عدت کیا ہوتی ہے؟
سوال:۔ جس عورت کو خدانخواستہ طلاق ہوجائے یا کسی عورت کا شوہر وفات پاجائے اور وہ عورت بیوہ بن جائے تو ان دونوں عورتوں کو عدت گذارنی ہوتی ہے اس بارے میں بہت زیادہ ناواقفیت ہے۔ اس لئے ہمارا سوال ہے عدت کیا ہوتی ہے؟ اور اس کی مدت کتنی ہوتی؟ عدت کے ان ایام میں عورت کے لئے کیا کیا حکم ہے کہ کون سے کام کرنا جائز ہے؟ کس کس کام کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے؟ نیز میکے اور دوسرے رشتہ داروں کے یہاں کس کس صورت میں جانے کی گنجائش ہے؟ ان تمام ضروری سوالات کے جوابات سے تمام قارئین کو مستفید فرمائیں.
شمس الدین، شوکت احمد، محمد عارف
سرینگر
شمس الدین، شوکت احمد، محمد عارف
سرینگر
عدت کی اقسام اور مسائل
جواب:۔ عدت کے معنیٰ شمار کرنا۔ تعداد مکمل کرنا۔ مقررہ مدت پوری کرنا۔ شریعت میں عدت کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ عورت جس کو طلاق ہوجائے یا اُس کا شوہر وفات پائے تو وہ دوسرا نکاح کرنے سے پہلے اس مدت تک انتظار کرے، جو شریعت اسلامیہ نے اس کے لئے مقرر کی ہے۔ یہ وقفہ انتظار کی حالت میں گذارنا عدت کہلاتا ہے۔ اب اس عدت کی دو قسمیں ہیں۔
عدت وفات
اور
عدت طلاق۔
جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس عورت کو عدت وفات گذارنی لازم ہے اور جس عورت کو یہ عدت وفات گذارنی ہو وہ اگر حالتِ حمل میں ہے تو اس کی عدت صرف وضع حمل تک ہے، چاہئے یہ وضع حمل ایک دن ایک ماہ یا نو ماہ میں ہو ۔بہر حال حاملہ بیوہ کی عدت وضع حمل ہے۔ (القران سورہ الطلاق) اور اگر وہ عورت حاملہ نہ ہو تو اس کی عدت وفات چار ماہ دس دن ہیں۔ یہ بھی قرآن کریم میں سورہ البقرہ میں ارشا د ہوا ہے۔
عدت کی دوسری قسم طلاق ہے۔ اگر کسی عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دی ہو تو یہ مطلقہ خاتون نکاح ثانی سے پہلے عدت طلاق پورا کرے گی۔اس کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حالت حمل میں ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ چاہئے یہ وضع حمل چند دن میں ہو جائے یا چندہ ماہ میں۔ پورا زمانہ حمل عدت قرار پائے گا۔
اگر عورت حمل میں نہیں ہے تو پھر وہ یا تو عمر کے اس مرحلہ میں پہنچ گئی ہے کہ اس کے حیض آنے کا سلسلہ ختم ہوچکا ہو۔ ایسی عورت کے لئے پورے تین ماہ کی مدت اس کی عدت ہوگی اور اگر مطلقہ ابھی ماہواری آنے کے دور سے گذر رہی ہے تو ایسی عورت کی عدت تین حیض ہیں چاہئے۔ یہ پورے تین ماہ میں آئیں یا اُس سے کم یا زیادہ دنوں میں۔ بہر حال عدت کی مقدار تین حیض ہیں۔ یہ سارا بیان عدت کے ایام کی مقدار کے متعلق تھا۔ اب کچھ ضروری احکام ملاحظہ ہوں۔ عدت کرنا چاہئے شوہر کے وفات کی بنا پر ہویا طلاق کی بنا پر ان میں کچھ احکام تو یکساں ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ عدت پورا ہونے سے پہلے دوسرا نکاح کرنا حرام ہے۔ اگر ایسی کسی عورت نے نکاح کرلیا تو وہ نکاح درست نہ ہوگا۔ اس طرح ا س عرصہ میں گھر سے باہر نکلنا سخت منع ہے۔ اگر بلا ضرورت باہر نکلے گی تو گنہگار ہوگی۔ اسی طرح ہر عدت گذارنے والی عورت کو بناؤ سنگھار کرنا، چمک دار رنگین کپڑے پہننا منع ہے۔ سادہ کپڑے پہننا ضروری اور کریم پاؤڈر، خوشبو کے استعمال اور پرکشش لباس پہننے سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر ایام عدت میں عورت نے بناؤ سنگھار کرلیا، رنگین اور پر کشش لباس پہنے تو وہ گنہگار ہوگی۔ ایام عدت میں شادیوں میں جانا، بازاروں میں پھرنا، مبارک بادی یا تعزیت کے لئےجانا۔ بیمار کی عیادت کے لئے جانا بھی منع ہے۔ حتیٰ کہ ایام عدت میں حج و عمرے کے لئے جانا بھی منع ہے۔
علاج و معالجہ کے لئے معالج کے پاس یا اسپتال جائے بغیر اگر چارہ نہ ہو تو صرف دن میں جاکر واپس آنا ضروری ہے۔ اپنے گھر کاسودا سلف لانے والی کوئی نہ ہو تو سودا لانے کے لئے باہر جانے کی اجازت ہے مگر ضرورت پورا کرکے واپس آنا ضروری ہے۔ گھر کے ہر کمرے بلکہ صحن میں جانے کی بھی اجازت ہے۔ اگر اس گھر میں جان، عزت، عصمت کو خطرہ ہو تو میکے میں سے کسی کو ساتھ رکھنے کی اجازت ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر یہ بیوہ میکے میں عدت گذار سکتی ہے۔ عدت کے دوران کوئی ضروری چیز لانے کےلئے کسی گھر یا میکے یا دکان پر جانا پڑے تو اگر دوسرا کوئی مرد یا عورت یہ چیز لانے والا نہ ہو اور اس چیز کی شدید ضرورت ہو تو عدت والی خاتون وہ چیز لانے کےلئے گھر سے باہر جاسکتی ہے مگر جلد سے جلد واپس آنا لازم ہے۔ محض غم ختم کرنے دل بہلانے اور صرف ملاقاتیں کرنے کے لئے عدت کے دوران گھر سے نکلنا جائز نہیں۔ اگر عورت عدت وفات گذار رہی ہے تو اس کو شوہر کے ترکہ میراث سے وارث لینے کا حق ہے اور اگر مہر باقی ہو تو وہ مہر لینے کا بھی حق ہے ۔عدت وفات میں اس کا نفقہ شوہر کی میراث سے لینا درست نہیں۔ اس لئے کہ شوہر کی وفات پر اس کی وراثت متوفی کے وارثوں کا حق ہے۔ ان وارثوں میں خود وہ عورت اور اس کی اولاد بھی شامل ہے اس عورت کا نفقہ اس کی ا ولاد یا اس کے والد یا بھائیوں پر لازم ہے۔ اگر عورت عدت طلاق گذار رہی ہے تو طلاق دینے والے شوہر سے مکمل قطع تعلق اور سلام کلام منقطع کرنا لازم ہے۔ بلکہ اس سے پردہ بھی لازم ہے، ہاں عدت کے ایام کا خرچہ اس کے طلاق دینے والے شوہر پر ہی لازم ہے۔ اگر طلاق کی بناپر عورت نے عدت اپنے طالق شوہر کے گھر کی بجائے اپنے میکے میں گذارنے کا ارادہ کیا اور وہ گھر سے نکل گئی تو اسکا نفقہ شوہر پر لازم نہیں رہے گا۔ ہاں اگر طلاق دینے والے کے ساتھ یہ طے کیا گیا کہ وہ مطلقہ عدت میکے میں گذارے گی اور نفقہ وہاں ہی دینا ہوگا اور شوہر نے یہ قبول کر لیاتو ایسی صورت میں یہ مطلقہ میکے میں نفقہ کی حقدار ہوگی۔ کشمیر کے ماحول میں عدت گذارنے والی خواتین عموماً گھروں سے باہر نکلتی ہیں پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی تقریبات شرکت کرتی ہیں حالانکہ یہ سخت منع ہے۔ اس پر عمل کرنے اور خواتین کے درمیان اس مسئلہ پر عمل کرنے کی ترغیب دینا بہت ضروری ہے۔
جواب:۔ عدت کے معنیٰ شمار کرنا۔ تعداد مکمل کرنا۔ مقررہ مدت پوری کرنا۔ شریعت میں عدت کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ عورت جس کو طلاق ہوجائے یا اُس کا شوہر وفات پائے تو وہ دوسرا نکاح کرنے سے پہلے اس مدت تک انتظار کرے، جو شریعت اسلامیہ نے اس کے لئے مقرر کی ہے۔ یہ وقفہ انتظار کی حالت میں گذارنا عدت کہلاتا ہے۔ اب اس عدت کی دو قسمیں ہیں۔
عدت وفات
اور
عدت طلاق۔
جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے اس عورت کو عدت وفات گذارنی لازم ہے اور جس عورت کو یہ عدت وفات گذارنی ہو وہ اگر حالتِ حمل میں ہے تو اس کی عدت صرف وضع حمل تک ہے، چاہئے یہ وضع حمل ایک دن ایک ماہ یا نو ماہ میں ہو ۔بہر حال حاملہ بیوہ کی عدت وضع حمل ہے۔ (القران سورہ الطلاق) اور اگر وہ عورت حاملہ نہ ہو تو اس کی عدت وفات چار ماہ دس دن ہیں۔ یہ بھی قرآن کریم میں سورہ البقرہ میں ارشا د ہوا ہے۔
عدت کی دوسری قسم طلاق ہے۔ اگر کسی عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دی ہو تو یہ مطلقہ خاتون نکاح ثانی سے پہلے عدت طلاق پورا کرے گی۔اس کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حالت حمل میں ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ چاہئے یہ وضع حمل چند دن میں ہو جائے یا چندہ ماہ میں۔ پورا زمانہ حمل عدت قرار پائے گا۔
اگر عورت حمل میں نہیں ہے تو پھر وہ یا تو عمر کے اس مرحلہ میں پہنچ گئی ہے کہ اس کے حیض آنے کا سلسلہ ختم ہوچکا ہو۔ ایسی عورت کے لئے پورے تین ماہ کی مدت اس کی عدت ہوگی اور اگر مطلقہ ابھی ماہواری آنے کے دور سے گذر رہی ہے تو ایسی عورت کی عدت تین حیض ہیں چاہئے۔ یہ پورے تین ماہ میں آئیں یا اُس سے کم یا زیادہ دنوں میں۔ بہر حال عدت کی مقدار تین حیض ہیں۔ یہ سارا بیان عدت کے ایام کی مقدار کے متعلق تھا۔ اب کچھ ضروری احکام ملاحظہ ہوں۔ عدت کرنا چاہئے شوہر کے وفات کی بنا پر ہویا طلاق کی بنا پر ان میں کچھ احکام تو یکساں ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ عدت پورا ہونے سے پہلے دوسرا نکاح کرنا حرام ہے۔ اگر ایسی کسی عورت نے نکاح کرلیا تو وہ نکاح درست نہ ہوگا۔ اس طرح ا س عرصہ میں گھر سے باہر نکلنا سخت منع ہے۔ اگر بلا ضرورت باہر نکلے گی تو گنہگار ہوگی۔ اسی طرح ہر عدت گذارنے والی عورت کو بناؤ سنگھار کرنا، چمک دار رنگین کپڑے پہننا منع ہے۔ سادہ کپڑے پہننا ضروری اور کریم پاؤڈر، خوشبو کے استعمال اور پرکشش لباس پہننے سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر ایام عدت میں عورت نے بناؤ سنگھار کرلیا، رنگین اور پر کشش لباس پہنے تو وہ گنہگار ہوگی۔ ایام عدت میں شادیوں میں جانا، بازاروں میں پھرنا، مبارک بادی یا تعزیت کے لئےجانا۔ بیمار کی عیادت کے لئے جانا بھی منع ہے۔ حتیٰ کہ ایام عدت میں حج و عمرے کے لئے جانا بھی منع ہے۔
علاج و معالجہ کے لئے معالج کے پاس یا اسپتال جائے بغیر اگر چارہ نہ ہو تو صرف دن میں جاکر واپس آنا ضروری ہے۔ اپنے گھر کاسودا سلف لانے والی کوئی نہ ہو تو سودا لانے کے لئے باہر جانے کی اجازت ہے مگر ضرورت پورا کرکے واپس آنا ضروری ہے۔ گھر کے ہر کمرے بلکہ صحن میں جانے کی بھی اجازت ہے۔ اگر اس گھر میں جان، عزت، عصمت کو خطرہ ہو تو میکے میں سے کسی کو ساتھ رکھنے کی اجازت ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر یہ بیوہ میکے میں عدت گذار سکتی ہے۔ عدت کے دوران کوئی ضروری چیز لانے کےلئے کسی گھر یا میکے یا دکان پر جانا پڑے تو اگر دوسرا کوئی مرد یا عورت یہ چیز لانے والا نہ ہو اور اس چیز کی شدید ضرورت ہو تو عدت والی خاتون وہ چیز لانے کےلئے گھر سے باہر جاسکتی ہے مگر جلد سے جلد واپس آنا لازم ہے۔ محض غم ختم کرنے دل بہلانے اور صرف ملاقاتیں کرنے کے لئے عدت کے دوران گھر سے نکلنا جائز نہیں۔ اگر عورت عدت وفات گذار رہی ہے تو اس کو شوہر کے ترکہ میراث سے وارث لینے کا حق ہے اور اگر مہر باقی ہو تو وہ مہر لینے کا بھی حق ہے ۔عدت وفات میں اس کا نفقہ شوہر کی میراث سے لینا درست نہیں۔ اس لئے کہ شوہر کی وفات پر اس کی وراثت متوفی کے وارثوں کا حق ہے۔ ان وارثوں میں خود وہ عورت اور اس کی اولاد بھی شامل ہے اس عورت کا نفقہ اس کی ا ولاد یا اس کے والد یا بھائیوں پر لازم ہے۔ اگر عورت عدت طلاق گذار رہی ہے تو طلاق دینے والے شوہر سے مکمل قطع تعلق اور سلام کلام منقطع کرنا لازم ہے۔ بلکہ اس سے پردہ بھی لازم ہے، ہاں عدت کے ایام کا خرچہ اس کے طلاق دینے والے شوہر پر ہی لازم ہے۔ اگر طلاق کی بناپر عورت نے عدت اپنے طالق شوہر کے گھر کی بجائے اپنے میکے میں گذارنے کا ارادہ کیا اور وہ گھر سے نکل گئی تو اسکا نفقہ شوہر پر لازم نہیں رہے گا۔ ہاں اگر طلاق دینے والے کے ساتھ یہ طے کیا گیا کہ وہ مطلقہ عدت میکے میں گذارے گی اور نفقہ وہاں ہی دینا ہوگا اور شوہر نے یہ قبول کر لیاتو ایسی صورت میں یہ مطلقہ میکے میں نفقہ کی حقدار ہوگی۔ کشمیر کے ماحول میں عدت گذارنے والی خواتین عموماً گھروں سے باہر نکلتی ہیں پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی تقریبات شرکت کرتی ہیں حالانکہ یہ سخت منع ہے۔ اس پر عمل کرنے اور خواتین کے درمیان اس مسئلہ پر عمل کرنے کی ترغیب دینا بہت ضروری ہے۔
سوال: تیمم کب کرسکتے ہیں اور تیمم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا سخت سردی کی وجہ سے تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ کشمیر کی خطرناک سردی میں صرف سردی کی شدت کی وجہ سے تیمم کی اجازت ہوگی۔
نیاز مند مشتاق احمد میر
اسلام آباد کشمیر
نیاز مند مشتاق احمد میر
اسلام آباد کشمیر
تیمم....... ضرورت اور رخصت
جواب: تیمم شریعت اسلامیہ کی طرف سے ملنے والی ایک خصوصی سہولت ہے۔ چنانچہ حضرت رسول کریم علیہ اسلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے چھ چیزوں میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام پر مجھے فضلیت دی ہے۔ اُن میں سے ایک یہ مٹی کو میرے لئے ذریعہ طہارت بنایا۔ (بخاری)
تیمم دو صورتوں میں کرنے کی اجازت ہے ایک تو یہ کہ پانی دستیاب ہی نہ ہو۔ یا پانی دستیاب تو ہے مگر پانی کا استعمال جسم کے لئے سخت ضرور رساں ہو۔ ضرر رساں ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ پانی استعمال کرنے پر بیمار ہونے کا گمان غالب یا یقین ہو، یا مرض بڑھ جانے کا ظن غالب ہو۔ ان دو صورتوں کے علاوہ اگر محض ٹھنڈک سے بچنے کے لئے انسان تیمم کرنا طے کرے تو ایسی صورت میں تیمم درست نہیں ہوگا۔ مثلاً اگر کسی شخص پر غسل کرنا فرض ہوگیا اور پانی ٹھنڈا ہو، اور پانی کے گرم کرنے کا انتظام بھی نہ ہو تو اس کو یقین ہو کہ اگروہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے تو بیمار ہونے کا خدشہ بلکہ یقین ہو تو شرعاً اس کو تیمم کرنے کی اجازت ہوگی۔ لیکن اگر پانی گرم کرنے کا کا انتظام ہو یا وہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کا عادی ہو تو ایسا شخص تیمم نہیں کرسکتا ۔ اگر ایسے شخص نے تیمم کر لیا تو وہ پاک نہیں ہوگا۔
کشمیر کی سخت ترین سردی میں یہاں کے باشندے عام طور پر اس سردی کو برداشت کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ ٹھنڈے پانی میں مچھلیا ں پکڑتے ہیں۔ ندی نالوں پر کپڑے دھوتے ہیں۔ بازاروں میں لگے ہوئے نلکوں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے صرف سردی اور ٹھنڈک برداشت کرنا کا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اور اس پر بہت اجر بھی ملتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو ایسا عمل بتائوں جس سے تمہاری ساری خطائیں معاف ہونگی ۔صحابہ ؓنے عرض کیا کہ ضرور فرمائیں۔ ارشاد ہوا کہ جب وضو کرنا سخت مشکل اور طبعیت کو ناگوار گذرے اُس وقت اچھی طرح سے وضو کرنا۔ یہ حدیث ترمذی شریف میں ہے۔۔۔۔۔۔ ٹھنڈے پانی سے وضو کی اس فضلیت کو ذہن میں رکھیں تو پھر ٹھنڈک برداشت کرنے کے لئے دل آمادہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود شریعت نے ایک سہولت دی کہ اگر کسی کےبیمار ہو جانے یا اُس کا مرض بڑھ جانے کا یقین ہو تو تیمم جائز ہوگا۔ مگر جو شخص تیمم کرنے کا ارادہ کرے وہ اچھی طرح سے سوچ لے کہ اگر وہ اس طبقہ میں شامل ہوکہ جن کو تیمم کی اجازت نہ ہو مگر پھر بھی اس نے تیمم کرلیا تو وہ پاک نہ ہوگا اور اس کی نماز بھی درست نہ ہوگی۔ حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین کو ایک اہم ترین سفر پر بھیجا گیا وہاں امیر جماعت حضر ت عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کو غسل فرض ہوگیا۔ سمندر کے کنارے سخت ٹھنڈ کی وجہ سے انہوں نے غسل نہیں بلکہ تیمم کیا۔ بعد میں واپسی پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےصورت حال عرض کی کہ اگر میں غسل کرتا تو ہلاکت کا خوف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری بات سنی اور کوئی نکیر نہیں فرمائی یہ واقعہ بخاری کتاب المغازی میں ہے۔
جواب: تیمم شریعت اسلامیہ کی طرف سے ملنے والی ایک خصوصی سہولت ہے۔ چنانچہ حضرت رسول کریم علیہ اسلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے چھ چیزوں میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام پر مجھے فضلیت دی ہے۔ اُن میں سے ایک یہ مٹی کو میرے لئے ذریعہ طہارت بنایا۔ (بخاری)
تیمم دو صورتوں میں کرنے کی اجازت ہے ایک تو یہ کہ پانی دستیاب ہی نہ ہو۔ یا پانی دستیاب تو ہے مگر پانی کا استعمال جسم کے لئے سخت ضرور رساں ہو۔ ضرر رساں ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ پانی استعمال کرنے پر بیمار ہونے کا گمان غالب یا یقین ہو، یا مرض بڑھ جانے کا ظن غالب ہو۔ ان دو صورتوں کے علاوہ اگر محض ٹھنڈک سے بچنے کے لئے انسان تیمم کرنا طے کرے تو ایسی صورت میں تیمم درست نہیں ہوگا۔ مثلاً اگر کسی شخص پر غسل کرنا فرض ہوگیا اور پانی ٹھنڈا ہو، اور پانی کے گرم کرنے کا انتظام بھی نہ ہو تو اس کو یقین ہو کہ اگروہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے تو بیمار ہونے کا خدشہ بلکہ یقین ہو تو شرعاً اس کو تیمم کرنے کی اجازت ہوگی۔ لیکن اگر پانی گرم کرنے کا کا انتظام ہو یا وہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کا عادی ہو تو ایسا شخص تیمم نہیں کرسکتا ۔ اگر ایسے شخص نے تیمم کر لیا تو وہ پاک نہیں ہوگا۔
کشمیر کی سخت ترین سردی میں یہاں کے باشندے عام طور پر اس سردی کو برداشت کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ ٹھنڈے پانی میں مچھلیا ں پکڑتے ہیں۔ ندی نالوں پر کپڑے دھوتے ہیں۔ بازاروں میں لگے ہوئے نلکوں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے صرف سردی اور ٹھنڈک برداشت کرنا کا مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اور اس پر بہت اجر بھی ملتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو ایسا عمل بتائوں جس سے تمہاری ساری خطائیں معاف ہونگی ۔صحابہ ؓنے عرض کیا کہ ضرور فرمائیں۔ ارشاد ہوا کہ جب وضو کرنا سخت مشکل اور طبعیت کو ناگوار گذرے اُس وقت اچھی طرح سے وضو کرنا۔ یہ حدیث ترمذی شریف میں ہے۔۔۔۔۔۔ ٹھنڈے پانی سے وضو کی اس فضلیت کو ذہن میں رکھیں تو پھر ٹھنڈک برداشت کرنے کے لئے دل آمادہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود شریعت نے ایک سہولت دی کہ اگر کسی کےبیمار ہو جانے یا اُس کا مرض بڑھ جانے کا یقین ہو تو تیمم جائز ہوگا۔ مگر جو شخص تیمم کرنے کا ارادہ کرے وہ اچھی طرح سے سوچ لے کہ اگر وہ اس طبقہ میں شامل ہوکہ جن کو تیمم کی اجازت نہ ہو مگر پھر بھی اس نے تیمم کرلیا تو وہ پاک نہ ہوگا اور اس کی نماز بھی درست نہ ہوگی۔ حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین کو ایک اہم ترین سفر پر بھیجا گیا وہاں امیر جماعت حضر ت عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کو غسل فرض ہوگیا۔ سمندر کے کنارے سخت ٹھنڈ کی وجہ سے انہوں نے غسل نہیں بلکہ تیمم کیا۔ بعد میں واپسی پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےصورت حال عرض کی کہ اگر میں غسل کرتا تو ہلاکت کا خوف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری بات سنی اور کوئی نکیر نہیں فرمائی یہ واقعہ بخاری کتاب المغازی میں ہے۔
سوال: میاں بیوی میں سخت نزاعات کے بعد طلاق ہوگئی۔ دونوں کا ایک چھوٹا بچہ ہے جو دودھ چھڑانے کے قریب ہے۔ باپ بچے کو آج ہی لینا چاہتا ہے مگر ماں بچہ چھوڑنا نہیں چاہتی۔ عدالت میں مقدمہ بھی شروع ہوگیا۔ برادری کے ذمہ داران فیصلہ کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو شرعی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس لئے بذریعہ اخبار سے شرعی رہنمائی فرمائیں۔ اس بچے کی پرورش کا حق کس کو ہے اور خرچہ کس کے ذمہ ہے؟
صدر انتظامیہ کمیٹی بمنہ سرینگر
صدر انتظامیہ کمیٹی بمنہ سرینگر
طلاق کے بعد بچے کی پرورش
جواب:۔ جب زوجین میں رشتہ منقطع ہوجائے اور گود میں اولاد ہو تو پرورش کا حق ماں کو ہے۔ باپ کے لئے جائز نہیں کہ وہ بچے کو ماں سے لے کر خود پرورش کرے۔ حدیث میں ہے کہ ایک عورت دربار نبوت ﷺ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا۔ یہ میری گود میں میرا بچہ ہے، میری گود اس کے لئے آرام گاہ، میری چھاتی اس کے لئے شکم سیر ہونے کی پناہ گاہ اور میرے ہاتھ اور بازو اس کے لئے کھیل گاہ ہیں۔ اس بچے کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ بچہ مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے۔ یہ سن کر حضرت رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بچہ کی پرورش کا حق صرف تیرا ہے جب تک تو دوسرا نکاح نہ کرے۔ اس لئے اسلامی قانون یہ ہے کہ حق حفانت ماں کو حاصل ہے۔
لہٰذا کسی باپ کو حق نہیں کہ وہ اپنی مطلقہ سے بچہ لینے کا ارادہ کرے اور نہ ہی برادری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ماں کو حق پرورش سے محروم کرنے کا فیصلہ کرے۔ عدالت کے لئے بھی مسلم پرسنل لا کے مطابق فیصلہ کرنے کا پورا اختیار ہے کہ حق پرور ش ماں کو دینے کا فیصلہ کرے۔ یہ حق پرورش لڑکا ہو تو سات سال تک اور لڑکی ہو تو نو سال بالغ ہونے تک رہتا ہے۔ اس کے بعد باپ کو حق ہے کہ وہ بچہ لے کر تعلیم اور تربیت کا سلسلہ شروع کرے۔ جو عرصہ بچہ ماں کے پاس بطور حق پرورش گزاے گا اس عرصہ کے دوران بچہ پر جو خرچہ آئے گا وہ تمام خرچہ باپ پر لازم ہوگا۔ اس میں کوتاہی کرنا بدترین کمینہ پن ہے نیز باپ اپنے معصوم کے لئے اپنا مال خرچ کرنے میں لیت و لعل کرے یہ غیرت کے بھی خلاف ہے۔
کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل
2 نومبر 2018 (00 : 01 AM)
(صدر مفتی دارالافتاء دارالعلوم رحیمہ بانڈی پورہ)
مفتی نذیر احمد قاسمی
Kashmir Uzma
Friday, 22 Safar 1440 AH -1
جواب:۔ جب زوجین میں رشتہ منقطع ہوجائے اور گود میں اولاد ہو تو پرورش کا حق ماں کو ہے۔ باپ کے لئے جائز نہیں کہ وہ بچے کو ماں سے لے کر خود پرورش کرے۔ حدیث میں ہے کہ ایک عورت دربار نبوت ﷺ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا۔ یہ میری گود میں میرا بچہ ہے، میری گود اس کے لئے آرام گاہ، میری چھاتی اس کے لئے شکم سیر ہونے کی پناہ گاہ اور میرے ہاتھ اور بازو اس کے لئے کھیل گاہ ہیں۔ اس بچے کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ بچہ مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے۔ یہ سن کر حضرت رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بچہ کی پرورش کا حق صرف تیرا ہے جب تک تو دوسرا نکاح نہ کرے۔ اس لئے اسلامی قانون یہ ہے کہ حق حفانت ماں کو حاصل ہے۔
لہٰذا کسی باپ کو حق نہیں کہ وہ اپنی مطلقہ سے بچہ لینے کا ارادہ کرے اور نہ ہی برادری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ماں کو حق پرورش سے محروم کرنے کا فیصلہ کرے۔ عدالت کے لئے بھی مسلم پرسنل لا کے مطابق فیصلہ کرنے کا پورا اختیار ہے کہ حق پرور ش ماں کو دینے کا فیصلہ کرے۔ یہ حق پرورش لڑکا ہو تو سات سال تک اور لڑکی ہو تو نو سال بالغ ہونے تک رہتا ہے۔ اس کے بعد باپ کو حق ہے کہ وہ بچہ لے کر تعلیم اور تربیت کا سلسلہ شروع کرے۔ جو عرصہ بچہ ماں کے پاس بطور حق پرورش گزاے گا اس عرصہ کے دوران بچہ پر جو خرچہ آئے گا وہ تمام خرچہ باپ پر لازم ہوگا۔ اس میں کوتاہی کرنا بدترین کمینہ پن ہے نیز باپ اپنے معصوم کے لئے اپنا مال خرچ کرنے میں لیت و لعل کرے یہ غیرت کے بھی خلاف ہے۔
کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل
2 نومبر 2018 (00 : 01 AM)
(صدر مفتی دارالافتاء دارالعلوم رحیمہ بانڈی پورہ)
مفتی نذیر احمد قاسمی
Kashmir Uzma
Friday, 22 Safar 1440 AH -1
No comments:
Post a Comment