ایس اے ساگر
ہندوستان کے ناگالینڈ جیسے علاقوں کے علاوہ چین،کوریا اور جاپان قبیل کے ممالک میں بھلے ہی کتوں کو دسترخوان کی زینت بنالیا جاتا ہو لیکن بیشتر خطوں میں آوارہ کتے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ پلاسٹک کی بوتلوں میں نیلے رنگ کا پانی بھر کر اپنے گھر کے باہر ٹانگتے ہیں تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اگرچہ یہ خیال آپ کو عجیب لگے، لیکن کولکتہ میں کتوں کی گندگی سے بچنے کیلئے لوگ یہی ٹوٹکا اپنا رہے ہیں۔ جن لوگوں کے گھر کے سامنے کتے نجاست پھیلاتے تھے، انہوں نے یہ طریقہ اپنایا اور پراسرار طریقے سے ان کے گھر کے سامنے کتوں کا آنا اور گندگی کرنا بند ہو گیا۔
بلیچ اور فنائل کا کمال؟
بوتلوں میں ٹانگے جانے والا یہ نیلے مائع وائٹنر ہے جو سب سے زیادہ اجالا برانڈ کے نام سے فروخت ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس کی بجائے بلیچ اور فنائل بھی استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم، اس سب کی شروعات کہاں سے ہوئی اور یہ کس کی دریافت ہے، یہ کسی کو علم نہیں ۔ ایک دوسرے کی زبانی اس کے بارے میں سن کر لوگوں نے اس کا استعمال کرنا شروع کر دیا اور اب انہیں فائدہ بھی ہو رہا ہے۔
نیلے یا جامنی رنگ کاپانی :
نمتا کے باشدہ داس کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا آغاز کہاں سے ہوا، لیکن چند ماہ پہلے ہر کسی نے یہ کہنا شروع کیا کہ پلاسٹک کی بوتل میں نیلے یا جامنی رنگ کے پانی کو بھر کر لٹکانے سے کتے نہیں آتے۔ اس کے بعد ہم نے گیٹ پر اور باو ¿نڈری پر یہ بوتلیں لٹکانی شروع کر دیں۔ ہمیں نہیں پتہ کس طرح، لیکن یہ طریقہ کام کرتا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے ہماری سڑک پر کتوں نے رفع حاجت نہیں کی ہے۔
نجاست سے نجات:
نمتا، التوگنا اور بگوہاٹی کے رہنے والے گزشتہ چند ماہ سے مسلسل کتوں کی نجاست اور گندگی کی شکایت کر رہے تھے۔ التوگنا کی مومتا ساہا کہتی ہیں کہ کتوں کی تعداد مسلسل بڑھتی ہی جا رہی تھی اور وہ ہمارے گھر کے سامنے گندگی کر کے چلے جاتے تھے۔ ہمیں ان کی موجودگی سے پریشانی نہیں تھی، لیکن صفائی کے بارے میں ہم مفاہمت نہیں کر سکتے۔
مائع کی مہک:
کہتے ہیں کہ لوگوں اس سے قبل کوچی اور بہرام میںیہ طریقہ فروغ پاچکا ہے۔2014 کے دوران کوچی کے لوگوں نے کتوں سے بچنے کیلئے یہ طریقہ اپنانا شروع کیا تھا۔احمد آباد کی ڈاکٹر ڈاکٹر ٹینا گری کے بقول ہو سکتا ہے کہ کتوں کو اس مائع کی مہک نہ پسند ہو۔ یہی ایک ممکنہ وجہ سے ہمیں نظر آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بڑی وجہ نہیں ہو سکتی۔
تاجروں کے وارے نیارے:
بہرکیف، اب کتوں کویہ مہک نہ پسند ہو یا انہیں یہ رنگ نہ پسند ہو، لیکن لوگوں کے اس کے استعمال سے تاجروںکو براہ راست فائدہ ہو رہا ہے۔ نمتا کے ایک دکاندار بھولےناتھ داس کہتے ہیںکہ اجالا اور نیلم جیسے واٹنر کی فروخت کافی بڑھ گئی ہے۔ لوگ یہ اپنے کپڑے سفید کرنے کیلئے نہیں، بلکہ کتوں کو گھروں سے دور رکھنے کیلئے اسے خرید رہے ہیں۔ اس سے کتے بھاگ جاتے ہیںجبکہ ہمیں بھی فائدہ ہو رہا ہے۔
کاٹ کے کھا گئے:
اس کے برعکس چین میں کتے کسی نعمت سے کم نہیں سمجھے جاتے۔رواں برس کے دوران ہی جنوبی چین کے شہر یولن میں کتوں کاگوشت کھانے کے سالانہ میلہ منعقد ہوا ۔یہ الگ بات ہے کہ جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس پر سخت تنقید کی گئی۔ چین میڈیا شاہد ہے کہ گرمی کو بھگانے کا تہوار منانے کیلئے تقریبا 10 ہزار کتوں کو ذبح کیاگیاجبکہ اس موقع پر لیچی بھی کھائی گئی۔
چار، پانچ سو سالہ پرانی روایت:
جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے واویلا کرتے رہے کہ یہ جانورں کیخلاف ظالمانہ رویہ ہے اور انھوں نے اس سلسلہ میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ، انٹرنیٹ پر مہم بھی چلائی یہاں تک کہ کتوں کو بچانے کیلئے انھیں خریدا بھی ہے، آن لائن مہم کے تحت اس تقریب پر پابندی لگانے کیلئے 38 لاکھ افراد نے دستخط کئے گئے ۔کہا جاتا ہے کہ کتے کھانے کی یہ روایت چار، پانچ سو سالہ پرانی ہے جو چین،جاپان اور جنوبی کوریا کے علاوہ مختلف ممالک میں جاری ہے۔ میلے پر ایسی بھی بہت سی شکایات موصول ہوئیں کہ کسی کا کتا چوری کرکے میلے میں بیچ دیا گیا جبکہ تہوار میں بلیوں کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے۔
بلیچ اور فنائل کا کمال؟
بوتلوں میں ٹانگے جانے والا یہ نیلے مائع وائٹنر ہے جو سب سے زیادہ اجالا برانڈ کے نام سے فروخت ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس کی بجائے بلیچ اور فنائل بھی استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم، اس سب کی شروعات کہاں سے ہوئی اور یہ کس کی دریافت ہے، یہ کسی کو علم نہیں ۔ ایک دوسرے کی زبانی اس کے بارے میں سن کر لوگوں نے اس کا استعمال کرنا شروع کر دیا اور اب انہیں فائدہ بھی ہو رہا ہے۔
نیلے یا جامنی رنگ کاپانی :
نمتا کے باشدہ داس کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا آغاز کہاں سے ہوا، لیکن چند ماہ پہلے ہر کسی نے یہ کہنا شروع کیا کہ پلاسٹک کی بوتل میں نیلے یا جامنی رنگ کے پانی کو بھر کر لٹکانے سے کتے نہیں آتے۔ اس کے بعد ہم نے گیٹ پر اور باو ¿نڈری پر یہ بوتلیں لٹکانی شروع کر دیں۔ ہمیں نہیں پتہ کس طرح، لیکن یہ طریقہ کام کرتا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے ہماری سڑک پر کتوں نے رفع حاجت نہیں کی ہے۔
نجاست سے نجات:
نمتا، التوگنا اور بگوہاٹی کے رہنے والے گزشتہ چند ماہ سے مسلسل کتوں کی نجاست اور گندگی کی شکایت کر رہے تھے۔ التوگنا کی مومتا ساہا کہتی ہیں کہ کتوں کی تعداد مسلسل بڑھتی ہی جا رہی تھی اور وہ ہمارے گھر کے سامنے گندگی کر کے چلے جاتے تھے۔ ہمیں ان کی موجودگی سے پریشانی نہیں تھی، لیکن صفائی کے بارے میں ہم مفاہمت نہیں کر سکتے۔
مائع کی مہک:
کہتے ہیں کہ لوگوں اس سے قبل کوچی اور بہرام میںیہ طریقہ فروغ پاچکا ہے۔2014 کے دوران کوچی کے لوگوں نے کتوں سے بچنے کیلئے یہ طریقہ اپنانا شروع کیا تھا۔احمد آباد کی ڈاکٹر ڈاکٹر ٹینا گری کے بقول ہو سکتا ہے کہ کتوں کو اس مائع کی مہک نہ پسند ہو۔ یہی ایک ممکنہ وجہ سے ہمیں نظر آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بڑی وجہ نہیں ہو سکتی۔
تاجروں کے وارے نیارے:
بہرکیف، اب کتوں کویہ مہک نہ پسند ہو یا انہیں یہ رنگ نہ پسند ہو، لیکن لوگوں کے اس کے استعمال سے تاجروںکو براہ راست فائدہ ہو رہا ہے۔ نمتا کے ایک دکاندار بھولےناتھ داس کہتے ہیںکہ اجالا اور نیلم جیسے واٹنر کی فروخت کافی بڑھ گئی ہے۔ لوگ یہ اپنے کپڑے سفید کرنے کیلئے نہیں، بلکہ کتوں کو گھروں سے دور رکھنے کیلئے اسے خرید رہے ہیں۔ اس سے کتے بھاگ جاتے ہیںجبکہ ہمیں بھی فائدہ ہو رہا ہے۔
کاٹ کے کھا گئے:
اس کے برعکس چین میں کتے کسی نعمت سے کم نہیں سمجھے جاتے۔رواں برس کے دوران ہی جنوبی چین کے شہر یولن میں کتوں کاگوشت کھانے کے سالانہ میلہ منعقد ہوا ۔یہ الگ بات ہے کہ جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس پر سخت تنقید کی گئی۔ چین میڈیا شاہد ہے کہ گرمی کو بھگانے کا تہوار منانے کیلئے تقریبا 10 ہزار کتوں کو ذبح کیاگیاجبکہ اس موقع پر لیچی بھی کھائی گئی۔
چار، پانچ سو سالہ پرانی روایت:
جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے واویلا کرتے رہے کہ یہ جانورں کیخلاف ظالمانہ رویہ ہے اور انھوں نے اس سلسلہ میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ، انٹرنیٹ پر مہم بھی چلائی یہاں تک کہ کتوں کو بچانے کیلئے انھیں خریدا بھی ہے، آن لائن مہم کے تحت اس تقریب پر پابندی لگانے کیلئے 38 لاکھ افراد نے دستخط کئے گئے ۔کہا جاتا ہے کہ کتے کھانے کی یہ روایت چار، پانچ سو سالہ پرانی ہے جو چین،جاپان اور جنوبی کوریا کے علاوہ مختلف ممالک میں جاری ہے۔ میلے پر ایسی بھی بہت سی شکایات موصول ہوئیں کہ کسی کا کتا چوری کرکے میلے میں بیچ دیا گیا جبکہ تہوار میں بلیوں کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے۔
कुत्तों को भगाने का अनोखा तरीका
अगर आप प्लास्टिक की बोतलों में नीले रंग का पानी भरकर अपने घर के बाहर टांगते हैं तो इससे आपको क्या फायदा हो सकता है? आपको भले ही यह आइडिया अजीब लगे, लेकिन कोलकाता में कुत्तों की गंदगी से बचने के लिए लोग यही टोटका अपना रहे हैं। जिन लोगों के घर के सामने कुत्ते पॉटी कर देते थे, उन्होंने यह तरीका अपनाया और रहस्यमयी तरीके से उनके घर के सामने कुत्तों का आना और गंदगी करना बंद हो गया।
बोतलों में टांगा जाने वाला यह नीला लिक्विड वाइटनर है जो सबसे ज्यादा उजाला ब्रैंड के नाम से बिकता है। कुछ लोग इसके बजाय ब्लीच और फिनायल का भी इस्तेमाल कर रहे हैं। हालांकि, इस सबकी शुरुआत कहां से हुई और यह किसका आइडिया है, यह किसी को नहीं पता। एक-दूसरे के मुंह से इसके बारे में सुनकर लोगों ने इसका प्रयोग करना शुरू कर दिया और अब उन्हें फायदा भी हो रहा है।
निमता के सौमेन दास कहते हैं, 'हमें नहीं पता कि इसकी शुरुआत कहां से हुई थी, लेकिन कुछ महीने पहले हर किसी ने यह कहना शुरू किया कि प्लास्टिक की बोतल में नीले या बैंगनी रंग के पानी को भर लटकाने से कुत्ते नहीं आते हैं। इसके बाद हमने गेट पर और बाउंड्री पर ये बोतलें लटकानी शुरू कर दीं। हमें नहीं पता कैसे, लेकिन यह तरीका काम करता है। पिछले एक महीने से हमारी सड़क पर कुत्तों ने पॉटी नहीं की है।'
निमता, उल्तोंगना और बगुईहाटी के निवासी पिछले कुछ महीनों से लगातार कुत्तों द्वारा की जा रही गंदगी की शिकायत कर रहे थे। उल्तोंगना की मोमिता साहा कहती हैं, 'कुत्तों की संख्या लगातार बढ़ती ही जा रही थी और वो हमारे घर के सामने गंदगी करके चले जाते थे। हमें उनकी मौजूदगी से परेशानी नहीं थी, लेकिन सफाई के बारे में हम समझौता नहीं कर सकते।'
वैसे अब कुत्तों को इसकी महक न पसंद हो या उन्हें यह रंग न पसंद हो, लेकिन लोगों के इस प्रयोग से सीधा फायदा दुकानदारों का हो रहा है। निमता के एक दुकानदार भोलेनाथ दास कहते हैं, 'उजाला और नीलम जैसे वाइटनर की बिक्री काफी बढ़ गई है। लोग यह अपने कपड़े सफेद करने के लिए नहीं, बल्कि कुत्तों को घरों से दूर रखने के लिए खरीद रहे हैं। इससे कुत्ते भाग जाते हैं और हमें भी फायदा हो रहा है।'
No comments:
Post a Comment