Tuesday 5 December 2017

نشہ کی عادت؛ انفرادی مصیبت، سماجی لعنت

انسان کا جسم خدا تعالیٰ کی امانت ہے اور امانت میں خیانت بڑا سنگین جرم ہے، نشہ چاہے شراب کا ہو یا گانجہ، افیون، چرس کا، یا پھر نئی ایجادات٬ انجکشن اور دیگر آلات کے ذریعہ نشہ آور سیال جسم میں اتار کر ’’سرورو بیخودی‘‘ حاصل کرنے کی راہ سے، ہے بہرحال خدا تعالیٰ کی امانت میں خیانت لیکن آج کے دور کا لذت پسند انسان تھوڑی دیر کی لذت کے لئے، زندگی کے مختلف معاملات و مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے کی غرض سے
’’یک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے‘‘
کے احساس کے ساتھ اپنے آپ کو نشہ آور چیزوں کے سپرد کردیتا ہے جس سے خود اس کے جسم و جان کا بھی نقصان ہوتا ہے، مال بھی دریا برد ہوتا ہے اور انسانی سماج پر بھی اس کے برے اثرات پڑتے ہیں۔
    قدیم دور سے انسان زندگی کے مسائل و مشاکل سے فرار کے لئے نشہ آور چیزوں کا سہارا لیتا ہے لیکن موجودہ دور میں منشیات کو جو فروغ حاصل ہوا ہے اور جس وسیع پیمانے پر اس لعنت کو پھیلانے ، بڑھانے اور ’’مقبول خاص و عام‘‘ بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں ، اب سے پہلے شاید اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، علم و ہنر اور تعلیم و ترقی کے اس عہد میں نشہ انسانوں پر کچھ اس طور پر حاوی ہوچکا ہے کہ قوت و صلاحیت، عزت ودولت، زروزمین، سرمایہ اور جوانی سب کچھ اس لعنت کی نذر ہورہے ہیں، جدید تحقیق کے مطابق آج کی دنیا میں موت کی دوسری سب سے بڑی وجہ’’نشہ‘‘ ہی ہے، صرف سگریٹ نوشی کے سبب ہر سال دنیا میں چھ ملین سے زائد افراد مرتے ہیں، دیگر اور نشے کی چیزوں کو اس میں شامل کرلیا جائے تو ہلاک ہونے والوں کی تعداد کتنی ہوگی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، ایک جدید تحقیق کے مطابق دس میں سے ایک بالغ شخص کی موت کا سبب تمباکو نوشی ہے۔
    منشیات ہلاکت کا سبب تو ہیں ہی، اسی کے ساتھ ساتھ مختلف جسمانی بیماریاں بھی ان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جو انسانی جسم کو کمزور، صلاحیتوں کو کند، اور ہمت کو پست کردیتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اچھا بھلا انسان چلتی پھرتی لاش بن جاتا ہے. نشہ کے سبب پیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں میں سرفہرست دماغی بیماریاں ہیں، اطباء نے نشہ کرنے والوں کے جسم پر ریسرچ کرکے بتایا ہے کہ نشہ کی وجہ سے دماغ کی کارکردگی اور فعالیت متاثر ہوتی ہے، جو نظام جسمانی کے سست ہوجانے کا سبب ہے، یہیں سے مرگی، مالیخولیا، نسیان اور جنون کے دروازے کھلتے ہیں اعصابی امراض، رعشہ فالج، گردوں اور بینائی کی کمزوری کا بھی بڑا سبب نشہ ہی ہے۔ امراض تنفس اور معدے کا سرطان بھی اسی کی دین ہے. یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے طبی ماہرین کی تحقیق ہے کہ شراب نوشی کے سبب کینسر جیسی خطرناک بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، اس لئے کہ شراب نوشی کی کثرت جسم کی قوت مدافعت کو کمزور کردیتے ہیں جس کے بعد کینسر کے جراثیم کو روکنے کی قوت جسم میں باقی نہیں رہتی۔
    جسمانی بیماریوں کے علاوہ منشیات کا استعمال روحانی بیماریوں کا بھی بڑا ذریعہ ہے، حدیث شریف میں شراب نوشی کو برائیوں اور ناپاک چیزوں کی جڑ بتایا گیا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نشہ کے سبب برے کاموں کی عادت نشہ کرنے والے میں پیدا ہوجاتی ہے، خود کلام پاک میں بھی شراب نوشی کو بغض اور دشمنی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے. چنانچہ سورہ مائدہ آیت نمبر۹۱ میں؛
اِنَّمَا  یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ  اَنْ  یُّوْقِعَ   بَیْنَکُمُ  الْعَدَاوَۃَ  وَ الْبَغْضَآئَ  فِی  الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ
میں جہاں شراب سے رک جانے کا حکم دیا گیا وہاں یہ بات بھی ذکر کی گئی ہے کہ
"شیطان یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوا کے سلسلے میں تمہیں باہمی بغض و عناد میں مبتلا کردے اور اللہ کی یاد اور نماز سے تمہیں روک دے."
(سورہ مائد،آیت:۹۱)
ان بڑی روحانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ایک بہت بری عادت عام طور پر نشہ کرنے والوں میں دیکھی گئی ہے وہ ہے چوری اور گر ہ کٹی کی عادت، ہر آدمی کے پاس قارون کا خزانہ تو نہیں ہے وہ اطمینان سے اپنی گرہ سے مال خرچ کر کے نشہ کرتا رہے ، جب اپنی جیب خالی ہوجاتی ہے تو نشہ بازوں کی نگاہ دوسروں کے مال اور جیب پر پڑنے لگتی ہے ، پھر چوری، رہزنی اور گرہ کٹی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، نشہ کی طلب اچھے اچھوں کو اوچھی حرکت پر مجبور کردیتی ہے ، کتنے تو ایسے بھی ہیں جو نشہ کے حصول کے لئے گاڑیوں کا پٹرول، مکان کے باہر لگے ہوئے بلب ، گھر کے صحن میں رکھے ہوئے معمولی برتن تک چرا کر بیچ دیتے ہیں اور ملنے والی رقم کو افیون اور چرس کے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں۔
     نشہ انسان کے جسمانی نظام پر اس بری طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ اس کی عقل ماؤف ہوجاتی ہے اور ذہن بے قابو، ہاتھ پیر کی حرکت بھی اس کے کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہیں ایسی حالت میں نشہ کرنے والا جو کام بھی کرتا ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ سڑک حادثات کی ایک بڑی وجہ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ بھی ہے، ’پی کر‘ گاڑی چلانے والے اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں اور دوسرے مسافروں کو بھی ہلاکت کی وادی اور موت کی گھاٹی میں پہنچا دیتے ہیں، وطن عزیز میں بحالت نشہ گاڑی چلانا قانوناً جرم ہے، لیکن قانون پر چلنے اور ضابطے کو اپنے آپ پر نافذ نہ کرنے کا مزاج بھی عام ہے، جس کی وجہ سے بحالت نشہ ڈرائیونگ کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہے، اور اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک تہائی سڑک حادثے نشے کے سبب ہورہے ہیں۔
    منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال ملک کا سنگین مسئلہ ہے جس پر غوروفکر اور تجویز و عمل ارباب اقتدار کی اولین ترجیح ہونی چاہئے، تاکہ اس بری لعنت پر قدغن لگے، اور اس سماجی خرابی کا سد با ب کیا جاسکے مگر یہ بھی زمینی سچائی ہے کہ اس دنیا کا سب سے بڑا نشہ، دولت کا نشہ ہے جسے نہ ترشی اتارپاتی ہے نہ یخ بستہ پانی کی دھار، یہ ایسا نشہ ہے کہ جب انسان پر سوار ہوتا ہے تو اسے دائرہ انسانیت سے نکال کر شیطنت کی راہوں پر ڈال دیتا ہے۔؂
نشہ دولت کا بد اطوار کے جس آن چڑھا
سر پہ شیطان کہ ایک اور بھی شیطان چڑھا
    اسی’’نشہ دولت‘‘ کا منشیات کے فروغ میں بنیادی رول رہا ہے اور آج بھی ہے، منشیات کے بڑھتے قدم کو نہ روکنے والے، اور اپنی تجوریوں کو دولت اور جیب و دامان کو سیم و زر سے بھرنے والے بھول جاتے ہیں کہ منشیات کی ناجائز تجارت کرنے والوں کو چھوٹ دے کر وہ لاکھوں انسانوں کی صحت و جوانی، اور دولت وعزت کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں۔
     وطن عزیز میں نشہ کے فروغ کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ آزادی کے وقت ہندوستان میں شراب کے بنانے کے ۸۳؍ کارخانے تھے ،جب کہ آج ان کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے ، شراب کے ان کارخانوں میں ہر سال چالیس ہزار ارب روپئے کی شراب بنائی جاتی ہے ، ماہرین تحقیق کا کہنا ہے کہ ستّر ملین ہندوستانی منشیات کے عادی ہیں ، جن میں سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار انجکشن کے ذریعے نشہ آور سیال اپنے جسم میں اتار رہے ہیں (واضح ہو کہ یہ ۲۰۱۲ء کی رپورٹ ہے ، گزشتہ پانچ سال میں ان اعداد و شمار میں جو اضافہ ہواہے وہ اس کے علاوہ ہے زمانے کی تیزرفتار ترقی نے نشہ کو اور بھی آسان اور سستا بنادیا ہے، اب تو میڈیکل اسٹور پر بھی ایسی دوائیں بآسانی مل جاتی ہیں جن کے استعمال سے نشہ کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے، آسان، سستے، اور سہل الحصول نشہ کے متلاشی نوجوان بڑی تعداد میں ایسی نشیلی دوائوں کا استعمال کررہے ہیں ۔
     نشہ آور چیزیں مہنگی ہوں یا سستی، کم ہوں یا زیادہ، مہلک ہوں یا غیر مہلک اسلام نے انہیں حرام قرار دیا ہے، اور رحمت دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ہر نشے کی چیز سے بچتے رہنے کی تعلیم دی ہے، نشہ کرنے والا اپنے آپ پر، اپنے گھر والوں پر، اپنے سماج پر ظلم و زیادتی کرتا ہے ، وہ خد ا تعالیٰ کی امانت میں خیانت کا مجرم ہے، وہ اپنا مال بیجا لٹانے والا ہے اسی لئے شریعت کی نگاہ میں وہ ناپسندیدہ کام کرنے والا ، اور خائن و خطاکار ہے، اور اس کے لئے بڑی سخت سزا ہے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا ارشاد ہے؛
’’شراب سے بچو یہ تو تمام خبیث اور ناپاک چیزوں کی جڑ ہے، جو اس سے نہ رکا اس نے اللہ اور اس کے رسول کا حکم توڑا، اور حکم نہ ماننے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا عذاب کا مستحق بن گیا پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے قرآن پاک کی آیت تلاوت کی؛
"وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْھَا ص وَلَہٗ  عَذَاب مُّھِیْن۔"
(جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھ جائے گا ایسے شخص کو اللہ دوزخ کی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے ذلیل کردینے والا عذاب ہے۔(مصنف عبدالرزاق، ج۹، ص:۴۸)
    ایک دوسری حدیث شریف میں یہ بتایا گیا کہ شراب پینے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ (مشکوۃ شریف)
    ابو دائود شریف کی روایت ہے کہ
’’ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے جو کوئی شراب کا عادی ہونے کی حالت میں مرے گا آخرت والی شراب سے محروم کردیا جائے گا۔‘‘
    قرآن پاک میں شراب کو ’’رجس‘‘ (ناپاک) کہا گیا ہے۔ (سورہ مائدہ،آیت:۹۰) جو اس ناپاک چیز کو دنیا میں استعمال کرے گا آخرت میں بھی اسے ناپاک چیزہی دی جائے گی، چنانچہ ایک روایت میں ہے، جو شراب پئے گا وہ بت پرست انسان جیسا ہے اور اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں کی جائے گی، جو کوئی اس حالت میں مرے گا کہ اس کے پیٹ میں کچھ بھی حصہ شراب کا ہوگا اللہ کے ذمہ ہے کہ اسے’’طینۃ الخبال‘‘ سے پلائے،
پوچھا گیا طینۃ الخبال کیا ہے؟
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: 
"جہنمیوں کا خون اور پیپ اور زانیوں کی شرمگاہوں سے نکلنے والا مادّہ!"
    یہ چند احادیث شریفہ تو نمونے کے طور پر ذکر کی گئی ہیں ورنہ احادیث کے ذخیرے میں نشہ کے سلسلے میں ایسی سخت وعیدیں ملتی ہیں جن کو پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ضرورت ہے کہ اہل ایمان نشے کی ہر چیز سے مکمل طور پر خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی بھرپور کوشش کریں یہ ہمارا دینی اخلاقی ایمانی فریضہ بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی!
تحریر: شیخ طریقت حضرت مولانامحمد عمرین محفوظ رحمانی مدظلہ
(سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ)

No comments:

Post a Comment