حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ کیا ہے؟
حضرت یونس علیہ السلام کا ذکرقرآن عزیز میں آیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم کی 6 سورتوں میں آیا ہے۔
سورۃ النساء
سورۃ الانعام
سورۃ یونس
سورۃ الصافات
سورۃ الانبیاء
سورۃ القلم
ان میں پہلی چار سورتوں میں یونس علیہ السلام کا نام مذکور ہے۔
اور آخری دو سورتیں میں 'ذوالنون' اور”صاحب الحوت“ یعنی مچجلی والا کہہ کر پکارا گیا ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام ایک عظیم اور کریم نبی تھے۔ ان کا قصہ قرآن پاک میں ایک انوکھا قصہ ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا زمانہ (860 سے 784) قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کے والد کا نام (متی) تھا۔ اور یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے، لہذا یہ اسرائیلی نبی تھے۔ حضرت یونس علیہ السلام کی عمر مبارک 28 سال تھی تو اللہ نے انہیں منصب نبوت سے سرفراز کیا۔
ان کو آشوریوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا۔ یہ کافرومشرک لوگ تھے۔ اس قوم کا مرکز اس وقت نینویٰ تھا۔ جس کے وسیع کھنڈرات آج بھی دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر آباد موصل شہرکے عین مطابق پائے جاتے ہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام نے آشوریوں کو ”وحدہ لاشریک لہ“ کی دعوت دی، تو انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کو جھٹلایا اور بتوں کی پرستش کرنے سے انکار کردیا اور ایسے کفر پر ڈٹے رہے. پھر انہوں نے یونس علیہ السلام پر ظلم وستم شروع کردیا۔ انہیں دھمکیاں دی گئیں اور دعوت حق کا مذاق اڑایا۔ تب یونس علیہ السلام ان کی مسلسل مخالفت سے متاثر ہوکر قوم سے خفا ہوگئے اور ان کو تین دن میں آنے والے دردناک عذاب الٰہی کی بددعاء دی۔
پھر تیسرا دن آنے سے پہلے ہی آدھی رات کو بستی سے نکل گئے۔ دن کےوقت جب عذاب قوم کے شہروں پر پہنچ گیا تو انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملے۔
حضرت یونس علیہ السلام کا اپنی قوم سے ناراض ہوکر چلے جانا ہجرت تھی مگر انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ عذاب کی اطلاع دینے کے بعد اللہ کی اجازت کے بغیر اپنا علاقہ چھوڑکر چلے گئے تھے، آثارعذاب دیکھ کر جب آشوریوں نے توبہ استغفار کی تو اللہ نے انہیں معاف کردیا۔
قرآن مجید میں اللہ کے دستور کے جو اصول بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک وہ اپنی حجت پوری نہیں کرلیتا،
پس کب نبی نے اس قول کو مہلت کےآخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جاری نہ رکھا۔ اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے وہ خود ہی ہجرت کرگئے تو اللہ تعالیٰ کے انصاف نے اس قوم کو عذاب دینا گوارہ نہ کیا، کیونکہ ان پر تمام حجت کی شرائط پوری نہ ہوئیں تھیں اور انہیں معاف فرمادیا۔
حضرت یونس علیہ السلام فرات کے کنارے پہنچے تو ایک کشتی کو مسافروں سے بھرا ہوا پایا۔ حضرت یونس علیہ السلام کشتی میں سوار ہوگئے اور کشتی نے لنگراٹھایا۔ پورے دن میں کشتی سمندرمیں سکون سے چلتی رہی۔ اچانک اونچی اونچی لہریں اٹھنے لگیں۔ لوگوں نے اپنا سازوسامان سمندر میں پھینک دیا کہ کشتی کا بوجھ کم ہوجائے لیکن کشتی کا بوجھ پھر بھی کم نہ ہوا۔ جب کشتی ڈگمگانے لگی تو کشتی کےغرق ہونے کا یقین ہونے لگا۔ اہل کشتی نےاپنے عقیدے کے مطابق کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کشتی میں کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگا ہوا ہے۔ جب تک اس کو اس کشتی سے جدانہ کیا جائے گا نجات مشکل ہے۔ یونس علیہ السلام نے سنا تو ان کو تنبیہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو میرا نینویٰ سے وحی کا انتظار کئے بغیر اس طرح چلے آنا پسند نہیں آیا اور یہ میری آزمائش کے آثار ہیں۔ یہ سوچ کر انہوں نے اہل کشتی سے فرمایا کہ میں وہ غلام ہوں جو اپنے آقا سے بھاگا ہوا ہوں. مجھے کشتی سے باہر پھینک دو۔ مگر ملاح اور اہل کشتی نے ان کی پاکبازی سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اور آپس میں یہ طے کیا کہ قرعہ اندازی کی جائے. چنانچہ تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی اور تینوں مرتبہ قرعہ اندازی میں حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا تب مجبور ہوکر انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کو دریا میں ڈال دیا یا وہ خود دریا میں کود گئے۔ اس وقت خدائے تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ انہیں نگل لو. یہ تمہاری غذا نہیں ہے۔ اس لئے ان کے جسم پر کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہے. مچھلی نے یونس علیہ السلام کو اپنے پیٹ میں نگل لیا. یونس علیہ السلام نے جب مچھلی کے پیٹ میں خود کو زندہ پایا تو بارگاہ الٰہی میں اپنی ندامت کا اظہار کیا کہ کیوں وہ وحی الٰہی کا انتظار کئے بغیر اور اللہ سے اجازت لئے بغیر امت سے ناراض ہوکر نینویٰ سے نکل آئے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ کو پکارا. ان پر تین اندھیرے اکھٹے ہوگئے تھے۔
1) رات کا اندھیرا
2) مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا
3) سمندر کا اندھیرا
اگر وہ یہ تسبیح نہ فرماتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ آخرکار وہ اندھیروں میں پکار اٹھے۔
لاالہ الاانت سبحنک انی کنت من الظلمین
ترجمہ: "الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو یکتا ہے، میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں بلاشبہ میں اپنے نفس پر خود ہی ظلم کرنے والا ہوں."
جو بھی مسلمان اپنی کسی حاجت میں یہ دعا مانگے گا اللہ اس کی یہ دعاء ضرور قبول کریں گے. یہ قبول دعاؤں میں سے ایک دعا ہے۔
ابن حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں کہ جب یونس علیہ السلام نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے گرد گھومنے لگے، فرشتے کہنے لگے کہ یہ بہت دورداز جگہ سے آواز آرہی ہے۔ لیکن کان اس سے پہلے اس سے آشنا ضرور ہیں۔ آواز بہت ضعیف ہے: اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی دردبھری آواز کو سنا تو فرمایا: کیا تم اس آواز کو نہیں پہچانتے؟ انہوں نے کہا نہیں: فرمایا یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑھتے تھے اور جس کی دعائیں تیرے پاس قبول تھیں۔
الٰہی جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا، تو اس کی مصیبت کے وقت اس پر رحم کرے، تو اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بغیر کسی تکلیف کے سمندر کے کنارے پر اگل دے۔
روایت میں آتا ہے کہ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں تین دن، سات دن، چالیس دن یا چند گھنتے تسبیح کرتے رہے، چنانچہ مچھلی نے اللہ کے حکم سمندر کے کنارے پر اگل دیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے ان کا جسم ایسا ہوگیا تھا جیسا کہ پرندہ کا پیداشدہ بچہ جس کا جسم نرم ہوتا ہے اور جسم پر بال تک نہیں تھے غرض یونس علیہ السلام بہت نحیف وناتواں حالت میں خشکی پر ڈال دیئے گئے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساحل پر ایک بیلدار درخت اگایا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مچھلی نے یونس علیہ السلام کو کھلے میدان میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر 'یقطین' کی بیل اگادی۔ ان سے پوچھا گیا کہ یقطین کسے کہتےہیں. فرمایا (کدو کے پودے کو) اس کےعلاوہ اللہ نے ان کے لئے ایک جنگلی بکری بھیج دی۔ جو زمین کی گھاس اور جڑی بوٹیاں کھاتی تھی۔
اور صبح وشام آپ کو دودھ پلاتی تھی۔ حتیٰ کہ آپ کی توانائی لوٹ آئی۔ حضرت یونس علیہ السلام درخت کے سائے میں جھونپڑی بناکر رہنے لگے۔ چند دنوں بعد ایسا ہوا کہ اس بیل کی جڑ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیڑا لگ گیا اور اس نے جڑ کو کاٹ ڈالا۔ جب بیل سوکھنے لگی تو یونس علیہ السلام کو بہت دکھ ہوا، تب اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ان کو مخاطب کیا اور فرمایا: یونس! تم اس بیل کے سوکھنے پر کتنا رنج کا اظہارکررہے ہو جو ایک حقیر سی چیز ہے۔ مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ نینویٰ کی ایک لاکھ سے زائد آبادی جس میں انسان بس رہے ہیں اور ان کے علاوہ جاندار بھی آباد ہیں۔ اس کو برباد اور ہلاک کردینے میں کیا ہم کو کوئی ناگواری نہیں ہوگی۔ اور کیا ہم ان کے لئے اس سے زیادہ شفیق ومہربان نہیں ہیں جتنا کہ تجھ کو اس بیل سے انس ہے جو تم وحی کا انتظار کیے بغیر قوم کو بددعا کرکے ان کے درمیان سے نکل آئے۔ ایک نبی کی شان کے نزدیک یہ نامناسب تھا کہ وہ قوم کے حق میں عذاب کی بددعا کرتے اور ان سے نفرت کرکے جدا ہوجانے میں عجلت کرلے اور وحی کا انتظار بھی نہ کرے۔
یونس علیہ السلام کے بستی چھوڑدینے کےبعد نینویٰ کے لوگوں کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ ضرور خدا کے سچے پیغمبر ہیں اور اب ہلاکت یقینی ہے۔ تب ہی یونس علیہ السلام ہم سے جدا ہوگئے. یہ سوچ کر فوراً بادشاہ سے لے کر رعایا تک سب کے دل خوف ودہشت سے کانپ اٹھے اور یونس علیہ السلام کو تلاش کرنے لگے۔ تاکہ ان کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کریں۔ اورساتھ ہی خدائے تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنے لگے، اور ہر قسم کے گناہوں سے کنارہ کش ہوکر آبادی سے باہر میدان میں نکل آئے اور بارگاہ الٰہی میں بلند آواز سے یہ اقرار کرتے رہے.
"ربنا امنا بماجاء یونس."
ترجمہ: "اے ہمارے رب! یونس علیہ السلام جو تیرا پیغام ہمارے پاس لے کر آئیں ہیں ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں."
آخرکار اللہ پاک نے ان کی دعاء قبول فرمائی اور ان کو عذاب الٰہی سے محفوظ رکھا. بہرحال یونس علیہ السلام کو اللہ پاک نے صحت وتندرستی دے کر اب دوبارہ نینویٰ جانے کا حکم دیا کہ قوم میں رہ کر ان کی رہنمائی فرمائی جائے. چنانچہ حضرت یونس علیہ السلام نینویٰ واپس تشریف لے گئے. قوم کے لوگوں نے جب انہیں دیکھا تو خوشی کا اظہار کیا۔
حضرت یونس علیہ السلام کی زندگی نینویٰ ہی میں گزری اور وہیں ان کا انتقال ہوا اور وہیں ان کی قبر تھی. جو نینویٰ کی تباہی کے بعد نامعلوم ہوگئی۔
اس قصے میں سبق یہ ہےکہ کسی بھی حال میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی ہدایت کے معاملے میں اپنی ذات پر بھروسہ کرنا چاہئے. ہدایت تو بس اللہ ہی کی طر ف سے ہے. آپ کے ذمے تو بس پیغام حق پہنچانا ہے.
صُفَّہ اسلامک ریسرچ سنٹر (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/07/blog-post_15.html
No comments:
Post a Comment