Monday 15 January 2018

جانوروں کو ذبح کرنے کا طریقہ

سوال # 6150
ہم چین میں رہتے ہیں اور جانوروں کو ذبح کرنے کی شرطوں کے بارے میں الجھن میں ہیں۔ مفتی تقی صاحب عثمانی صاحب نے ذبح کرنے کا درج ذیل طریقہ لکھا ہے۔ اسلامی ذابح کی شرائط درج ذیل ہیں: 
(۱) ذابح کا مسلمان ہونا۔
(۲) ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا۔ 
(۳) گلا، نرخرا اور گردن کی رگ کا کٹ جانا۔ اگر کوئی ایک بھی ان شرطوں میں سے نہیں پایا جائے گا تو ذبیحہ اسلامی نہیں مانا جائے گا۔ ٹھیک یہی شرطیں مولانا یوسف لدھیانوی صاحب نے (آپ کے مسائل اوران کا حل) میں بیان کی ہیں۔ لیکن درج ذیل فتوی میں (دارالعلوم دیوبند) اس طرح کی کوئی شرط مذکور نہیں ہے:
'اللہ کا نام لے کر (بسم اللہ اللہ اکبر) کہہ کرزندگی میں پہلی بار میں نے دومرغیاں ذبح کیں۔لیکن مجھے مرغی ذبح کرنے کا اسلامی طریقہ نہیں معلوم ہے۔ مرغی کی گردن کٹ گئی تھی اور خون کی رگ بھی۔ مرغی ذبح کرتے وقت میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ مجھے اس کا طریقہ نہیں معلوم ہے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ دونوں مرغیاں جو میں نے ذبح کیں حلال ہیں یا حرام؟
بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر مرغی کی گردن کاٹ دی گئی سارا خون بہہ گیا تو ذبح شرعاً درست ہوگیا، اس مرغی کا کھانا حلال ہے، شبہ نہ کریں۔ البتہ ذبح کرنے میں آئندہ اس کا خیال رکھیں کہ پوری گردن الگ نہ ہو بلکہ تھوڑا حصہ لگارہنا چاہیے، پوری گردن الگ کردینا مکروہ ہے'۔ فتوی: 737=690/ د
برائے کرم درج ذیل سوالات میں ہماری رہنمائی کریں۔ 
(۱) ذبح کرنے کے لیے گلا، نرخرا اور رگردن کی رگ کا کٹ جانا ضروری ہے یا نہیں؟ 
(۲) کون سی رگ کٹنی چاہیے (گردن کی دو رگیں یا ایک گردن کی رگ اور ایک بڑی رگ )؟ 
(۳) سانس کی نالی اور نرخرا حلق میں ایک جگہ ایک رگ کے ذریعہ سے ملتے ہیں۔ تو کیا ان کو اس پوائنٹ سے پہلے کاٹنا (سانس کی نالی اور نرخرا الگ الگ) ضروری ہے یا ہم اس پوائنٹ کے بعد کاٹ سکتے ہیں جہاں یہ دونوں ایکہوتے ہیں؟ (۴) کون سی صورت میں حرام یا مکروہ ہوگا؟
Published on: Aug 10, 2008
جواب # 6150
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1137=1078/ د
گلے میں چار رگیں ہوتی ہیں، ایک 'حلقوم' جسے نرخرا کہتے ہیں، اس سے سانس لی جاتی ہے، دوسرے 'مری' جس سے دانہ پانی جاتا ہے، اور دو شہ رگیں جو نرخرے کے دائیں بائیں ہوتی ہیں، ان چاروں رگوں کا کل یا اکثر کٹ جانا ضروری ہے، اور اگر چار میں سے تین ہی رگیں کٹیں تب بھی ذبح درست ہے اس کا کھانا حلال ہے۔ اوراگر دو رگیں کٹیں یا چار رگیں آدھی آدھی یا اس سے کم کٹیں تو وہ جانور مردار ہوگا، اس کا کھانا حرام ہے۔
(۱) تفصیل مذکور فی الجواب کے مطابق کٹ جانا ضروری ہے۔
(۲) حلقوم، مری کا اور شہ رگ میں سے کم ازکم ایک کا کٹ جانا ضروری ہے۔
(۳) بات پورے طور پر واضح نہیں ہے۔ دونوں کا الگ الگ کاٹنا ضروری ہے۔
(۴) کم ازکم تین رگوں کا کٹ جانا ضروری ہے۔ تین اور چار رگوں کے کٹنے کی صورت میں جانور حلال ہوگا۔ دو رگ کٹنے کی صورت میں حرام ہوگا۔  
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Qurbani-Slaughtering/6150
.................................
ذبح کرنے کی  منجملہ حکمتوں میں ایک یہ بھی ہے  کہ جلد روح نکل جائے اور جانور کو بلاوجہ تکلیف نہ ہو۔
اسلام نے اس سلسلے میں بلا ضرورت ہر قسم کی اذیت رسانی نے منع کیا ہے ۔
بَاب الْأَمْرِ بِإِحْسَانِ الذَّبْحِ وَالْقَتْلِ وَتَحْدِيدِ الشَّفْرَةِ
1955 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ ثِنْتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ [ص: 1549] وَحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ كُلُّ هَؤُلَاءِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ بِإِسْنَادِ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ وَمَعْنَى حَدِيثِهِ
صحيح مسلم
مرَّ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم على رجلٍ واضعٍ رجلَه على صفحةِ شاةٍ وهو يحُدُّ شفرتَه وهي تلحَظُ إليه ببصرِها قال أفلا قبل هذا أوَتريدُ أن تميتَها موْتتَيْن .
عن عبدالله بن عباس / المنذري في الترغيب والترهيب - الصفحة  2/161
رجاله رجال الصحيح
مذکورہ طریقے پر بطخ شکار کرنا بلاوجہ تکلیف پہونچا نا ہے اس لئے ایسا کرنا جائز نہیں ۔واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment