Monday 18 December 2017

نوافل کی جماعت اور رکوع سے پہلے سجدہ تلاوت

نوافل کی جماعت
سجدہ تلاوت رکوع سے پہلے کیوں ہے؟ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں:
سوال1۔۔۔ ہم نے تو پڑھا اور سنا بھی ھے کہ فرض اور واجب نمازوں کو ہی جماعت سے پڑھنے کی اجازت ھے نفل اور سنن نمازوں کی جماعت درست نھی ھے تو سوال یہ ہیکہ تراویح کی نماز بھی سنت ھے اس کو جماعت سے کیوں پڑھتے ہیں؟؟؟
2۔۔۔رمضان میں عرب میں تہجد کی نماز جماعت سے کیوں ھوتی ھے جبکہ یہ نفل نماز ھے؟
3۔۔۔۔ہمنے یہ بھی پڑھا ھے کہ نماز میں رکوع سے پہلے سجدہ کرنے سے نماز فاسد ھو جاتی ھے لیکن ھم دیکھتے ھیں تراویح میں اور جمعہ کی فجر کی نماز میں سورت سجدہ میں جب سجدہ تلاوت آتا ھے تو امام صاحب رکوع سے پہلے سجدہ  کرتے ھیں ایسا کیوں کرتے ھیں؟؟؟؟
براہ کرم تینوں مسئلوں پر مدلل اور محقق روشنی ڈالئے نوازش ہوگی
نور الحسن القاسمی پڑتاب گڑھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
(1۔۔2) نفل نمازوں میں صرف صلاۃ التراویح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جماعت کا اہتمام کرنا ثابت ہے، باقی نفل نمازوں میں جماعت کا اہتمام نہیں فرماتے تھے،
دیکھئے : سنن أبي داؤد، حدیث نمبر: ۱۳۷۳، باب في قیام شھر رمضان۔ محشی ۔
یوں حضرت امّ سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت عتبان بن مالک ص اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہاں نفل نماز میں اتفاقا ایک دو آدمی کا شریک ہوجانا ثابت ہے،
بَاب مَنْ لَمْ يَرَ رَدَّ السَّلَامِ عَلَى الْإِمَامِ وَاكْتَفَى بِتَسْلِيمِ الصَّلَاةِ
804 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ وَزَعَمَ أَنَّهُ عَقَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا مِنْ دَلْوٍ كَانَ فِي دَارِهِمْ قَالَ سَمِعْتُ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الْأَنْصارِيَّ ثُمَّ أَحَدَ بَنِي سَالِمٍ قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بَنِي سَالِمٍ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَإِنَّ السُّيُولَ تَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي فَلَوَدِدْتُ أَنَّكَ جِئْتَ فَصَلَّيْتَ فِي بَيْتِي مَكَانًا حَتَّى أَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا فَقَالَ أَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ مِنْ الْمَكَانِ الَّذِي أَحَبَّ أَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ
صحيح البخاري
الْجَمَاعَةُ لِلنَّافِلَةِ
844 أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَحْمُودٍ عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ السُّيُولَ لَتَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي فَأُحِبُّ أَنْ تَأْتِيَنِي فَتُصَلِّيَ فِي مَكَانٍ مِنْ بَيْتِي أَتَّخِذُهُ مَسْجِدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَنَفْعَلُ فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيْنَ تُرِيدُ فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنْ الْبَيْتِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ
سنن النساي. كتاب الإمامة
نصربن علی، عبدالاعلی، معمر، زہری، محمود، عتبان بن مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے مکان سے لے کر مسجد تک ندیاں ہیں (جو موسم برسات میں زور شور سے بہتی ہیں جس کی وجہ سے راستہ طے کرنا سخت دشوار ہوتا ہے) اس وجہ سے میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے مکان پر تشریف لے چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ پر نماز ادا فرما لیں تو میں اس کو نماز کی جگہ بنا لوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اچھا ہم تمہارے ساتھ چلیں گے۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دریافت کیا تم کو کونسی جگہ نماز پڑھنے کی خواہش ہے؟ میں نے عرض کیا اس جگہ پر۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں صف باندھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات ادا فرمائیں (یعنی نفلی نماز جماعت سے)۔
لیکن اس طرح نفل کی جماعت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمومی معمول نہیں تھا ،اس لئے فقہاء حنفیہ نے تداعی یعنی لوگوں کو دعوت دے کر اہتمام کے ساتھ نفل نماز کی جماعت کرنے کو منع کیا ہے ،اور اگر پابندی کے ساتھ نفل نماز کی جماعت کی جائے تب تو شدید کراہت ہے۔ 
’’نعم ان کان مع المواظبۃ کان بدعۃ فیکرہ.‘‘ (رد المحتار 500/2)۔
اس لئے نمازِ تہجد اور نمازِ تسبیح وغیرہ کو انفرادی طورر پر ادا کرنا ہی مناسب ہے۔شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک نفل کی جماعت کی جاسکتی ہے۔ اس لئے سعودیہ وغیرہ میں اس پر عمل ہے۔ حنفیہ کے یہاں اگر تین آدمی سے زیادہ لوگ  جماعت میں شریک ہوں تو نفل کی جماعت مکروہ تنزیہی ہوگی۔
تُسَنُّ الْجَمَاعَةُ لِصَلاَةِ الْكُسُوفِ بِاتِّفَاقٍ بَيْنَ الْمَذَاهِبِ، وَتُسَنُّ لِلتَّرَاوِيحِ عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ وَالشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ. وَهِيَ مَنْدُوبَةٌ عِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ، إِذِ الأَْفْضَل الاِنْفِرَادُ بِهَا - بَعِيدًا عَنِ الرِّيَاءِ - إِنْ لَمْ تُعَطَّل الْمَسَاجِدُ عَنْ فِعْلِهَا فِيهَا. وَتُسَنُّ الْجَمَاعَةُ كَذَلِكَ لِصَلاَةِ الاِسْتِسْقَاءِ عِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ وَالشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ، أَمَّا عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ فَتُصَلَّى جَمَاعَةً وَفُرَادَى عِنْدَ مُحَمَّدٍ، وَلاَ تُصَلَّى إِلاَّ فُرَادَى عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ. وَتُسَنُّ الْجَمَاعَةُ لِصَلاَةِ الْعِيدَيْنِ عِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ وَالشَّافِعِيَّةِ. أَمَّا عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ فَالْجَمَاعَةُ فِيهَا وَاجِبَةٌ. وَيُسَنُّ الْوِتْرُ جَمَاعَةً عِنْدَ الْحَنَابِلَةِ
وَبَقِيَّةُ التَّطَوُّعَاتِ تَجُوزُ جَمَاعَةً وَفُرَادَى عِنْدَالشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ، وَتُكْرَهُ جَمَاعَةً عِنْدَ الْحَنَفِيَّةِ إِِذَا كَانَتْ عَلَى سَبِيل التَّدَاعِي، وَعِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ الْجَمَاعَةُ فِي الشَّفْعِ وَالْوِتْرِ سُنَّةٌ وَالْفَجْرُ خِلاَفُ الأَْوْلَى. أَمَّا غَيْرُ ذَلِكَ فَيَجُوزُ فِعْلُهُ جَمَاعَةً، إِلاَّ أَنْ تَكْثُرَ الْجَمَاعَةُ أَوْ يَشْتَهِرَ الْمَكَانُ فَتُكْرَهُ الْجَمَاعَةُ حَذَرَ الرِّيَاءِ .
وَالتَّفْصِيل يُنْظَرُ فِي (صَلاَةُ الْجَمَاعَةِ - نَفْلٌ)
تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں
البدائع 1 / 274، 280، 298، والشرح الصغير 1 / 152، وجواهر الإكليل 1 / 74، 76، ونهاية المحتاج 1 / 102، 120، وشرح منتهى الإرادات 1 / 224، والمغني 2 / 142، ونيل المآرب 1 / 204 ط الفلاح.)
3۔۔۔۔۔۔۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آدمی آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا بھاگتا ہے اور افسوس کرتا ہے کہ انسان کو سجدہ کا حکم بجالاکر مکرم بنادیا گیا اور میں سجدہ نہ کرکے محروم رہ گیا۔ (مستفاد: معارف القرآن ۴؍۱۷۰)
عن أبي ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا قرأ ابن آدم السجدۃ فسجد اعتزل الشیطان یبکي یقول: یا ویلک وفي روایۃ یا ویلي، أمر ابن أدم بالسجود فسجد فلہ الجنۃ و أمرت بالسجود فأبیت فلي النار۔ (صحیح مسلم، الإیمان / باب بیان إطلاق إسم الکفر علی من ترک الصلاۃ ۱؍۶۱ رقم ۸۱)
اسی لئے  سجدہ تلاوت کے وجوب کی ادائیگی میں اس وقت گنجائش رہتی ہے جب کہ سجدہ تلاوت کو واجب کرنے والی چیز نماز کے باہر پائی جائے ، لہذا اگر نماز کے باہر سجدہ تلاوت کو مؤخر کرے تو گنہ گار نہ ہوگا، لیکن اس کو تاخیر سے ادا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ حوالہ
عن أَبي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيّ قَالَ لَمَّا بَعَثْنَا الرَّكْبَ قَالَ أَبُو دَاوُد يَعْنِي إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ كُنْتُ أَقُصُّ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَأَسْجُدُ فَنَهَانِي ابْنُ عُمَرَ فَلَمْ أَنْتَهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ عَادَ فَقَالَ إِنِّي صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَلَمْ يَسْجُدُوا حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ (ابوداود بَاب فِيمَنْ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ ۱۲۰۶)
بند

لیکن سجدۂ تلاوت تنگی کے ساتھ یعنی فوراً اس وقت واجب ہوتا ہے جب کہ اس کا موجب (واجب کرنے کا سبب) نماز میں پایا جائے، اس طرح کہ نماز کی حالت میں آیت سجدہ کی تلاوت کرے، اس حالت میں اس کی ادائیگی فوری واجب ہوگی تاخیر کی گنجائش نہیں رہے گی۔
عن أبي إسحاق قال سمعته يقول قال ابن مسعود :إذا كانت السجدة آخر السورة فاركع إن شئت أو اسجد فإن السجدة مع الركعة (المعجم الكبير، عبد الله بن مسعود الهذلي يكنى أبا عبد الرحمن ۱۴۳/۹)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment