Sunday 10 December 2017

رشوت قوم کے لئے ناسور Bribery-A Big Sin in Islam

رشوت یا کرپشن کی تاریخ بہت قدیم ہے، یہ آج کا مسئلہ نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس پر کبھی مکمل طور پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ اس وقت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر تمام ممالک اس کی لپیٹ میں ہیں، اس سے جمہوری نظام کی عمارت گویا چرمرا کر رہ گئی ہے۔ یہ بد عنوانی انصاف میں رکاوٹ اور معاشی ومعاشرتی ترقی میں سُستی کی محرک ہے۔ آ ج کے برق رفتار زمانہ میں ہر چیز شاخ در شاخ ہوتی جارہی ہے، آج نیکیوں کے راستے بھی اَن گنِت ہیں اور گناہ کے بھی، یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ اپنے لئے کیا پسند کرتا ہے۔ رشوت، جو کہ ہمارے سماج کا ایک ناسور ہے، جس نے نہ جانے کتنی زندگیاں تباہ وبرباد کر دیں، لیکن اس پر کسی طرح روک تھام لگتی نظر نہیں آتی۔ آج کے اس ”ترقی یافتہ دور“ میں اس کی کوئی خاص صورت متعین کر پانا نہایت مشکل امر ہو گیا ہے، اب یہ معاملہ محض نوٹوں کے سہارے ہی نہیں طے پاتا، بلکہ کوئی، ہدیہ، تحفہ، بھی اس کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔ بالفاظ ِ دیگر رشوت، بدعنوانی کی ایک ایسی قسم ہے، جس میں نقد یا تحفہ وغیرہ دے کر، وصول کرنے والے کے طرزِ عمل میں بدلاؤ لایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد وصول کنندہ کے اعمال پر اثر انداز ہونا ہوتا ہے۔ کبھی یہ پیش کش دینے والوں کی طرف سے ہوتی ہے، کبھی لینے والے، اسے کمیشن یا ڈونیشن جیسے نام سے موسوم کرکے اسے جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی اصل حقیقت سب پر عیاں ہے۔
رشوت، یوں تو خود ہی ایک لعنت ہے، جس کے سبب انسان خدا کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے، لیکن کسی مظلوم سے رشوت کا مطالبہ کرنا انسانیت سے نہایت درجہ پست اور گرِاہوا عمل ہے، جیسا کہ بعض جگہوں پر قیدیوں کے لواحقین سے بھی رشوت وصول کی جاتی ہے اور اس کے بدلے قیدیوں کو بدسلوکی سے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ اسلام نے ہر اس ذریعہ اکتساب کو ممنوع قرار دیا ہے، جس میں کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا لازم آتا ہو، منجملہ ان ذرائع کے رشوت بھی ہے، یہ نہایت سنگین جرم ہے، جو ہمارے پورے معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ ہمارے ملک میں جگہ جگہ اس کے خاتمہ کی باتیں تو کی جاتی ہیں، لیکن ایسا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا، جس کا فائدہ یقینی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم اور طب کے ادارے ، جو کہ خالص انسانی فلاح وبہبود کے لیے وجود میں آتے ہیں، وہ بھی بدعنوانیوں سے پاک نہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ وہاں جو ”سوشل ورکر“ بیٹھے ہوئے ہیں، وہ بھی اس بدعنوانی میں سر سے پاؤں تک ڈوبے ہوئے ہیں، لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں، اب تو عوام بھی اس کے عادی ہو چکے ہیں اور حکومت کی تو شاید انہیں سرپرستی حاصل ہے۔
رشوت ایک ایسا جرم ہے، جو شاید کسی بھی نظامِ حیات میں جائز نہ ہو ۔ ہمارا (ملکی) قانون بھی اسے ناجائزقرار دیتا ہے، لیکن ملک کی جیتی جاگتی زندگی میں آکر دیکھیے تووہی رشوت؛ جسے قانون میں بد ترین جرم کہا گیا ہے، نہایت آزادی کے ساتھ لی اور دی جارہی ہے۔ ایک معمولی کانسٹیبل سے لے کر اورنچے درجے کے افسران تک، اسے شیرِ مادر سمجھے ہوئے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جس کی جیب گرم ہو، وہ سینکڑوں جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دندناتا پھرتا ہے اورجس کی جیب خالی ہو، وہ سو فیصد معصوم اور برحق ہونے کے باوجود انصاف کو ترس کر جان دے دیتا ہے، اس صورتِ حال کو مضبوط اور ایمان دارانہ انتظامیہ ہی ختم کرسکتی ہے۔ اگر اونچے درجے کے رشوت خور افسروں کو چند بار علی الاعلان عبرت ناک جسمانی سزائیں دی جائیں اور آئندہ رشوت کے لیے کچھ اور سخت سزائیں مقرر کر دی جائیں، تو رفتہ رفتہ یہ لعنت مٹ سکتی ہے۔ (اسلام اور جدید معاشی مسائل:7/97)
رشوت کی تعریف
رشوة ”رشا“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اس رسّی کے ہیں، جس کے ذریعے پانی تک پہنچا جائے۔ چوں کہ رشوت کے ذریعے بھی اسی طرح ایک مقصد تک پہنچا جاتا ہے، اس لئے اسے ”رشوت“ کہتے ہیں۔ یہ لفظ رِشوت اور رُشوت؛ دونوں طرح صحیح ہے۔ رشوت دینے والے کو ”راشی“، لینے والے کو ”مرتشی“ اور دنوں کے مابین واسطہ بننے والے کو”راش“ کہتے ہیں۔ (النہایة لابن اثیر:2/262)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”لعن الله الراشی والمرتشی والرائش“․(المعجم الکبیر للطبرانی:1415)
رشوت لینے والے، دینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر الله تعالیٰ کی لعنت ہے۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے رشوت کی بہت جامع تعریف اس طرح کی ہے:
رشوت وہ ہے، جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لیے دیتا ہے، تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے، جسے یہ چاہتا ہے۔ (شامی، کتاب القصاء، مطلب فی الکلام علی الرشوة)
انہوں نے اس تعریف سے یہ واضح کر دیا کہ رشوت عام ہے، چاہے وہ مال ہو یا کسی اور طرح کی کوئی منفعت اور حاکم سے مراد ”قاضی“ (جج) ہے اور ”وغیرہ“ سے مراد ہر وہ شخص، جس کے ہاں رشوت دینے والے کی مصلحت پوری ہوسکتی ہو، چاہے اس کا تعلق حکم رانوں سے ہو یا سرکاری ملازمین سے یا خاص اعمال بجالانے والے ذمے داروں سے۔ مثلاً تاجروں، کمپنیوں او رجاگیرداروں وغیرہ کے نمائندے وغیرہ۔ ”فیصلہ“ سے مراد یہ ہے کہ رشولت لینے والا، رشوت دینے والے کی مرضی کے مطابق فیصلہ کر دے، تاکہ رشوت دینے والے کا مقصد پورا ہو جائے، خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ ( مقالات وفتاویٰ عبدالعزیز بن عبدالله بن باز:324)
فقہ کی اصطلاح میں رشوت اس مال کو کہتے ہیں، جو کسی کے حق کو باطل کرنے کے لیے یا کسی باطل کو حاصل کرنے کے لیے دیا جائے۔ 
مایعطی لا بطال حق وإحقاق باطل․(التعریفات:125)
رشوت کی شرعی تعریف یہ ہے کہ جس کا معاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو، اس کا معاوضہ لیا جائے، مثلاً جو کام کسی شخص کے فرائض میں داخل ہے اور اس کا پورا کرنا اس کے ذمہ لازم ہو، اس پر کسی فریق سے معاوضہ لینا۔ جیسے حکومت کے افسر اور کلرک وغیرہ۔ سرکاری ملازمت کی رو سے اپنے فرائض ادا کرنے کے ذمے دار ہیں، پھر وہ صاحب معاملہ سے کچھ لیں، تو یہ رشوت ہے۔ یا لڑکے یالڑکی کے ماں باپ، اس کی شادی کے ذمے دار ہیں، کسی سے اس کا معاوضہ نہیں لے سکتے، وہ جس کو رشتہ دیں، اس سے کچھ معاوضہ لیں ، تو وہ رشوت ہے۔ یا صوم وصلوٰة اور حج وتلاوتِ قرآن، عبادات ہیں، جو مسلمان کے ذمے ہیں، اُن پر کسی سے کوئی معاوضہ لیا جائے تو وہ رشوت ہے۔ البتہ فی زماننا تعلیمِ قرآن اور عام نمازوں کی امامت اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (علی فتوی المتأخرین)
پھر جو شخص رشوت لے کرکسی کا کام حق کے مطابق کرتا ہے، وہ رشوت لینے کا گنہگار ہے اور یہ مال اس کے لیے سُحت اور حرام ہے او راگر رشوت کی وجہ سے حق کے خلاف کام کیا، تو یہ دوسرا شدید جُرم؛ حق تلفی اور حکمِ خداوندی کو بدل دینے کا اس کے علاوہ ہو گیا۔ الله تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس لعنت سے بچائے۔ آمین۔ (معارف القرآن:3/152-151، بتغیر)
رشوت کا وبال
رشوت خوروں کے متعلق ارشاد ربانی ہے:

﴿أَکَّالُونَ لِلسُّحْت﴾(المائدہ:42)
یعنی یہ لوگ سُحت کھانے والے ہیں۔ سُحت کے لفظی معنی کسی چیز کو جڑ، بنیاد سے کھود کر برباد کرنے کے ہیں۔ اس معنی میں قرآن کریم نے فرمایا
﴿فَیُسحتکم بعذاب﴾ 
یعنی اگر تم اپنی حرکت سے باز نہ آؤ گے تو الله تعالیٰ اپنے عذاب سے تمہارا استیصال کر دے گا، یعنی تمہاری جڑ، بنیاد ختم کر دی جائے گی ۔ قرآن مجید میں اس جگہ لفظ سُحت سے مراد رشوت ہے، حضرت علی کرم الله وجہہ، ابراہیم نخعی، حسن بصری، مجاہد، قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے اس کی تفسیر رشوت کی ہے۔
رشوت کو سُحت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف لینے دینے والوں کو برباد کرتی ہے، بلکہ پورے ملک وملت کی جڑ، بنیاد اورامن عامہ کو تباہ کرنے والی ہے۔ جس ملک یا محکمہ میں رشوت چل جائے، وہاں قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور قانونِ ملک ہی وہ چیز ہے، جس سے ملک وملت کا امن برقرار رکھا جاتا ہے، وہ معطل ہو گیا ، تو نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے، نہ آبرو، نہ مال۔ اس لیے شریعتِ اسلام میں اس کو سُحت فرماکر اشد حرام قرار دیا ہے اور اس کے دروازہ کو بند کرنے کے لئے امراء وحکام کو ہدیے اور تحفے پیش کئے جاتے ہیں، ان کو بھی صحیح حدیث میں رشوت قرار دے کر حرام کر دیا گیا ہے ۔ (معارف القرآن:3/151)
ایک مقام پر ارشاد ربانی ہے:
﴿وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون﴾․(سورة البقرة:188)
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو (رشوت کے طور پر) حاکموں کے پاس پہنچاؤ کہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو۔ (سورہ بقرہ)
معلوم ہوا رشوت باطل طریقے سے مال کھانے کی صورتوں میں انتہائی بد ترین صورت ہے، کیوں کہ اس میں دوسرے شخص کو مال دے کر اسے حق سے منحرف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حضرت عبدالله ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”کل لحم أنبتہ السحتُ فالنارُ أولیٰ بہ․“
ہر وہ گوشت، جو حرام مال سے پرورش پائے، جہنم کی آگ ہی اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
کسی نے عرض کیا: حرام مال سے کیا مراد ہے؟
تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”الرشوة فی الحکم“
(کسی بھی قسم کا) فیصلہ کرنے کے لیے رشوت قبول کرنا۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:6/156)
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
”ما من قوم یظہر فیہا الربا الا أخذوا بالسِّنة، وما من قوم یظہر فیہم الرُّشا الا أخذوا بالرعب․“
جس قوم میں سود عام ہو جاتا ہے وہ خشک سالی میں مبتلا ہو جاتی ہے اورجس قوم میں رشوت عام ہو جاتی ہے، اس پر دشمن کا رعب طاری ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد:4/205)
بلاشک و شبہ جب گناہوں کا چلن عام ہو تو معاشرہ اختلاف وانتشار کا شکار ہو جاتا ہے، معاشرہ کے افراد میں محبت کے رشتے منقطع ہو جاتے ہیں، بغض وعداوت اور نیکی کے کاموں میں عدم تعاون پیدا ہو جاتا ہے۔ معاشرہ پر رشوت کے بد ترین اثرات میں سے یہ بھی ہے کہ گھٹیا اور رذیل باتیں عام ہو جاتی ہیں، اچھی اور خوبی کی باتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کے گناہوں کی وجہ سے جب ایک دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہے، تو پھر معاشرہ کے افراد ایک دوسرے پر ظلم کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں، اس لیے کہ ظلم کا یہی نتیجہ ہوتا ہے، یہ ان جرائم میں سے ہے، جو الله تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں او رمسلمانوں میں بغض وعداوت کا۔ نیز عام آفتوں اور فتنوں کا بھی جیساکہ حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
” جب لوگ برائی دیکھیں او راسے نہ مٹائیں تو ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔“ (مقالات وفتاوی عبدالعزیز بن عبدالله بن باز:328، اردو، بتغیر)
رشوت کے بد ترین نتائج
رشوت کے جو بد ترین اثرات ونتائج مرتب ہوتے ہیں، ا ن میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے کمزوروں پر ظلم ہوتا ہے، ان کے حقوق کو سلب یا ضایع کر دیا جاتا ہے، یا ناحق طور پر محض رشوت کی کارستانی کی وجہ سے انہیں اپنے حق کے حاصل کرنے میں بہت تاخیر ہو جاتی ہے۔ رشوت کا ایک بد ترین نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ رشوت لینے والے قاضی اور سرکاری ملازم وغیرہ کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں، وہ اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کرنے لگتا ہے، رشوت نہ دینے والے کے حق کو کھا جاتا ہے یا اسے بالکل ضایع کر دیتا ہے۔ رشوت لینے والے کا ایمان بھی کمزور ہو جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو الله تعالیٰ کے غضب اور اس کی طرف سے دنیا وآخرت کی شدید سزا کا مستحق قرار دے لیتا ہے۔ الله تعالیٰ فوراً سزا نہ دے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ الله تعالیٰ اس سے غافل ہے (نعوذ بالله)، بلکہ بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ ظالم کو آخرت سے پہلے دنیا میں بھی سزا دیا کرتا ہے، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے، حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”سرکشی اور قطع رحمی ایسے خطرناک گناہ ہیں کہ الله تعالیٰ ان کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی جلد سزا دیتا ہے اور آخرت میں جو سزا تیار کر رکھی ہے، وہ اس کے سوا ہے۔“
بے شک رشوت اور ظلم کی دیگر تمام صورتوں کا تعلق اسی سرکشی سے ہے، جسے الله تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ صحیحین میں ہے کہ حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیے رکھتا ہے، حتی کہ جب اسے پکڑ لیتا ہے، تو پھر نہیں چھوڑتا۔“ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿وَکَذَلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِیَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَہُ أَلِیْمٌ شَدِیْد﴾․(سورہ ہود:102)
اور تمہارا پروردگار جب نافرمان بستیوں کو پکڑتا ہے، تو اس کی پکڑ اسی طرح ہوتی ہے۔ بے شک اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور سخت ہے۔ (مقالات وفتاوی عبدالعزیز بن عبدالله بن باز:329، اردو، بتغیر)
رشوت لینا دینا
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے رشوت لینے کی بھی ممانعت فرمائی ہے او ررشوت دینے کی بھی۔ البتہ رشوت لینا تو بذات خود حرام ہے، اس لیے یہ کسی صورت میں جائز نہیں۔ لیکن رشوت دینا چوں کہ رشوت لینے والے کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے اور اس کا مقصود حرام کی تحصیل یا دوسرے شخص کو اس کے جائز حق سے محروم کرنا ہے، اس لیے اس کی ممانعت کی گئی ہے، لہٰذا رشوت دینا اس وقت جائز ہے، جب اس کا مقصد اپنے آپ کو ظلم سے بچانا یا صرف انصاف کا حاصل کرنا ہو۔ جیسا کہ علماء نے لکھا ہے کہ کسی شخص سے جان یا مال کا خوف ہو یا خود بادشاہ یا حکومت وغیرہ سے اس کی ظالمانہ طبیعت ومزاج کے پیش نظر ظلم کا اندیشہ ہو تو اس سے بچنے کے لیے رشوت دینا جائز ہے، البتہ یہ رقم لینے والے کے لیے لینا ہر حالت میں حرام ہے۔
فتاوی حقانی میں ایک سوال ہے کہ کیا کام میں رکاوٹ پیدا ہونے کے خوف سے ٹھیکیدار کا افسرانِ بالا کو رشوت دینا جائز ہے؟ جس کا جواب یوں دیا گیا کہ ٹھیکہ دینے کے بدلے جو افسران کمیشن کے نام پر پیسے لیتے ہیں، وہ رشوت میں داخل ہے۔ کام کی نگرانی کرنا، ان کا فریضہٴ منصبی ہے، اس کے بدلے وہ حکومت سے تنخواہ لیتے ہیں۔ لہٰذا اگر ٹھیکیدار ٹھیکہ لینے کا حق دار ہو اور بغیر رشوت کے اسے ٹھیکہ نہ دیا جاتا ہو بحالتِ مجبوری اس کو تو رشوت دینے کی رخصت ہے، مگر افسران بالا کے لیے لینا ہر گز حلال نہیں۔ (6/273)
جدید فقہی مسائل میں ہے:
رشوت جس طرح لینا حرام ہے ، اسی طرح اصولی پر دینا بھی حرام ہے۔ اس سلسلہ میں فقہاء کے یہاں ایک متفق علیہ اصول ہے کہ جس چیز کا لینا جائز نہیں، اس کا دینا بھی جائز نہیں:
”ماحرم أخذہ، حرم إعطاہ․“
البتہ چوں کہ رشوت لینا کبھی بھی مجبوری نہیں بن سکتی اور رشوت دینا بعض دفعہ مجبوری بن جاتی ہے، اس لیے فقہاء نے ضرورت اور مجبوری کے مواقع پر رشوت دینے کی اجازت دی ہے اور اس سلسلہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے اس عمل کو پیش نظر رکھا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بعض شرپسند شعراء کو اس لیے کچھ دیا کرتے تھے کہ وہ بے ہودہ ہجوپر مبنی اشعار کہنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے سے اجتناب کریں۔
رشوت دینے کی گنجائش کب ہو گی؟ اس سلسلہ میں فقہاء نے یہ اصول متعین کیا ہے کہ اگر رشوت نہ دے تو ناحق طریقہ پر اس کو جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ ہو کہ جس ذمہ دار کے پاس اس کی درخواست زیر غور ہے، وہ اس کے ساتھ انصاف سے کام نہ لے گا اور اس کے اور دوسرے امیدواروں کے درمیان مساویانہ سلوک روا نہیں رکھے گا۔
علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”الرشوة لخوف علی نفسہ أو مالہ أو لیوسی أمرہ عند السلطان أو أمیر․“ (الاشباہ والنظائز:3/1)
جان یا مال پر خوف کی وجہ سے، نیز اس لئے کہ سلطان یا امیر اس کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کرے، رشوت دینے کی گنجائش ہے۔ یہ ممنوع صورتوں سے مستثنیٰ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے پورے معاشرے اور سماج کو اس لعنت اور تمام برائیوں سے محفوظ رکھے۔
آمین۔
مولانا ندیم احمد انصاری
http://www.farooqia.com/ur/lib/1437/04/p44.php


Bribery-A Big Sin in Islam

Bribery means giving money to someone through whom a person takes something which he / she has no right to. For example: bribing a judge to get verdict in favour (wrongfully), or bribing an official to give him preference over others or to get other r
Bribery is a big sin in Islam. Allah says:
"And eat up not one another's property unjustly, nor give bribery to the rulers that you may knowingly eat up a part of the property of others sinfully."

(Aayah No. 188, Surah Al-Baqarah, Chapter No. 2, Holy Qur'an).

We see that bribery is clearly prohibited by Allah. One thing to highlight in this glorious verse of Holy Qur'an is that two different messages can be inferred upon from here. One is that Allah prohibits us from eating property of others sinfully. Second is the prohibition of giving bribe to the rulers. And when bribery comes into play, eating another's right is bound to come into effect.

Bribery is one of the biggest culprits creating havoc among the society, especially in the countries of Indian sub-continent (i.e. India, Pakistan etc.). Everyone is ready to offer bribe to get his / her work done. And almost all working in positions that matter, if not all, are always waiting to get their share of bribe from the public. It goes from bottom to top; a peon is seen taking bribe, and so is a Manager. The levels and amounts of bribery may differ according to the position held by the taker, but the filthy act is deep embedded among the people, irrespective of religion.

Small examples show our approach in this matter. These examples can be observed in routine works of almost all the offices (particularly government offices). Have a look:

1. We are in a long queue, several places behind, and we simply offer few bucks to some mediators who can get our work done earlier than others who spend their time lining up.

2. There comes an announcement from government regarding a housing scheme where homes are to be allotted to the common public, based on a draw. However, majority of the people tend to get the allotment in their favour wrongfully, without going through the hassles of draw. How? By bribing the officials involved in it.

3. Candidates are ready to pay ample amount of money to get a particular job, irrespective of the fact that they are qualified for it or not; and a qualified deserving candidate ends up on losing side.

4. Electoral processes nowadays (be it of smaller positions or bigger ones) are not spared.

5. Admissions to educational institutions are easier for people who have money, courtesy bribery.

6. Businesses prosper on bribes.

The list can go on and on. What to talk about others, our Muslim fellows are equally a part of this corrupt system. To add to the woes of corruption, bribery has found its way into the affairs of administration related to Hajj pilgrimage. There has been a recent incident about a government official (probably a minister) in Pakistan being sacked from his position because of his involvement in misappropriating funds from the Hajj pilgrims, giving and taking money as a favour to some. What a shame?

Who is a bigger sinner: the taker or the giver?

I had been in discussion with my friends on this subject many times. Some of the Muslims put forward an excuse that because we are asked to give so we give. Therefore, according to them it is the taker who is doing a sin.

True, the one who takes bribe is doing a big sin. But the giver is also responsible. Let me quote a hadith or two in this context.

Abdullah bin Amr (RA) narrated: Allah's Messenger (PBUH) cursed the one who bribes and the one who takes bribe.

(Hadith No. 1337, Chapters on Judgements, Jami' At-Tirmidhi, Vol. 3).

In another narration,

Abu Hurairah (RA) narrated: Allah's Messenger (PBUH) cursed the one who bribes and the one who takes a bribe for judgement.

(Hadith No. 1336, Chapters on Judgement, Jami' At-Tirmidhi, Vol. 3).

If we go back to the verse of Holy Qur'an mentioned at the start of our discussion and read the two Ahadith mentioned above, we can see that both the giver and the taker of bribe are sinners, although Allah is more specifically ordering not to give bribery i.e. addressing the giver.

Some of the Muslims who enjoy being a part of this filthy sin put forward one stupid excuse in their defense. These are those who are in influential positions and are busy minting money through bribery. They say that it is not haraam to take bribery from Non-Muslims. What a mockery? I feel pity for people who put forward such false excuses to act like an ostrich (an ostrich has a tendency of hiding her face in her feathers and feeling that now no one can see her since she cannot see anyone). Please get out of this disillusion. Islam does not allow any Muslim to eat property of any Non-Muslim unjustly. Islam doe

"Allah does not forbid you to deal justly and kindly with those who fought not against you on account of religion nor drove you out of your homes. Verily, Allah loves those who deal with equity."

(Aayah No. 8, Surah Al-Mumtahanah, Chapter No. 60, Holy Qur'an).

This aayah tells us that we have to deal justly even with Non-Muslims. Therefore, all earnings accumulated through bribery in such a manner are haraam.

And the sin of bribery is not limited to the giver and taker only; in fact every person who is linked to any such deal, like a middleman or a mediator, is also involved in this sin.

When gifts turn into bribery (and / or Riba')

Islam advocates exchange of gifts among the fellow Muslims. Giving and taking of gifts may involve some persons who are placed in high influential positions. But the gifts should not be confused with bribery. Both are totally different. Gifts are encouraged in Islam, whereas bribery is prohibited in Islam. However, there is one case where gifts take shape of bribe (or even Riba'). Following verse of Holy Qur'an tells us about it:

"And that which you give in Riba' (the gifts), in order that it may increase from other people's property, has no increase with Allah."

(Aayah No. 39, Surah Ar-R?m, Chapter No. 30, Holy Qur'an).

This aayah gives a similar message like the one mentioned in the start (Aayah No. 188, Surah Al-Baqarah). There Allah orders us not to bribe the rulers to eat up property of others unjustly. The aayah mentioned above supports it by telling us that if we give gifts to the rulers (or higher officials etc.) in order to get their undue favours with an intention of getting part of others' property unjustly, then such a gift is Riba'.

One exception

We have talked about the sin of bribery giver. We have talked about sin of bribery taker. However, there is one exception for the one who gives bribe in one particular case. It is allowed to give bribe if a person is not able to attain his / her rights in any other normal way. If a person is deprived of his rights, there is no harm on his part to give the bribe he is asked for in order to get his rights. In such a case, the sin is totally on the taker, the receiver. However, this is the last resort to be adopted by a Muslim.

There is a unanimous consensus among all the scholars of all school of thoughts on this exception.

Concluding Remarks

All of us know that bribery is a big sin, either way, giving or taking. Still the attachment to the worldly things is so deep and strong that it doesn't allow us to look beyond. Give a thought to what are the after-effects of bribery. The more bribery gets prevalent, the bigger becomes the gap between the rich and poor. People get a taste of blood and gradually start living on haraam earnings. They become complacent towards the responsibilities of their duties. Corruption gets deep rooted. One who pays a hefty sum (as a bribe) to get a government position tends to get back his money and more from others, and it goes on and on. To sum it up, it leads to a series of wrong-doings. This spreads and maligns the society at a rate much faster than what cancer does to the body of a victim.

Remember, it is not correct on part of a Muslim to be a part of bribery system. It is prohibited for a Muslim to take bribe, to give bribe and to be a mediator in any of the deals based on bribery.

Stay away from this sin. If we cannot stop this sin then at least we can do our part by not being a part of it in any manner.

Get up. Do the needful. Clean yourself.IFITS
ITS
Remove this malignancy from the society.

And Allah knows best.

May Allah forgive me if I am wrong and guide us to the right path…Ameen.


s not allow any Muslim to oppress any Non-Muslim. Refer to following verse of Holy Qur'an:??

No comments:

Post a Comment