ صحابی موجود نہیں ،مطلق صحابی کی نفی ان کی مراد بالکل نہیں ہے!
کیونکہ ان کے چھ سال بعد تک صحابی رسول حضرت محمود بن الربیع زندہ رہے
اور وہ بچپن ہی سے صحبت رسول سے فیض یاب ہوچکے تھے
بخاری شریف میں ان کے بچپنا کی عمر ہی کا ایک واقعہ یوں مذکور ہوا ہے :
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيُّ أَنَّهُ عَقَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرٍ کَانَتْ فِي دَارِهِمْ فَزَعَمَ مَحْمُودٌ أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ الْأَنْصارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَکَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ کُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ وَکَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَائَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ إِنِّي أَنْکَرْتُ بَصَرِي وَإِنَّ الْوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَائَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ فَوَدِدْتُ أَنَّکَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَکَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلًّی فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّی قَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِکَ فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَی الْمَکَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَبَّرَ وَصَفَفْنَا وَرَائَهُ فَصَلَّی رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ فَحَبَسْتُهُ عَلَی خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّی کَثُرَ الرِّجَالُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مَا فَعَلَ مَالِکٌ لَا أَرَاهُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ ذَاکَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُلْ ذَاکَ أَلَا تَرَاهُ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِکَ وَجْهَ اللَّهِ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ أَمَّا نَحْنُ فَوَاللَّهِ لَا نَرَی وُدَّهُ وَلَا حَدِيثَهُ إِلَّا إِلَی الْمُنَافِقِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِکَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ فَأَنْکَرَهَا عَلَيَّ أَبُو أَيُّوبَ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا قُلْتَ قَطُّ فَکَبُرَ ذَلِکَ عَلَيَّ فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّی أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ فَقَفَلْتُ فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ سِرْتُ حَتَّی قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَی يُصَلِّي لِقَوْمِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ مِنْ الصَّلَاةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِکَ الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِيهِ کَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ
صحيح البخاري كتاب التهجد،برقم 1113
ترجمہ: اسحاق، یعقوب بن ابراہیم، ابراہیم، ابن شہاب، محمود رضی اللہ عنہم
بن ربیع انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہیں اور وہ کلی بھی یاد ہے جو میرے چہرے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر کو کنوئیں سے لے کر کی تھی، انہوں نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے تھے کہتے ہوئے سنا کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھاتا تھا اور میرے درمیان اور ان کے درمیان ایک وادی حائل تھی اور جب بارش ہوتی تو میرے لئے ان کی مسجد کی طرف راستہ طے کرکے جانا دشوار ہوتا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میری نگاہ کمزور ہے اور وادی جو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حائل ہے جب بارش ہوتی ہے تو مجھ پر دشوار ہوتا ہے کہ راستہ طے کرکے وہاں پہنچوں، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں اور میرے مکان میں ایک جگہ پر نماز پڑھ لیں کہ میں اس کو نماز کی جگہ بنالوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایسا کروں گا، چنانچہ صبح کے وقت میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے جب کہ دھوپ تیز ہوچکی تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بیٹھے بھی نہ تھے کہ فرمایا تم اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہو جہاں میں نماز پڑھوں؟ میں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جس میں نماز پڑھنا پسند کرتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف قائم کی پھر دو رکعت نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم نے بھی سلام پھیرا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرچکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خزیرۃ (ایک قسم کا کھانا) پر روکا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تیار کرلیا گیا تھا۔ جب دوسرے گھر والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے گھر میں سنی تو دوڑ پڑے یہاں تک کہ گھر میں لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ مالک نے کیا کیا، میں اسے نہیں دیکھتا ہوں تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ منافق ہے اللہ کے رسول سے اسے محبت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے لا الہ الا اللہ کہا ہے اس سے اللہ کی رضا چاہتا ہے تو اس نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں لیکن ہم تو واللہ اس کی محبت اور اس کی گفتگو منافقین ہی سے دیکھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے جہنم پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جو لا الہ الا اللہ کہے اور اس سے رضائے الٰہی چاہتا ہو۔ محمود نے بیان کیا کہ میں نے اس کو ایک جماعت سے بیان کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوایوب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور اس جنگ میں بیان کیا جس میں انہوں نے وفات پائی اور اس وقت روم میں یزید بن معاویہ حاکم تھا، ابوایوب نے ہماری اس حدیث کا انکار کیا اور کہا واللہ جو تو نے کہا میرا خیال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہا، یہ مجھے برا معلوم ہوا اور میں نے اللہ کیلئے نذر مانی کہا اگر وہ مجھے صحیح و سالم رکھے یہاں تک کہ میں اس غزوہ سے واپس ہوجاؤں تو میں اس حدیث کے متعلق عتبان ؓ بن مالک سے پوچھوں گا، اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا، چنانچہ میں غزوہ سے لوٹا میں نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا پھر میں چلا یہاں تک کہ مدینہ پہنچا، میں بنی سالم کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ عتبان بڈھے اور نابینا ہوگئے ہیں اپنی قوم کو نماز پڑھاتے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کو سلام کیا اور بتایا کہ میں کون ہوں، پھر میں نے ان سے حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح بیان کیا جس طرح پہلی بار بیان کیا گیا تھا۔
صحيح البخاري كتاب التهجد،برقم 1113
ترجمہ: اسحاق، یعقوب بن ابراہیم، ابراہیم، ابن شہاب، محمود رضی اللہ عنہم
بن ربیع انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہیں اور وہ کلی بھی یاد ہے جو میرے چہرے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے گھر کو کنوئیں سے لے کر کی تھی، انہوں نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے تھے کہتے ہوئے سنا کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھاتا تھا اور میرے درمیان اور ان کے درمیان ایک وادی حائل تھی اور جب بارش ہوتی تو میرے لئے ان کی مسجد کی طرف راستہ طے کرکے جانا دشوار ہوتا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میری نگاہ کمزور ہے اور وادی جو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حائل ہے جب بارش ہوتی ہے تو مجھ پر دشوار ہوتا ہے کہ راستہ طے کرکے وہاں پہنچوں، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں اور میرے مکان میں ایک جگہ پر نماز پڑھ لیں کہ میں اس کو نماز کی جگہ بنالوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایسا کروں گا، چنانچہ صبح کے وقت میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے جب کہ دھوپ تیز ہوچکی تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بیٹھے بھی نہ تھے کہ فرمایا تم اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہو جہاں میں نماز پڑھوں؟ میں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جس میں نماز پڑھنا پسند کرتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف قائم کی پھر دو رکعت نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم نے بھی سلام پھیرا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرچکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خزیرۃ (ایک قسم کا کھانا) پر روکا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تیار کرلیا گیا تھا۔ جب دوسرے گھر والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے گھر میں سنی تو دوڑ پڑے یہاں تک کہ گھر میں لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ مالک نے کیا کیا، میں اسے نہیں دیکھتا ہوں تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ منافق ہے اللہ کے رسول سے اسے محبت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے لا الہ الا اللہ کہا ہے اس سے اللہ کی رضا چاہتا ہے تو اس نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں لیکن ہم تو واللہ اس کی محبت اور اس کی گفتگو منافقین ہی سے دیکھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے جہنم پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جو لا الہ الا اللہ کہے اور اس سے رضائے الٰہی چاہتا ہو۔ محمود نے بیان کیا کہ میں نے اس کو ایک جماعت سے بیان کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوایوب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور اس جنگ میں بیان کیا جس میں انہوں نے وفات پائی اور اس وقت روم میں یزید بن معاویہ حاکم تھا، ابوایوب نے ہماری اس حدیث کا انکار کیا اور کہا واللہ جو تو نے کہا میرا خیال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہا، یہ مجھے برا معلوم ہوا اور میں نے اللہ کیلئے نذر مانی کہا اگر وہ مجھے صحیح و سالم رکھے یہاں تک کہ میں اس غزوہ سے واپس ہوجاؤں تو میں اس حدیث کے متعلق عتبان ؓ بن مالک سے پوچھوں گا، اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا، چنانچہ میں غزوہ سے لوٹا میں نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا پھر میں چلا یہاں تک کہ مدینہ پہنچا، میں بنی سالم کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ عتبان بڈھے اور نابینا ہوگئے ہیں اپنی قوم کو نماز پڑھاتے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کو سلام کیا اور بتایا کہ میں کون ہوں، پھر میں نے ان سے حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح بیان کیا جس طرح پہلی بار بیان کیا گیا تھا۔
امام ابن کثیر الباعث الحثیث صفحہ 153 پہ رقمطراز ہیں:
وهذا إنما نفى فيه الصحبة الخاصة، ولا ينفي ما اصطلح عليه الجمهور من أن مجرد الرؤية كافٍ في إطلاق الصحبة لشرف رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وجلالة قدره وقدر من رآه من المسلمين، ولهذا جاء في بعض ألفاظ الحديث الصحيح: ((تغزون فيقال: هل فيكم من رأى رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فيقولون: نعم، فيفتح لكم)) حتى ذكر من رأى من رأى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الحديث بتمامه،
(شرح اختصار علوم الحدیث)
اسی طرح حضرت خالد بن ولید کو سبّ اصحاب سے منع کرنے والی حدیث میں اس ممانعت کے مخاطب حضرت خالد نہیں، بلکہ لاؤلی التعیین غیر صحابی مراد ہیں
مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی غیر صحابی میرے اصحاب کے بارے میں زبان طعن دراز نہ کریں
فالمعنى لايسب غير أصحابي، أصحابي، ولايسب بعضهم بعضا (فتح المغيث 3/101)
قابل غور پہلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر کی سطروں میں صحابی کی تعریف سے متعلق محدثین و فقہاء اصولیین
دونوں کے نقطہائے نظر اور بنیادی مستدلات تفصیل کے ساتھ آپ کے سامنے آگئے
اہل علم واصحاب نظر سے فریقین کے دلائل کے ضعف وقوت یقینا مخفی نہ ہوگی
اور نہ یہ بتانے کی چنداں ضرورت ہے کہ محدثین کی تعریف راست صحیح احادیث سے ثابت ہوتی ہے جبکہ فریق ثانی کے دلائل میں یہ بات نہیں ہے
قابل غور پہلویہاں یہ ہے کہ صحابی کی تعریف میں صحبت طویلہ کی شرط اگر لگادی جائے تو اس کا سب سے بُرا اثر یہ پڑے گا کہ
ان گنت ایسے صحابہ، صحابی ہونے سے خارج ہوجائیں گے
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخر میں دربار رسالت میں حاضر ہوئے
رویت بھی ہوئی ،صحبت سے بھی مشرف ہوئے تحمل حدیث بھی ہوا لیکن چند روز ہی خدمت نبوی میں حاضر رہ سکے ، جیسے وائل بن حجر (اسد الغابہ جلد 5 صفحہ 435.436، تقریب التہذیب، جلد 2 صفحہ 329)
مالک بن حویرث (تقریب التہذیب 224/2 ، اسد الغابہ 21/5)،
عثمان بن ابی العاص (تقریب التہذیب 10/2, اسد الغابہ 579/3) وغیرہ وغیرہ
قوت دلائل اور متعدد اجلاء صحابہ کو صحابیت کی فہرست سے خروج سے بچانے کے لئے جمہور سلف وخلف کا مختار، معتبر، متفق علیہ اور اجماعی قول یہی ہے کہ جو شخص بھی ایمان کی حالت میں لمحہ بھر کے لئے دیدار نبی سے بہرہ ور ہوجائے اور بحالت ایمان وفات پائے تو وہ صحابی رسول ہے
علامہ عراقی محدثین کے قول کے علاوہ سارے اقوال کا ابطال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وبالجملة، فما قاله المازري منتقد، بل كل ما عدا المذهب الأول القائل بالتعميم باطل، والأول هو الصحيح، بل الصواب المعتبر، وعليه الجمهور كما قال الآمدي وابن الحاجب; يعني من السلف والخلف . زاد الآمدي: وهو المختار. وحكى ابن عبد البر في (الاستيعاب) إجماع أهل الحق من المسلمين، وهم أهل السنة والجماعة، عليه، سواء من لم يلابس الفتن منهم أو لابسها; إحسانا للظن بهم، وحملا لهم في ذلك على الاجتهاد، فتلك أمور مبناها عليه، وكل [ص: 101] مجتهد مصيب، أو المصيب واحد، والمخطئ معذور، بل مأجور.
(فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي
الجزء الرابع ص ٢)
سعید بن مسیب کے مذہب کی تحقیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے اس بابت جو دو سال کی صحبت یا دو غزوے میں شرکت کے لزوم کی بات اوپر نقل کی گئی ہے اولا یہ بات ان کی اپنی نہیں ہے بلکہ انہوں نے یہ بات اصولیین کی طرف سے نقل کی ہے
راست ان سے اس طرح کی بات صحیح سندوں سے ثابت نہیں ہے،
عراقی لکھتے ہیں:
ولا يصح هذا عن ابن المسيب ؛ففي الإسناد إليه محمد بن عمر الواقدي شيخ ابن سعد .وهو ضعيف في الحديث.
(فتح المغيث للعراقي 4/30 تدریب الراوی صفحہ 671)
عدم صحت کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی محمد بن عمر واقدی ہیں، جو محدثین کے نزدیک ضعیف اور متروک ہیں،
ذرا دیکھئے! محدثین کرام ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں:
قال البخاري فى التاريخ الكبير جـ1ص 178)
محمد بن عمر الواقدي مدنى قاضى بغداد عن معمر ومالك، سكتوا عنه، تركه احمد وابن نمير، مات سنة سبع ومائتين أو بعدها بقليل.
وقال ايضاً فى كتابة الضعفاء الصغير ص 109
محمد بن عمر الواقدي قاضي بغداد عن مالك ومعمر متروك الحديث مات سنة تسع ومائتين أو بعدها بقليل
قال ابن أبي حاتم (المتوفى : 327هـ) فى الجرح والتعديل جـ 8 ص 20
- محمد بن عمر بن محمد الواقدي الاسلمي أبو عبد الله القاضي مولى لبنى سهم ولى القضاء ببغداد ومات بها روى عن معمرو ابن أبى ذئب ومالك والاوزاعي والثوري روى عنه أبو بكر بن أبى شيبة ويحيى بن أبى الخصيب سمعت أبى يقول ذلك.
قال أبو محمد روى عنه حامد بن يحيى البلخى.
نا عبد الرحمن حدثني أبى نا معاوية بن صالح بن أبى عبيدالله الأشعري الدمشقي قال سمعت سنيد بن داود يقول كنا عند هشيم فدخل الواقدي فسأله هشيم عن باب ما يحفظ فيه فقال له الواقدي ما عندك يا أبا معاوية فذكر خمسة أو ستة أحاديث في الباب ثم قال للواقدي ما عندك ؟ فحدثه ثلاثين حديثا عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه والتابعين، ثم قال سألت مالكا وسألت ابن أبى ذئب وسألت فرأيت وجه هشيم يتغير وقام الواقدي فخرج فقال هشيم لئن كان كذابا فما في الدنيا مثله، وان كان صادقا فما في الدنيا مثله.
نا عبد الرحمن نا يونس بن عبد الاعلى قال قال لى الشافعي: كتب الواقدي كذب.
حدثنا عبد الرحمن نا احمد بن سلمة النيسابوري نا إسحاق بن منصور قال قال احمد بن حنبل: كان الواقدي يقلب الاحاديث يلقى حديث ابن اخى الزهري على معمر ونحو هذا، قال اسحاق ابن راهويه كما وصف وأشد لانه عندي ممن يضع الحديث.
حدثنا عبد الرحمن انا أبو بكر بن ابى خيثمة فيما كتب إلى قال سمعت يحيى بن معين يقول: لا يكتب حديث الواقدي ليس بشئ نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن محمد بن عمر الواقدي المدينى فقال: متروك
الحديث قال يحيى بن معين: نظرنا في (15 م 5) حديث الواقدي فوجدنا حديثه عن المدنيين عن شيوخ مجهولين احاديث مناكير فقلنا يحتمل ان تكون تلك الاحاديث المناكير منه ويحتمل ان تكون منهم، ثم نظرنا إلى حديثه عن ابن ابى ذئب ومعمر فانه يضبط حديثهم فوجدناه قد حدث عنهما بالمناكير فعلمنا انه منه فتركنا حديثه.
نا عبد الرحمن قال سألت ابا زرعة عن محمد بن عمر الواقدي فقال: ضعيف.
قلت يكتب حديثه؟ قال: ما يعجبنى الاعلى الاعتبار، ترك الناس حديثه.
قال فيه النسائي (المتوفى: 303هـ) فى كتابه الضعفاء والمتروكين ص 233
محمد بن عمر الواقدي متروك الحديث
قال أبو نعيم فى الضعفاء ص 146 محمد بن عمر الواقدي قاضي بغداد عن مالك ومعمر متروك الحديث قاله البخاري
قال الشافعي فيما أسنده البيهقي كتب الواقدي كلها كذب ، وحكى أبو العرب عن الشافعي قال كان بالمدينة سبع رجال يضعون الاسانيد أحدهم الواقدي
وقال عبد الرحمن: حدثنا يونس بن عبد الأعلى قال: قال لي الشافعي: كتب الواقدي كذب. (الجرح والتعديل: 8 / الترجمة 92).
وقال النسائي في الضعفاء الكذابون المعروفون بالكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة الواقدي بالمدينة ومقاتل بخراسان ومحمد ابن سعيد المصلوب بالشام وذكر الرابع وقال ابن عدي أحاديثه غير محفوظة والبلاء منه.
وقال ابن المديني عنده عشرون ألف حديث يعنى ما لها أصل وقال في موضع آخر ليس هو بموضع للرواية وابراهيم بن أبي يحيى كذاب وهو عندي احسن حالا من الواقدي.
وقال أبو داود لا أكتب حديثه ولا أحدث عنه ما أشك أنه كان يفتعل الحديث ليس ننظر للواقدي في كتاب الا تبين أمره وروى في فتح اليمن وخبر العنسي أحاديث عن الزهري ليست من حديث الزهري وقال بندار ما رأيت اكذب منه.
وقال إسحاق بن راهويه هو عندي ممن يضع
وقال أبو زرعة الرازيوأبو بشر الدولابي والعقيلي متروك الحديث
وقال أبو حاتم الرازي وجدنا حديثه عن المدنيين عن شيوخ مجهولين مناكير قلنا يحتمل أن تكون تلك الاحاديث منه ويحتمل أن تكون منهم ثم نظرنا إلى حديثه من ابن أبي ذئب ومعمر فإنه يضبط حديثهم فوجدناه قد حدث عنهما بالمناكير فعلمنا أنه منه فتركنا حديثه وحكى ابن الجوزي عن أبي حاتم انه قال كان يضع.
محمد بن عمر الواقدي متروك الحديث
قال أبو نعيم فى الضعفاء ص 146 محمد بن عمر الواقدي قاضي بغداد عن مالك ومعمر متروك الحديث قاله البخاري
قال الشافعي فيما أسنده البيهقي كتب الواقدي كلها كذب ، وحكى أبو العرب عن الشافعي قال كان بالمدينة سبع رجال يضعون الاسانيد أحدهم الواقدي
وقال عبد الرحمن: حدثنا يونس بن عبد الأعلى قال: قال لي الشافعي: كتب الواقدي كذب. (الجرح والتعديل: 8 / الترجمة 92).
وقال النسائي في الضعفاء الكذابون المعروفون بالكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة الواقدي بالمدينة ومقاتل بخراسان ومحمد ابن سعيد المصلوب بالشام وذكر الرابع وقال ابن عدي أحاديثه غير محفوظة والبلاء منه.
وقال ابن المديني عنده عشرون ألف حديث يعنى ما لها أصل وقال في موضع آخر ليس هو بموضع للرواية وابراهيم بن أبي يحيى كذاب وهو عندي احسن حالا من الواقدي.
وقال أبو داود لا أكتب حديثه ولا أحدث عنه ما أشك أنه كان يفتعل الحديث ليس ننظر للواقدي في كتاب الا تبين أمره وروى في فتح اليمن وخبر العنسي أحاديث عن الزهري ليست من حديث الزهري وقال بندار ما رأيت اكذب منه.
وقال إسحاق بن راهويه هو عندي ممن يضع
وقال أبو زرعة الرازيوأبو بشر الدولابي والعقيلي متروك الحديث
وقال أبو حاتم الرازي وجدنا حديثه عن المدنيين عن شيوخ مجهولين مناكير قلنا يحتمل أن تكون تلك الاحاديث منه ويحتمل أن تكون منهم ثم نظرنا إلى حديثه من ابن أبي ذئب ومعمر فإنه يضبط حديثهم فوجدناه قد حدث عنهما بالمناكير فعلمنا أنه منه فتركنا حديثه وحكى ابن الجوزي عن أبي حاتم انه قال كان يضع.
وقال النووي في [شرح المهذب في كتاب الغسل] منه الواقدي ضعيف باتفاقهم (9 / 366 - 368).
وقال الذهبي في [الميزان] استقر الإجماع على وهن الواقدي وتعقبه بعض مشائخنا بما لا يلاقي كلامه
وقال الدارقطني الضعف يتبين على حديثه (السنن: 2 / 164، 192، 212).
وذكره في " الضعفاء والمتروكين " وقال: مختلف فيه، فيه ضعف بين في حديثه (الترجمة 477).وقال الجوزجاني لم يكن مقنعا. (أحوال الرجال، الترجمة 228).
وقال البرذعي: وسئل (يعني أبا زرعة) عن الواقدي، فقال: ترك الناس حديثه.
(أبو زرعة الرازي: 511).
وذكره أبو زرعة في كتاب "أسامي الضعفاء" (أبو زرعة الرازي: 656).
وذكره ابن حبان في "المجروحين" وقال: كان يروي عن الثقات المقلوبات، وعن الاثبات المعضلات حتى ربما سبق إلى القلب أنه كان المتعمد لذلك، كان أحمد بن حنبل يكذبه.
(2 / 290).
وذكره ابن عدي في "الكامل" وساق له عدة أحاديث وقال: وهذه الاحاديث التي أمليتها للواقدي، والتي لم أذكرها، كلها غير محفوظة ومن يروي عنه الواقدي من الثقات فتلك الاحاديث غير محفوظة عنهم إلا من رواية الواقدي والبلاء منه، ومتون أخبار الواقدي غير محفوظة، وهو بين الضعف. (الكامل: 3 / الورقة 85).
وقال البزار: تكلم الناس فيه، وفي حديثه نكرة. (كشف الاستار- 356، 1026).
ونقل الخطيب في "تاريخه" بإسناده عن عباس بن عبد العظيم العنبري أنه قال: الواقدي أحب إلي من عبد الرزاق (3 / 11).
ونقل عن الآجري قال: سئل أبو داود سليمان بن الاشعث عن الواقدي، فقال: لا أكتب حديثه (3 / 15)، وقال الذهبي: مجمع على تركه. (المغني: 2 / الترجمة 5861).
وقال ابن حجر في "التهذيب": قال النسائي في "الضعفاء والكذابين": المعروفون بالكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة: الواقدي بالمدينة، ومقاتل بخراسان، ومحمد بن سعيد المصلوب بالشام، وذكر الرابع.
وقال أبو داود: لا أكتب حديثه، ولا أحدث عنه ما أشك أنه كان يفتعل الحديث ليس ننظر للواقدي في كتاب إلا تبين أمره، وقال بندار: ما رأيت أكذب منه.
وحكى ابن الجوزي عن أبي حاتم أنه قال: كان يضع.
وقال ابن حجر في "التقريب": متروك.
ائمہ جرح وتعدیل کے اتنے سخت تبصرے کے بعد واقدی کی سند سے آنے والی روایت میں کیا وزن بچ جائے گا؟
فضائل میں صحابہ کے مراتب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحابہ کی تعریف، تنقیح، توضیح وترجیح کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مناقب و فضائل کے لحاظ سے سارے صحابہ یکساں نہیں تھے بلکہ جیسے صحابہ کے مابین روایتوں کی قلت وکثرت کے لحاظ سے طبقات ومراتب قائم کئے گئے ہیں اسی طرح فضائل کے لحاظ سے بھی ان کے مابین مراتب ہیں
فضیلت کا سب سے پہلا درجہ خلفاء راشدین کا ہے۔
یعنی اہل سنت و الجماعت کے نزدیک صحابہ میں سب سے افضل درجہ حضرات خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا بالترتیب ہے،
ان کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا،
ان کے بعد مہاجرین اولین کا،
پھر بیعت عقبہ والے کا،
پھر شرکاء بدر کا،
پہر درجہ بدرجہ اہل مشاہد کا ۔
لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
57/10
تم میں جو لوگ فتح (مکہ) سے قبل ہی خرچ کرچکے اور لڑچکے (وہ ان کے برابر نہیں جو بعد فتح لڑے اور خرچ کیا) وہ لوگ درجہ میں بڑھے ہوئے ہیں ان لوگوں سے جنہوں نے بعد کو خرچ کیا اور لڑے، اور اللہ نے بھلائی کا وعدہ تو سب ہی سے کر رکھا ہے، اور اللہ کو تمہارے اعمال کی پوری خبر ہے
صحابہ کی ثقاہت و عدالت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصحاب رسول اس برگزیدہ ،پاکباز ،پاک طینت ،وفا شعار وجان نثار مقدس گروہ کو کہتے ہیں جن کے قلوب پر آفتاب نبوت کی کرنیں پڑیں
اور لمحہ بھر میں نور نبوت سے جن کے قلوب مجلی ومصفی ہوگئے،
نگاہ نبوت کے سامنے ان کی تربیت ہوئی، انہوں نے قرآن اترتے ہوئے دیکھا
ثقاہت، عدالت اور تقدس سے لبریز یہی وہ جماعت ہے جن کے ذریعہ ہم تک قرآن وسنت اور نبی کی سیرت طیبہ پہنچی، انہی کے ذریعہ اسلام کا تعارف ہوا، انہی کے سینوں میں کتاب الہی محفوظ ہوکر ہم تک پہنچا،
اگر تنقید وتنقیص کے ذریعہ انہیں غیر معتبر قرار دیدیا گیا تو پہر تو اسلام کی عمارت ہی منہدم ہوجائے گی،
نہ قرآن معتبر بچے گا نہ سنت طیبہ پہ اعتبار ووثوق باقی رہے گا!
اللہ نے ان کے ایمان کی پختگی، اعمال کے صلاح،
اتباع سنت، تقوی وطہارت کی سند دی ہے
پھر نبی کریم کی زبانی انہیں چراغ راہ اور نجوم ہدایت قرار دے کر ان کی تعریف و توصیف کی گئی ہے
اسی لئے امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ صحابہ خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے! سب کے سب ثقہ ،عادل ، قابل اعتبار و استناد ہیں، ان کی ثقاہت و عدالت پہ نصوص قطعیہ موجود ہیں، بلا چوں وچرا ان کی ثقاہت کو ماننا ضروری ہے
کوئی ایک صحابی بھی فسق سے متصف نہیں ہوسکتا ،
روایت حدیث ہی کی طرح عام معاملات زندگی میں بھی ان کی عدالت کی تفتیش جائز نہیں.
صحابہ کا ادب وتقوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ
ترجمہ: بیشک وہ لوگ جو پست رکھتے ہیں اپنی آوازوں کو اللہ کے رسول کے پاس، یہ وہی لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو خالص بنالیا ہے تقویٰ کے لیے، ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم ہے
صحابہ کفر وفسق سے محفوظ تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
ترجمہ:
اور جان لو! کہ بیشک تمہارے درمیان اللہ کا رسول ہے، اگر وہ مانے گا تمہاری بات بہت سے معاملات میں تو تم مشقت میں پڑجائو گے، لیکن اللہ نے محبت ڈال دی ہے تمہارے اندر ایمان کی، اور مزین کیا ہے اس کو تمہارے دلوں میں، اور نفرت ڈال دی ہے تمہارے اندر کفر، نافرمانی اور گناہ کی، یہی لوگ ہیں ہدایت پانے والے
صحابہ عبادت کے خوگر اور رحمدل تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں، اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں، وہ شدید ہیں کفر کرنے والوں پر، اور رحمدل ہیں اپنے درمیان، تم دیکھو گے ان کو رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، تلاش کرتے ہیں فضل اللہ کا اور اس کی خوشنودی، ان کی نشانی ان کے چہروں میں سے سجدے کے اثر سے، یہ مثال ہے ان کی تورات میں، اور یہی مثال ہے ان کی انجیل میں۔ جیسا کہ کھیتی اپنا پھٹہ نکالتی ہے ، پھر اس کو مضبوط کرتی ہے، پھر وہ موٹا ہوجاتا ہے، پھر کھڑا ہوجاتا ہے اپنی نال پر۔ تعجب دلاتا ہے کھیتی کرنے والے کو تا کہ غصے میں ڈالے ان کی وجہ سے کفر کرنے والوں کو، وعدہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل کیے ان میں سے بخشش کا اور اجر عظیم کا
سارے صحابہ عادل ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
{وإن يريدوا أن يخدعوك فإن حسبك الله هو الذي أيدك بنصره وبالمؤمنين وألف بين قلوبهم لو أنفقت ما في الأرض جميعاً ما ألفت بين قلوبهم ولكن الله ألَّف بينهم إنه عزيز حكيم} (الأنفال:62-63).
وقوله تعالى{كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وتؤمنون بالله } (آل عمران:110). وقوله تعالى {وكذلك جعلناكم أمة وسطاً لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيداً} (البقرة:143).
{لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه بهم رؤوف رحيم}
{لقد رضي الله عن المؤمنين إذ يبايعونك تحت الشجرة فعلم ما في قلوبهم فأنـزل السكينة عليهم وأثابهم فتحاً قريباً ومغانم كثيرة يأخذونها وكان الله عزيزاً حكيما} (لفتح:18-19). وهذه تزكية عظيمة لأهل بيعة الرضوان . وقال تعالى{والسابقون الأولون من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان رضي الله عنهم ورضوا عنه وأعد لهم جنات تجري تحتها الأنهار خالدين فيها أبداً ذلك الفوز العظيم}( التوبة:100)
{للفقراء المهاجرين الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم يبتغون فضلاً من الله ورضواناً وينصرون الله ورسوله أولئك هم الصادقون والذين تبؤوا الدار والإيمان من قبلهم يحبون من هاجر إليهم ولا يجدون في صدورهم حاجة مما أوتوا ويؤثـرون على أنفسهم ولـو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون} (الحشر:8-9).
{ والذين جاؤوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلاً للذين آمنوا ربنا إنك رؤوف رحيم } (الحشر:10).
{لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح وقاتل أولئك أعظم درجة من الذين أنفقوا من بعد وقاتلوا وكلاً وعد الله الحسنى والله بما تعملون خبير} (الحديد:10).
قرآن کے ان نصوص کی وجہ سے معتزلہ ،شیعہ امامیہ اور شافعیہ میں ابو الحسین ابن القطان کے سوا تمام ہی محدثین اور علمائے سلف وخلف کا اتفاق ہے کہ صحابہ کا ہر فرد عادل وثقہ ہے
ان پہ طعنہ زنی جائز نہیں ہے
ان کی کسی خبر و شہادت پہ کوئی گرفت نہیں کی جاسکتی
انسان وہ بھی تھے
بتقاضائے بشریت ان سے بھی لغزشیں اور غلطیاں سرزد ہوئیں
معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے اللہ نے انہیں نہ صرف معاف کیا بلکہ اپنی معافی کو قرآن میں ذکر فرما کر ہمیشہ ہمیش کے لئے ان نفوس قدسیہ کی اجتہادی واضطراری کوتاہیوں اور لغزشوں پہ تنقید وتنقیص اور جرح وتعدیل کا دروازہ بند کردیا
عدالت صحابہ کا مفہوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ آلوسی کے بقول:
جمہور علماء کا خیال کہ صحابہ کرام انبیا کی طرح معصوم نہیں، ان سے گناہ کبیرہ بھی سر زد ہوسکتا ہے جو فسق ہے اور اس گناہ کے وقت ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں یعنی شرعی سزا جاری کی جائے گی اور اگر کذب ثابت ہوا تو ان کی خبر و شہادت رد کردی جائے گی لیکن عقیدہ اہل سنت و الجماعت کا نصوص قرآن و سنت کی بنا پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہوسکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کرکے پاک نہ ہوگیا ہو۔ قرآن کریم نے علی الاطلاق ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے رضی اللہ عنھم و رضواعنہ الآ یتہ، اور رضائے الٰہی گناہ ہونے کی معافی کے بغیر نہیں ہوتی، جیسا کہ قاضی ابویعلی نے فرمایا کہ رضا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدیمہ ہے وہ اپنی رضا کا اعلان صرف انہی کے لئے فرماتے ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ ان کی وفات موجبات رضا پر ہوگی (کذا فی الصارم المسلول لابن تیمیہ)
اگر صحابہ کرام کی عظیم الشان جماعت میں سے گنے چنے چند آدمیوں سے کبھی کوئی گناہ سرزد بھی ہوا ہے تو ان کو فوراً توبہ نصیب ہوئی ہے ۔ حق تعالیٰ نے ان کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کی برکت سے ایسا بنا دیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی۔ خلاف شرع کوئی کام یا گناہ سرزد ہونا انتہائی شاذ و نادر تھا ان کے اعمال صالحہ ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام پر اپنی جانیں قربان کرنا اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کو وظیفہ زندگی بنانا اور اس کے لئے ایسے مجاہدات کرنا جن کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملتی ۔ ان بےشمار اعمال صالحہ اور فضائل و کمالات کے مقابلے میں عمر بھر میں کسی گناہ کا سرزد ہو جانا اس کو خود ہی کالعدم کر دیتا ہے ۔پہر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت و عظمت اور ادنیٰ سے گناہ کے وقت ان کا خوف خشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا کے لئے خود پیش کر دینا ، کہیں اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دینا وغیرہ روایات حدیث میں معروف مشہور ہیں اور بحکم حدیث گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے کہ جیسے گناہ کیا ہی نہیں ۔
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
"الصحابة يقع من أحدهم هنات، ولهم ذنوب، وليسوا معصومين، لكنهم لا يتعمدون الكذب، ولم يتعمد أحد الكذب على النبي - صلى الله عليه وسلم - إلا هتك الله ستره" ا.هـ، والدليل على ذلك: ما جاء في (صحيح البخاري (6780) في قصة الرجل الذي جيء به عدة مرات وهو يشرب الخمر ويجلد، فلما لعنه أحد الصحابة نهاه النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: "لا تلعنوه، فو الله ما علمت إنه يحب الله ورسوله" .
وقصة حاطب بن أبي بلتعة وهي مخرجة في الصحيحين [البخاري (4890) ومسلم (2494)] معروفة، فإنه اتهم بالتجسس على المسلمين، ومع ذلك نفى عنه النبي صلى الله عليه وسلم الكفر، وقال "وما يدريك لعل الله اطلع على أهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم".
(منهاج السنة) (1/306-307)
علامہ محمود الألوسي رحمه الله لکھتے ہیں:
"ليس مرادنا من كون الصحابة رضي الله عنهم جميعهم عدولاً: أنهم لم يصدر عن واحد منهم مفسَّق أصلاً، ولا ارتكب ذنباً قط، فإن دون إثبات ذلك خرط القتاد، فقد كانت تصدر منهم الهفوات ...." إلى أن قال: " ثم إن مما تجدر الإشارة إليه، وأن يكون الإنسان على علم منه: هو أن الذين قارفوا إثماً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم حُدّوا هم قلة نادرة جداً، لا ينبغي أن يُغَلَّب شأنهم وحالهم على الألوف المؤلفة من الصحابة رضي الله عنهم الذين ثبتوا على الجادة والصراط المستقيم، وحفظهم الله تبارك وتعالى من المآثم والمعاصي، ما كبُر منها وما صغر، وما ظهر منها وما بطن، والتاريخ الصادق أكبر شاهد على هذا.
(الأجوبة العراقية) (ص 23-24)
امام غزالي کا کہنا ہے:
"والذي عليه سلف الأمة وجماهير الخلف: أن عدالتهم معلومة بتعديل الله - عز وجل - إياهم ، وثنائه عليهم في كتابه، فهو معتقدنا فيهم إلا أن يثبت بطريق قاطع ارتكاب واحد لفسق مع علمه به، وذلك لا يثبت، فلا حاجة لهم إلى تعديل.
(المستصفى) (ص 189-190)
حافظ الذهبي (م748هـ) کہتے ہیں: «فأما الصحابة رضي الله عنهم، فبساطهم مطوي وإن جرى ما جرى، إذ على عدالتهم وقبول ما نقلوه العمل، وبه ندين الله تعالى(رسالة الحافظ الذهبي في الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لايوجب ردهم، ص:4.)
حافظ ابن كثير (م774هـ) لکھتے ہیں: «والصحابة كلهم عدول عند أهل السنة والجماعة».
ثم قال: «وقول المعتزلة: الصحابة عدول إلا من قاتل علياً، قول باطل مردود».
وأضاف: «وأما طوائف الرفض وجهلهم، وقلة عقلهم، ودعاويهم أن الصحابة كفروا إلا سبعة عشر صحابياً – وسموهم – فهو من الهذيان بلا دليل»
(اختصار علوم الحديث، ص:220-222. علوم الحديث، ص: 264.)
علامة كمال الدين محمد بن الهمام (م861هـ) کہتے ہیں: «واعتقاد أهل السنة والجماعة تزكية جميع الصحابة وجوباً بإثبات العدالة لكل منهم، والكف عن الطعن فيهم، والثناء عليهم كما أثنى الله سبحانه وتعالى عليهم»
(مقدمة الاستيعاب في معرفة الأصحاب تحت الإصابة في تمييز الصحابة، ج1، ص:2.
المسابرة في العقائد المنجية في الآخرة، ص132، ط: ديوبند (الهند).
الكفاية في معرفة علم الرواية، ص:48-49.)
اسی لئے امام ابوزرعہ نے شان صحابہ میں طعنہ زنی کرنے اور ان کی تنقیص وتجریح کرنے والوں کو 'زندیق' کہا ہے:
يقول أبو زرعة الرازي رحمه الله
"إذا رأيت الرجل ينتقص أحداً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعلم أنه زنديق؛ لأن الرسول صلى الله عليه وسلم عندنا حق، والقرآن حق، وإنما أدى إلينا هذا القرآن والسنن أصحابُ رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وإنما يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنة، والجرح بهم أولى، فهم زنادقة" أخرجه الخطيب البغدادي في (الكفاية) (ص 66-67)
تفسیر مظہری میں ہے کہ جن خیار امت کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے غفران اور مغفرت کا اعلان فرمادیا ہے اگر ان سے کوئی لغزش ہوئی ہے تو یہ آیت (لقد رضی اﷲ عن المومنین) اسکی معافی کا اعلان ہے لہٰذا ان کے درمیان ہونےوالے واقعات کوبنیاد بناکر ان کی تنقیض کرنے والا بدبخت ہے۔
(سورہ ق)
(سورہ ق)
صحابہ کے آپسی اختلافات
میں جمہور کا موقف اور راہ عمل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشاجرات صحابہ میں ایک فریق کی تصویب اور دوسرے کا تخطیہ کرنے کی بجائے اجماع امت اس بات ہر قائم ہے کہ مشاجرات کی بعض ثابت روایات کی بھی تاویل کی جائے گی تاکہ امت مسلمہ ایسی پاکباز جماعت کے حوالے سے بدظنی میں مبتلا نہ ہو جس کا تزکیہ خود رب کریم نے کردیا ہو ،اور جن روایات میں تاویل نہ
ہوسکتی ہو انہیں مردود سمجھا جائے گا
علامہ ابن دقیق العید لکھتے ہیں:
(وما نقل عنهم فيما شجر بينهم واختلفوا فيه ، فمنه ما هو باطل وكذب، فلا يلتفت إليه، وما كان صحيحا أولناه تأويلا حسنا، لأن الثناء عليهم من الله سابق، وما ذكر من الكلام اللاحق محتمل للتأويل ، والمشكوك والموهوم لا يبطل الملحق المعلوم ). (أصحاب رسول الله ومذاهب الناس فيهم لعبد العزيز العجلان ص 360).
اسی لئے حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صحابہ کے مابین ہونے والی لڑائی ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہ موجود تھے
اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے ہم نہیں جانتے،
جس معاملے پر تمام صحابہ کا اتفاق ہے ہم اس کی پیروی کرتے ہیں اور جس میں ان کے مابین اختلاف ہے ہم اس سے سکوت کرتے ہیں:
(قتال شهده أصحاب محمد—وغبنا، وعلموا وجهلنا، واجتمعوا فاتبعنا، واختلفوا فوقفنا)
الجامع لأحكام القرآن، للقرطبي (16/332).
امام احمد بن، امام قرطبی، امام ابن تیمیہ اور تمام ہی جمہور ائمہ سلف وخلف صحابہ کے مشاجرات میں کف لسان کے قائل ہیں:
امام احمد کہتے ہیں:
(ما أقول فيهم إلاّ الحسنى)
(مناقب الإمام أحمد، لابن الجوزي، ص (146)
امام قرطبی صحابہ کی غلطیوں کے تذکرہ کو ناجائز کہتے ہیں:
(لا يجوز أن ينسب إلى أحد من الصحابة خطأ مقطوع به؛ إذ كانوا كلهم اجتهدوا فيما فعلوه وأراد الله عز وجل. وهم كلهم لنا أئمة، وقد تُعبّدنا بالكف عمّا شجر بينهم، وألاّ نذكرهم إلا بأحسن الذكر لحرمة الصحبة، ولنهي النبي—عن سبهم (صحيح البخاري (2/292)، ومسلم (4/1967)، وأحمد (3/11).وأن الله غفر لهم وأخبر بالرضى عنهم) (الجامع لأحكام القرآن، للقرطبي (16/321/322).
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں:
(ويمسكون عما شجر بين الصحابة ويقولون: إن هذه الآثار المروية في مساويهم منها ما هو كذب، ومنها ما قد زيد فيه ونقص، وغُيّر عن وجهه، والصحيح منه هم فيه معذورون: إما مجتهدون مصيبون، وإما مجتهدون مخطئون) (العقيدة الواسطية مع شرحها، لمحمد هراس، ص (173).
ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماگئے ہیں:
كان من مذاهب أهل السنة الإمساك عما شجر بين الصحابة، فإنه قد ثبتت فضائلهم، ووجبت موالاتهم ومحبتهم، وما وقع منه ما يكون لهم فيه عذر يخفٰي على الإنسان، ومنه ما تاب صاحبه منه، ومنه ما يكون مغفورا، فالخوض فيما شجر يوقع فى نفوس كثير من الناس بغضا وذما، ويكون هو فى ذٰلك مخطئا، بل عاصيا، فيضر نفسه، ومن خاض معه فى ذٰلك، كما جرٰي لأكثر من تكلم فى ذٰلك، فإنهم تكلموا بكلام لا يحبه الله ولا رسوله، إما من ذم من لا يستحق الذم، وإما من مدح أمور لا تستحق المدح، ولهٰذا كان الإمساك طريقة أفاضل السلف
’’اہل سنت کے عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ صحابہ کرام میں جو بھی اختلافات ہوئے، ان کے بارے میں اپنی زبان بند کی جائے، کیونکہ (قرآن و سنت میں) صحابہ کرام کے فضائل ثابت ہیں اور ان سے محبت ومودّت فرض ہے۔ صحابہ کرام کے مابین اختلافات میں سے بعض ایسے تھے کہ ان میں صحابہ کرام کا کوئی ایسا عذر تھا، جو عام انسان کو معلوم نہیں ہوسکا، بعض ایسے تھے جن سے انہوں نے توبہ کر لی تھی اور بعض ایسے تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے خود ہی معافی دے دی۔ مشاجرات صحابہ میں غور کرنے سے اکثر لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام کے بارے میں بغض و عداوت پیدا ہو جاتی ہے، جس سے وہ خطاکار، بلکہ گنہگار ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جن لوگوں نے اس بارے میں اپنی زبان کھولی ہے، اکثر کا یہی حال ہوا ہے۔ انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں تھیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں کی مذمت کی، جو مذمت کے مستحق نہیں تھے یا ایسے امور کی تعریف کی، جو قابل تعریف نہ تھے۔ اسی لیے مشاجرات صحابہ میں زبان بند رکھنا ہی سلف صالحین کا طریقہ تھا۔“ [منهاج السنة النبوية فى نقض كلام الشيعة القدرية : 448/1، 449، طبعة جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية ]
امام حسن بصری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إن عائذ بن عمرو، وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، دخل علٰي عبيد الله بن زياد، فقال: أى بني، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ’إن شر الرعائ الحطمة‘، فإياك أن تكون منهم، فقال له: اجلس، فإنما أنت من نخالة أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، فقال: وهل كانت لهم نخالة؟ إنما كانت النخالة بعدهم، وفي غيرهم
’’صحابی رسول سیدنا عائذ بن عمرو، عبیداللہ بن زیاد کے پاس آئے اور فرمانے لگے: بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بدترین حکمران وہ ہوتے ہیں، جو اپنی رعایا پر ظلم کرتے ہیں۔ لہٰذا (میری نصیحت ہے کہ) تیرا شمار ایسے لوگوں میں نہ ہو۔ عبیداللہ بن زیاد کہنے لگا: بیٹھ جا، تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا گھٹیا درجے کا صحابی ہے۔ سیدنا عائذ فرمانے لگے: کیا صحابہ کرام میں سے بھی کوئی گھٹیا تھا؟ گھٹیا لوگ تو وہ ہیں جو صحابی نہ بن سکے اور وہ جو صحابہ کرام کے بعد میں آئے۔“ [صحيح مسلم: 1830]
↰ ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ ارفع و اعلیٰ درجات پر فائز ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ بعض صحابہ کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود تمام صحابہ کرام قابل عزت و احترام ہیں اور بعد میں آنے والا کوئی شخص نیکی و تقویٰ اور علم کا بڑے سے بڑا کارنامہ سرانجام دے کر بھی کسی صحابی کی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ لہٰذا کسی بعد والے کو یہ حق نہیں کہ وہ صحابہ کرام کی بشری لغزشوں، جن کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہے، یا ان کی اجتہادی غلطیوں، جن پر اللہ تعالیٰ نے بھی مؤاخذہ نہیں فرمایا، کو بنیاد بناکر ان کے بارے میں بدظنی کا شکار ہو یا زبان درازی کرے۔
امام ابوزرعہ، عبداللہ بن عبدالکریم، رازی (200- 264ھ) اور امام ابوحاتم، محمد بن ادریس، رازی (195- 277ھ) رحمها اللہ اہل سنت کا اجماعی عقیدہ بیان فرماتے ہیں:
أدركنا العلمائ فى جميع الـأمصار حجازا، وعراقا، ومصرا، وشاما، ويمنا، فكان من مذهبهم … والترحم علٰي جميع أصحاب محمد، صلى الله عليه وسلم، والكف عما شجر بينهم
’’ہم نے حجاز و عراق، مصر و شام اور یمن تمام علاقوں کے علمائے کرام کو دیکھا ہے، ان سب کا مذہب یہ تھاکہ۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کے لیے رحمت کی دعا کرنا اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات سے اپنی زبان بند رکھنی چاہیے۔“ [كتاب أصل السنة واعتقاد الدين لابن أبي حاتم]
امام ابوزرعہ، عبداللہ بن عبدالکریم، رازی (200- 264ھ) اور امام ابوحاتم، محمد بن ادریس، رازی (195- 277ھ) رحمها اللہ اہل سنت کا اجماعی عقیدہ بیان فرماتے ہیں:
أدركنا العلمائ فى جميع الـأمصار حجازا، وعراقا، ومصرا، وشاما، ويمنا، فكان من مذهبهم … والترحم علٰي جميع أصحاب محمد، صلى الله عليه وسلم، والكف عما شجر بينهم
’’ہم نے حجاز و عراق، مصر و شام اور یمن تمام علاقوں کے علمائے کرام کو دیکھا ہے، ان سب کا مذہب یہ تھاکہ۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کے لیے رحمت کی دعا کرنا اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات سے اپنی زبان بند رکھنی چاہیے۔“ [كتاب أصل السنة واعتقاد الدين لابن أبي حاتم]
امام شہاب بن خراش رحمہ اللہ (المتوفٰي بعد: 174ھ) فرماتے ہیں:
أدركت من أدركت من صدر هٰذه الـأمة، وهم يقولون: اذكروا أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ما تأتلف عليه القلوب، ولا تذكروا الذى شجر بينهم، فتحرشوا الناس عليهم
’’میں نے اس امت کے اسلاف کو یہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا صرف ایسا تذکرہ کیا کرو، جس سے ان کے بارے میں محبت پیدا ہو۔ ان کے اختلافات کا تذکرہ نہ کرو کہ اس سے تم لوگوں کو ان سے متنفر کرنے کا سبب بنو گے۔“ [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 53/5، تاريخ دمشق لابن عساكر: 215/23، ميزان الاعتدال للذهبي : 282/2، وسنده صحيح]
امام ابوالحسن، اشعری رحمہ اللہ (260- 324ھ) فرماتے ہیں:
ونتولٰي سائر أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونكف عما شجر بينهم
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے مابین ہونے والے اختلافات کے بارے میں اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔“ [الإبانة عن أصول الديانة، ص: 29]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (673 -748ھ) فرماتے ہیں:
فسبيلنا الكف والاستغفار للصحابة، ولا نحب ما شجر بينهم، ونعوذ بالله منه
’’ہمارا منہج یہ ہے کہ صحابہ کرام کے (اختلافات کے) بارے میں زبان بند رکھی جائے اور ان کے لیے مغفرت کی دُعا کی جائے۔ ان کے مابین جو بھی اختلافات ہوئے، ہم ان کا تذکرہ پسند نہیں کرتے، بلکہ ایسے طرز عمل سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔“ [سير أعلام النبلاء: 39/3]
حافظ، ابوفداء، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ (700 – 774ھ) فرماتے ہیں:
وأما ما شجر بينهم بعده عليه الصلاة والسلام، فمنه ما وقع عن غير قصد، كيوم الجمل، ومنه ما كان عن اجتهاد، كيوم صفين، والاجتهاد يخطئ ويصيب، ولٰكن صاحبه معذور وإن أخطأ، ومأجور أيضا، وأما المصيب فله أجران اثنان
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کے مابین جو اختلافات ہوئے، ان میں سے بعض ایسے تھے جو بلا قصد و ارادہ واقع ہو گئے، جیسا کہ جنگ جمل والے دن ہوا اور بعض ایسے ہیں جو اجتہادی طور پر سرزد ہوئے، جیسا کہ جنگ صفیں والے دن ہوا۔ اجتہاد کبھی غلط ہوتا ہے اور کبھی درست، لیکن اجتہاد کرنے والا غلطی بھی کرے تو اسے ایک اجر ملتا ہے اور اس کا عذر قبول کیا جاتا ہے اور اگر وہ درست ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں۔“ [الباعث الحثيث إلى اختصار علوم الحديث، ص: 182]
نیز فرماتے ہیں:
إن أصحاب على أدني الطائفتين إلى الحق، وهٰذا هو مذهب أهل السنة والجماعة أن عليا هو المصيب، وإن كان معاوية مجتهدا، وهو مأجور، إن شاء الله
’’بلاشبہ دونوں گروہوں میں سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی حق کے زیادہ قریب تھے۔ اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ
حق پر تھے، لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی مجتہد تھے اور ان کو بھی ان شاءاللہ ایک اجر ملے گا۔“ [البداية والنهاية : 279/2]
حافظ، ابوالفصل، احمد بن علی بن محمد، ابن حجر، عسقلانی رحمہ اللہ (773 – 852ھ) فرماتے ہیں:
واتفق أهل السنة علٰي وجوب منع الطعن علٰي أحد من الصحابة، بسبب ما وقع لهم من ذٰلك، ولو عرف المحق منهم، لأنهم لم يقاتلوا فى تلك الحروب إلا عن اجتهاد، وقد عفا الله تعالٰي عن المخطئ فى الاجتهاد، بل ثبت أنه يؤجر أجرا واحدا، وأن المصيب يؤجر أجرين
’’اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کی بنا پر کسی بھی صحابی پر طعن کرنا حرام ہے، اگرچہ کسی کو ان میں سے اہل حق کی پہچان ہو بھی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اجتہادی طور پر یہ لڑائیاں کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اجتہاد میں غلطی کرنے والے سے درگزر فرمایا ہے، بلکہ اسے ایک اجر ملنا بھی ثابت ہے اور جو شخص حق پر ہو گا، اسے دو اجر ملیں گے۔“ [فتح الباري : 34/13]
علامہ، ابومحمد، محمود بن احمد، عینی، حنفی (762- 855ھ ) فرماتے ہیں:
والحق الذى عليه أهل السنة الإمساك عما شجر بين الصحابة، وحسن الظن بهم، والتأويل لهم، وأنهم مجتهدون متأولون، لم يقصدوا معصية ولا محض الدنيا، فمنهم المخطئ فى اجتهاده والمصيب، وقد رفع الله الحرج عن المجتهد المخطئ فى الفروع، وضعف أجر المصيب
’’برحق نظریہ جس پر اہل سنت والجماعت قائم ہیں، وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین ہونے والے اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیا جائے، ان کے لیے تاویل کی جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ مجتہد تھے اور ان سب کے پیش نظر دلائل تھے، ان اختلافات میں سے کسی صحابی نے بھی کسی گناہ یا دنیاوی متاع کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اجتہاد میں بعض کو غلطی لگی اور بعض درستی کو پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے فروعی معاملات میں اجتہادی غلطی کرنے والے کو گناہ گار قرار نہیں دیا (بلکہ ایک اجر کا حق دار ٹھہرایا ہے)، جبکہ درستی کو پہنچنے والے کا اجر دو گناکر دیا گیا ہے۔“ [عمدة القاري: 212/1]
علامہ، ابومحمد، محمود بن احمد، عینی، حنفی (762- 855ھ ) فرماتے ہیں:
والحق الذى عليه أهل السنة الإمساك عما شجر بين الصحابة، وحسن الظن بهم، والتأويل لهم، وأنهم مجتهدون متأولون، لم يقصدوا معصية ولا محض الدنيا، فمنهم المخطئ فى اجتهاده والمصيب، وقد رفع الله الحرج عن المجتهد المخطئ فى الفروع، وضعف أجر المصيب
’’برحق نظریہ جس پر اہل سنت والجماعت قائم ہیں، وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین ہونے والے اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیا جائے، ان کے لیے تاویل کی جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ مجتہد تھے اور ان سب کے پیش نظر دلائل تھے، ان اختلافات میں سے کسی صحابی نے بھی کسی گناہ یا دنیاوی متاع کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اجتہاد میں بعض کو غلطی لگی اور بعض درستی کو پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے فروعی معاملات میں اجتہادی غلطی کرنے والے کو گناہ گار قرار نہیں دیا (بلکہ ایک اجر کا حق دار ٹھہرایا ہے)، جبکہ درستی کو پہنچنے والے کا اجر دو گناکر دیا گیا ہے۔“ [عمدة القاري: 212/1]
کیا صحابہ کی صف میں منافقین بھی تھے؟
صحابہ کی تعریف میں مذکور قید ''جو ایمان کی حالت میں حضور کی دیدار کیا ہو" سے منافق شخص صحابی ہونے سے خود ہی خارج ہوگیا
علاوہ ازیں دلوں میں کفر ونفاق چھپانے والے منافقین صحابہ کے مابین معروف تھے، کسی نے بھی کبھی کسی منافق کو صحابی رسول نہ سمجھا
حضرت عبد اللہ بن مسعود کا قول مسلم شریف میں مروی ہے:
"وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ". أخرجه مسلم في "صحيحه" (654)
غزوہ تبوک میں شرکت سے پیچھے رہ جانے اور سورہ توبہ کے نزول کے بعد تو منافقین بالکل اوپن ہوگئے
چنانچہ صحابی رسول کعب بن مالک جو اس غزوہ میں پیچھے رہ گئے تھے وہ خود کہتے ہیں:
فَكُنْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطُفْتُ فِيهِمْ، أَحْزَنَنِي أَنِّي لاَ أَرَى إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَيْهِ النِّفَاقُ، أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ". أخرجه البخاري (4418)، ومسلم (2769) .
ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ مہاجرین میں ایک بھی منافق نہیں تھا:
"ذَكَرْنَا فِيمَا تَقَدَّمَ أَنَّ الْمُهَاجِرِينَ لَمْ يَكُنْ فِيهِمْ مُنَافِقٌ .
(منهاج السنة النبوية" (8/474)
چونکہ ایمان اور کفر وشرک کیفیت باطنی کا نام ہے
بظاہر یہ یقین سے یہ جان پانا مشکل ہے کہ کون منافق ہے اور کون کافر؟
لیکن چال ڈھال اور بول چال سے اسے پرکھ لینا مشکل نہیں تھا:
تَعَالَى: وَلَوْ نَشَاءُ لَأَرَيْنَاكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِيمَاهُمْ [سُورَةُ مُحَمَّدٍ: 30] ، وَقَالَ: وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ [سُورَةُ مُحَمَّدٍ: 30] .
لیکن غزوہ تبوک کے بعد اب منافقین کا حال مجموعی طور پہ صیغہ راز میں نہ رہ سکا اس کے باوجود آج تک یہ ثابت نہ ہوسکا کہ کسی ایک منافق نے کوئی ایک حدیث روایت کی ہو!
مرداوي "التحبير شرح التحرير" (4/1995) میں لکھتے ہیں:
"قَالَ الْحَافِظ الْمزي: من الْفَوَائِد أَنه لم يُوجد قطّ رِوَايَة عَمَّن لمز بالنفاق من الصَّحَابَة - رَضِي الله عَنْهُم" انتهى.
شيخ الإسلام ابن تيمية في "منهاج السنة النبوية" (8/474) میں کہتے ہیں:
"وَالصَّحَابَةُ الْمَذْكُورُونَ فِي الرِّوَايَةِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِينَ يُعَظِّمُهُمُ الْمُسْلِمُونَ عَلَى الدِّينِ: كُلُّهُمْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ بِهِ، وَلَمْ يُعَظِّمِ الْمُسْلِمُونَ- وَلِلَّهِ الْحَمْدُ- عَلَى الدِّينِ مُنَافِقًا" انتهى .
جہاں تک سورہ الحجرات کی آیت
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (6)"
کے شان نزول کا مسئلہ ہے تو اس آیت کا صحابی رسول حضرت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہونا قطعیت سے ثابت نہیں، امام رازی تفسیر "مفاتيح الغيب" (28/98)، اور ابن عاشور تفسیر "التحرير والتنوير" (26/269)، اور محب الدين الخطيب "العواصم من القواصم" لابن العربي (ص102) کے حاشیہ میں
اس کی نفی کرتے ہیں امام رازي لکھتے ہیں؛
"ويتأكد بما ذكرنا أن إطلاق لفظ الفاسق على الوليد شيء بعيد ، لأنه توهم وظن، فأخطأ، والمخطئ لا يسمى فاسقًا" انتهى.
(14/271)
اگر بالفرض آیت کا تعلق ولید بن مغیرہ سے ثابت ہو بھی جائے
تو انہوں نے توبہ کیا ہوگا
اور کعب بن مالک اور حاطب بن بلتعہ وغیرہ کی طرح ان کا توبہ مقبول ہوگیا ہو گا
توبہ کرلینے کے بعد عدالت بحال ہوجاتی ہے
ابن العربی کہتے ہیں:
"وليست الذنوب مسقطةً للعدالة إذا وقعت منها التوبة" انتهى من "العواصم من القواصم" (ص 94).
اسی لئے تو ان کو حضرت عمر نے بنی تغلق کی زکات وصولی پہ مامور فرمایا اور حضرت عثمان غنی نے اپنے زمانہ خلافت میں کوفہ کا گورنر بنایا
"البداية والنهاية" (11/604) .
کیا یہ دونوں خلفائے راشدین فاسق یا غیر معتبر وغیر ثقہ شخص کو اتنا بڑا عوامی منصب دے سکتے ہیں؟؟
پہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طعن کرنے سے صاف لفظوں میں منع فرمایا ہے سخاوي "فتح المغيث" (3/112) میں کہتے ہیں:
"وأما الوليد وغيره ممن ذكر بما أشار إليه فقد كف النبي صلى الله عليه وسلم من لعن بعضهم بقوله: (لا تلعنه فوالله ما علمت إلا أنه يحب الله ورسوله) ، كما كف عمر عن حاطب رضي الله عنهما قائلا له: ( إنه شهد بدرا ، وما يدريك لعل الله اطلع على أهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم)، لا سيما وهم مخلصون في التوبة فيما لعله صدر منهم، والحدود كفارات، بل قيل في الوليد بخصوصه: إن بعض أهل الكوفة تعصبوا عليه فشهدوا عليه بغير الحق، وبالجملة فترك الخوض في هذا ونحوه متعين" انتهى.
اس لئے عقبہ بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے واقعہ سے صحابہ کرام کی عدالت وثقاہت کے اجماعی عقیدہ پہ کوئی فرق نہیں پڑتا!
تو انہوں نے توبہ کیا ہوگا
اور کعب بن مالک اور حاطب بن بلتعہ وغیرہ کی طرح ان کا توبہ مقبول ہوگیا ہو گا
توبہ کرلینے کے بعد عدالت بحال ہوجاتی ہے
ابن العربی کہتے ہیں:
"وليست الذنوب مسقطةً للعدالة إذا وقعت منها التوبة" انتهى من "العواصم من القواصم" (ص 94).
اسی لئے تو ان کو حضرت عمر نے بنی تغلق کی زکات وصولی پہ مامور فرمایا اور حضرت عثمان غنی نے اپنے زمانہ خلافت میں کوفہ کا گورنر بنایا
"البداية والنهاية" (11/604) .
کیا یہ دونوں خلفائے راشدین فاسق یا غیر معتبر وغیر ثقہ شخص کو اتنا بڑا عوامی منصب دے سکتے ہیں؟؟
پہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طعن کرنے سے صاف لفظوں میں منع فرمایا ہے سخاوي "فتح المغيث" (3/112) میں کہتے ہیں:
"وأما الوليد وغيره ممن ذكر بما أشار إليه فقد كف النبي صلى الله عليه وسلم من لعن بعضهم بقوله: (لا تلعنه فوالله ما علمت إلا أنه يحب الله ورسوله) ، كما كف عمر عن حاطب رضي الله عنهما قائلا له: ( إنه شهد بدرا ، وما يدريك لعل الله اطلع على أهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم)، لا سيما وهم مخلصون في التوبة فيما لعله صدر منهم، والحدود كفارات، بل قيل في الوليد بخصوصه: إن بعض أهل الكوفة تعصبوا عليه فشهدوا عليه بغير الحق، وبالجملة فترك الخوض في هذا ونحوه متعين" انتهى.
اس لئے عقبہ بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے واقعہ سے صحابہ کرام کی عدالت وثقاہت کے اجماعی عقیدہ پہ کوئی فرق نہیں پڑتا!
خلاصہ بحث
اصحاب رسول آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں
دین اسلام کئ ترویج، اشاعت وحفاظت کے لئے اپنی زندگیاں لٹوادیں
ان کے عقائد و ایمان، دیانت وتقوی صدق واخلاص کی سند خود رب العالمین نے قرآن میں دی ہے
ان کے ہر ہر فرد کی اجتماعی وانفرادی کردار و اعمال فرزندان توحید کے لئے قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہے
وہ انبیاء کی طرح اگرچہ معصوم تو نہیں تھے
لیکن بر بنائے بشریت اجتہادی واضطراری ان سے جو غلطیاں ہوئیں
رب کریم نے سب پہ معافی کا قلم پھیر کر اپنی رضا کا پروانہ عطا کردیا
وہ امت اسلامیہ کے محسن ہیں
ان کی عظمت وتقدس کا اعتراف
ان کی آپسی چپقلشوں، لڑائی جھگڑوں اور اختلافات پہ کف لسان کرنا واجب و ضروری ہے
ان سے محبت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا اور ان کی مخالفت کرنا تنقید وتنقیص کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا اور حضور کی روح کو اذیت ہہونچانا ہے
جو زندیقیت ، گمراہی اور بدبختی کے سوا کچھ نہیں!
اللهم ارزقني حبك وحب من يحبك يا رب العالمين
شكيل منصور القاسمي
البيجوسرائیوي
No comments:
Post a Comment