Wednesday 17 January 2018

قیامت آنے کی دس بڑی نشانیاں

قیامت کی دس بڑی نشانیاں
عن حذيفة بن أسيد الغفاري قال اطلع النبي صلى الله عليه وسلم علينا ونحن نتذاكر . فقال ما تذكرون ؟ . قالوا نذكر الساعة . قال إنها لن تقوم حتى تروا قبلها عشر آيات فذكر الدخان والدجال والدابة وطلوع الشمس من مغربها ونزول عيسى بن مريم ويأجوج ومأجوج وثلاثة خسوف خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزيرة العرب وآخر ذلك نار تخرج من اليمن تطرد الناس إلى محشرهم . وفي رواية نار تخرج من قعر عدن تسوق الناس إلى المحشر . وفي رواية في العاشرة وريح تلقي الناس في البحر . رواه مسلم .
حضرت حذیفہ ابن اسید غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کررہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف آنکلے اور پوچھا کہ:
تم لوگ کس چیز کا ذکر کر رہے ہو؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ:
ہم قیامت کا تذکرہ کر ہے ہیں،
تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یقینا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیوں کو نہ دیکھ لوگے،"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس نشانیوں کو اس ترتیب سے ذکر فرمایا
١. دھواں
٢. دجال
٣. دابہ الارض
٤. سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا
٥. حضرت عیسی ابن مریم کانازل ہونا
٦. یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا اور (چھٹی، ساتویں اور آٹھویں نشانی کے طور پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین خسوف کا (یعنی تنی مقامات پر زمین کے دھنس جانے کا) ذکر فرمایا ایک تو مشرق کے علاقہ میں، دوسرے مغرب کے علاقہ میں اور تیسرے جزیرہ عرب کے علاقہ اور دسویں نشانی، جو سب کے بعد ظاہر ہوگی ، وہ آگ ہے جو یمن کی طرف سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو گھیر ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ وہ ایک ایسی آگ ہوگی جو (یمن کے مشہور شہر عدن کے آخری کنارے سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی نیز ایک روایت میں دسویں نشانی کے طور پر یمن کی طرف سے یا عدن کے آخری کنارے سے آگ کے نمودار ہونے کی بجائے) ایک ایسی ہوا کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی۔" (مسلم)
تشریح:
واضح رہے کہ یہاں حدیث میں جن دس نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی ترتیب کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ان میں سے سب سے پہلے جس نشانی کا ظہور ہوگا وہ دھواں ہے، اس کے بعد دجال نکلے گا پھر حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے، پھر یاجوج ماجوج نکلیں گے، پھر دابۃ الارض نکلے گا، اور پھر آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع ہوگا یہ بات اس لئے کہی جاتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں تمام روئے زمین پر اہل ایمان کے علاوہ کوئی نہیں ہوگا کیونکہ سارے کفار مسلمان ہونگے ان کا ایمان مقبول ہوگا ، اس کے برخلاف اگر یہ کہا جائے کہ مغرب کی جانب سے آفتاب کا طلوع ہونا ، دجال کے نکلنے اور حضرت عیسی علیہ السلام کے نازل ہونے سے پہلے ہوگا تو ظاہر ہے کہ جو کفار حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں مسلمان ہوں گے ان کا ایمان مقبول قرار نہ پائے کیونکہ آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا اور اس وقت کسی کافر کا ایمان قبول کرنا معتبر نہیں ہوگا جب کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ میں ایمان قبول کرنے والے تمام لوگوں کا ایمان معتبر ہوگا اور وہ مسلمان مانے جائیں گے ! پس حدیث میں مذکورہ نشانیوں کو جس ترتیب کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، وہ ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کی اصل ترتیب نہیں ہے اور نہ یہاں اصل ترتیب کا ذکر کرنا مراد ہے بلکہ اصل مقصد ان نشانیوں کو ایک جگہ ذکر کرنا ہے سو بلا لحاظ ترتیب ان کو ایک جگہ ذکر کر دیا گیا لہٰذا یہ اشکال وار نہیں ہوسکتا کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول آفتاب کے مغرب کی جانب سے طلوع ہونے کے واقعہ سے پہلے ہوگا تو یہاں نزول آفتاب کے بعد کیوں ذکر کیا گیا۔
حدیث میں قیامت کی جن دس بڑی نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں پہلی نشانی کے طور پر دھویں کا ذکر ہے، چنانچہ وہ ایک بڑا دھواں ہوگا جو ظاہر ہوکر مشرق سے مغرب تک تمام زمین پر چھاجائیگا اور مسلسل چالیس روز تک چھایا رہے گا اس کی وجہ سے تمام لوگ سخت پریشان ہوجائیں گے، مسلمان تو صرف دماغ وحو اس کی کدورت اور زکام میں مبتلا ہوں گے مگر منافقین وکفار بیہوش ہوجائیں گے اور ان کے ہوش وحو اس اس طرح ہوجائیں گے کہ بعضوں کو کئی دن تک ہوش نہیں آئے گا واضح رہے کہ قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ آیت:
(فَارْتَ قِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَا ءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ) (44۔ الدخان : 10)
تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے تابعین کے قول کے مطابق اس آیت میں اسی دھویں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
"دابۃ الارض" سے مراد ایک عجیب الخلقت اور نادر شکل کا جانور ہے جو مسجد حرام میں کوہ صفا ومروہ کے درمیان سے برآمد ہوگا اور جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ان الفاظ
واخر جنا لہم دابۃ من الارض
کے ذریعہ کیا گیا ہے! علماء نے لکھا ہے کہ وہ جانور چوپایہ کی صورت میں ہوگا جس کی درازی ساٹھ گز کی ہوگی، اس کے نمودار ہونے کی صورت یہ ہوگی کہ کوہ صفا جو کعبہ کی مشرقی جانب واقع ہے ، یکایک زلزلہ سے پھٹ جائے گا اور اس میں سے یہ جانور نکلے گا، اس کے ہاتھ میں حضرت موسی علیہ السلام کا عصا ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں حضرت سلیمان کی انگشتری ہوگی تمام شہروں اور علاقوں میں اتنی تیزی کے ساتھ دورہ کرے گا کہ کوئی فرد بشر اس کا پیچھا نہ کر سکے گا اور دوڑ میں اس کا مقابلہ کر کے اس سے چھٹکارا نہ پاسکے گا جہاں جہاں جائے گا ہر شخص پر نشان لگاتا جائے گا جو صاحب ایمان ہوگا اس کو حضرت موسی علیہ السلام کے عصاء سے چھوئے گا اور اس کی پیشانی پر "مومن" لکھ دے گا اور جو کافر ہوگا اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری سے سیاہ مہر لگا دے گا اور اس کے منہ پر کافر لکھ دے گا۔
ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَاۡتِیَہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ یَاۡتِیَ رَبُّکَ اَوۡ یَاۡتِیَ بَعۡضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ ؕ یَوۡمَ یَاۡتِیۡ بَعۡضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنۡفَعُ نَفۡسًا اِیۡمَانُہَا لَمۡ تَکُنۡ اٰمَنَتۡ مِنۡ قَبۡلُ اَوۡ کَسَبَتۡ فِیۡۤ اِیۡمَانِہَا خَیۡرًا ؕ قُلِ انۡتَظِرُوۡۤا اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ ﴿۱۵۸ٰ الانعام‘﴾
یہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آ جائیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اپنے ایمان (کی حالت) میں نیک عمل نہیں کئے ہوں گے (تو گناہوں سے توبہ کرنا مفید نہ ہوگا اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ کافروں کو اور پیغمبروں کے مخالفوں کو اور اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اور اپنی راہ سے روکنے والوں کو ڈرا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت کا انتظار ہے؟ جبکہ فرشتے بھی آئیں گے اور خود اللہ قہار بھی ۔ وہ بھی وقت ہوگا جب ایمان بھی بےسود اور توبہ بھی بیکار، بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ سورج مغرب سے نہ نکلے جب یہ نشان ظاہر ہو جائے گا تو زمین پر جتنے لوگ ہوں گے سب ایمان لائیں گے لیکن اس وقت کا ایمان محض بےسود ہے ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی اور حدیث ہے جب قیامت کی تین نشانیاں ظاہر ہو جائیں تو بےایمان کو ایمان لانا، خیر سے رکے ہوئے لوگوں کو اس کے بعد نیکی یا توبہ کرنا کچھ سود مند نہ ہوگا۔ سورج کا مغرب سے نکلنا، دجال کا آنا، دابتہ الارض کا ظاہر ہونا۔ ایک اور روایت میں اس کے ساتھ ہی ایک دھویں کے آنے کا بھی بیان ہے اور حدیث میں ہے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے بیشتر جو توبہ کرے اس کی توبہ مقبول ہے۔
سورج کا مغرب سے نکالنا قیامت کے نشانیوں میں آخری نشانی ہوگی۔
حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول حضرت امام مہدی کے ظہور کے بعد ہوگا، چنانچہ آپ ایک دن شام کے وقت آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی سفید منارہ پر اتریں گے اور پھر دجال کو تلاش کرکے اس کو دروازہ لد پر قتل کریں گے "لد" شام میں ایک موضع کا نام ہے اور بعض حضرات نے اس کو فلسطین کے ایک موضع کا نام بتایا ہے پھر آپ کا نکاح ہوگا اور آپ چالیس سال تک دنیا میں رہیں گے اور کی تدفین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگی ۔
"یاجوج ماجوج" دراصل دو قبیلوں کے نام ہیں جو یافث ابن نوح کی اولاد میں سے ہیں ، یہ دونوں قبیلے بہت وحشی مگر طاقتور تھے. ان کا خاص مشغلہ لوٹ مار اور زمین پر فساد پھیلانا تھا، یہ قبیلے جس گھاٹی میں رہا کرتے تھے اس کو ذو القرنین نے ایک ایسی دیوار سے جس کی بلندی اس گھاٹی کے دونوں طرف کے پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچتی ہے اور موٹائی ٦٠ گز کی ہے، بند کرا دیا تھا تاکہ لوگ ان قبیلوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ سکیں، جب قیامت آنے کو ہوگی اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت آئے گا تو دیوار ٹوٹ جائے گی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین خسوف کا ذکر فرمایا " کے بارے میں ابن مالک نے کہا ہے کہ عذاب الہٰی کے طور پر زمین کا دھنس جانا مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں واقع ہو چکا ہے لیکن احتمال ہے کہ یہاں حدیث میں جن تین خسوف کا ذکر فرمایا ہے وہ پہلے واقع ہو چکنے والے خسوف کے علاوہ ہوں گے اور ان سے بھی زیادہ سخت ہوں گے ۔
"اور لوگوں کو ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی" میں زمین حشر سے مراد ملک شام کا وہ علاقہ ہے جہاں وہ آگ لوگوں کو لے جا کر چھوڑے گی بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس آگ کی ابتداء ملک شام سے ہوگی، یا یہ کہ ملک شام کو اس قدر وسیع وفراخ کر دیا جائے گا کہ پورے عالم کے لوگ اس میں جمع ہو جائیں گے بہر حال حدیث کے اس جملہ کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اس آگ کا لوگوں کو ہانکنا، حشر کے بعد ہوگا۔ اگر زمین حشر سے مراد میدان حشر لیا جاتا تو یقینا یہ مفہوم پیدا ہوتا اور اس پر اعتراض بھی واقع ہوتا ، لیکن جب یہاں "میدان حشر" مراد ہی نہیں ہے تو پھر کوئی اعتراض بھی پیدا نہیں ہوسکتا! نیز ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ وہ آگ حجاز کی سر زمین سے نمودار ہوگی، جب کہ یہاں حدیث میں اس کا یمن کی جانب سے نمودار ہونا بیان کیا گیا ہے) لہذا قاضی عیاض نے یہ کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ قیامت کی نشانی کے طور پر جس آگ کا ذکر کیا گیا ہے وہ ایک نہیں دو ہوں گی، اور وہ دونوں ، لوگوں کو گھیر کر ہانک کر زمین حشر (یعنی ملک شام) کی طرف لے جائیں گی۔ یا یہ کہ وہ آگ تو ایک ہی ہوگی جو ابتداء میں یمن کی جانب سے نکلے گی لیکن اس کا ظہور حجاز کی سر زمین سے ہوگا ۔ اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں بخاری کی جو روایت ہے اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ قیامت کی علامتوں میں سے سب سے پہلی علامت وہ آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے گھیر ہانک کر مغرب کی طرف لے جائے گی جب کہ حقیقت میں وہ آگ سب سے آخری علامت ہوگی جیسا کہ یہاں حدیث میں مذکور ترتیب سے بھی واضح ہوتا ہے ، پس اس تضاد کو اس تاویل کے ذریعہ دور کیا جائے گا کہ آگ کی سب سے آخری نشانی مذکورہ آگ ہوگی، اور بخاری کی روایت میں آگ کو جو سب سے پہلی نشانی قرار دیا گیا ہے تو وہ اس اعتبار سے کہ آگ ، قیامت کی ان نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی ہوگی جن کے بعد دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی بلکہ ان نشانیوں کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ہی صور پھونکا جایئگا، ان کے برخلاف یہاں حدیث میں جن نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے ہر ایک نشانی کے بعد بھی دنیا کی چیزیں باقی رہیں گی۔
ایک ایسی ہوا کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی یہ روایت بظاہر اس روایت کے خلاف ہے جس میں آگ کا ذکر ہے پس ان دونوں روایتوں کے درمیان مطابقت ویکسانیت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ اس دوسری روایت میں لفظ ناس (لوگوں) سے مراد کفار ہیں، اور ان کو ہانکنے والی آگ ہوا کے سخت جھکڑ کے ساتھ ملی ہوئی ہوگی تاکہ ان کفار کو سمندر میں دھکیلنے کا عمل زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پورا ہو ، نیز مذکورہ آگ جس کا پانی آگ کی صورت میں تبدیل ہو جائے گا، چنانچہ قرآن کریم ان الفاظ و اذا لبحار سجرت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ تبدیل ہو جائے گا چنانچہ قرآن کریم کے ان الفاظ میں اسی حقیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے برخلاف مومنین کے لئے جو آگ ہوگی وہ محض ان کو ڈرانے کے لئے ہوگی اور کوڑے کی طرح اس کا کام یہ ہوگا کہ انہیں ہانک کر زمین حشر اور موقف اعظم کی طرف لے جائے۔
مشکوۃ شریف۔ جلد پنجم۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر۔ حدیث 30
http://www.hadithurdu.com/09/9-5-30/
...........
1: حضرت حذیفہ ابن اسید غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف آنکلے اور پوچھا کہ تم لوگ کس چیز کا ذکر کر رہے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم قیامت کا تذکرہ کر ہے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یقینا قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تم اس سے پہلے دس نشانیوں کو نہ دیکھ لوگے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس نشانیوں کو اس ترتیب سے ذکر فرمایا
1: پہلی ......دھواں
2: دوسری...... دجال
3: تیسری....دابہ الارض
4: چوتهی.... سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا
5: پانچویں.... حضرت عیسی ابن مریم کانازل ہونا
6: چهٹی.....یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا
7: ساتویں .... 
8: آٹھویں .....، 9: نویں.... نشانی کے طور پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین خسوف کا (یعنی تنی مقامات پر زمین کے دھنس جانے کا ) ذکر فرمایا ایک تو مشرق کے علاقہ میں ، دوسرے مغرب کے علاقہ میں اور تیسرے جزیرہ عرب کے علاقہ
10: دسویں..... نشانی ، جو سب کے بعد ظاہر ہوگی ، وہ آگ ہے جو یمن کی طرف سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو گھیر ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ وہ ایک ایسی آگ ہوگی جو ( یمن کے مشہور شہر عدن کے آخری کنارے سے نمودار ہوگی اور لوگوں کو ہانک کر زمین حشر کی طرف لے جائے گی نیز ایک روایت میں دسویں نشانی کے طور پریمن کی طرف سے یا عدن کے آخری کنارے سے آگ کے نمودار ہونے کے بجائے ) ایک ایسی ہوا کا ذکر کیا گیا ہے جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی ۔
(مظاهرحق شرح مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 30)
--------------------------------------------------------
2: سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، حماد بن سلمہ، ایوب، ابوقلابة، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا علامات قیامت یہ ہے کہ لوگ فخر کریں گے مسجدوں میں (مطلب یہ ہے کہ لوگ تکبر کی نیت سے ایک دوسرے سے بڑھ کر عمدہ عمدہ مساجد تعمیر کریں گے اور ایک دوسرے کی تقلید میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی نیت سے مساجد تعمیر کریں گے اور ان کا مقصد رضائے الٰہی نہ ہوگا)
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 693
------------------------------------------
3: علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابی حیان تیمی، ابوزرعہ، ابن عمرو بن جریر، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علامات قیامت میں سب سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانی آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت دابة الارض کا لوگوں کے سامنے آنا ہے۔ سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 949

No comments:

Post a Comment