Thursday, 8 July 2021

قربانی کرنے والے کا بال ناخن کٹوانے کا حکم

قربانی کرنے والے کا بال ناخن کٹوانے کا حکم
سوال: قربای کرنے والا شخص بال اور ناخن کٹواسکتا ہے یا نہیں؟ ہم نے سنا ہے کہ نہیں کٹواسکتا؟
فتویٰ نمبر:181
الجواب حامداًومصلیاً:
قربانی كرنے والوں کیلئے مستحب یہ ہے کہ وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک اپنے ناخن یا بال نہ تراشیں، بشرطیکہ ان کو تراشے ہوئے چالیس دن نہ ہوئے ہوں، اور اگر چالیس دن ہوگئے تو پھر ان چیزوں کی صفائی ضروری ہے۔ اسی طرح اگر مذکورہ چیزوں کی صفائی کو ابھی چالیس دن نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد کسی نے ناخن اور بال وغیرہ کاٹ لئے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ قربانی پر کوئی اثر پڑے گا، کیونکہ مذکورہ حکم کی حیثیت صرف استحباب (کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں) کی حد تک ہے۔
نیز قربانی نہ کرنے والوں کیلئے یہ عمل مستحب تو نہیں ہیں لیکن اگر وہ بھی بال اور ناخن کاٹنے میں قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں تو اللہ کی رحمت سے امید ہےکہ وہ ثواب سے محروم نہ ہوں گے۔
================
سنن الترمذي – (4/ 102):
عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، وأراد أن يضحي، فلا يأخذن من شعره، ولا من أظفاره»
================
مشكاة المصابيح الناشر: المكتب الإسلامي – بيروت (1/ 327):
1459 – [ 7 ] (صحيح)
وعن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إذا دخل العشر وأراد بعضكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا ” وفي رواية ” فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا ” وفي رواية ” من رأى هلال ذي الحجة وأراد أن يضحي فلا يأخذ من شعره ولا من أظفاره ” . رواه مسلم
================
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (3 / 1080):
(وَأَرَادَ) أَيْ: قَصَدَ. (بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ): سَوَاءً وَجَبَ عَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ، أَوْ أَرَادَ التَّضْحِيَةَ عَلَى الْجِهَةِ التَّطَوُّعِيَّةِ، فَلَا دَلَالَةَ فِيهِ عَلَى الْفَرْضِيَّةِ، وَلَا عَلَى السُّنِّيَّةِ. وَفِي شَرْحِ السُّنَّةِ: فِي الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْأُضْحِيَّةَ غَيْرُ وَاجِبَةٍ ; لِأَنَّهُ فَوَّضَ إِلَى إِرَادَتِهِ حَيْثُ قَالَ: وَأَرَادَ)، وَلَوْ كَانَتْ وَاجِبَةً لَمْ يُفَوِّضِ اهـ. وَتَبِعَهُ ابْنُ حَجَرٍ….الخ
وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَسْأَلَةَ خِلَافِيَّةٌ، فَالْمُسْتَحَبُّ لِمَنْ قَصَدَ أَنْ يُضَحِّيَ عِنْدَ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ أَنْ لَا يَحْلِقَ شَعْرَهُ، وَلَا يُقَلِّمَ ظُفْرَهُ حَتَّى يُضَحِّيَ، فَإِنْ فَعَلَ كَانَ مَكْرُوهًا. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: هُوَ مُبَاحٌ، وَلَا يُكْرَهُ، وَلَا يُسْتَحَبُّ. وَقَالَ أَحْمَدُ: بِتَحْرِيمِهِ كَذَا فِي رَحْمَةِ الْأُمَّةِ فِي اخْتِلَافِ الْأَئِمَّةِ. وَظَاهِرُ كَلَامِ شُرَّاحِ الْحَدِيثِ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ
================
العرف الشذي للكشميري – (3/ 200):
ومسألة حديث الباب مستحبة والغرض التشاكل بالحجاج، وأما حديث عائشة فلا يعارض ما ذكرت لأنه بعث الهدي في غير ذي الحجة وما ذكر ما في ذي الحجة.
================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد بعاصم عصمہ اللہ تعالی. صُفَّہ اسلامک ریسرچ سنٹر (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/07/blog-post_8.html


No comments:

Post a Comment