Wednesday 20 December 2017

رجسٹری سے قبل فلیٹ دوسرے خریدار کو منافع کے ساتھ بیچ دینا؟

رجسٹری سے قبل فلیٹ دوسرے خریدار کو منافع کے ساتھ بیچ دینا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ:
مالک زمین بلڈر ایک بلڈنگ بنانے کا خاکہ تیار کرتا ہے ۔۔۔اس کے لئے اسے ایک موٹی رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے لئے وہ ابھی سے اسے فروخت کرنا شروع کردیتا ہے۔ خریدار اور بلڈر کے درمیان فلیٹ کے لئے ایک رقم طے ہوتی ہے۔ اور مرحلہ وار ادائی کے لئے چار سال یا پانچ سال کی مدت متعین کی جاتی ہے۔ اگر خریدار اس متعینہ مدت میں رقم ادا کردے تو فلیٹ اس کے نام لکھ دیا جاتا ہے ورنہ یہ معاملہ فسخ ہوجاتا ہے۔۔۔خریدار طے شدہ رقم میں سے پیشگی موٹی رقم نقد مالک کو حسب سہولت  ادا کردیتا ہے۔ پھر دونوں کی رضامندی سے اسٹامپ پیپر پہ معاہدہ طے ہوتا ہے کہ متعینہ مدت میں متعینہ رقم ادا کردینے کی صورت میں خریدار کے نام زمین مع فلیٹ رجسٹری کردینے کا مالک ذمہ دار ہوگا۔
خریدار کو بننے والی بلڈنگ کی منزل وفلیت بھی متعین کردیا جاتا ہے کہ فلاں منزل کا فلاں فلیٹ آپ کے ہاتھ  فروخت کیا گیا  اور اس بابت سارے قبضے و تصرفات کا حق بھی زبانی طور پہ اسے دیدیتا ہے۔
پھر جب عمارت بننے لگتی یا قریب التکمیل ہوتی ہے تو نئے نئے مختلف خریدار آنے لگتے ہیں تو مشتری اول اپنے حصہ کا فلیٹ بائع اور بلڈر کی رضامندی سے تھرڈ پارٹی کے ہاتھ فروخت کریتا ہے۔ رجسٹری کے وقت بائع کی حیثیت سے دستخط بھی بائع اول ہی کرتا ہے۔
تیسرے خریدار کے ہاتھ فروختگی سے حاصل شدہ رقم سے مالک اور بلڈر کی بقیہ رقم بھی ادا ہوجاتی ہے اور اچھا خاصا منافع مشتری اول کو بچ  بھی جاتے ہیں جن میں مالک اور بلڈر کو بھی شریک کرلیا جاتا ہے۔
کیا مشتری اول کا تھرڈ پارٹی کے ہاتھ اس طرح بیچنا شرعا درست ہے یا نہیں؟ جبکہ مالک نے ابھی اس کے نام زمین رجسٹری کی تھی اور نہ اس کی مکمل قیمت پہلے خریدار نے ادا کی تھی! اور کیا اس پہ حاصل شدہ منافع شرعا حلال وطیب ہیں یا نہیں؟ مفصل ومدلل جواب عنایت فرمائیں.
ابو طالب رحمانی۔ کولکتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
جب تک مشتری مکمل قیمت ادا نہ کردے اس وقت تک مالک کی رضامندی کے بغیر اسے دوسرے خریدار کے ہاتھ فروخت نہیں کرسکتا۔ اوراسٹامپ پیپر پہ جو کچھ معاہدہ ہوتا ہے. اس کی حیثیت صرف وعدہ بیع کی ہوتی ہے۔ نقل ملکیت کی نہیں۔ کیونکہ وقت مقررہ پہ قیمت ادا نہ کرپانے کی صورت میں فسخ عقد کی شرط لگی ہوئی ہے۔ جو بیع کو لازم وتام ہونے اور مشتری کو تصرفات کے حقوق دینے سے مانع ہے۔
ہاں فلیٹ مکمل قیمت ادا کئے بغیر جب مالک کی اجازت و رضامندی سے خریدار اگلے مشتری یعنی تھرڈ پارٹی کو فروخت کردے اور اصل مالک اس کی رجسٹری بھی کروادے تو یہ بیع شرعا درست ہے اور اس سے حاصل شدہ منافع بھی حلال ہیں۔ کیونکہ زمین وغیرہ میں مشتری کی شرعا ملکیت کے ثبوت کے لئے رجسٹری ضروری نہیں ہے صرف مالک کی رضا واجازت کافی ہے۔ جس کے بعد مشتری کی ملکیت اس میں ثابت ہوجائے گی۔
ہاں صورت مسئولہ میں  رقم کے باقی رہنے کی وجہ سے یہ بیع نافذ  وتام نہیں ہوئی تھی۔ لیکن جب مالک نے اس پہ رضامندی ظاہر کردی ہے اور دوسرے خریدار کے کاغذات رجسٹری پہ اسی کے دستخط بھی  ہونگے تو مانع زائل ہوگیا اور  اب پہلے خریدار کے حق میں بیع تام اور لازم ہوگئی۔اور اس کا تصرف دوسرے خریدار کے حق میں معتبر ہوگا۔
للمشتري أن یبیع المبیع من آخر قبل قبضہ إن کان عقاراً لا یخشی ہلاکہ، وکما یجوز بیع العقار قبل قبضہ یجوز أیضاً التصرف فیہ بالرہن والہبۃ، غیر أن التصرفات المذکورۃ وإن کانت جائزۃ إلا أنہا لا تکون لازمۃ ونافذۃ إلا بدفع الثمن للبائع أو إجازتہ لہا۔ (شرح المجلۃ ۱؍۱۲۸ رقم: ۲۵۳)
إن المشتري إذا قبض المبیع بإذن البائع صار مالکاً لہ۔ (شرح المجلۃ ۱؍۱۲۸)
إذا تصرف المشتري للمبیع بالبیع ونحوہ في مدۃ الخیار قبل أن ینقد الثمن سقط خیارہ وصح
بیعہ ولزم، ولزم المشتري نقد الثمن۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ ۴؍۲۹۳)
لو باع المشتري قبل مضيّ المدۃ وقبل نقد الثمن جاز البیع إن کان المبیع بید المشتري علیہ لبائعہ مثل الثمن الأول الذي اشتری بہ۔ (شرح المجلۃ ۱؍۱۶۷ رقم: ۳۱۴)
یشترط لنفاذ البیع أن یکون البائع مالکاً للمبیع أو وکیلاً لمالکہ أو ولیہ أو وصیہ وأن لا یکون للمبیع حق آخر۔ (شرح المجلۃ ۱؍۲۰۳ رقم: ۳۶۵)
إن المشتري إذا قبض المبیع بإذن البائع صار مالکاً لہ۔ (شرح المجلۃ ۱؍۱۲۸)
یشترط لنفاذ البیع أن یکون البائع مالکاً للمبیع … وأن لا یکون في المبیع حق آخر۔ (شرح المجلۃ ۱؍۲۰۳ رقم: ۳۶۵)
العقار إذا ملک بالبیع … لا یجوز التصرف فیہ قبل القبض عند محمد وزفر والشافعي، ویجوز عند أبي حنیفۃ وأبي یوسف، وفي شرح الطحاوي وہو الاستحسان۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۸؍۲۳۷ رقم: ۱۱۷۶۴ زکریا)
إذا استوفی الثمن وسلَّم المبیع أو سلم بغیر قبض الثمن وبعضہ مؤجل أو قبض المشتري بإجازۃ البائع لفظاً أو قبضہ وہو یراہ ولا ینہاہ لیس لہ أن یستردہ لیحبسہ بالثمن وإن قبضہ بغیر إذنہ لہ أن ینقض۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۸؍۲۴۲ رقم: ۱۱۷۷۸ زکریا)
واللہ اعلم بالصواب

شکیل منصور القاسمی
١\٤\١٤٣٩ھجرہ

No comments:

Post a Comment