منزل آشنا ”قائد“ و ”میرکارواں“:
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی
---------------------------------
----------------------------------
خلّاقِ عالم نے اپنی سنت عادیہ کے مطابق اس کائنات میں ہر کام کے لئے ہر آدمی پیدا کیا ہے، قوم وملت کے تمام کام اور ضرورتیں ایک ہی شخص وشیخ کے ساتھ وابستہ عموماً نہیں کیا گیا ہے۔ ہر ایک کی صلاحیت، ذاتی رجحان، طبعی دلچسپی، ذوق وشوق باہم مختلف ہے۔ دینی، مذہبی، اور ملی تنظیم وتحریک کی مرکزی شخصیات اپنے اپنے دائرہ میں، اپنی صلاحیت، دلچسپی اور معنوی قوت کے ساتھ اپنی اپنی خدمات پیش کرنے میں مصروف عمل رہتی ہیں، یہاں عام طور پہ ہر کوئی سجادہ نشیں ہوتا، نہ ہر سجادہ نشیں بہترین مدبر ومنتظم ہوپاتا ہے! جہاں بانی کی لیاقت ہر کسی میں ممکن ہے نہ سرفروشی کی تاریخ ہر کوئی رقم کرسکتا؛ لیکن یہ اللہ تعالی کے عجائب قدرت میں سے ہے کہ دہائیوں اور صدیوں میں بعض ایسی نابغہ روزگار ہستیاں پیدا فرمادیتا ہے جو اپنی متنوع الجہات استعداد وخدمات کے باعث ”ایک آدمی“ ہوکے بھی ”اکادمی“ کی خدمات انجام دے جاتا ہے۔ امیرشریعت سابع، مفکراسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ (1943-2021ء) گوناگوں خوبیوں اور کمالات کے جامع تھے، آپ جدید صالح اور قدیم نافع کے مظہرجمیل تھے، انتہائی ذہین وفطین تھے، گہرائی وگیرائی کے حامل بالغ نظر ودوراندیش عالم دین وقائد ملت تھے، استنتاجی، استنباطی، استخراجی واختراعی اوصاف سے مالامال شستہ قلم مؤلف، ماہرتعلیم اور ممتاز قانون داں تھے، علم وعمل کے پیکر فیض رساں مقبول واعظ و خطیب تھے، حق گو، جری اور بے باک مصلح تھے، نکتہ سنج، نکتہ داں، حلم مزاج، خوش طبع، خوش مزاج، باوقار، بلند حوصلہ، بلند نگاہ، زہد واستغناء، صبروقناعت وخود داری کے پیکر محسن ومربی اور متبع سنت مرشد وسجادہ نشیں تھے، امانت ودیانت میں اپنی مثال آپ تھے، سادگی اور بے تکلفی کا مجسمہ تھے۔ جامعیت، اعتدال، جمال وکمال کا حسین امتزاج تھے، آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، آپ کی ہمہ جہت صلاحیت اور جو ہر ذاتی کے ایک ایک پہلو پہ ہزاروں صفحات لکھے جائیں گے۔ تفہیمی لیاقت اور ترسیلی قوت میں آپ بے نظیر تھے، تقریر ہو یا تحریر! آپ کا انداز تحریروالقاء، البیلا، منفرد، اچھوتا، سحرانگیز اور دل فریب ہوتا تھا، مشکل سے مشکل ترین اور غامض ودقیق مباحث کو اپنے اسلوب خاص اور ترتیب دلکش سے چٹکیوں میں حل کردیتے تھے۔ ان تمام متنوع کمالات کے ساتھ آپ کی انفرادی حیثیت اور امتیازی شناخت یہ تھی کہ آپ منزل آشنا ”قائد“ و ”میرکارواں“ تھے، آپ کی نگاہ دشمنوں اور رہزنوں کی کمین گاہوں پر رہتی تھی، سیاسی گھاٹیوں اور دشوار گزا راہوں کے نشیب وفراز اور پیچ وخم سے آگاہ رہتے، آپ ہوشیار، باحوصلہ وباکردار، مدبر و معاملہ فہم تھے۔ لوگوں کے شور وغل اور چیخ وپکار سے بے نیاز ہوکر نئے تقاضے، تجربے، اور چیلنجس کی روشنی میں قومی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں اپنے کام میں جٹے ر ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ”سیاست“، ”اقتدار“ اور ”حکمرانی“ کا اپنا ایک الگ ہی نشان، غرور وگھمنڈ ہوتا ہے۔ لیکن جو ”اقتدار“ کی نہیں؛ بلکہ ”اقدار وروایات“ کی سیاست کرتے ہیں۔ ان کی حکمرانی دلوں پہ ہوتی ہے۔ وہ بوریہ نشیں ہوکے بھی تخت نشیں رہتے ہیں۔ ان کی حکمرانی کسی کی نظرکرم کی رہین منت نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کی قوت حقیقی قوت ہوتی ہے۔ وہ اکیلا رہ کے بھی شیروں کی طرح دہاڑیں مارتے ہیں۔ آہنی عزم وفولادی اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ انہیں نہ دولت واقتدار کا نشہ بہکا پاتا ہے اور نہ "سونے کی کان" (اسمبلی، مجلس قانون ساز، و پارلیمنٹ کی ممبرشپ وغیرہ) کی نشست کی حرص وہوس۔ وہ جو کرتے ہیں انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے، عدل وانصاف کے بول بالا کے لئے، اقتدار ومنصب کی خاطر "اقدار" کو پائوں سے روند دینے والوں کا کوئی باوقار وجود نہیں ہوتا، دنیا کی ہر شئے عارضی وفانی ہے۔ نہ کرسی کو دوام ہے نہ اقتدار وطاقت کو ۔۔۔ حضرت مولانا ولی رحمانی اقتدار کے ایوانوں میں بھی اپنی صاف ستھری مثالی سیاست کے انمٹ نقوش چھوڑگئے ہیں۔
آپ: ”ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارہ“ کے قائل تھے، یعنی آپ کا خیال تھا کہ اقوام کی تعمیر افراد کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے، قوم افراد تیار نہیں کرتی؛ بلکہ افراد کے ہاتھوں قوم کی تعمیر ہوتی ہے؛ اس لئے آپ قوم کے فرد کی تعمیر و بناء میں ہمہ تن مصروف ہوگئے، شکوۂ ظلمت ِشب کی بجائے اپنے حصے کا چراغ جلانا آپ کا موقف تھا، آپ سے مخفی نہیں تھا کہ مسلم بچے قوم و ملت کی نخل ِتمنا، امیدوں کا محور، مستقبل میں نسلِ انسانی کا حصہ اور ہمارے جگر پارے ہیں۔ حقیقی سرمایہ ہونے کے ناطے بچوں سے ہماری بڑی توقعات وابستہ ہیں؛ اس لیے بچوں کے امور پر توجہ اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ نازک بھی ہے۔ جتنا بچوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی قوم کی ترقی یا تنزلی کا مدار اسی پر ہوگا۔ بچوں کا موضوع، تعلیم اور تربیت کے حوالے سے ہر دور میں سماج کے اصلاح پسندوں اور دانشوروں کی فکر مندی کا حصہ رہا ہے، موجودہ وقت میں اس موضوع پر دور ماضی سے زیادہ بحث و گفتگو ہونے لگی ہے۔ دین اسلام میں انسان کی زندگی کے مختلف مراحل: ”بچپن“، ”جوانی“ اور ”بڑھاپا“ میں مرحلہ طفولیت میں تربیتی پہلو پر خاصی توجہ دی گئی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے احکام و اصول وضع کیے گئے جو یقینی طور پر انسان کو سعادت مندی اور سرخروئی سے بہرہ ور کرسکے۔ اسلام میں صرف والدین سے بچوں کی تربیت کا مطالبہ نہیں کیا گیا؛ بلکہ اسلام نے شاہراہِ حق کی رہنمائی کرتے ہوئے تربیت کا ایسا جامع اور مرتب نظام پیش کیا جو بچے کی پیدائش سے قبل شادی کے لئے بیوی کے انتخابی مراحل سے گزرکر عہدطفولت، مراہقت، شباب اور ”کہولت“ تک محیط ہے۔ مادروطن میں مسلم اقلیت کی تعلیمی پسماندگی کے ازالہ کے لئے اپنے حصے کا چراغ جلاتے ہوئے رحمانی فاؤنڈیش، رحمانی 30 اور بی ایڈ کالج کی کامیاب وقابل رشک عملی تصویر پیش کی، جن کی حصولیابیوں کی گواہی آج دنیا بھر کے ماہرین تعلیم دے رہے ہیں۔ پھر جب ہمارے ملک کے فاشسٹ ہندو احیاء پسند ارباب اقتدار نے منصوبہ بند طریقے سے جدید تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے ذریعے ہمارے انہی ”متاع گراں مایہ“ اور ”قیمتی سرمایہ“ کو ذہنی، فکری، لسانی اور ثقافتی لحاظ سے ہائی جیک کرلینے کی کوشش کی. بھارتیت اور قومی تہذیب و نیشنل کلچر کے حسین لبادے میں درسی وغیر درسی مواد و مضامین کے ذریعے ہندو آئیڈیالوجی اور ہندوانہ ودیو مالائی تہذیب (وسیع تر معنی ومفہوم میں) تھوپنے کی کوشش کی، اس نئی تعلیمی پالیسی کے پس پردہ جہاں مسلم بچوں کو فکری و اخلاقی اعتبار سے یرغمال بنالینے کی سازش کی گئی تھی وہیں اردو زبان ۔۔ کہ جتنا اسلامی مواد (عربی کے بعد) اس میں ہے، کسی اور زبان میں نہیں ہے۔۔ سے مسلم بچوں کا رشتہ یکسر کاٹ کر انہیں علمی ورثے اور اسلامی ذخیرے سے محروم کردینے کی سازش رچی گئی ہے. تو ملک کے اس مہیب بدلتے منظرنامے میں ہمارے با عزیمت، باحوصلہ وباکردار، دوراندیش قائد ومفکر حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی نے بروقت اور برمحل اس سازشی کھیل کا احساس وادراک فرماتے ہوئے اس کا فوری نوٹس لیا، اور مسلمانوں میں دینی، مذہبی، فکری، تعلیمی، تربیتی اور لسانی بیداری لانے کے لئے مفید ومؤثر اور ہمہ گیر مہم کا آغاز فرماتے ہوئے قریہ قریہ اور کوچہ کوچہ گشتی وفود روانہ کئے، آنے والے دنوں میں مسلم طلبہ وطالبات کے ایمان، اخلاق، تعلیم وتربیت، زبان و ثقافت کے تحفظ کے لئے سرکاری جدید تعلیمی پالیسی کے ”منفی ومضرت رساں“ پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کے متبادل کے بطور جامع تعلیمی وتربیتی مشن اور لائحہ عمل قوم وملت کو فراہم کیا۔ دینی اداروں کے معیار تعلیم میں بہتری، عصری اداروں میں دینیات واسلامیات کی شمولیت، مکتب کے نظام میں توسیع، جدت، تقاضائے حال کے مطابق مفید اصلاحات لانے اور خود کفیل مسلم کالجز کے قیام کی ترغیب دی، اس کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور امارت شرعیہ پہلواری شریف کی طرف سے اس خصوص میں بروقت جو عملی اقدامات کئے گئے ہیں وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف خواتین کے پُرامن احتجاجی جلوس کی کال دیکر آپ نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی تھیں، اس سیاہ قانون کے خلاف بہار کے قریہ قریہ میں خواتین نے جو احتجاجی جلوس منظم کئے اور دستخطی مہم کو کامیاب بنایا. اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی، پھر اپریل ۲۰۱۸ میں پٹنہ کے گاندھی میدان کو ”دیش بچاؤ دین بچاؤ“ کے بینر تلے مسلمانوں اور منصف مزاج سیاست دانوں سے بھرکر جو تاریخ رقم کی وہ آپ کا ”کار“ نہیں؛ ”کارنامہ“ ہے۔ خواتین کے پُرامن احتجاجی جلوس کی شرعی حیثیت پہ بعض اہل علم نے نقد کیا اور رد میں مضامین لکھے تھے، عاجز نے جب اس موضوع پر آزادانہ غور وتدبر کیا تو پتہ چلا کہ اسلامی مصادر ومراجع پہ حضرت امیرشریعت کی کس قدر گہری نظر تھی! موقع کی مناسبت سے اپنا حاصل مطالعہ یہاں پیش کررہا ہوں:
خواتین کا پرامن احتجاجی جلوس؟
کسی بھی جمہوری ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان، مال،عزت وآبرو اور بنیادی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اگر ارباب اقتدار اور حکمراں رعایا کے کسی خاص طبقے کے ساتھ جانبداری کا مظاہرہ کریں، اس کے حقوق کی پاسداری نہ کریں یا دستور وآئین میں دیئے گئے اس کے حقوق یا مذہبی آزادی کو دبانے کی کوئی کوشش کی جائے تو اب اس طبقہ کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بنیادی ومذہبی حقوق کی حصولیابی کے لئے ان ظالم حکمرانوں کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں، آئینی ودستوری حقوق کے لئے طاقت بھر کوشش کرے۔ آئینی جد وجہد کے ساتھ پر امن عملی جد وجہد بھی جاری رکھے۔ ریاست کے ظلم وناانصافی کے سامنے خاموش ہوجانا اس کی زیادتی اور تعدی کو فروغ دینے اور ظلم کا ساتھ دینےکے مرادف ہے۔ ایسے موقع سے کی جانے والی کوشش کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "افضل الجھاد" کہکر تحسین فرمائی ہے۔
أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ قَالَ كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ (سنن النساي 4209)
مظلوم اور معاشرہ میں دبے کچلے اور پسے ہوئے طبقہ کے حقوق کی فراہمی اور بازیابی کی کوشش میں اسلام سے پہلے بھی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی ہے اور اسلام کے بعد خلفاء کے ادوار میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ سنہ 590 عیسوی ماہ ذی قعدہ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر مکہ مکرمہ میں قریش کے معزز سرداروں کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیس سال کی عمر میں ایک معاہدے میں شرکت فرمائی تھی۔ جو "حلف الفضول" کے نام سے مشہور ہوا۔ یمن کے ایک تاجر (قبیلہ زبید کے) شخص پہ مکہ کے قدآور شخص عاص بن وائل نے ظلم کیا تھا۔ سامان لیکر قیمت ہضم کرگیا تھا۔ اس مظلوم کی مدد اور دکھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی کی متحدہ آواز کے طور پر ایک کمیٹی قائم ہوئی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اس طرح کی کمیٹی قائم تھی جس کے روح رواں اور بانی مبانی "فضل" نامی تین اشخاص ("الفضل بن مشاعة" "الفضل بن مضاعة" اور"الفضل بن قضاعة") تھے۔ جب آپ کے زمانے میں اس کمیٹی کا احیاء ہوا تو اسے اسی نام (تینوں فضل) کے ساتھ موسوم "حلف الفضول" کردیا گیا- یہ معاہدہ دراصل مقتدر طبقہ کے ظلم وتعدی کے خلاف ایک اجتماعی آواز، (احتجاج) ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ایک عملی شکل تھی۔ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:
«لقد شهدت في دار عبدالله بن جدعان حلفًا ما أُحب أن لي به حمر النعم، ولو أُدعي به في الإسلام لأجبت»
(لقد شَهِدتُ مع عمومَتي حِلفًا في دارِ عبدِاللَّهِ بنِ جُدعانَ ما أُحبُّ أن لي بهِ حُمْرَ النَّعَمِ ، ولَو دُعيتُ بهِ في الإسلامِ لأجَبتُ . .
الراوي: عبدالرحمن بن عوف المحدث: الألباني - المصدر: فقه السيرة - الصفحة أو الرقم: 72
خلاصة حكم المحدث: سند صحيح لولا أنه مرسل. ولكن له شواهد تقويه وأخرجه الإمام أحمد مرفوعاً دون قوله, لو دعيت به في الإسلام لأحببت وسنده صحيح)
اسلام سراپا امن وانصاف کا نقیب وترجمان ہے۔ جہاں اس کی کسی بھی تعلیم میں ظلم کا ادنی شائبہ بھی نہیں۔ وہیں اس نے ظلم نہ سہنے کی بھی تعلیم دی ہے۔ جس پیغمبر نے عطاء نبوت سے قبل ہی مظلوم کی داد رسی کے لئے اتنی کوشش کی ہو تو پھر اندازہ لگائیں کہ اس کی شریعت میں مظلوم کی حمایت کے لئے کتنی ترغیب دی گئی ہوگی! اسی لئے قرآن کریم نے بلاتفریق مرد وعورت سب کی یہ خوبی بیان کی ہے:
((وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ)). التوبة:71
اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے (دینی) دوست ہیں نیک کاموں کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں اللہ ان پر ضرور رحم فرمائیں گے۔ بیشک اللہ غالب حکمت والے ہیں)
قرآن کریم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے عام مسلم خواتین کو یہ حکم دیا ہے کہ بلاضرورت شدیدہ وہ اپنے گھروں سے نہ نکلیں۔ عورتوں کے لئے عزیمت یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں، گھر کے کونہ کو ان کے لئے بہترین جگہ قرار دی گئی ہے، گھروں سے نکلنے میں ان کے لئے مخلتف خطرات ومفاسد کا امکان ہوتا ہے۔ لیکن مصالح وضروریات (وعظ ونصیحت سننے کے لئے، والدین سے ملاقات کے لئے، مسجد میں نماز کے لئے، علاج ومعالجہ کے لئے، مقدمات میں شہادت وغیرہ وغیرہ) کے لئے آرائش وزیبائش سے اجتناب اور پردہ شرعی کی مکمل رعایت کے ساتھ عورتوں کا گھروں سے نکلنا "رخصت" وجائز ہے۔
{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب: 33].
میں گھر میں رہنے کا حکم اور باہر نکلنے کی ممانعت مطلق نہیں ہے۔ بلکہ بغیر ضرورت نکلنے کے لئے یہ حکم ہے۔ پردے کے اہتمام اور عزت وآبرو کے تحفظ کی یقینی صورت حال کی موجودگی میں پردے کی حدود وقیود کے ساتھ نکلنے کی اجازت ہے۔ اسی لئے اس کے معا بعد یہ فرمادیا گیا:
{وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ}
یعنی آرائش وزیبائش کےساتھ مائلات وممیلات بن کر نہ نکلو۔ غزوات وسرایا بھی نہی عن المنکر ہی کی ایک قسم ہے. اسلام کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے جہاد کو معتدل احوال میں صرف مردوں پہ فرض کیا ہے اور عورتوں کو یہ شرف بخشا کہ وہ غزوات میں قتال وشمشیر زنی کی مکلف نہ کی گئیں۔ مجاہدین اسلام کے ہمراہ زخمیوں کی مرہم پٹی وغیرہ کی ضرورت کے لئے عموما خواتین اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گھر سے نکلتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر جنگ کے ایسے عارضی حالات کے موقع سے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے تھے۔ جن کا نام نکلتا تھا انہیں اپنے ہمراہ سفر غزوہ میں شریک رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی متعدد صحابیات اور خود بعض ام المومنین نے اسلامی جنگوں میں شرکت بھی کی ہیں اور سخت ضرورت کے موقع سے بعض صحابیات نے قتال بھی کیا ہے۔ سنہ 6 ہجری میں غزوہ بنی المصطلق میں آپ کے ہمراہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ جبکہ صلح حدیبیہ کے سفر میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ کے ہمرکاب تھیں۔ غزوہ حنین میں حضرت ام سلیم بنت ملحان انصاریہ زوجہ حضرت ابو طلحہ حاملہ ہونے کی حالت میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ شریک غزوہ تھیں۔ حضرت ام عمارہ نسیبہ انصاریہ بنت کعب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ احد میں نہ صرف شریک رہیں بلکہ جب مسلمانوں کے پائوں اکھڑ گئے اور وہ ہزیمت کے شکار ہوگئے۔ افرا تفری اور حواس باختگی کے عالم میں جب صحابہ ادھر ادھر منتشر ہوگئے تب اس خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں ایسی زبردست بہادری دکھائی کہ دشمنوں پہ درجن بھر نیزے کا وار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نیزہ زنی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
سمعتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يقولُ يومَ أُحُدٍ ما التفتُّ يمينًا ولا شمالا إلا وأنا أراها تقاتلُ دوني يعني أمَّ عمارةَ .
الراوي: عمر بن الخطاب المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 481. خلاصة حكم المحدث: إسناده فيه الواقدي
اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں مسیلمہ کذاب سے لڑائی میں بھی انہوں نے نیزہ زنی کے جوہر دکھائے تھے۔ حتی کہ ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا تھا۔ بصرہ میں سنہ 36 ہجری میں غزوہ جمل کے موقع سے ام المومنین سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا خود اونٹ پہ سوار ہوکے بنفس نفیس غزوہ کی قیادت فرمارہی تھیں۔ جنگ کی یہ آگ بدقسمتی سے مسلمانوں کے ہی دو فرقوں کے مابین بھڑک اٹھی تھی۔ الغرض عمومی احوال میں عورتوں کو جہاد وغزوات میں گھسنے سے اسلام نے محفوظ رکھا ہے۔ لیکن سخت گھمسان کے وقت خواتین اسلام کا قتال کرنا بھی اوپر کی سطروں میں ثابت ہوگیا۔ غزوہ بنی المصطلق کی حدیث کے ذیل میں موطا مالک کے عظیم شارح اور محدث علامہ ابن عبدالبر مالکی لکھتے ہیں کہ اگر عورتوں کی جماعت کے ساتھ مسلمان مرد بھی شامل حال ہوں، اور خواتین کی عزت وناموس پہ حملہ کے خطرات نہ ہوں تو غزوات سمیت ہر قسم کی ضروریات کے لئے خواتین گھروں سے نکل سکتی ہیں۔
قال ابن عبدالبر في التمهيد: خروجهن مع الرجال في الغزوات، وغير الغزوات مباح إذا كان العسكر كبيرًا يؤمن عليه الغلبة. اهـ. (التمهيد. باب التيمم. حديث خامس)
امام سرخسی بھی اسی طرح کی بات لکھتے ہیں:
ولا ينبغي لها أن تلي القتال إذا كان هناك من الرجال من يكفيها؛ لأنها عورة، ولا يأمن أن ينكشف شيء منها في حال تشاغلها بالقتال، ولأن في قتالها نوع شبهة للمسلمين، فإن المشركين يقولون: انتهى ضعف حالهم إلى أن احتاجوا إلى الاستعانة بالنساء في القتال. اهـ. (السرخسي في شرح السير)
ان تمام نصوص، نظائر وتاریخی واقعات کو مدنظر رکھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورتوں کا گھر سے نکلنے کی ممانعت مطلق نہیں ہے۔ مصالح وضروریات کے لئے ان کا نکلنا رخصت ہے۔ رخصت بقدر ضرورت مقدر مانی جاتی ہے۔اس لئے ہر زمانے کے بالغ نظر اور ارباب بصیرت علماء نے اپنے زمانے کے تقاضوں اور چیلینجس کے مدنظر عورتوں کے مصالح وضروریات کی تحدید وتعیین فرماتے ہوئے پردہ کی مکمل رعایت کے ساتھ غیرمخلوط خروج کی اجازت دی ہے۔ آج کل بھگوائی اور فسطائی حکمرانوں اور ارباب اقتدار کی طرف سے طلاق ثلاثہ بل کی صورت میں خواتین اسلام کے شرعی اور بنیادی حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ معاملہ صرف خواتین کا ہے۔ ایک زرخرید خاتون کی مدعیت میں ہی میں یہ معاملہ عدالت پہنچا اور وہیں سے اس بل کی منظوری کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس مبینہ بل کے پس پردہ یہ باور کروائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس کے ذریعہ مسلم خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ جبکہ حقائق بالکل اس کے برعکس ہیں۔ ایسے میں پردے کی مکمل رعایت کے ساتھ اجانب کے ساتھ غیرمخلوط ہوکر خواتین اپنے شرعی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبہ کے لئے پر امن طریقے سے اگر سڑکوں پہ آکر مظاہرے کرتی ہیں تو یہ خروج اگرچہ خلاف عزیمت ہے! لیکن عہدرسول اور صحابہ وصحابیات کے واقعات سے ایسی ناگزیر حالات میں اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ عورت کا گھر سے نکلنے کا ممنوع ہونا ممکنہ مفاسد کے پیش نظر سدذریعہ کے طور پر تھا۔ ممانعت مطلق نہیں تھی۔ اور نہ ہی مطلق خروج کی حرمت پہ کوئی دلیل ہے۔ ہندوستان کی موجودہ تشویشناک صورت حال کے پیش نظر مسلم پرسنل لا بورڈ کے اکابر علماء کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی مکمل رعایت کے ساتھ اس پرامن خاموش وغیرمخلوط احتجاجی ریلی کی رخصت ہے۔ یہ خروج اہم ترین شرعی ضرورت ومصلحت اور دنیاوی دفع مضرت کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے جواز کی نظائر موجود ہیں۔ امارت شرعیہ کے داخلی نظام میں استحکام، شفافیت، جدت وتنوع، مکاتب کے قیام کو فروغ اور اس کے نظام ونصاب کی ترتیب بھی آپ کے خصوصی کارنامے ہیں. مارچ 2017 میں ایک خاص مناسبت وموقع سے، نوجوان فضلاءِ بہار کے ایک مؤقر وفد (مفتی مجتبی حسن قاسمی، مفتی شمشیر حیدر قاسمی، مولانا غفران ساجد قاسمی، مولانا نافع عارفی قاسمی اور مولانا امداداللہ قاسمی وغیرہم) کے ساتھ #بیگوسرائے سے حضرت امیرشریعت کے دربار دُربار پہ حاضری ہوئی تھی، زیارت کے لئے حافظ امتیاز رحمانی صاحب کے توسط سے ہنگامی طور پہ صرف دس منٹ کا وقت لیا گیا تھا؛ پَر حضرت نے پون گھنٹے تک ہم سے مختلف موضوعات پر باتیں کیں، ہمیں مفید وکارآمد ہدایات دیں، جامعہ رحمانی کے تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے مفید مشورے طلب کئے، کتب خانہ اور درسگاہوں کے معائنے، بعدہ پرتکلف ناشتے کا انتظام؛ بل کہ ”اہتمام“ کروایا۔ اور پھر ہرے بھرے انواع واقسام کے پھولوں پہ مشتمل پُرفضا وپُرکیف اپنی مخصوص بیٹھک میں جس تپاک وغایت شفقت کے ساتھ ”کھڑے ہوکر“ ہمارا استقبال فرمایا وہ اپنائیت ومحبت اور خردنوازی اکابر و مشائخ کی جھرمٹ میں ہمیں عنقاء نظر آتی ہے۔ اپنے دست مبارک سے اپنے دو اہم رسالے اور جامعہ کا کیلنڈر وجنتری عطاء فرمایا، مفتی مجتبی حسن اور مولانا غفران ساجد کی ٹرینوں کا وقت ہوا چاہتا تھا؛ اس لئے ہمیں آخری ملاقات کے لئے حضرت سے مصافحہ کے لئے خود ہاتھ بڑھانا پڑا؛ ورنہ حضرت امیرشریعت ہمارے وفد کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ مبدا فیاض سے آپ کو جو محاسن وکمالات عطا ہوئے تھے، ان میں خرد نوازی، شفقت ومحبت، ذہانت، دوراندیشی اور ملی مسائل میں قوت ارادی، جرأت وحق گوئی اور بر وقت فیصلے کی صلاحیت آپ کے امتیازی اوصاف ہیں۔ خدا آپ کو خلد بریں کا مکیں بنائے، امت کو آپ کا نعم البدل عطاء فرمائے، جن اداروں سے بھی آپ وابستہ رہے اللہ انہیں سدا بہار رکھے، جن کاموں کو چھوڑگئے ہیں انہیں پایہ تکمیل تک پہنچائے، اپنے عزائم وارادے کی تعمیل وتکمیل کے لئے جو کارواں چھوڑ گئے ہیں خدا اسے تازہ دم رکھے، تعب وتھکن سے آشنا ہوئے بغیر ہمیشہ جانب منزل رواں دواں رکھے، اور امت مسلمہ کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے:
هيهات لايأتي الزمان بمثله = إن الزمان بمثله لبخيل
شکیل منصور القاسمی
نیو کالونی پوکھریا / بیگوسرائے
(muftishakeelahmad@gmail.com) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
No comments:
Post a Comment