Sunday 21 January 2018

کرنسی کا کاروبار؟

سوال: میں کرنسی تبدیل کرنے (Currency exchange) کا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں لیکن لوگوں سے سنا ہے کہ اس میں حرام اور سود کا عمل دخل ہے، اس لئے مجھے شرعی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا مجھے بتائیں کہ کرنسی تبدیل کرنا ہُنڈی اور حوالہ کاروبار کے جائز اور ناجائز صورتیں کیا ہیں؟ تاکہ میں شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے حرام سے خود کو بچاسکوں۔
Published on: May 31, 2017
جواب # 151327
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1043-1052/M=9/1438
کرنسی تبدیل کرنے سے مراد اگر یہ ہے کہ ایک ملک کی کرنسی لے کر دوسرے ملک کی کرنسی دیں گے مثلاً سعودی ریال یا پونڈ کے بدلے انڈین، یا پاکستانی روپیہ بدل کر دیں گے تو اس میں مضائقہ نہیں، گنجائش ہے اور ہنڈی یہ مکروہ ہے؛ لیکن اگر ہنڈی کے طور پر پیسہ منتقل کرنے والا شرعاً اجیر بن جائے اور لوگوں کے پیسے ٹرانسفر کرنے میں محنت وعمل کرے اور اس پر متعینہ اجرت لے تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن اگر مذکورہ دونوں کام پر حکومت کی جانب سے پابندی ہو تو احتیاط لازم ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
..........
پیسے اور دراہم کی جنسیں الگ الگ ملکوں کی کرنسی ہونے کی وجہ سے مختلف ہیں، اس لیے ان دونوں کرنسیوں کا آپس میں کمی بیشی اور قسطوں پر ادھار کے ساتھ تبادلہ جائز ہے؛ البتہ دو باتوں کا لحاظ ہونا چاہئے:
(۱) مجلس عقد میں بدلے میں دی جانے والی کرنسی کی مقدار طے ہوجائے، تاکہ آئندہ نزاع کا اندیشہ نہ رہے۔
(۲) ایک کرنسی پر مجلس عقد میں پوری طرح قبضہ پایا جائے؛ تاکہ اُدھار در اُدھار بیع کی حرمت متحقق نہ ہو، لہذا صورت مسئولہ میں بکر کا دراہم خرید کر نفع کے ساتھ زید کو قسطوں پر ادھار فروخت کرنا شرعا جائز ہے بشرطیکہ مجلس عقد میں زید دراہم پر قبضہ کرلے۔ قسطوں پر خرید فروخت کی صور ت میں نقد کے مقابلے میں قیمت زیادہ مقرر کرنا شرعا جائز ہوتا ہے، یہ سود کے دائرے میں نہیں آتا۔ وإذا عدم الوصفان والمعنی المضموم إلیہ حل التفاضل والنساء لعدم العلة المحرمة۔ (الہدایة / باب الربا ۳/۷۹، الفتاویٰ التاتارخانیة ۸/۳۴۸ زکریا) بیع الفلوس بمثلہا، کالفلس الواحد بالفلس الواحد الآخر، وہٰذا إنما یجوز إذا تحقق القبض في أحد البدلین في المجلس قبل أن یفترق المتبایعان؛ فإن تفرقا ولم یقبض أحد شیئًا فسد العقد؛ لأن الفلوس لا تتعین، فصارت دَینًا علی کل أحد، والافتراق عن دَین بدَین لا یجوز۔ (تکملة فتح الملہم ۱/۵۸۷) ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
........
آن لائن  فوریکس  ٹریڈنگ کا حکم
سوال: میرا کاروبار کرنسی ایکس چینج  (بیرونی زر مبادلہ) کا ہے اورا سی سلسلہ  میں آپ  سے ایک اہم مسئلہ دریافت، (Online Forex Trading)
 فوریکس  ٹریڈنگ (Forextrading) ایک ملک کی کرنسی  کو دوسرے  ملک کی کرنسی  کے عوض  آن لائن  خرید وفروخت  کرنے کا نام ہے جس کا طریقہ  کار تقریبا ً اسٹاک ایکس چینج (Stock Exchange) سے ملتا  جلتا ہے اسٹاک ایکس چینج   ہی کی طرح اس میں اکاؤنٹ  ہوتے ہیں جس کے ٹرمینل (Terminal) بذات خود آن لائن  بھی مینج کئے جاسکتے ہیں اور بروکر (Broker) کے واسطے  سے بھی  مینج (Manage) کیے جاسکتے ہیں اس بازار میں مختلف ممالک کی کرنسی  کی آپس میں خرید وفروخت کرکے نفع  حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے جبکہ حسی طور پر  کرنسی  کا وجود  کہیں پرنہیں پایا جاتا ہے اورسودا اسپوٹ  ریٹ (Spot Rate)  پر ہی ہوتا ہے مستقبل  پر نہیں۔
اس  کاروبار کا ابتدائی  مرحلہ یہ ہوتا ہے  کہ اگر میں ایک ہزارڈالر جمع کرواکر  فوریکس ٹریڈ  کمپنی  میں اکاؤنٹ شروع کرواتا  ہوں تو مجھ کو قوت  خریداری ایک لاکھ  ڈالر کے برابر کسی بھی ملک کی کرنسی  خرید کر بیچ  سکتا ہوں  مثال کے طور پر  ایک ہزار ڈالر  کی رقم  میں نے ہندوستانی روپیوں میں پچاس ہزار  روپے جمع کروائی  اب ان ایک ہزار  ڈالر کےعوض میں ایک لاکھ  ڈالر کے عوض  ہونے والے یورو (Euro) خرید سکتا ہوں  اور فروخت بھی کرسکتاہوں  یہ قوت  خرید مجھے  نفع کی صورت میں باقی  رہتی ہے  جب تک  کہ میں یہ سودا ختم نہ کروں  اور مارکیٹ  اپ (UP) ہو اب نفع  کی صورت میں جو نفع ہے وہ مجھے  ہی ملتا ہے اور اگر مارکیٹ گرنے  کی وجہ سے  نقصان ہوتا  تب  بھی قوت  خرید باقی رہتی  ہے اس صورت میں  اگر میں سودا ختم   کروں تو جو نقصان  ہوتا ہے  وہ میری جمع  کردہ رقم  میں سے کم کردیاجاتا ہے اور اگر میں نقصان  کی صورت میں بھی سودا ختم نہ کروں  یہاں تک کہ  نقصان  بڑھتے بڑھتے میری جمع  کردہ رقم  ایک ہزار  ڈالر کے  پندرہ فیصد یعنی ایک سو پچاس ڈالر تک  پہنچ  جائے توقوت  خرید بھی  ختم  ہوجاتی ہے اور جو نقصان  ہوتا ہے وہ بھی خود بخود اکاؤنٹ سے کٹ  جاتا ہے اس کے بعدا کاؤنٹ  رک (stop) جاتا ہے اب اگر میں دوبارہ  ٹریڈنگ  کرنا چاہوں  تومجھے  از سر نو رقم جمع کروانی ہوگی  اور اگر میں نقصان نہ کروں تو جو نفع حاصل شدہ ڈالر ہےا س کےا عتبار سے  قوت  خرید بڑھتی رہے گی اور کمپنی  میرا ٹریڈنگ مارجین (Trading  Margine)  بڑھاتی رہے گی  ۔
کمپنی کو  اس میں یہ فائدہ ہوتا ہے  کہ خرید فروخت  کے درمیان  جو چند سنٹ  (Cent) کا فرق ہوتا ہے  وہ اس کا نفع  ہے اس کے علاوہ  اکاؤنٹ  ہولڈر کو اور کچھ  ادا نہیں کر پڑتا ہے،
کیا یہ فوریکس ٹریڈ مختلف  ممالک کی کرنسیوں  کاروبار مذکورہ  بالا طریقہ   کار کے اعتبار سے  شرعاً جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے  توکن شرائط  کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے؟
مجھے اس تجارت میں دلچسپی ہے اگر ممکن  ہےتوبراہ کرم  مجھے اس  کا حلال  طریقہ بتائیں۔

 الجواب حامدوا مصلیا:
 سوال  میں فاریکس (Forex) کے جس کاروبار کی تفصیل درج  ہے اس کے  مطابق  یہ کاروبار شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا  طریقہ  کار ہمارے علم کے مطابق  یہ ہوتا ہے کہ  اگر کوئی شخص براہ راست اس مارکیٹ  میں خریداری  کا اہل نہیں  ہوتا  بلکہ وہ کسی  کمپنی  میں کچھ  رقم مثلا  ایک ہزار ڈالر سےا پنا اکاؤنٹ کھلوا کر اس کے ژریعے  اس مارکیٹ  میں داخل ہوتا ہے اور یہ کمپنیاں  دیگر سہولیات کے علاوہ  ایک بڑی  رقم کی ضمانت بھی اسے فراہم کرتی ہیں  انٹر نیٹ پراس  مارکیٹ  کے  حوالے  سے مختلف  اشیاء کے  ریٹ آرہے  ہوتے ہیں  اور لمحہ بہ لمحہ  کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں  یہ شخص کمپنی کی  طرف سے  فراہم کردہ  بڑی رقم  سے کوئی سودا  کرتا ہے اور پھر ریٹ  بڑھتے  ہی اسے آگے فروخت  کر کے نفع  کماتا ہے  اور اگر قیمت  گر جاتی  ہے تو یہ اس کا  نقصان شمار ہوتا ہے  کمپنی ایک ٹریڈ مکمل  ہونے پرا پنا طے شدہ کمیشن  وصول  کرتی ہے  اور اگر مقررہ وقت پرسودا مکمل نہ ہوسکے  تو کمپنی  اس کے بعد مزید چارجز وصول  کرتی ہے  اور اس شخص کا کوئی چیز خریدنا  اور فروخت کرنا سب کاغذی کاروائی ہوتی ہے خریدی ہوئی  اشیاء پر  نہ قبضہ  ہوتااور نہ قبضہ  کرنا مقصود ہوت اہے  بلکہ محض  نفع ونقصان برابر  کیاجاتاہے  اس لیے یہ سٹہ  کی ایک صورت ہونے کی وجہ سے حرام ہے ۔
اور کمپنی  کی طرف سے  فراہم کردہ  رقم  پر کمیشن  یا قرض  پرسود ہے یا کفالت کی اجرت ہے اور یہ دونوں چیزیں شرعاً  ناجائز  ہیں لہذااس کاروبار میں شریک  ہونا اور نفع کمانا  شرعا  جائز نہیں اس سے اجتناب لازم ہے ۔واللہ اعلم بالصواب
 (ماخذہ  تبویب فتاویٰ دارالعلوم   کراچی  1/363 )

http://www.suffahpk.com/online-forex-trading-ka-hukum
/

No comments:

Post a Comment