Friday, 2 July 2021

سورہ ‏کہف کے ‏چند ‏اسرار ‏و ‏رموز ‏

سورہ کہف کے چند اسرار و رموز 
سورہ ‏کہف کو چھ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں
آج جمعہ کے روز آپ یقیناً (ان شآءاللہ) سورہ الکھف کا مطالعہ کریں گے. دیکھا جائے تو آپ اس سورہ کو چھ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں. پہلی آٹھ آیات بطور تمہید مطالعہ کیجئے. اس کے لئے آسان ترجمہ قرآن (مولانا تقی عثمانی دامت برکاتہم) اور تفسیر معارف القرآن (مولانا محمد شفیع رحمہ اللہ) کا تقابلی مطالعہ کیجئے. اس سورہ کا دوسرا حصہ قصہ اصحاب کہف پر مبنی ہے. جو آیت نمبر 9 تا آیت نمبر 31 پر مشتمل ہے. اس حصہ کی قرأت کرنے کے بعد آپ اس کی تفصیل کے لئے مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی کتاب دجالی فتنہ کے نمایاں خدوخال کا مطالعہ کیجئے اور ساتھ بیان القرآن (مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ) اور التبیان القرآن (مولانا غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ) کی تفاسیر کی مراجعت کیجئے. سورہ کا تیسرا حصہ میں دو زمین داروں کا واقعہ کا بیان ہے جو آیت 32 تا 59 پر مشتمل ہے اس حصے میں دولت کی کمی بیشی کے بارے میں تلقین کی گئی ہے. سورہ کا چوتھا حصہ (آیت 60 تا 82 تک) میں قصہ حضرت موسیؑ و حضرت خضرؑ کا بیان ہے. اس حصہ کی تفصیل کے لیے تدبر القرآن (مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ) کا مطالعہ کیجئے. سورہ کا پانچواں حصے میں حضرت ذوالقرنین کا قصہ بیان موجود ہے. یہ حصہ آیت 83 تا 102 تک مشتمل ہے اور اس حصے کی تفصیل کے لیے مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی تفسیر ترجمان القرآن کا مطالعہ کیجئے جو ایک کتابی شکل میں بھی موجود ہے (اصحاب کہف اور یا جوج ماجوج). مولانا آزاد رحمہ اللہ نے کافی تحقیق کے بعد حضرت ذوالقرنین کے بارے نئی تفصیلات فراہم کی تھیں. اسلاف کی تفاسیر میں حضرت ذوالقرنین کا شخصیت کے بارے میں تھوڑا اختلاف موجود رہا. مگر مولانا آزاد رحمہ اللہ نے اس کو حل کرنے کی صحیح فرمائی. اس کے ساتھ ساتھ مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ کی تفسیر کا حصہ بھی ملاحظہ فرمائیں. سورہ کا اختتامیہ آٹھ آیات (103 تا 110) پر مشتمل ہے. اس حصہ کے لیے آپ تفسیر احسن البیان (مولانا صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ) کی مراجعت کیجئے. اگر صرف خلاصہ پڑھنا مقصود ہو تو آپ مولانا اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ کی کتاب خلاصہ القرآن میں اس سورہ کا مرکزی مفہوم سمجھ سکتے ہیں. ساتھ ساتھ سورہ کے فضائل کے بارے میں علمی مواد شیخ ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم کی کتاب سے آخذ کیا جاسکتا ہے. آخر میں عرض ہے کہ اگر ممکن ہوسکے تو علمی نکات کے نوٹس تیار کیجئے تاکہ آپ کو اگر اس سورہ کا درس دینا ہو تو آپ کے پاس ایک جامع تقریر کا مواد بن جائے.
سید عدنان حیدر


--------
ایک قیمتی ملفوظ
سورۂ کہف پڑھنے سے آدمی فتنوں سے محفوظ رہتا ہے، فتنے چار قسم کے ہیں
1 دینی فتنہ
2 علمی فتنہ
3 مالی فتنہ
4 حکومتی واقتداری فتنہ
سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ نے ان چاروں فتنوں کو بیان کیا ہے،
۱) اصحاب کہف کا قصہ دینی وایمانی فتنہ کا ذکر 
۲) حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ علمی فتنہ کا ذکر
۳) دو باغ والوں کا قصہ مالی فتنہ کا ذکر
۴) ذوالقرنین بادشاہ کا قصہ اقتداری فتنہ کا ذکر
استاذ الاساتذہ حضرت مولانا انور صاحب کاوی
----------
سورۃ کہف: دو سال میں ۱۲۰ تفاسیر کا مطالعہ 
حضرت شیخ ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ میں  نے دو سال لگائے سورہ کہف کو سمجھنے میں اور ۱۲۰ تفاسیر کا مطالعہ کیا جن میں اردو اور عربی کی تفاسیر کا مطالعہ کیا اس کے علاوہ ایک فارسی تفسیر بھی تھی۔
ہم اس سورت کو صرف غار والوں کا واقعہ سمجھتے ہیں مگر اصل مدعا جو ہے اس کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں گئی۔ تو اس سورت کا مقصود/ لب لباب یا سینٹرل آئیڈیا کہہ لیں یہ ہے کہ اللہ اس دنیا میں لوگوں کو آٹھ طرح کے حالات سے آزماتے ہیں، 
1  عزت، 
2. ذلت، 
3. صحت، 
4. بیماری، 
5. نفع، 
6. نقصان، 
7. خوشی ، 
8. غمی سے۔
ہر بندہ ہر وقت ان میں سے کسی ایک حال میں ہوتا ہے۔ ان آٹھ کو اگر تقسیم کریں تو دو دو حالات میں تقسیم ہو ں گے۔ تو یا تو اچھے حالات ہوں گے یا برے۔ یعنی یا تو بندہ عزت میں ہوگا یا ذلت میں۔ یا صحت ہوگی یا بیماری۔ تو اللہ دو حالات میں آزماتے ہیں یا تو اچھے یا برے۔ کہ یہ بندہ اچھے حالات میں شکر کرتا ہے یا نہیں اور برے حالات میں صبر کرتا ہے یا نہیں۔ 
تو دو پیپر بنے ایک شکر کا پیپر اور دوسرا صبر کا پیپر۔ اب اگر بندے نے اچھے حالات میں شکر کیا تو اس نے پیپر کو پاس کیا اور اگر ناشکری کی تو اس پیپر کو فیل کیا ۔ اور اگر صبر کے پیپر میں صبر کیا تو پاس ہوا اور بے صبری کی تو فیل ہوگیا۔
یہ زندگی دارالامتحان ہے جہاں ہم نے دو پیپر دینے ہیں ایک صبر کا دوسرا شکر کا۔
اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کو بھی ان دو پیپرز میں آزمایا۔ پہلا شکر کا تھا جو کہ جنت کی نعمتیں تھیں، دوسرا درخت کا پھل تھا جو کھانے سے منع کیا گیا تھا تو یہ صبر کا پیپر تھا جس میں شیطان نے ان کو کامیاب نہ ہونے دیا۔
سورہ کہف میں پانچ واقعات ہیں۔ 
حضرت آدم علیہ اسلام کا واقعہ۔
یہ قلب ہے اس سورت کا۔ آیتیں تھوڑی ہیں اس لئے پڑھنے والوں کی توجہ ہی نہیں جاتی۔
آدم علیہ السلام کے واقعہ سے پہلے دو واقعات عام الناس کے ہیں جن میں سے ایک اصحاب کہف تھے یہ عام نوجوان تھے اور انہوں نے صبر کا امتحان دیا اور اس پیپر میں پاس ہوکر مقبول بندوں میں شامل ہو گئے، دوسرا واقعہ دو باغوں والے شخص کا تھا یہ بھی عام شخص تھا جس کو مال و دولت دی گئی تھی اس کا پیپر شکر کا تھا کہ تم نے نعمتوں پر شکر کرنا ہے تو یہ فیل ہو گیا۔ اس کے بعد آدم علیہ السلام کا واقعہ اور پھر دو واقعات ہیں خواص کے۔
ایک موسٰی علیہ السلام کا کہ ان سے بھی صبر کا پیپر لیا گیا اور سکندر ذوالقرنین کا شکر کا پیپر تھا اور انہوں نے غرور و تکبر نہیں کیا اور شکر کا پیپر پاس کیا۔ اسی طرح اللہ اولاد آدم سے بھی صبر اور شکر کے پیپر لیتے ہیں.
کچھ نکات:
※ اللہ نے اس سورت کی شروعات میں اپنی الوہیت کا ذکر کیا اور ختم اپنی ربویت کے تذکرے پر کیا۔
※ شروع سورت میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت کا تذکرہ کیا اور اختتام ان کی بشریت پر کیا۔ 
※ انسان کے لئے دنیا میں سب سے بڑی بلندی عبدیت ہے۔ اسی لیئے انسان ذکر کرتا ہے تاکہ اللہ کی محبت اس کے دل میں آجائے۔ اب صرف محبت کا آجانا مقصود نہیں ہے، جب محبت آجائے تو پھر محب ہمیشہ محبوب کو راضی کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور رضا کیا ہے اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا، اگر اللہ اچھے حالات بھیجے تو شکر کرنا اور برے حالات میں صبر کرنا۔ 
جب بندے کو یہ مقامِ رضا حاصل ہوجائے تو پھر اس کو مقام عبدیت حاصل ہوجاتا ہے۔ 
عبد کا لفظ اللہ نے اپنے حبیب کے لیئے استعمال کیا۔ 
مفسرین کی نظر میں عبد وہ ہوتا ہے جس کو اپنے آقا کے سوا کچھ نظر نہ آئے۔ بعض کے نزدیک عبد وہ ہوتا ہے جو اپنے آقا سے کسی بات میں اختلاف نہیں کرتا ، ہر حال میں راضی رہتا ہے، شکوہ نہیں کرتا۔
※ چونکہ اس سورہ کو دجال سے حفاظت کے لئے پڑھنے کا ذکر احادیث میں آتا ہے۔ اس لئے کہ یہ ہمیں اس سے بچاتی ہے۔
※ پہلے دجال کے معنی کو سمجھیں کہ یہ دجل سے نکلا ہے دجل فریب کو کہتے ہیں اور ملمع سازی کرنے کو کہتے ہیں جس طرح تانبے پر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے تو وہ اوپر سے کچھ ہو گا اور اندر سے کچھ ،اسی طرح دجال بھی اندر سے کچھ اور ہوگا اور باہر سے کچھ اور۔ 
آج کے دور میں اسی طرح دجالی تہذیب ہے کہ اوپر سے تو خوش نما نظر آتی ہے مگر اندر سے کچھ اور ہے۔ آج کے دور میں ایمان اور مادیت کی ایک جنگ چل رہی ہے۔ اب اس دور میں اگر اپنا ایمان بچانا ہے تو ہمیں بھی کہف میں گھسنا ہونا ہوگا۔ جی ہاں کہف میں!
※ آج کے زمانے میں پانچ کہف ہیں۔ اگر انسان ان میں داخل ہوجائے تو وہ دجال کے فتنے سے بچ سکتا ہے۔ 
ان میں پہلا کہف ہے مدارس
ان میں جو داخل ہوجائے وہ اپنا ایمان بچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ 
دوسرا اللہ والوں کی خانقاہیں
جو لوگ اللہ والوں سے جڑجاتے ہیں تو وہ لوگ زمانے کے فتنے اور فساد سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ 
 ※ تیسرا دعوت و تبلیغ کا کام
یہ بھی کہف کی مانند ہے۔ جو نوجوان صرف سہہ روزہ یا چلہ لگالیتے ہیں وہ نہ صرف اپنا بلکہ اپنے گھر والوں کا دین بھی محفوظ کر لیتے ہیں۔ 
چوتھا قرآن مجید
جو قرآن کے ساتھ نتھی ہوجاتا ہے اس کو پڑھنا، سیکھنا، سمجھنا شروع کردیتا ہے تو وہ بھی اپنا دین بچالیتا ہے اور قرآن اس کے لئے کہف بن جاتا ہے۔ 
پانچواں مکہ اور مدینہ
یہ پانچواں کہف ہے۔ احادیث کے مطابق جو بھی ان میں داخل ہوجائے وہ بھی دجال سے محفوظ رہے گا۔ 
تو یہ پانچ کہف ہیں جن میں داخل ہونے سے انسان اپنے ایمان کو بچالیتا ہے اور دجال سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ 
اس سورت کا ہر واقعہ ہمیں ایک سبق سکھاتا ہے کہ کس طرح ہم نے خود کو دجال سے بچانا ہے۔ 
※ اصحاب کہف کے قصے سے یہ سبق ملا کہ ہم کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لئیے کسی نہ کسی کہف میں پناہ لینی ہے تاکہ ہم اپنا ایمان بچا لیں اور دجال سے محفوظ رہیں۔ 
اور ان پانچ کہف کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔
صاحب جنتین کے قصے سے یہ سبق ملا 
کہ اللہ نے جو مال دیا اس کو اپنی طرف منسوب نہ کرے جیسا کہ اس باغ والے نے کیا اور پکڑ میں آگیا اور اس نعمت سے محروم کردیا گیا۔ 
※ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملا کہ یہ دنیا ہمارے لئے داراقامت ہے  ہمارا اصلی وطن جنت ہے دنیا میں رہ کر دنیا کو اپنا اصلی وطن سمجھ لینا اور ساری محنتیں اور ساری امیدیں دنیا پر لگا دینا بےوقوفی کی بات ہے۔   شیطان بدبخت نے ہمیں چھوٹی قسمیں کھا کھا کر اصلی وطن سے نکالا تھا اب یہاں بھی یہ ہمارا دشمن ہے اور ہم سے گناہ کرواتا ہے تاکہ دوبارہ جنت میں جانے کے قابل نہ رہیں۔ اللہ شر سے بچائے اور ہمارے اصلی گھر جنت میں پہنچادے۔ آمین
※ موسٰی علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دنیا میں جتنا بھی علم حاصل کر لیں ،دنیا میں کوئی نا کوئی ہم سے بھی بڑھ کر جاننے والا ہوگا۔ 
انسان کبھی بھی اشیاء کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ 
جب ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں تو پھر ہم دجال فتنے میں پھنس جائیں گے اس لیے اللہ نے موسی علیہ السلام  کا واقعہ بیان کر دیا تاکہ ہم لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں سب پتا ہے بلکہ یہ کہیں کہ اللہ ہی حقیقت حال کو جانتے ہیں۔ 
علم اوربھی اس سے کہیں زیادہ  ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، اسی لیئے سورہ کہف   انسان کو دجال کے فتنے سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی ذہن سازی کرتی ہے اور ایسا ذہن بناتی ہے کہ بندہ کا ذہن محفوظ ہوجاتا ہے۔  
حضرت ذوالقرنین کے واقعے سےسبق ملا
حضرت ذوالقرنین جہاں گئے وہ ان کے کوئی دوست  رشتے دار نہیں تھے یا کوئی جاننے والے نہیں تھے کیوں کہ وہ تو ان کی زبان تک نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ان لوگوں کی مدد کی کیوں کہ وہ اللہ کی رضا کے لیئے اللہ کے بندوں کے بندوں کو نفع پہنچاتے تھے۔ ان سے کوئی پیسہ وغیرہ نہیں مانگتے تھے بلکہ جب انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو اس کے لیئے پیسے دیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا۔ دوسرا یہ کہ وہ اللہ کی زمین پراللہ کا قانون نافذ کرتے تھے۔ جب ان کو اختیار دیا گیا کہ آپ اس قوم کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں  مطلب چاہیں تو سزا دیں یا اچھا سلوک کریں تو انہوں نے اس قوم کو اللہ کی طرف بلایا تھا اور اپنے اختیار/ طاقت کو  اللہ کے قانون کے نفاذ میں استعمال کیا۔
※ سورہ کہف میں پہلے پانچ واقعات بیان کرکے بندے کے ذہن سازی کی گئی اور اب آخری آیات میں اس ساری سورت کا نچوڑ بیان کی جا رہا ہے جو کہ تین باتیں ہیں:
1-جو لوگ دنیا ہی کو بنانے میں لگے رہتے ہیں درحقیقت وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ ہر وقت دنیا اور اس کی لذات کو پانے کی فکر میں رہنا ہے دجالی فتنہ ہےلہذا فقط دنیا ہی کی فکر میں نا رہیں بلکہ آخرت کی بھی سوچیں۔
2-اس کے بعد اللہ نے اپنی صفات کو بیان فرمایا کہ اگر تم اہنے رب کی تعریفوں کو بیان کرو اور سمندر سیاہی بن جائیں اور دوسرا سمندر بھی اس میں ڈال دیا جائے تو تم پھر بھی اپنے رب کی تعریف بیان نہ کرسکو گے۔ 
3- آخر میں بتایا کہ جو اپنے رب کا دیدار کرنا چاہے، جو کہ سب سے بڑی اور سب سے بڑھ کر نعمت ہے، اس کا کیا طریقہ بتایا کہ وہ شخص دو کام کرے ایک نیک عمل اور دوسرا اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے اور جو ایسا کرے گا اللہ اس کو اپنا دیدار عطا کریں گے۔ 
اللہ ہمیں بھی اپنا دیدار عطا فرمائے۔ آمین
سر طور ہو سر حشر ہو ہمیں انتظار  قبول ہے،
وہ کبھی ملیں، کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی۔ 
ماخوذ از بیان: حضرت شیخ ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم
-----------------
عنوان: جمعہ کے دن "سورة کہف" پڑھنے کی فضیلت سے متعلق احادیث کی تحقیق
سوال: ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص جمعہ کی رات میں سورة الکہف پڑھ لیتا ہے، اس کے لئے اس کی جگہ اور بیت العتیق (خانہ کعبہ) کے درمیان "ایک نور" روشنی بخشتا رہتا ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن سورة الکہف پڑھ لیتا ہے تو اس کے لیے اس جمعہ سے آنے والے جمعہ کے درمیان (پورے ہفتہ) "ایک نور" روشنی بخشتا رہتا ہے. (حصن حصین) بعض روایات میں ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن سورة الکہف کی تلاوت کر لے، اس کے قدم سے لے کر آسمان کی بلندی تک نور ہو جائے گا جو قیامت کے دن روشنی دے گا اور پچھلے جمعہ سے اس جمعہ تک کے اس کے سب گناہ معاف ہو جائیں گے. اور حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن سورة الکہف پڑھ لے، وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے معصوم رہے گا اور اگر دجال نکل آئے تو یہ اس کے فتنہ سے بھی معصوم رہے گا. (تفسیر ابن کثیر)۔ اس کی تصدیق فرمادیں۔
جواب: سوال میں جمعہ کے دن یا جمعۃ کی رات میں سورة الکھف پڑھنے کی فضیلت میں، جن چار احادیث کے بارے میں تحقیق طلب کی گئی وہ احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ عن أبي سعيد الخدري قال: "من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق" . رواه الدارمي ج 4ص 2143 نمبر 3407 ط دارالمغنی للنشر سعودیہ۔شعب الایمان ج4 ص 86 ط مکتبة الرشد ریاض)
ترجمہ: ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کی رات سورۃ الکھف پڑھی اس کے اور بیت اللہ کے درمیان نور کی روشنی ہوجاتی ہے۔
2  "من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين" .
رواه الحاكم ( 2 / 399 ) ومعرفة السنن و الآثارللبيهقي ( ج 4 ص 418)
ترجمہ: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اسے کے لئے دوجمعوں کے درمیان نور روشن ہوجاتا ہے۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی "تخریج الاذکار" میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ سورۃ الکھف کے بارہ میں سب سےقوی یہی حديث ہے۔
قال ابن حجر في "تخريج الأذكار":  حديث حسن، وقال: وهو أقوى ما ورد في قراءة سورة الكهف. ("فيض القدير: ج 6 ص 257 ط دارالکتب العلمیہ بیروت)
3 وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة سطع له نور من تحت قدمه إلى عنان السماء يضيء له يوم القيامة، وغفر له ما بين   الجمعتين".
ترجمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھی اس کے قدموں کے نیچے سے لے کر آسمان تک نور پیدا ہوتا ہے، جو قیامت کے دن اس کے لیے روشن ہوگا اور ان دو جمعوں کے درمیان والے گناہ معاف کردیۓ جاتے ہیں۔
قال المنذري: رواه أبو بكر بن مردويه في تفسيره بإسناد لا بأس به .
(الترغيب والترهيب: ج 1 ص 298 ط دارالکتب العلمیہ بیروت)
منذری کا کہنا ہے کہ: ابوبکر بن مردویہ نے اسے تفسیر میں روایت کیا ہے، جس کی سند میں کوئی حرج نہیں ۔
4 عن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَهُوَ مَعْصُومٌ إِلَى ثَمَانِيَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ فِتْنَةٍ تكون، فَإِن خرج الدَّجَّال عصم مِنْهُ۔
(الاحادیث المختارة للضیاء المقدسی: ج 2 ص 50 ط دارخضر للطباعة، بیروت)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کی وہ آٹھ دن تک ہر فتنے سے بچا رہے گا، اگر دجال کا بھی خروج ہوجائے تو اس سے بھی بچ جائے گا۔
یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ ضیاء الدین المقدسی نے اس حدیث کو نقل کرنے بعد فرمایا: فی اسنادہ من لم اقف لہ علی ترجمة۔
اس کی سند میں ایسا راوی ہے، جس کے حالات کی مجھے واقفیت نہیں۔
"خلاصہ کلام"
پہلی تین روایات صحیح ہیں اور آخری والی روایت ضعیف ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی (101160-No) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
----------------
عنوان: سورةالکہف کی فضیلت سے متعلق ایک سوال کا جواب 
سوال: جمعہ کے دن سورہ کہف کی شروع یا آخری دس آیتیں پڑھنے سے سورہ کہف کی فضیلت حاصل ہوجائیگی یا نہیں؟
جواب: سورہ کہف کی اگر دس آیات جمعہ کے دن پڑھ لی جائیں تو پوری سورت کا ثواب ملے گا، اس مضمون کی حدیث ہماری نظر سے نہیں گزری، البتہ دس آیات یاد کرنے کی فضیلت فتنہ دجال سے حفاظت سے متعلق ایک حدیث میں وارد ہوئی ہے، سنن ابو داؤد کی روایت ہے:
"عَنْ حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ، يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ، عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالُ". (سنن أبي داود: ٤/ ١١٧)
ترجمہ: ’’سيدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرلیں، وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔‘‘
دوسری روایت میں دس آیت صرف تلاوت پر بھی آئی ہے،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ قَرَأَ سُورَة الْکَہْفِ کَمَا أُنْزِلَتْ ،کَانَتْ لَہُ نُورًامِنْ مَقَامِہٖ إِلیٰ مَکَّۃَ، وَمَنْ قَرَأَ بِعَشْرِ آیَاتٍ مِنْ آخِرِہَا ،فَخَرَجَ الدَّجَّالُ ،لَمْ یُسَلَّطْ عَلَیْہِ". (أخرجہ الحاکم (۲؍۳۶۸)
ترجمہ: ’’جو سورہ کہف کو پڑھے گا جیسے وہ نازل ہوئی اس کی جگہ سے مکہ تک نور ہوگا۔ اور جو شخص اس کی آخری دس آیتوں کو پڑھے گا (اور اس ہی زمانے میں دجال کا ظہور ہوجائے) اس انسان پر دجال مسلط نہیں کیا جائے گا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی (100718-No) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2021/07/blog-post_2.html?m=1

No comments:

Post a Comment