Thursday 21 December 2017

تین طلاق پر تین سال کی سزا

۲۲؍ اگست ۲۰۱۷ء کی تاریخ تھی، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے تین طلاق کے موضوع پر اپنا فیصلہ سنادیا، جس میں پانچوں ججوں کے فیصلہ میں کئی جگہ اختلاف رائے تھا، اس لئے فیصلہ اکثریتی فیصلہ سے ہؤا، اس فیصلہ میں خاص طور پر دو باتیں تھیں، ایک تو یہ کہ پرسنل لا بنیادی حق ہے، اس لیے اس میں نہ سپریم کورٹ تبدیلی کرسکتی ہے، اور نہ پارلیمنٹ اس کے خلاف قانون سازی کرسکتی ہے، فیصلہ کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ اگر کسی نے بیک وقت تین طلاق دی تووہ طلاق کالعدم ہوگی، اور ازدواجی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، اس فیصلہ پر کئی تأثرات اور کئی تبصرے آئے، مرکزی حکومت کے وزیر قانون نے اعلان کیا کہ اس فیصلہ کے بعد کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن جیسے جیسے گجرات الیکشن کی فضا گرم ہوئی وزیر اعظم کو مسلمان مطلقہ عورتوں کی یاد ستانے لگی، اور مرکزی حکومت کا اعلان آگیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تو ہوگیا، مگر مسلم مردوں نے تین طلاق دینا بند نہیں کیا ہے، اس لیے کڑی قانون سازی ہوگی۔ گروپ آف منسٹرس بنائے گئے ، اس نے قانون کا مختصر مسودہ بنادیا، اور اسے خط کی شکل میں صوبائی حکومتوں کو بھیجا گیا، تاکہ وہ رائے دیں، ابھی تمام صوبوں سے رائے نہیں آئی ہے، اتنا معلوم ہے کہ تلنگانہ، آندھرااور کیرالہ نے اس قانون کی مخالفت کی ہے۔
۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۷ء کو مرکزی کیبنٹ نے اس مسودہ قانون کو منظوری دیدی، اور اب کسی بھی دن وہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوگا، پھر بحث ہوگی اور اگلے مرحلے طے پائیں گے___ کانگریس پارٹی نے رائے دیدی ہے کہ اگر یہ بل سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہوگا تو وہ تائید کرے گی، ورنہ مخالفت! دوسری پارٹیوں کی رائے بھی آہستہ آہستہ سامنے آجائے گی، ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ راجیہ سبھا میں یہ بل منظور ہوگا یا نہیں۔
یہ طے ہے کہ اس بل میں دو چیزیں ہیں، ایک تو یہ کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے والوں کو کریمنل لا کے تحت سزا ہوگی، جس کی مدت تین سال ہے، اس کے علاوہ اسے پینلٹی بھی دینی ہوگی، جس کی تعیین عدالت میں ہوگی ___حکومت نے کریمنل لا کے تحت تین سال کی سزاتو طے کردی، مگر سوال یہ ہے کہ یہ سزا کس کریمنل آفنس کی ہے؟ اگر ایک ساتھ تین طلاق دینا کریمنل آفنس ہے تو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیدیا ہے کہ تین طلاق دینے سے طلاق نہیں ہوگی، اس طرح سپریم کورٹ نے تین طلاق کو پہلے ہی بے اثر کردیا ہے، اور ’حکومت بے اثر جرم‘ کی سزا تین سال مقرر کررہی ہے، اور اس کے ساتھ پنلٹی بھی ہے، تو یہ سپریم کورٹ سے طے شدہ بے اثر جملہ یا لفظ کوجرم قرار دینا ہے، جب کہ کوئی بھی بے اثر چیز کرائم نہیں ہوسکتی ___اگر قانون سازی یہ ہو کہ تین طلاق دینے والے کی بات مؤثر ہوگی اور تینوں طلاق پڑ جائے گی، تو پھر تین سال کی سزا کے قانون میں کچھ معقولیت ہوتی۔
دوسری اہم چیز یہ ہے کہ بے اثر جرم کے خلاف حکومت تین سال کی سزا متعین کرنے جارہی ہے، کیا انڈین پینل کوڈ کی سزائوں سے اس کی مطابقت ہے، تین سال کی سزا اغوا /زناکاری جیسے جرائم پر دی جاتی ہے، کئی بڑے جرائم ہیں، جن کی سزا تین سال سے کم ہے، مثلاً رشوت پر ایک سال، مذہبی مقامات کو نقصان پہنچانے پر دوسال، فورجری پر دو سال، چار سو بیسی پر ایک سال ، ملاوٹ پر چھ ماہ، یا ایک ہزار روپے (یا دونوں) جیسی سزائیں متعین ہیں، تو کیا تین طلاق (سپریم کورٹ کے مطابق جن کا نہ بیوی پر اثر ہوتا ہے، نہ بچوں پر، نہ خاندان پر) اتنا بڑا ’جرم‘ ہے کہ اسے اغوا جیسے جرائم کے برابر سمجھ لیاجائے، سزاؤں کو متعین کرنے میں کچھ توازن تو ہونا ہی چاہئے!
مرکزی کیبنٹ نے تین سال کی سزا کے ساتھ بیوی بچوں کا خرچ بھی طلاق دینے والے پر عائد کیا ہے، کیبنٹ کو یہ بھی سونچنا چاہئے کہ مرد جیل چلا جائے گا، تو یہ خرچ کون دے گا؟ اس سے بہتر تو حکومت بہار نے کیا ہے، کہ مطلقہ کو پچیس ہزار روپے سالانہ وظیفہ دیتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یہ مان لیا ہے کہ سماجی بیماریوں کا علاج کڑی سزا ہے، جب کہ کرائم رپورٹ اس کی تائید نہیں کرتی___ پچھلے چند برسوں میں مجرمانہ حرکت پر نگاہ ڈالیں تو جتنی شہرت اور جتنا عوامی احتجاج نربھیا حادثہ پر ہؤا ، اتنا کسی انفرادی حادثہ پر نہیں ہؤا، اس حادثہ نے پورے ملک کے شعور کو جھنجھوڑکر رکھدیا، اور کسی اپیل کے بغیر ہزاروں افراد بڑے بڑے شہروں میں سڑکوں پر اتر آئے، کئی بڑے لیڈروںنے بیان دیدیا کہ مجرم کو اسلامی سزا دینی چاہئے، شور شرابہ کے تحت قانون بن گیا ___مگر کیا عورتوں کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ کم ہوگیا؟ رکنے کی بات دور کی ہے! ہاں یہ بھی عجیب بات ہے کہ آج مرکزی وزارت نے تین طلاق پر تین سال کی سزا کے مسودہ کو منظور کیا ہے، آج ہی یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، (۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۷ء )اور ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو نربھیا کے ساتھ اندوہناک حادثہ ہؤا تھا۔ اس پانچ سال کے عرصہ میں جرائم بڑھے ہیں. ۲۰۱۶ء میں کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ایک ہزار خواتین پر جرائم کی تعداد۲ ء۵۵ رہی ہے، خواتین کے خلاف تشدد کا معاملہ بڑھا اور پچھلے دس سال (۲۰۱۶ء تک) میں ۸۸؍ فیصد اضافہ ہؤا، جب کہ ۲۰۱۶ء میں ۹ء۱۸ فیصد مجرم کو ہی سزا دی گئی، دہلی میں ۲۰۱۶ء میں روزانہ پانچ واقعات عصمت کے درج ہؤ ا کئے ہیں، دہلی جنسی ہراساں کی اوسط شرح ۳ء ۲۶ فیصد ہے۔
یہ تھوڑی سی تفصیل بتاتی ہے کہ سماجی بیماریوں کا علاج سخت بنادینانا کافی ہے، اس کے لئے لوگوں کو سمجھانا، انہیں ذمہ داریوں کو یاد دلانا اور ذہن سازی کروانا بہت اہم ہے، جس کی سمجھ میں آجانیوالی مثال یہ ہے کہ مسلمانوں میں ۲۲؍ اگست ۲۰۱۷ء تک طلاق بہت آسان رہی ہے، دوسرے مذہب کے ماننے والوں میں طلاق مشکل رہی ہے، اور طلاق کورٹ سے ہوتی ہے، جس میں بڑا وقت لگتا ہے، جس کے نتیجہ میں ابھی ۳۲؍ لاکھ ہندو عورتیں بغیر طلاق، شوہر سے الگ مجبوری کی زندگی گذار رہی ہیں، انہیں میں ایک وزیر اعظم نریندر مودی کی اہلیہ محترمہ بھی ہیں___ اور جن لوگوں کو قانونی طلاق ہوئی ہے، قومی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ہندو، پھر عیسائی، سکھ، بودھ، جینی حضرات کے یہاں طلاق ہوئی ہے، اور سب سے کم طلاق مسلمانوں میں ہؤا کی ہے، اصل میں یہ اثر ہے مسلم پرسنل لا بورڈ، مسلمانوں کی دوسری جماعتوں ، علماء اور ائمہ کے سمجھانے بجھانے اور مزاج سازی کا!
مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم
جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ







No comments:

Post a Comment