Friday 19 January 2018

إلى كل أم.. نصائح لتنمية ذكاء طفلك بچوں کی ذہانت بڑھانے کے لیے مفید مشورے!


ایس اے ساگر
اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں مولانا محمد شفیق الرحمن علوی رقمطراز ہیں کہ بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنھیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے؛ اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت نقش علی الحجرکی طرح ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبڑے ہونے کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔نیز! اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے؛ جب کہ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔ لفظِ تربیت ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں۔ ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد وغرض‘ عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے۔ تربیت ِ اولاد بھی اُنھیں اقسام میں سے ایک اہم قسم ہے۔ آسان الفاظ میں تربیت کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ:” برے اخلاق وعادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق وعادات اور ایک صالح ،پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام تربیت ہے۔ “
تربیت کی دو قسمیں:
تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: 

(1) ظاہری تربیت،
(2) باطنی تربیت۔
اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔
’خود اعتمادی بچے کی ذہنی نشو نما کی شاہ کلید‘
والدین اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ ذہین دیکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں تاکہ بچے حصول علم کے میدان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے والدین خصوصا ماوں کی جانب سے مختلف طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ بہت سے بچے کم سنی میں تنہائی، لا پروا
ئی جیسی عادات کے ساتھ بول چال میں نہایت کمزور واقع ہوتے ہیں مگران کے بعض جسمانی اور نفسیاتی عوارض کو دور کردیا جائے تو وہ بچے کامیاب سائنسدان، علما، موجد اور فن کار بن کر ابھرسکتے ہیں۔ مصرکے ایک ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر مجد العجرودی نے اخبار ’الیوم السابع‘ سے بات کرتے ہوئے ایسے آٹھ مفید مشورے بیان کیے ہیں جو تمام والدین بالخصوص ماوں کے لیے ان کے بچوں کی ذہنی نشونما کے حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ مفید مشورے کیا ہیں؟ آپ بھی جانیے۔
1۔ بچے میں خود اعتمادی پیدا کرنا۔ چونکہ بچہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں خود کو دیکھتا ہے۔ اگر بچے کی زیادہ سے زیادہ تعریف وتوصیف کی جائے گی تو اس میں خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا اور یوں اس کی ذہنی صلاحیتوں کی بہتر انداز میں نشو ونما ہوسکے گی۔
2۔ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش صرف والدین تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ بچے کو ’محدود ذہنیت‘ کا الزام نہیں دینا چاہیے بلکہ ماوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے اس کے اساتذہ اور دوستوں کو بھی اس بات پرقائل کریں کہ وہ بچے میں خود اعتمادی کے فروغ کی کوشش کریں۔
3۔ بچے کو ڈرانے دھمکانے اور اسے دوسرے بچوں کی نظر میں گرانے سے گریزکریں، چاہے وہ بار بار غلطی کیوں نہ کرے۔ بار بار کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔
4۔ بچے کی ان خوبیوں کو تلاش کریں جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اس کی آواز اور قدرت کلام کو بہتر بنانے پر توجہ دییجیے۔ اسے گھر میں ایسا ماحول فراہم کیجیے تاکہ وہ اسکول میں بھی اپنے اوپر اعتماد پید اکرسکے۔
5۔ بچے کی ذہانت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ نہ ڈالیے۔ ایسا نہ ہو کہ کام کے بوجھ تلے دب کر بچہ ناکام ہواور مایوس ہوجائے۔
6۔ بچے کی محدود صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں ہمہ وقت اس کی مدد جاری رکھیں۔ پینٹنگز پر توجہ دینےکے بجائے بچے کے تدریسی مواد مثلا اس کی لکھائی پڑھائی میں اس کی مدد کیجیے۔
7۔ دوسرے بچوں کے سامنے اپنے بچے کو نفسیاتی طورپر گرانے کی کوشش نہ کیجیے بلکہ دوسروں کے سامنے بھی اپنے بچے کی تعریف کیجیے۔
8۔ بچے کے پسندیدہ [مثبت] مشاغل میں اس کی مدد کی کیجے تاکہ اس میں دوسرے بچوں کے درمیان رہتےہوئے خود اعتمادی کا احساس پھلتا پھولتا رہے۔

باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
” قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“․ (التحریم:۶)
ترجمہ: ”اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں“۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا کہ:
”علموھم وأدِّبوھم“․
ترجمہ: ”ان (اپنی ولاد ) کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ“۔
فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔
اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے بھی ہوتا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
1- ”مَانَحَلَ والدٌ أفضلَ مِنْ أدبٍ حسنٍ“․ (بخاری، جلد:۱،ص:۴۲۲)
ترجمہ:”کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے“۔ یعنی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔
2- ”عن ابن عباس․․․․․․قالوا: یارسول اللّٰہ! قد علمنا ما حق الوالد فماحق الولد؟ قال: أن یحسن اسمہ ویحسن أدبہ“․ (سنن بیہقی)
ترجمہ: ”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے، اولاد کے کیا حقوق ہیں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے “۔
3- ”یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان جن کا ذمہ دارورکھوالا ہے، اُنھیں ضائع کردے، ان کی تربیت نہ کرے“۔
یہ بھی ضائع کرنا ہے کہ بچوں کو یونہی چھوڑدینا کہ وہ بھٹکتے پھریں، صحیح راستہ سے ہٹ جائیں، ان کے عقائد واخلاق برباد ہوجائیں۔نیز اسلام کی نظر میں ناواقفیت کوئی عذر نہیں ہے، بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں جن امور کا جاننا ضروری ہے، اُس میں کوتاہی کرنا قیامت کی باز پرس سے نہیں بچاسکتا۔
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
”اپنی اولاد کوادب سکھلاوٴ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گاکہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟۔“ (شعب الإیمان للبیہقی)
بچوں کی حوصلہ افزائی:
بچہ نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس پر اُسے شاباش اورکوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے جس سے بچہ خوش ہوجائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہوجائے۔
بچوں کی غلطی پرتنبیہ کا حکیمانہ انداز:
بچوں کو کسی غلط کام پر باربار اور مسلسل ٹوکنا اُن کی طبیعت میں غلط چیز راسخ ہونے سے حفاظت کا سبب بنتا ہے،جس سے اگر غفلت نہ برتی گئی تو اس میں شک نہیں کہ بچوں اور بچیوں میں غلط افکار جڑپکڑنے سے پہلے کامل طریقہ سے ان کی بیخ کنی ہوگی ۔بچے سے خطا ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، غلطی تو بڑوں سے بھی ہوجاتی ہے۔ ماحول کا بچوں پر اثر ہوتا ہے، ممکن ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے بچہ کوئی غلطی کربیٹھے، تو اس صورت حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ بچے سے غلطی کس سبب سے ہوئی؟ اسی اعتبار سے اسے سمجھایا جائے۔تربیت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، مربی کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ اس وقت بچہ کے لیے نصیحت کارگر ہے یا سزا؟ تو جہاں جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے۔ بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے؛ چنانچہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے: 

1- سمجھانا۔
2-ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔
3- مارکے علاوہ کوئی سزا دینا۔
4- مارنا۔
5- قطع تعلق کرنا۔ یعنی غلطی ہوجانے پر بچوں کی تربیت حکمت کے ساتھ کی جائے، 
اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحةً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ پیارومحبت سے بچوں کی تربیت واصلاح کا ایک واقعہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ میں بچپن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرتربیت اور زیرکفالت تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: 
”یا غلامُ سَمِّ اللّٰہ! وکل بیمینک وکل ممایلیک“ ․․․․
”اے لڑکے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ۔“
اگر نصیحت اور آرام سے سمجھانے کے بعد بھی بچہ غلطی کرے تو اُسے تنہائی میں ڈانٹا جائے اور اس کام کی برائی بتائی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کو کہا جائے۔ پھر بھی اگر باز نہ آئے تو تھوڑی پٹائی بھی کی جاسکتی ہے۔ تربیت کے یہ طریقے نوعمر بچوں کے لیے ہیں؛ لیکن بلوغت کے بعد تربیت کے طریقے مختلف ہیں، اگر اس وقت نصیحت سے نہ سمجھے تو جب تک وہ اپنی برائی سے باز نہ آئے اس سے قطع تعلق بھی کیا جاسکتا ہے، جو شرعاً درست ہے اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک رشتہ دار تھے جو ابھی بالغ نہ ہوئے تھے، انھوں نے کنکر پھینکا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے منع کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ: 

”إنّھا لاتصید صیدًا“ 
اس سے کوئی جانور شکار نہیں ہوسکتا، اس نے پھر کنکر پھینکا تو انھوں نے غصہ سے فرمایا کہ میں تمہیں بتلارہا ہوں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور تم پھر دوبارہ ایسا ہی کررہے ہو؟ میں تم سے ہرگز بات نہیں کروں گا۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اپنے بیٹے سے ایک موقع سے قطع تعلق کیا تھا اور مرتے دم تک اس سے بات نہ کی۔
بچوں کو ڈانٹنے اور مارنے کی حدود:
بچوں کی تربیت کے لیے ماں باپ یا استاد کا اُنھیں تھوڑابہت، ہلکا پھلکا مارنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛بلکہ بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے۔اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ غصہ میں بے قابو ہوجانا اور حد سے زیادہ مارنایا بچوں کے مارنے ہی کو غلط سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں۔ پہلی صورت میں افراط ہے اور دوسری میں تفریط ہے۔ اعتدال کا راستہ وہ ہے جو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا کہ:

”اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو؛ جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور ان کو نماز نہ پڑھنے پر مارو؛ جب کہ وہ دس سال کے ہوجائیں“۔ (مشکوٰة) اس حدیث سے مناسب موقع پر حسبِ ضرورت مارنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ مارنے میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اس حد تک نہ ماراجائے کہ جسم پر مار کا نشان پڑجائے۔ نیز جس وقت غصہ آرہا ہو، اس وقت بھی نہ مارا جائے؛ بلکہ بعد میں جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو اس وقت مصنوعی غصہ ظاہر کرکے ماراجائے؛کیونکہ طبعی غصہ کے وقت مارنے میں حد سے تجاوز کرجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور مصنوعی غصہ میں یہ خطرہ نہیں ہوتا، مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور تجاوز بھی نہیں ہوتا۔
لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا گناہ ہے:
اولاد اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اورتحفہ ہے،خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔اسلامی تعلیمات کی رو سے بچوں پر رحم وشفقت کے معاملہ میں مذکر ومؤنث میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ جو والدین لڑکے کی بہ نسبت لڑکی سے امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ جاہلیت کی پرانی برائی میں مبتلا ہیں، اس طرح کی سوچ اور عمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ دینی اعتبار سے تو اس پر سخت وعید یں وارد ہوئی ہیں۔ لڑکی کو کمتر سمجھنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے سے ناخوشی کا اظہار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُسے لڑکی دے کر کیا ہے، ایسے آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تو کیا پوری دنیا بھی مل کراللہ تعالیٰ کے اس اٹل فیصلہ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔یہ درحقیقت زمانہٴ جاہلیت کی فرسودہ اورقبیح سوچ ہے، جس کو ختم کرنے کے لیے رحمة للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین اور تربیت کرنے والوں کو لڑکیوں کے ساتھ اچھے برتاؤاوران کی ضروریات کا خیال رکھنے کی باربار نصیحت کی۔
اولاد کے درمیان برابری اور عدل:
ابوداؤد شریف میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے:
”قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم“․ (ابوداؤد،جلد:۲،ص:۱۴۴)
ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو،اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو“۔
مطلب یہ ہے کہ ظاہری تقسیم کے اعتبار سے سب بچوں میں برابری کرنی چاہیے؛ کیونکہ اگر برابری نہ ہو تو بچوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ہاں! فطری طور پر کسی بچے سے دلی طور پر زیادہ محبت ہو تواس پر کوئی پکڑ نہیں؛بشرطیکہ ظاہری طور پر برابری رکھے۔ حدیث میں تین بارمکرر برابری کی تاکیدآئی ہے جو اس کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے، یعنی اولاد کے درمیان برابری کرنا واجب ہے، اور برابری نہ کرنا ظلم شمار ہوگا۔اور اس کا خیال نہ رکھنا اولاد میں احساسِ کمتری اور باغیانہ سوچ کو جنم دیتا ہے، جس کے بعد بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمان والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے!
إلى كل أم.. 8 نصائح لتنمية ذكاء طفلك
للأمهات اللاتي يعانين من قلة ذكاء أولادهن، ينصح الأطباء بأن يتسمن ببعض الدهاء أثناء التعامل من أطفالهن. فالأم يجب أن تحاول إقناع الطفل محدود الذكاء بقدراته المختلفة والمميزة في جوانب أخرى، لكي تحصل على أفضل ما عنده.

كثيرون من العلماء والمخترعين كانوا يعانون من بعض المشاكل أثناء الصغر، مثل الميل إلى العزلة والبعد عن الآخرين، أو التلعثم بالكلام، أو حتى المعاناة مع بعض المواد الدراسية، إلا أنه مع الوقت أثبتوا تميزهم وقدرتهم ونبوغهم في أشياء بعينها، جعلتهم يحفرون أسماءهم كمخترعين ونابغين وعلماء وموسيقيين في عالمنا.

وفي هذا السياق، نقلت صحيفة "اليوم السابع" عن الدكتور أمجد العجرودي، استشاري الأمراض النفسية، ومدير المركز الإقليمي للصحة النفسية، بعض النصائح التي وجهها لكل أم، وأهمها ضرورة استغلال قدرات طفلها، حتى وإن كان محدود الذكاء، وذلك عن طريق الكثير من الحيل.

ونصح العجرودي الأمهات باتباع 8 حيل مع أطفالهن، وهي:

1- زيادة ثقة الطفل بنفسه قبل سن الدراسة، فالطفل يرى نفسه في عيون أبويه، وإذا كانا دائمي المدح له ولصفاته وذكائه زادت ثقته في قدراته.

2- لا تجعلي طفلك يلتفت لمن ينهره أو يطلق عليه لفظ "محدود الذكاء"، وقومي بتقريب أصدقائه والأساتذة المقتنعين بقدراته واجعليهم يشعرونه بقدراته لتزيد ثقته بنفسه.

3- ابتعدي عن أسلوب التهديد والوعيد أو المعايرة أو التقليل من شأن طفلك مهما أخطأ، فقد تكسره هذه الكلمات للأبد.

4- ابحثي عما يميز طفلك، فقد يكون صوته جميلاً، أو رساما ماهرا، وعززي بكل الطرق هذه الصفات، ليشتهر بها في مدرسته ويصبح أكثر ثقة بالنفس.

5- لا تعطه مهام أكبر من ذكائه، بل اجعليها في مستوى ذكائه حتى لا يصاب بالإحباط.

6- أعطه بعض المساعدة على تعزيز قدراته المحدودة، في الكتابة مثلاً أو مادة دراسية بعينها، ولا تكوني لحوحة.

7- اهتمي بتدعيمه نفسياً، ولم شمل أصدقائه المقربين الذين يحسنون فهمه، وأحبائه من العائلة، ودائماً حاولي أن تمدحيه أمامهم.

8- اجعليه يمارس الهواية التي يتميز بها أمام أصدقائه وزملائه لينال الثقة بالنفس أكثر وأكثر.




No comments:

Post a Comment