حضرت مفتی نظام الدین صاحب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ —— حیات وخدمات
————————
شمشیر حیدر قاسمی
————————
مادرعلمی دارالعلوم دیوبند دین اسلام کا ایک ایسا مضبوط اور محفوظ قلعہ ہے، جس کی پاکیزہ چھاؤں میں تعلیمات اسلامی کی آبیاری کی جاتی ہے، گلشن اسلام کے حسین کلیوں کو مرجھانے سے بجایا جاتا ہے، اسلامی روایات کو زک پہنچانے والی طاقتوں پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے، اسلامیان عالم کو اسلام کی نورانی و عرفانی تعلیمات سے روشناس کرایا جاتاہے، الٰہی پیغامات کی ابدیت و اہمیت کو اجاگر کرکے اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس گلشن علم و عرفان کو ہر زمانے میں ایسے نفوس قدسیہ اور نوابغ روزگار کی خصوصی توجہات و عنایات حاصل رہی ہیں، جن کے علمی و تحقیقی کارنامے پر امت کو بجاناز و افتخار ہے، جن کے زہد و تقوی کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں، جھنوں نے اپنی زندگیاں دین کے تحفظ کے لئے وقف کردیں، جن کے خامۂ فیض رساں نے انسانیت کو دین مبین کے اسرار و رموز سے واقف کرایا اور صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی راہیں ہموار کیں۔
مادرعلمی کے انہی پاکباز، نیک طینت، احکام شرعیہ کے راز داں، راہ طریقت کے پاسباں، قرآن و سنت کے نکتہ داں، خلق خدا کے مہرباں، اورطالبان شریعت و طریقت کے رہنما ہستیوں میں ایک بہت ہی نمایاں ہستی کا نام نامی، اسم گرامی حضرت عالی مرتبت مولانا ومفتی نظام الدین صاحب اعظمی ہے، جن کی شخصیت پر حضرت اکبر الہ آبادی کا یہ شعر پورے طور پر صادق آتا ہے کہ:
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
حضرت مفتی نظام الدین صاحب قدس سرہ کی ولادت ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں عصری علوم کی چمک دمک نے ان کے خاندان کے لوگوں کو یرغمال بنا رکھا تھا، ان کے یہاں دینی علم اور مولویت کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی، ان کی نگاہوں میں مقصد حیات انگریزی تعلیم اور عصری فنون میں درک وکمال حاصل کرلینا تھا، مفتی صاحب کے والد زمین دار تھے، انگریزی ملازم تھے، خاندانی مزاج و ماحول کے مطابق حضرت مفتی صاحب کو بھی انگریزی اسکول میں داخل کردیا گیا، لیکن منشاء الٰہی کچھ اور ہی تھا، اللہ تبارک و تعالی کو نظام الدین اعظمی کے ذریعہ نظام دین کو مستحکم کرنا تھا، چنانچہ اس تغیر احوال کے لئے کرشمۂ قدرت کا ظہور کچھ اس طرح ہوا کہ جب آپ سات سال کے ہوئے تو مسلسل تین روز خواب میں محبوب الاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، محبوب الاولیاء علیہ الرحمہ نے تینوں روز سینے سے لگایا، اور دعاؤں سے نوَازا، اس خواب کا اثر یہ ہوا کہ آپ انگریزی تعلیم سے دلبرداشتہ ہوگئے اور مدرسہ کی تعلیم شروع کردی، مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور، مدرسہ عزیزیہ بہار شریف، دارالعلوم مئوناتھ بھنجن، مدرسہ عالیہ فتحپوری وغیرہ مختلف مدارس میں ابتداء سے متوسطات تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہر علم و معرفت ”دیوبند“ پہنچ گئے، اور گلشن قاسمی؛ یعنی مادرعلمی دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہوکر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور دیگر نوابغ روزگار شخصیات سے اکتساب فیض کرکے سند فضلیت حاصل کی، پھر مختلف مدارس میں تشنگان علوم کو سیراب کرتے ہوئے دارالعلوم مئوناتھ بھنجن تشریف لے آئے، جہاں مسند حدیث پر جلوہ افروز ہوئے اور تقریباً تین دہائی تک سرزمین مئوناتھ بھنجن کو درس حدیث شریف اور فتوی نویسی سے اپنے مخصوص لب و لہجے میں ضیابار کیا، اس کے بعد حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ کی طلب اور اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ وصی اللہ علیہ الرحمہ کے ایماء پر دنیائے اسلام کو شریعت مطہرہ کی پاکیزہ تعلیمات سے روشناس کروانے والا مرکزاسلامی ”دارالعلوم دیوبند“ کے عظیم الشان دارالافتاء کے ”مفتی“ مقرر ہوئے، اور آخری وقت تک پورے وقار کے ساتھ دلائل شرعیہ کی روشنی میں دارالافتاء سے متعلق فریضہ انجام دیتے رہے، حتی کہ جس وقت، پاک روح نے جسدخاکی کو الوداع کہا اس وقت بھی ہم طلبۂ دارالافتاء اس مردقلندر سے اکتساب فیض کے لئے آس لگائے بیٹھے تھے:
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا
مفتی صاحب اومنصب فتوی نویسی:
افتاء بلاشبہ اس روئے زمین پر خلافت ارضی کے قیام کے لئے جہد و سعی کا ایک اہم حصہ ہے، جس کے لئے کرۂ ارضی کو بنی نوع انسان کا مسکن بنایا گیا، اور انھیں شرافت و کرامت کے اعزاز سے نوازا گیا، مفتی کا مقام اور اس کی عظمت شان کے لئے اس بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ منصب قرآن و سنت کی شہادت کے مطابق خود باری تعالی عزّاسمہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے، چنانچہ قرآن کریم میں آیا ہے:
''وَيَسْتَفْتُونَكَ فِى ٱلنِّسَآءِ ۖ قُلِ ٱللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ'' النساء 127
(لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں مسئلہ پوچھتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان عورتوں کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے)۔
اور تاریخی طور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں جلوہ فرما تھے، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے پیش آمدہ مسائل کے سلسلے میں آپ کی طرف رجوع فرماتے اور فتوی حاصل کرتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرما جانے کے بعد جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس منصب عظیم کو سنبھالا، اور نبوی نہج پر قرآن و سنت کی روشنی میں افتاء کا اہم فریضہ انجام دیا، افتاء کی اس علوشان اور رفعت مقام کے پیش نظر علامہ قرافی مالکی نے یہ اعلان کردیا کہ:
”مفتی اللہ کا ترجمان ہوتا ہے“،
اور علامہ ابن القیم نے فرمایا کہ: ”مفتی' اللہ کا ایسا وزیر ہے جو احکام شاہی پہ مہر لگانے کے منصب پہ فائز ہوتا ہے.“
ابن المنکدر کا خیال یہ ہے کہ:
”مفتی' اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان ایک واسطہ ہے.،،
اور امام شاطبی علیہ الرحمہ نے ان سب کا خلاصہ ان لفظون میں بیان فرمادیا ہے کہ:
"وعلی الجملة فالمفتی مخبرعن اللہ تعالیٰ کالنبی ونافذ أمرہ فی الامة بمنشورالخلافة کالنبی''
الحاصل مفتی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خبر دیتا ہے اوراس کے ارشادات کو لوگوں پر نافذ وجاری کرتا ہے۔ (الموافقات: ج ٤، ص: ٢٤٤ تا ٢٤٥)
افتاء کی اسی عظمت و رفعت کے پیش نظر علماء راسخین فی العلم نے فتوی نویسی کے لئے ایسے حدود و ثغور قائم کردیئے ہیں جو اس منصب جلیل کو ہرطرح کے عیب و نقص سے تحفظ فراہم کرتے ہیں؛ چنانچہ ماہرین شریعت نے مفتی کے لئے درج ذیل اوصاف سے متصف ہونا لازم قرار دیا ہے:
الف:- عاقل بالغ مکلف ہونا۔
ب:- شریعت کے ضروری علم کا حامل ہونا۔
ج:- درجۂ ثقاہت پر فائز ہونا۔
د:- فقہی طبعیت، ذہن میں سلامتی اور غور وفکر کی صلاحیت ہونا۔
ہ:- منکرات ومعاصی سے پوری طرح اجتناب کرنے والا ہونا۔
و:- بداخلاقی اور بے مروتی سے محفوظ ہونا۔
ز:- منفعل المزاج نہ ہونا۔
ک:- دنیا سے بے رغبت ہونا۔
ظاہری ہیئت، وضع قطع اور لباس وپوشاک کے لحاظ سے بھی مفتی کو ان صفات سے متصف ہونا چاہئے:-
مفتی کو لوگوں کے سامنے باوقار لباس میں آنا چاہئے، مفتی اپنی وسعت کے مطابق دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے، اچھا لباس زیبِ تن کرے، اور طہارت و نظافت کا اہتمام رکھے؛ کیونکہ اگر آدمی کی ظاہری ہیئت قابل قبول نہ ہو، تو اس کی بات کا وزن بھی عام لوگوں کی نظر میں زیادہ نہیں ہوتا۔ (اصول الافتاء و آدابه: ٣٢٤)
اسی کے ساتھ مفتی کے لیے لازم ہے کہ اسے فقہی جزئیات پر گہری بصیرت حاصل ہو، احوال زمانہ پر اس کی گہری نگاہ ہو، زمانے کے عرف وعادت سے وہ واقفیت رکھتا ہو، حضرت مفتی نظام الدین صاحب اعظمی قدس سرہ کی شخصیت میں یہ تمام اوصاف اپنے کمال کے ساتھ پائے جاتے تھے، وہ مرکز اسلامی دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم تھے، دارالعلوم دیوبند کا دارالافتاء پورے ٣٥/ سال تک ان کے وجود مسعود سے منور رہا، گلشن قاسمی کے پرنور ماحول میں ان کا خامۂ شریعت شناس مسلسل عالم اسلام کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے میں لگارہا، دریں اثنا ان کے قلم سے ہزاروں فتوے سپرد قرطاس ہوئے، جن سے لاکھوں لوگوں نے استفادہ کیا، اور آج بھی وہ فتاوے ”نظام الفتاوی“، ”منتخبات نظام الفتاوی“ اور ”فتاوی نظامیہ“ کی شکل میں متلاشیان حق کی رہبری کررہے ہیں، اچھی طرح یاد ہے ایک مرتبہ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے ایک دستی فتوی لینا تھا، اصل جواب دارالعلوم دیوبند کے کسی دوسرے مفتی صاحب نے تحریر فرماکرمحرر (ناقل فتوی) کو دیدیا، ناقل فتوی نے کہا، حضرت مفتی نظام الدین صاحب سے دستخط کرواکے لے آؤ! پھر مہر لگادیں گے، جب حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں وہ فتوی لے جایا گیا تو فرمانے لگے پڑھ کر سناؤ، مفتی صاحب نے جواب سننے کے بعد فورا متنبہ فرمایا کہ اس جواب میں یہ یہ نقص ہے، اسے لے جاؤ درست کرواکے لاؤ پھر دستخط ہوگا،
حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کے فتاوی اہل علم اور ارباب افتاء کے حلقوں میں اعتدال و تعمق کے اعتبار سے نہایت ہی وقیع سمجھے جاتے ہیں، جو حضرت مفتی صاحب کی وسعت نظر، علمی و فقہی بصیرت اور جلالت وعظمت شان کی خاص پہچان ہے، آپ کے فتاوی، فتاوی نظامیہ، منتخبات نظام الفتاوی اور نظام الفتاوی کی شکل میں مفتیان کرام اور علمی وتحقیقی کام کرنے والوں کے مابین ایک عظیم فقہی شاہکار کی حیثیت سے متعارف ہیں، بطور خاص جدید مسائل کی تحقیق میں آپ کے فتاوی سے بڑی رہنمائی ملتی ہے، اللہ حضرت کی قبر کو نور سے بھرے۔ آمین!
https://saagartimes.blogspot.com/2021/07/blog-post_1.html
No comments:
Post a Comment