Thursday 14 December 2017

علم وعمل اور صلاح و صلاحیت کے پیکر

علم وعمل اور صلاح و صلاحیت کے پیکر
حضرت مولانا مفتی عبداللہ پھول پوری 
ابھی حال ہی میں جن اہم شخصیات کے داغِ مفارقت دینے سے ملتِ اسلامیہ کو واقعی ناقابلِ تلافی صدمات سے دو چار ہونا پڑا ہے اس میں حضرت مولانامفتی عبد اللہ پھول پوری کا سانحہ وفات بھی ہے وہ ابھی 30 نومبر 2017 کو سفرِ عمرہ کے دوران مکہ المکرمہ میں اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے،
علم وعمل اور صلاح و صلاحیت کے پیکر
حضرت مولانا مفتی عبداللہ پھول پوری 
ابھی حال ہی میں جن اہم شخصیات کے داغِ مفارقت دینے سے ملتِ اسلامیہ کو واقعی ناقابلِ تلافی صدمات سے دو چار ہونا پڑا ہے اس میں حضرت مولانامفتی عبد اللہ پھول پوری کا سانحہ وفات بھی ہے وہ ابھی 30 نومبر 2017 کو سفرِ عمرہ کے دوران مکہ المکرمہ میں اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے،
انا للہ وانا الیہ راجعون
وفات کے وقت آپ کی عمر محض 57 سال تھی قسمت کی بلندی کہ انھوں نے’بلد امین‘ میں قابل رشک موت پائی اور وہاں کے تاریخی قبرستان جنت المعلی میں علمائے دیوبند کے سرخیل حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کے پہلو میں آسودہ خواب ہوئے۔
مفتی عبد اللہ پھول پوری اہلِ علم وتصوف کے اس ممتاز حلقے کے فرد تھے جنھیں مصدرِ فیاض نے صراطِ مستقیم کی وضاحت اوراپنے دین کی سربلندی وترجمانی کے لئے موفق فرمایا وہ زمانہ کے مدوجزراور حالات کی ستم ظریفی کا شکوہ نہ کرکے اپنی زبان وقلم اور مجالسِ اصلاح وارشاد سے پریشان امت کی دینی وفکری آبیاری کا ایسا قابلِ عمل فریضہ سر انجام دیتے ہیں کہ ان کے معاصرین کو بھی ان کی اداو ¿ں پر پیار آنے لگتا ہے اور وہ بزبانِ حال یہی کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
مفتی عبد اللہ پھول پوری بھی ان بافیض خدا رسیدہ بندگان میں سے تھے جنھیں خاندانی نسبتوں نے چمک اور روحانی کشش سےبہرہ ور کرنے کے ساتھ اسلاف کی سنتِ متوارثہ کو اپنے اندر جذب کرلینے بلکہ کمالِ فرزانگی کے ساتھ اسے متعدی کرنے کاحوصلہ وسلیقہ وہبی طور پر بخشا تھا، اسی لئے ان کے حلقہ ارادت میں ملک کے نامی گرامی گھرانوں کے جویانِ حق اور طالبین وسالکین نظر آتے ہیں ان کے جدِّ بزرگوارحضرت مولاناشاہ عبد الغنی پھول پوری نے مفتی صاحب کے اندرون پرکیا انقلابی اثرات ڈالے ہوں گے کہ بہت جلد وہ عوام وخواص کے ایک معتدبہ حلقے میں شہرتوں کے آسمان سر کرنے لگے جبکہ روحانیت کا درجہ کمال انھیں محی السنہ حضرت مولانا شاہ محمد ابرار الحق ہردوئی کے دربار سے حاصل ہوگیا تھا جو حکیم الامت مولانا تھانوی قدس سرہ کے براہِ راست خلیفہ و مجاز تھے۔
چنانچہ جیسے ہی میدانِ عمل میں آپ نے قدم رکھا تو سعادت و اقبال مندی ان کے شانہ بشانہ تھی اور شمعِ روحانیت کے پروانے دیوانہ وار ان کے ارد گرد جمع ہونے لگے تھے۔ اللہ نے انھیں بے شمار کمالات سے نوازا تھا وہ عالم باعمل صوفی صافی ولی وعارف اور باصلاح استاذِ حدیث وروشن دماغ مفتی تھے ان کے والد ابو البرکات نے انھیں ابتدائی عربی تا متوسطات کی تعلیم کے بعد جامعہ مظاہر علوم سہارن پور تحصیلِ علم وآدمیت کیلئے بھیجا تھا۔ اس وقت آپ کی عمر محض 21 سال تھی یہ سن 1402 ھجری مطابق 1982 عیسوی کی بات ہے جب آپ نے مختلف کتب کا اہلیتی امتحان دے کر عربی ہفتم (مشکوة) میں داخلہ لیا پھر آئندہ سال اس شان کے ساتھ فاتحہ فراغ پڑھی کہ سالانہ امتحان میں اعلی نمبرات سے ظفریاب ہوئے جس کی بنا پر آپ کو خصوصی انعام سے بھی نوازا گیا۔ علم وتحقیق کی انگیٹھی کو مزید گرمانے کیلئے اگلے سال یہیں سے افتا کی بھی تکمیل فرمائی۔ 
مفتی عبد اللہ اپنے درسی ساتھیوں میں صلاح واستعداد کے لحاظ سے خاصے نیک نام تھے اس لئے فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسین اجراڑوی چاہتے تھے کہ ان کا تقرر برائے تدریس جامعہ مظاہر علوم میں کرلیا جائے لیکن قسامِ ازل نے مدرسہ بیت العلوم سرائے میر کی وقیع خدمت آپ کے حق میں لکھی تھی چنانچہ آپ عملا اسی ادارہ سے وابستہ ہوگئے جہاں بتدریج وہ شیخ الحدیث اور دارالاہتمام تک پہنچے انہوں نے قلیل سے زمانی رقبے میں مدرسہ کو مکانی وسعتوں سے نہ صرف مالامال کیا بلکہ متعدد تعلیمی شعبوں کے اضافے کے ساتھ ملکی سطح پر اسے مستحکم شناخت سے بھی آشنا کیا۔
جامعہ کے تعارف ومقاصد اور ابلاغِ دین کیلئے وہاں سے ایک دینی واصلاحی اور علمی رسالہ بنام فیضانِ اشرف شروع کیا جو تقریبا ڈیڑھ دہائی سے پابندی کے ساتھ مسلسل اشاعت پذیر ہے اور قلم وکتاب کے رسیا اس سے استفادہ کرتے ہیں مفتی صاحب ہی اس کے شذرات لکھتے تھے ان کی یہ خوبی بھی قابلِ ذکر ہے کہ وہ ہر موضوع پر اس کے ادارتی صفحات پہ اپنا واضح موقف رکھتے تھے بلکہ بسااوقات سیاسی احوال وظروف پر بھی ان کی باوزن تحریریں ملک کے سیاسی منظر نامہ کو سمجھنے میں سنگِ میل کا کام کرتی تھیں ان کے نام اور کام سے واقفیت تو غالبا ان کی نگارشات سے ہی ممکن ہوئی تھی حسنِ اتفاق کہ کئی سال پیشتر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے کسی ہال میں حکیم الامہ مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ پر منعقد ہوئی کانفرنس میں جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کی نسبت پر یہ خاکسار بھی شریک ہوا تھا۔ اس علمی سمینار میں ملک کی عبقری شخصیات کے ساتھ ہمارے ممدوح مفتی عبد اللہ پھول پوری بھی تھے۔
ویسے تو وہ اپنی وضع قطع اور عالمانہ رنگ وآہنگ کے اعتبار سے ہی ناظرین پر ایک خوش گوار اثر چھوڑ دیتے تھے مگر یہاں کا تو ماحول بھی ان کے حق میں سازگار ثابت ہوا۔ چنانچہ جیسے ہی انھیں اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تو وہ اپنے اسلوبِ خطابت مدلل گفتگو اور ساحرانہ زبان و بیان کی معرفت حاضرین پر چھاگئے عنوانِ سمینار کے تناظر میں وہ گویا ہوئے ان کے یہاں معلومات کی ترسیل مطلب خیز عبارت والفاظ کا انتخاب چست جملے اورمتاثر کن اظہارِ تعبیر کاملکہ وافر مقدار میں محسوس ہوتا تھا۔
ایک دوسرے موقع پر انہوں نے ائمہ اور موذنین کے مسائل وفرائض پر ایسا چشم کشاخطاب فرمایا تھا کہ سامعین محوِ حیرت گوش بر آواز تھے اور بقدر ظرف مستفید ہورہے تھے۔
 محمد ساجد کھجناوری
مدیر ماہ نامہ صدائے حق گنگوہ

No comments:

Post a Comment