Tuesday 19 December 2017

مریض کو وینٹیلیٹر پر رکھا جائے؟

مریض کو وینٹیلیٹر پر رکھا جائے یا ہٹا دیا جائے، شریعت کا کیا حکم ہے؟
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
سوال: ایک مریض وینٹی لیٹر پر ہے اور ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وینٹی لیٹرسے ہٹانے پر کچھ دیر میں سانس چلنا بند ہو جائیگی اور وینٹی لیٹر پر رہنے سے کچھ دن مزید سانس چلتی رہے گی.
   تو سوال یہ ہے کہ کیا ان کو ایسی حالت میں وینٹی لیٹر پر سے ہٹا لینا جائز ہے یا نہیں؟
    ورثاء صاحب استطاعت ہیں کہ وینٹی لیٹر پر رکھے رہنے کے اخراجات اٹھانے کے متحمل ہیں بینوا توجروا فقط
المستفتی ادارہ تحقیق المسائل الہ آباد یوپی انڈیا

الجواب: حامداومصلیاومسلما:
اولا اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ وینٹیلیٹر کیا کام کرتا ہے، اس مشین کا کام یہ ہے کہ جب انسان کے پھیپھڑوں میں آکسیجن منتقل کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے تو وینٹیلیٹر کے ذریعہ  پھیپھڑوں میں آکسیجن پہونچایا جاتا ہے پھر یہاں سے آکسیجن دل کے خون میں پہونچتا ہے اور پھر خون پورے بدن میں گردش کرتا ہے.
واضح رہے کہ عوام میں یہ بات قطعا غلط پھیلی ہے کہ وینٹیلیٹر لگانےکا مطلب انسان کا آخری وقت ہے، کیوں کہ دسیوں بار ایسا ہوا ہے کہ وینٹیلیٹر کے بعد انسان صحت مند ہوکر گھر لوٹا ہے، بعض مرتبہ وینٹیلیٹر وقتی طور پر طاقت پہنچانے کے لئے لگایا جاتا ہے کہ جب اسکی ضرورت ختم ہوجاتی ہے توپھر آدمی کا دل اور پھیپھڑے اپنے بل پر کام کرنا شروع کردیتےہیں.
اور بعض مرتبہ آدمی کا دل اور پھیپھڑے اتنےکمزور ہوجاتے ہیں کہ وینٹیلیٹر کے بغیر دل سے سارے بدن میں خون پہونچانا مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ پھیپھڑے دل کے خون تک آکسیجن پہونچا نہیں پاتے اب اگر وینٹیلیٹر ہٹا لے تو دل اور پھیپھڑےآہستہ آہستہ کام کرنا بند کردیتے ہیں اور انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے.
اب صورت مسؤلہ میں ڈاکٹر سے واضح طورپر پوچھا جائے کہ وینٹیلیٹر کے ذریعہ پھیپھڑے اور دل کی قوت لوٹ آنے کا یقین ہے یا نہیں؟ اگر ڈاکٹر یہ جواب دیتا ہے کہ یہ دونوں اعضاء اتنے کمزور ہوگئے کہ وینٹیلیٹر کے بعد آہستہ آہستہ کام کرنا بند کردیں گے تو اس صورت میں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہسپتال میں انتقال ہو اس کی بہ جائے گھر پر کلمہ طیبہ اور قرآن مجید کی اواز کان میں جارہی ہو، ایسی حالت میں موت ہو.
اور اگر ڈاکٹر جو کہ امانت دار ہو (بلاوجہ وینٹیلیٹر پر رکھ کر بل بڑھانا نہ چاہتا ہو) کہتاہے کہ دوبارہ صحتمند ہونے کا یقین ہے تو وینٹیلیٹر پر رکھا جائے اور کوشش جاری رکھیں. 
فقط والله تعالى أعلم وعلمہ اتم واحکم.
کتبہ: مفتی جنید بن محمد عفی عنہ پالنپوری
دارالافتاءوالإرشاد، مجلس البرکہ (کولابہ، ممبئی)
مؤرخہ ٢٤ ربیع الاول  ١٤٣٩ ہجری
muftijunaid1979@gmail.com
9820992292

مریض سے مصنوعی تنفس کے آلات کب ہٹائے جاسکتے ہیں؟
سوال: کسی بھی بیماری کے نتیجے میں جب مریض موت کے قریب پہنچ جاتاہے تو اس کے جسم کا ایک ایک عضو بے کار ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں اس مریض کو مشین (Ventilator) کے ذریعے مصنوعی تنفس دیاجاتاہے۔ بلڈپریشر کم ہونے لگے تو اسے نارمل رکھنے کے لیے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ خون میں سوڈیم، پوٹاشیم وغیرہ کی کمی ہوجائے تو ان کو بھی خون کی رگوں میں چڑھایاجاتاہے۔ ایسا مریض (Care Unit Intensive) I.C.U میں مشینوں اور نلکیوں کے درمیان گھِری ہوئی ایک زندہ لاش کے مانند ہوتا ہے۔ طب میں ایک اصطلاح ’دماغی موت‘ (Brain Death) کی استعمال ہوتی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اگر انسانی دماغ کو آکسیجن نہ ملے تو چار منٹ کے اندر اس کے اہم حصّے (Centers) مرجاتے ہیں۔ دماغی موت کے بعد بھی انسان زندہ رہتا ہے۔ ایسے مریضوں کو اس امید پر جب تک کہ سانس ہے تب تک آس ہے، کئی کئی دنوں تک وینٹی لیٹر پر رکھا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایسے مریض کو، جس کی دماغی موت واقع ہوچکی ہو، وینٹی لیٹر پر جہاں ایک عام آدمی I.C.U کا مہنگا علاج زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کرسکتا۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جہاں I.C.U میں بستروں اور مشینوں کی پہلے ہی سے کمی ہو، وہاں ایسے مریض کو، جس کی زندگی کی امید تقریباً ختم ہوچکی ہو، کئی کئی دنوں تک رکھاجائے تو نئے آنے والے مریضوں کے لئے گنجائش باقی نہیں رہتی۔ جب کہ ان پر زیادہ توجہ دے کر ان کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔
بہ راہِ مہربانی اس مسئلے کو اسلامی نقطۂ نظر سے واضح فرمائیں۔
ڈاکٹر محمد عاطف اسماعیل، 
﴿ایم بی بی ایس، ایم ڈی﴾
نارائنا سُپراسپیشلیٹی ہاسپٹل، نیلور، آندھراپردیش
جواب: اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کی موت کا وقت مقرر کردیا ہے۔ جب وہ آجائے گا تو موت طاری ہونے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْساً اِذا جَآء  اَجَلُھَا ﴿المنافقون:۱۱﴾
’جب کسی کی مہلتِ عمل پوری ہونے کا وقت آجاتاہے تو اللہ اُس شخص کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا۔‘
پہلے کسی انسان کی موت کا فیصلہ ظاہری علامتوں کو دیکھ کر کیاجاتا تھا۔ مثلاً اس کی ایک نمایاں علامت آنکھیں پتھراجانا ﴿کھلی رہ جانا﴾ ہے۔ احادیث میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت ابوسلمہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے، دیکھا کہ ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بند کیا، پھر فرمایا:
ان الروح اذا قبض تبعہ البصر ﴿مسلم، کتاب الجنائز:۹۲۰﴾
’جب کسی شخص کی روح قبض ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اس کی نگاہ بھی سلب کرلی جاتی ہے۔‘
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلاِنْسَانَ اِذَا مَاتَ شَخَصَ بَصَرُہ‘ ﴿مسلم، ۹۲۱﴾
’انسان کی جب موت ہوجاتی ہے تو اس کی آنکھ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے‘
موت کی دوسری علامتوں میں جسم ڈھیلا پڑجانا اور اس میں کسی طرح کی حس و حرکت کا نہ پایا جانا، سانس رک جانا اور حرکت قلب بند ہوجانا بھی ہے۔ جس شخص میں یہ علامتیں ظاہر ہوجاتی تھیں اسے مردہ سمجھ لیا جاتا تھا۔
اب طبّی تحقیقات نے موت کی تفصیلی کیفیت اور اس کی جزئیات فراہم کردی ہیں۔ اس کے مطابق پہلے انسان کا دل اور پھیپھڑے کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ اسے تشخیصی موت Climical deathe) (کہتے ہیں اس کے نتیجے میں دماغ کو آکسیجن کی سپلائی بند ہوجاتی ہے تو تین سے چھ منٹ کے دوران دماغ کے خلیّات کی موت ہوجاتی ہے۔ اسے دماغی موت (Brain Death) کہتے ہیں۔ اس کے بعد جسم کے مختلف اعضاء  کے خلیّات بھی مرنے لگتے ہیں۔ بعض اعضاء  کے خلیّات جلد متاثر ہوتے ہیں ور بعض کے دیر میں اسے خلوی موت (Cellular Death) کہا جاتا ہے۔ موت کے معاملے میں ان تدریجی مراحل میں فیصلہ کن مرحلہ دماغی موت کا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے بعد زندگی کی بنیادی خصوصیات مثلاً ادرک و شعور وغیرہ واپس نہیں آسکتیں۔
وینٹی لیٹر نامی مشین کی ایجادسے اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کچھ عرصے تک تنفس کا عمل بحال اور قلب کی حرکات منضبط رکھی جاسکیں۔ اب اگر دماغ کی کارکردگی بالکل ختم ہوگئی ہو اور اس کے خلیّات کی موت ہوگئی ہو۔ اس کی ظاہری حرکت بالکل مفقود ہوجاتی ہے۔ تو اس کا مطلب یقینی موت ہے۔ اس لیے کہ وینٹی لیٹر کے استعمال کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دماغی موت کے بعد بھی وینٹی لیٹر کا استعمال جاری رہے تو اس کا فائدہ بس اتنا ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے جسم کے مختلف اعضاکو آکسیجن کی مناسب مقدار پہنچتی رہتی ہے۔ اس طرح دوسرے اعضاء  کے خلیّات کو مرنے سے تو نہیں بچایا جاسکتا، البتہ ان کی موت کے عمل کو سست ضرور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر دماغ کی کارکردگی متاثر نہ ہوئی ہوتو زندگی کی طرف واپسی کا امکان باقی رہتا ہے۔ ایسی صورت میں وینٹی لیٹر کااستعمال ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ دماغی خلیّات کو آکسیجن کی فراہمی ہوتی رہے اور ان کی موت نہ ہو۔
اس تفصیل کاحاصل یہ ہے کہ جب تک مریض کی، زندگی کی طرف واپسی کی امید قائم ہو، اس وقت تک علاج معالجے میں کوئی کسر نہیں اٹھائی جائے گی اور اس وقت تک مصنوعی تنفس کے آلات کا استعمال کرنا بھی درست ہوگا۔ اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی رہ نمائی موجود ہے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا:
یَاعِبَادَاللّٰہِ تَدَاوُوا۔ فَاِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَضَعْ دَائً اِلاَّ وَضَعَ لَہ‘ دَوَاء  
﴿ترمذی: ۲۰۳۸، ابوداؤد:۳۸۵۵﴾            
’اے اللہ کے بندو! علاج کراؤ۔ اس لئے کہ اللہ نے کوئی بیماری ایسی نہیں رکھی ہے، جس کا اس نے کوئی علاج نہ رکھا ہو۔‘
مرض کے کس مرحلے پر زندگی کی طرف واپسی کاامکان باقی ہے اور کب اس کا امکان ختم ہوگیا ہے، اس کے بارے میں فیصلہ کن رائے ماہر طبیب کی ہوگی۔ جب وہ یہ رائے دے دے تو علاجی تدابیر موقوف کی جاسکتی ہیں اور مصنوعی تنفس کے آلات بنائے جاسکتے ہیں۔
یہ مسئلہ مختلف ممالک کی فقہ اکیڈمیوں میں زیرغور رہا ہے۔ ماہرین کی تحقیقات اور اصحابِ علم و فقہ کی آراء کی روشنی میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد جو قرار دادیں منظور کی گئی ہیں، ان میں وہی بات کہی گئی ہے جس کا تذکرہ اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے۔ ذیل میں ان قراردادوں کو نقل کیاجاتا ہے:
تنظیم اسلامی کانفرنس (O.I.C) کے زیر اہتمام قائم بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کے تیسرے اجلاس منعقدہ عُمان ﴿اردن﴾ ۱۹۶۸ میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی:
’اگر کسی شخص میں مندرجہ ذیل دو علامتوں میں سے کوئی ایک علامت ظاہر ہوجائے تو شرعاً اسے مردہ تصور کیا جائے گا اور اس پر موت کے تمام احکام جاری ہوں گے۔‘
۱-اس شخص کے دل کی حرکت اور نفس مکمل طور پر اس طرح رک جائے کہ ماہر اطباء  یہ کہیں کہ اب اس کی واپسی ممکن نہیں۔
۲-اس کے دماغ کے تمام وظائف بالکل معطل ہوجائیں اور ماہر اور تجربہ کار اطبائ اس بات کی صراحت کریں کہ یہ تعطل اب ختم نہیں ہوسکتا اور اس کے دماغ کی تحلیل ہونے لگی ہے۔
ایسی حالت میں محرک حیات آلات کو اس شخص سے ہٹالینا جائز ہے، خواہ اس کاکوئی عضو مثلاً قلب محض آلے کی وجہ سے مصنوعی حرکت کررہاہو۔‘ ﴿جدید فقہی مسائل اور ان کا مجوزہ حل، طبع کراچی، ۲۰۰۶، ص:۵۲﴾
رابطہ عالم اسلامی کے تحت قائم المجمع الفقہی الاسلامی مکہ مکرمہ نے اپنے دسویںاجلاس منعقدہ مکہ مکرمہ ۱۹۸۷ میں اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر غور وخوض کے بعد درج ذیل فیصلہ کیا:
’جس مریض کے جسم سے زندگی جاری رکھنے کے آلات لگے ہوں، اگر اس کے دماغ کی کارکردگی مکمل طورپر بند ہوجائے اور تین ماہر اور واقف کار ڈاکٹر اس بات پرمتفق ہوں کہ اب یہ کارکردگی بحال نہیں ہوسکتی ہے تو اس مریض کے جسم سے لگے ہوئے آلات ہٹالینا درست ہے۔ خواہ ان آلات کی وجہ سے مریض میں حرکتِ قلب اور نظام تنفس قائم ہو۔ البتہ مریض کی موت شرعاً اس وقت سے معتبر مانی جائے گی۔ جب ان آلات کے ہٹانے کے بعدقلب اور تنفس اپنا کام بند کردیں۔‘
﴿المجمع الفقہی الاسلامی مکہ مکرمہ کے فقہی فیصلے، طبع دہلی ۴۰۰۲، ص:۱۲۲﴾          
اسلامک فقہ اکیڈمی ﴿انڈیا﴾ نے بھی اس موضوع پر اپنے سولہویں سمینار منعقدہ اعظم گڑھ ﴿یوپی﴾ ۲۰۰۷ میں غور کیا اور بحث ومباحثہ کے بعد درج ذیل تین قراردادیں منظور کیں:
۱-جب سانس کی آمد و رفت پوری طرح رک جائے اور موت کی علامات ظاہر ہوجائیں تب ہی موت کے واقع ہونے کا حکم لگایا جائے گا اور اسی وقت سے موت سے متعلق وصیت کانفاذ، میراث کا اجراء اور عدّت کا آغاز وغیرہ احکام جاری ہوں گے۔
۲-اگر مریض مصنوعی آلہ تنفس پر ہو، لیکن ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس نہ ہوئے ہوں اور امیدہو کہ فطری طورپر تنفس کا نظام بحال ہوجائے گا تو مریض کے ورثے کے لیے اسی وقت مشین کا ہٹانا درست ہوگا، جب کہ مریض کی املاک سے اس علاج کو جاری رکھنا ممکن نہ ہو، نہ ورثہ ان اخراجات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نہ اس علاج کو جاری رکھنے کے لیے کوئی اور ذریعہ میّسر ہو۔
۳- اگر مریض آلۂ تنفس پرہو اور ڈاکٹروں نے مریض کی زندگی اور فطری طورپر نظام تنفس کی بحالی سے مایوسی ظاہر کردی ہوتو ورثے کے لئے جائز ہوگا کہ مصنوعی آلہ تنفس علاحدہ کردیں۔
﴿نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، طبع دہلی ۲۰۰۹، ص:۱۸۷﴾     
http://www.zindgienau.com/Issues/2010/november2010/images/unicode_files/heading9.htm      


No comments:

Post a Comment