باسمہ تعالیٰ
ہردوئی طرز پر اذان و اقامت ایک تجزیہ
ہردوئی طرز پر اذان و اقامت یہ کوئی حکم شرعی نہیں ہے بلکہ حضرت مولانا ابرارالحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ عليہ کی ذوقی تحقیق ہے۔ حضرت کے اساتذۂ کرام اس سے متفق نہیں تھے. بالخصوص حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی (اور یہ بات میں نے دونوں حضرات سے سنی ہے: حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ: مولانا ابرارالحق صاحب نے سنت کے مطابق نماز کی عملی مشق مجھ سے کی تھی، اور مولانا ابرارالحق صاحب نے بھی بیان فرمایا تھا کہ: میں نے نماز کی عملی مشق حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) سے کی تھی)
دوسری بات یہ ہے کہ اذان میں رفع صوت مطلوب ہے اور اللہ تعالی کے نام کو جب اذان میں پکارا جائے تو 'المدّ التعظیمی لاسم الجلالۃ' امت کے توارث و تعامل سے ثابت ہے۔ ممانعت اس مد کی ہے جس میں طول فاحش ہو اور جن چیزوں کی نفی کی گئی ہے وہ ہے تمطیط، آواز کو لہرانا، گھمانا اور دیر تک کھینچنا. یہ ممنوعات ہیں بقیہ تحسینات ہیں۔ حضرت مولانا جلال آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت کے معتمد مفتی جو حضرت مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہجہاں پوری کے شاگرد، اور حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب لکھنوی جو حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے معتمد مفتی، اور ان کے خاص تربیت یافتہ تھے. اسی طرح ہمارے حضرت مفتی مظفر حسین صاحب، حضرت مولانا قاری حبیب احمد صاحب الہ آبادی، حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی اور مفتی نظام الدین صاحب اعظمی جو دارالعلوم دیوبند کے بڑے مفتی اور حضرت مفتی شفیع عثمانی (رحمۃ اللہ علیہ) صاحب کے شاگرد تھے. یہ تمام حضرات اس بات سے متفق نہیں تھے، ایسے ہی حضرت مولانا شاہ حکیم اختر صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے جب حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب سے تحقیق کی تو حضرت مفتی صاحب نے فرمایا تھا کہ: اس کو منکرات میں سے قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ خود احقر حضرت کی حیات میں دو مرتبہ جواب لکھ چکا تھا۔
'وللناس فيما يعشقون مذاهب.'
بنیادی وجہ:
اس سلسلے میں بنیادی بات یہ لگتی ہے کہ جب حضرت نے بڑے شدو مد کے ساتھ اس مسئلے کی تبلیغ فرمائی تو حضرت کے پیش نظر حدیثی فقہی اور آثار میں سے کوئی چیز نہیں تھی بلکہ حضرت کا مستدل صرف یہ تھا کہ میں نے حضرت مولانا قاری محی الدین صاحب الہ آبادی سے دریافت کیا تھا جو امام جامع مسجد اور قاری ضیاء الدین صاحب کے صاحبزادے و شاگرد تھے تو انہوں نے اس مد کی نفی فرمائی تھی۔ لیکن حضرت مولانا قاری حبیب صاحب کو اس پر اصرار تھا اور آپ نے ناگواری کا بھی اظہار فرمایا تھا. وہ فرماتے تھے کہ میں نے تقریباً چالیس سال حضرت مولانا قاری محی الدین صاحب الہ آبادی کے پاس قرآن کریم کا دور کیا اور تجوید پڑھی. (یہ خاص الخواص مستفیدین میں تھے اور معتمد تلمیذ تھے). انہوں نے فرمایا کہ چالیس سال کے عرصے میں کبھی حضرت کی زبان سے یہ بات میں نے نہیں سنی۔ غالباً حضرت قاری محی الدین صاحب کی بات سننے یا سمجھنے میں حضرت مولانا ابرارالحق صاحب کو کچھ مغالطہ ہوا ہے۔ اور ایسا ہونا بزرگی کے خلاف نہیں ہے 'لکل عالم ھفوۃ' کسی بھی عالم سے لغزش ہوسکتی ہے.
اسی سلسلے میں مزید دو باتیں:
اسی سلسلے کی دو باتیں اور یاد آگئیں۔
پہلی بات: تو یہ کہ حیعلتین میں تحویل وجہ کو جو مستحب لکھا ہے۔ (امدادالفتاوی)
مفتی مظفر حسین صاحب ہردوئی تشریف لے گئے تھے تو قاری امیرالحسن صاحب نے حضرت سے دریافت کیا کہ میں نے پہلے اس پر عمل نہیں دیکھا مگر حضرت کے یہاں بہت اہتمام سے اس پر عمل ہوتا ہے۔ تو اس بارے میں حکم شرعی کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی علیہ الرحمہ نے سعایہ میں لکھا ہے کہ کہ اگر مسجد بڑی ہو تو حیعلتین میں تحویل وجہ مستحب ہے اور درمیانی مسجد میں جو نہ بڑی ہو نہ چھوٹی تو تحویل وجہ میں اختیار ہے کرے یا نہ کرے اور مسجد صغیر میں تحویل وجہ کی ضرورت نہیں ہے یعنی تحویل مستحب نہیں ہے۔ اسی طریقے سے حضرت مولانا فرنگی محلی نے لفظ 'اللّٰه' میں قصر کی بھی ممانعت فرمائی ہے، حضرت ہردوئی علیہ الرحمہ کی تنبیہ، تاکید اور اصرار کے نتیجے میں لوگ 'اللَّه اکبر اللَّه اکبر' کہنے لگے تھے۔ جس کی شکایت ہردوئی کے بعض حضرات نے خود احقر سے کی تھی۔ یہ لوگ اس خطرے اور اندیشے سے کہ مد نہ ہوجائے اذان و اقامت اور نماز میں بھی 'اللَّه اکبر اللَّه اکبر' الف ساقط کردیتے تھے جس سے اس کی ذات ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی تو صراحتاً ممانعت ہے یہ تو لحنِ جلی میں آتا ہے۔
دوسرا مسئلہ: یہ کہ حضرت اقامت میں "قد قامت الصلوۃ قد قامت الصلوۃ" کی ایک ہی سانس میں عملی مشق کرواتے تھے. حالانکہ "بدائع الصنائع" وغیرہ میں بصراحت موجود ہے کہ 'قد قامت الصلوۃ قد قامت الصلوۃ' دو سانس میں کہا جائے گا۔ ایسے ہی ایک مرتبہ احقر نے حضرت سے عرض کیا تھا کہ بیت الخلاء جانے میں بایاں قدم پہلے رکھنا چاہئے اور نکلنے میں دایاں تو غسل خانے میں کیا ترتیب ہونی چاہئے؟ حضرت نے فرمایا تھا کہ اس میں بھی وہی صورت اپنانی چاہئے. بعد میں مجھے اس کی صراحت ملی کہ غسل خانے میں پہلے دایاں قدم رکھنا سنت ہے۔ خلاصہ یہ کہ بعض چیزوں کے بارے میں آدمی ذوقاً فیصلہ کرتا ہے. صراحت اس کے علم میں نہیں ہوتی اور یہ عموما اس بات کا نتیجہ ہوتا ہے کہ آدمی پڑھتا تو محنت سے ہے لیکن از اول تا آخر پڑھانے کا موقع نہیں ملتا جس کی بنا پر مطالعہ اور استحضار نہیں ہوپاتا. یہی صورت حضرت کے ساتھ بھی تھی۔ ایسے ہی بعض چیزوں میں حضرت کے یہاں جو تحقیق ہوتی تھی. اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اصل سنت یہی ہے۔ تو حصر والی صورت جیسے غیرمقلدین اور تبلیغیوں میں ہوتی ہے. ایسے ہی بعض چیزوں میں حضرت کے یہاں بھی ہوگئی تھی۔ اور حضرت کے مریدین متبعین نے تو اس کو حضرت سے بھی آگے بڑھا دیا. گویا ایک مستقل فرقے جیسی پہچان بنالی. اللہ تعالی ہر قسم کے تعصب سے حفاظت فرمائیں، ہمیشہ اہل حق، اہل سنت، متبعین سنت اور پابند شریعت حضرات میں داخل و شامل رکھے، 'نطمع أن يدخلنا ربنا مع القوم الصالحين، وتوفنا مسلما و الحقنا بالصالحين، غير خزايا و لا ندٰمٰى ولا مفتونين. آمين يا رب العالمين.'
احقر مجدالقدوس خبیب رومی عفا اللہ عنہ
صدر مفتی مدرسہ عربی مظاہر علوم سہارنپور و مفتی شہر آگرہ
٤/ ذى الحجہ ۱٤٤٢
ناشر: مجمع الفقہ الحنفی (الہند)
اذان سے متعلق بہت ہی اہم تحقیق ہے اس کو ضرور پڑھیں.
------
کلمات اذان میں طویل مد کرنا
سوال: اذان میں اسم جلالہ (الله) کی مد کی مقدار کتنی جائز ہے؟ مدلل اور تحقیقی جواب ارشاد فرمادیں اور جو مشہور ہے کہ فقہاء نے اس مد میں سات الف تک مد کرنے کو کہا ہے، یہ قول کس حد تک درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ لفظ جلالہ ’’اللہ‘‘ کا مد، مد اصلی ہے، جس کی مقدار حرکتیں یعنی ایک الف کے برابر ہے، اس لئے اداء ِتلاوت اور قرأتِ قرآن کریم میں تو ایک الف پر زیادتی سراسر خلافِ قاعدہ اور ممنوع ہے۔البتہ غیرِقرآن بالخصوص کلماتِ اذان میں اس زیادتِ مدِاصلی کی ضرور وسعت و گنجائش ہے، تاکہ عظمت و جلالتِ شان اور مقصدِ اعلامونداء بدرجۂ اتم حاصل ہو ، اس پر ایک قوی شاہد و قرینہ یہ ہے کہ اہل عرب کے ہاں ذکر اور دعا میں ، اور مدد طلب کرتے وقت مدِ معنوی کا استعمال کتبِ فن میں نہایت صراحت سے منقول ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مواقع پر مدّ کو اپنی اصلی مقدار سے زیادہ کھینچنا جائز ہے ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں ہے:
’’وأمّا السبب المعنوي فھو قصد المبالغة في النفي، وھو سبب قوي مقصود عند العرب وھذا مذھب معروف عندالعرب؛ لأنّھا تمد عند الدعاء و عند الاستغاثة وعند المبالغة في نفي شيءٍ."
(الاتقان في علوم القرآن، النوع الثاني والثلاثون، في المد والقصر ، (۱؍۹۷) ط: مصطفی البابی مصر)
’’کتاب النشر فی القرا ءت العشر ‘‘ میں ہے:
’’واستحب العلماء المحققون مد الصوت بلا إلٰه إلاَّ اللّٰہ إشعاراً بما ذکرنا وبغیرہ، قال الشیخ محي الدین النووي رحمه اللّٰہ في الأذکار : ولھٰذا کان المذھب الصحیح المختار استحباب مد الذاکر قوله : ’’لاإلٰه إلاَّ اللّٰہ‘‘؛ لما ورد من التدبر … قال: وأقوال السلف وأئمة الخلف في مد هذا مشھورۃ. ‘‘
(النشر في القراءات العشر ، باب المد والقصر ، فصل ، (1؍269) ط: دارالکتب العلمیة بیروت)
مذکورہ بالا عبارات کی روشنی میں اگر ’’ اللّٰه أكبر‘‘ کو بغرضِ ذکر کہا جائے تب بھی مد کے دراز کرنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، اور اگر دعاء اور ندا کی غرض سے کہا جائے تو بدرجہ أولیٰ مد کی درازی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
مزید یہ ہے کہ بعض جدید کتب میں لفظ ’’اللہ‘‘ میں مد کرنے کے لئے مستقل نام (مدِتعظیمی) وضع کیا گیا ہے. چناں چہ ’’جواہرالتجوید‘‘ میں ہے:
’’مدتعظیمی جس کو مدِمبالغہ کہتے ہیں اس واسطے کہ اس مد میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی تعظیم و عظمت اور شانِ جلالت معلوم ہوتی ہے جو اسمِ جلالہ لفظ ’’اللہ‘‘، ’’رحمن ‘‘ اور ’’قھّار‘‘ وغیرہ میں کیا جاتا ہے، لیکن کسی قاری کے نزدیک معمول و مختار نہیں۔ (یعنی قاری صاحبان کے ہاں یہ مدِ معنوی غیر قرآن میں مستعمل ہے، لیکن قرآن مجید میں نہیں۔)‘‘
(جواہر التجوید)
امام القراء حضرت مولانا قاری عبدالرحمن رحمہ اللہ اپنے معر کۃ الآراء رسالہ تجوید ’’تحفہ ندریہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’چہارم مدِ تعظیم چناںچہ بعضے در اسم ’’اللہ‘‘ و ’’رحمن‘‘ مد می کشند‘‘ ۔ (تحفہ ندریۃ)
کتبِ تجوید کے علاوہ اگر فقہ و فتاویٰ کی طرف مراجعت کی جائے تو ’’البحرالرائق‘‘ میں ہے:
’’ویترسل فیه ویحدر فیھا، وفسر الترسل في’’ الفوائد‘‘ بإطالة کلمات الأذان ، والحدر قصرھا، ولأنّ المقصود من الأذان الإعلام والترسل بحاله ألیق.‘‘
(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ ، باب الأذان، (۱؍۲۵۷) ط: سعید کراچی)
مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ لفظ ’’اللہ‘‘ میں مد کو خوب دراز کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کی درازی کی زیادہ سے زیادہ مقدار کیا ہونی چاہئے کہ جس مقدار اور حد سے مدِمعنوی کو زیادہ کھینچنا ناجائز ہو؟
تو اس کے جواب میں ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہئے کہ کتبِ تجوید میں جو قواعد ذکر کئے جاتے ہیں وہ صرف اداءِ تلاوتِ قرآن اور قرأتِ قرآن مجید کے متعلق ہوتے ہیں ؛ اس لئے قرآنِ مجید میں تو ان قواعد کی رعایت انتہائی ضروری ہے ۔ لیکن غیرِ قرآن کے لیے وہ قواعد منصوص اور مصرّح نہیں ، بلکہ غیرِ قرآن کے کلمات کو کلماتِ قرآن پر قیاس کرکے وہ احکام ثابت کئے جاسکتے ہیں ۔
لہٰذا محض مسائل اور اصولِ قرأت پر قیاس کرتے ہوئے راجح قول کے مطابق مد کی زیادہ سے زیادہ مقدار پانچ الف ہے ۔
جیساکہ ’’ کتاب النشرفي القراء ات العشر ‘‘ میں ہے:
"والمرتبة الخامسة فوقھا (أي فوق الرابعة) قلیلاً، وقدرت بخمس ألفات.‘‘
(النشر في القراء ات العشر، باب المد والقصر، (۱؍۲۵۴) ط: دارالکتب العلمیة بیروت)
(شرح المقدمۃ الجزریۃ، باب أحکام المد والقصر ، المد المنفصل تعریفہ وأحکامہ، (ص: ۲۲۴) ط: المکتبۃ العربیۃ السعودیۃ)
اور بعض حضرات نے زیادہ سے زیادہ مقدار سات الف تک بتلائی ہے، چناںچہ قاری فتح محمد صاحب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’مفتاح الکمال شرح تحفۃ الأطفال‘‘ میں سات الف کے قول کو نقل کیا ہے۔
(مفتاح الکمال شرح تحفۃ الأطفال، ص: ۶۶)
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کلمات اذان کو تلاوتِ قرآن پر محض قیاس کرتے ہوئے تو لفظ ’’ اللہ ‘‘ میں سات الف سے زیادہ کھینچنا خلافِ اولیٰ قرار دیا جائے گا ۔
لیکن مقصدِ ’’إعلام‘‘ کو بطورِ اتم حاصل کرنے اور عمومِ بلویٰ کا لحاظ کرتے ہوئے قیاس کو چھوڑا جائے گا اور اس زیادتی کو اس وقت تک جائز قرار دیا جاسکتا ہے، جب تک وہ کلمات عربیت کی حد سے نہیں نکلتے ہوں۔
(ماخذ: فتاوی جامعہ بنوری ٹاؤن، غیرمطبوعہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144206201020
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2021/07/blog-post_17.html?m=1
عکس: کتاب الصلوۃ
No comments:
Post a Comment