Saturday 20 January 2018

سوشل میڈیا؛ آخرت کی فکر کیجئے

ہر چیز کے استعمال کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک مثبت اور دوسرا منفی۔ اس کے فوائد بھی بے شمار ہوتے ہیں نقصان بھی بہت ہوتے ہیں۔ مثبت استعمال سے ہم اس کے فوائد حاصل کرسکتے ہیں جب کہ منفی استعمال ہمیں خسارے سے دوچار کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے بھی بے شمار منافع و نقصان ہیں۔ اس کے نقصان کی اگر بات کی جائیے تو سب سے پہلے یہ وقت کے بے انتہا ضیاع کا باعث بنتا ہے اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا ہم اپنا کتنا وقت اس میں گنوا دیتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں ہمارے لئے بہت ساری سہولیات مہیا کردی ہیں وہیں بے شمار دنیوی و اُخروی نقصانات بھی ہمارا مقدر بن گئے ہیں. سوشل میڈیا میں بکثرت استعمال ہونے والے واٹس ایپ What's aap اور فیس بک facebook نے تو تہلکہ مچا رکھا ہے. شروع شروع میں تو ان کے استعمال کرنے والے ان کے استعمال سے مکمل طور پر آشنانا تھے لیکن جوں جوں استعمال بڑھتا گیا، لوگ ان کے رموزواوقاف سے مکمل طور پر واقف ہوتے گئے. پھر لوگوں اپنی عقل و فہم کی بنیاد پر گروپس Groups تشکیل دینا شروع کردئے. اب المیہ یہ ہے کہ ہر یوزر اپنے چند دوستوں کو لے کر اپنے ذوق کے مطابق مختلف گروپس تشکیل دے رہاہے. اور پھر اِن گروپس میں کیا ہوتاہے، کیسے ہوتا یہ ہر صارف بخوبی جانتا ہے. بظاہر وہاٹس ایپ، فیس بُک کا استعمال کرنا، ان پر گروپ بنانا کوئی گناہ کا کام نہیں ہے. اِلاّ یہ کہ ان کا استعمال شرعی احکام کی پامالی، فرائض سے دوری اور دین بیزاری کا سبب بننے لگے تو پھر ان کا استعمال صرف گناہ ہی نہیں بلکہ حرام تک  ہوجاتا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے جیسے ہی آپ کسی گروپ کے ایڈمن بنتے ہیں آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے.  آپ ایڈمن admin بننے کے ساتھ ساتھ اپنےگروپ اور ممبران کے متعلق اخرت میں جواب دہی کے بھی ذمہ دارہوجاتے ہیں. آج کل یہ بیماری بری طرف عام ہوتی جارہی  ہے. ہربندہ اپنا گروپ بنارہاہے. گروپ میں سو،سو-دو،دوسو ممبران کو شامل یا ایڈ (Add) کررہاہے. یہ بھی کوئی بُری بات نہیں.  لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- أَنَّهُ قَالَ « أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِيرُ الَّذِى عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِىَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ».
ترجمہ:-
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: سنو! تم میں سے ہر شخص مسئول اور ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، امیر لوگوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا، اور مرد اپنے اہل خانہ پر حاکم ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار اور مسئول ہے اس سے ان کےبارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ یاد رکھو! تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔
(صحیح مسلم 34/14  )
اس حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ یہ بات موجود ہے کہ ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اپنے ماتحتوں کے متعلق کل قیامت کے دِن سوال کیا جائے. اب ہم غور کریں کہ فیس بک یا واٹس ایپ پر گروپ تشکیل دینے کے بعد ہم پر کتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے. جب آپ کوئی گروپ تشکیل دیتے ہیں تو اس گروپ میں آپکی حیثیت ذمہ دار عرف ایڈمن کی ہوتی ہے اور گروپ کا ہر ممبر آپ کا ماتحت ہوتا ہے. گروپ تشکیل یا کریٹ  create کرتے ہی حدیث شریف کی رو سے "مسئول" یعنی جس سے سوال کیا جائے، ایڈمن بن جاتے ہیں اور گروپ کے تمام ممبران کی آخرت کے بننے یا بگڑنے کے ذمہ دار بھی.  اور پھر انہی ممبران کی آخرت کے بننے یا بگڑنے سے متعلق کل قیامت میں اس سے سوال ہونا ہے کہ آپ کی ماتحتی میں آجانے کے بعد آپ نے ان کی آخرت کی کتنی فکر کی؟؟؟
اس لئے اگرآپ کسی گروپ کے ایڈمین یا ذمہ دار ہیں تو اب آپ کی حیثیت صرف ایڈمین کی ہی نہیں بلکہ مسئول اور امیر کی بھی ہوجاتی ہے اور آپ ایک مکمل کارواں کےرہبر بن جاتے ہیں. اب کارواں کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، چاہے جِس سمت موڑدیں بھلائی کی طرف یا پھر بُرائی کی طرف اور اگر آپ بھلائی کی طرف اپنے قافلے کو نہیں لے کر چلتے تو اس کےلئے تیار رہیں کہ کل قیامت کے دِن آپ سے اس بارے میں بھی سوال ہونا ہے، ورنہ اس سے پہلے کہ آپ قیامت کے دِن مسئول یعنی ایڈمن کی حیثیت سے سوال کیا جائے  اور آپ سے آپ کے گروپ کے ممبران کے بارے میں سوال ہو. اگر آپ اس کی اہلیت نہیں رکھتے کہ آپ ہر ممبر کی آخرت سنوارنے کی فکر کرسکیں اور آخرت کی جوابدہی سے بھی بچنا چاہتے ہیں  تو جتنی جلدی ہوسکے اپنے گروپس کو حذف کیجئے. اور اپنی آخرت برباد ہونے سے بچائیے نیز دوسروں کی بھی حفاظت کیجئے، بصورت دیگر کل قیامت کے دِن یہی گروپ ممبرس، ان کا قیمتی سرمایہ، وقت، صلاحیتیں جو آپ کی کی وجہ یعنی گروپ بنانے سے ضائع ہورہی ہیں  آپ کے لئے خسارے کا سامان  بن سکتے ہیں.
................
 سوشل میڈیا - صحیح اور غلط استعمال؟
انسان اپنی تمام ضروریات اپنے آپ پوری نہیں کرسکتا، اسے اپنی خواہش، اپنی ضرورت اور اپنا مدعا دوسروں تک پہنچنانا پڑتا ہے ، پہنچانے کے عمل کو ’ابلاغ‘ کہتے ہیں، ابلاغ کے لئے انسان کو دو قدرتی ذرائع مہیا کئے گئے ہیں، 
ایک: زبان، جس کے ذریعہ آپ قریب کے لوگوں تک اپنی بات پہنچاسکتے ہیں ، دوسرے: قلم ، جس کے ذریعہ آپ کوئی بات لکھ سکتے ہیں اور اسے کسی ذریعہ سے دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں ، ابلاغ کے یہ دو ذرائع شروع سے استعمال ہوتے رہے ہیں ، قرآن مجید میں انبیاء کی دعوت کا ذکر آیا ہے ، وہ قوم کو اپنی بات سمجھانے کے لئے زبانی تخاطب کا طریقہ استعمال کیا کرتے تھے ، تحریر کے ذریعہ دور تک اپنی بات پہنچانے کی مثال بھی قرآن مجید میں موجود ہے ؛ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا بلقیس کو خط ہی کے ذریعہ اپنا پیغام پہنچایا تھا اور ایک پرندہ نے نامہ بر کا فریضہ انجام دیا تھا۔ ( النحل : ۲۹)
جب کوئی عمومی دعوت و مشن ہو تو اس کے لئے ایسا ذریعہ استعمال کرنا جو ایک ہی وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ جائے ، رسول اللہ ا کی سنت ہے، مکہ میں پہلے سے یہ طریقہ آرہا تھا کہ جب بیک وقت تمام اہل مکہ کو کوئی اہم خبر پہنچانی ہوتی تو صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر اعلان کیا جاتا ، تمام لوگ پہاڑی کے دامن میں جمع ہوجاتے اور کہنے والا اپنی بات کہتا ، رسول اللہ اجب نبوت سے سرفراز کئے گئے، تو آپ نے اہل مکہ تک دعوت توحید پہنچانے کے لئے اسی قدیم ذریعہ ابلاغ کو اختیار کیا ؛ البتہ اس میں جو بعض غیر اخلاقی طریقے شامل کرلئے جاتے تھے ، جیسے: شدت مصیبت کے اظہار کے لئے سروں پر خاک اڑانا ، یا بے لباس ہوجانا ، آپ انے اس سے اجتناب فرمایا۔
پورے جزیرۃ العرب تک اپنی بات پہنچانے کا ذریعہ مکہ مکرمہ اور اس کے مضافات میں منعقد ہونے والے حج اور تجارتی اجتماعات تھے ، حج میں تو پورے عرب سے لوگ کھنچ کھنچ کے آتے ہی تھے ، اس کے علاوہ عکاظ اور ذوالمجاز وغیرہ کے میلے بھی لگتے تھے ، ان اجتماعات میں جو بات کہی جاتی ، جو تقریریں کی جاتیں اور جو اشعار پیش کئے جاتے ، پورے عرب میں اس کی گونج سنی جاتی اور لوگوں میں اس کا خوب چرچا ہوتا ، پوری سرزمین عرب تک اپنی بات پہنچانے کا اس سے مؤثر کوئی اور ذریعہ نہیں تھا ؛ حالاںکہ ان میلوں میں یہاں تک کہ حج میں بھی بہت سی منکرات شامل ہوا کرتی تھیں ؛ لیکن آپ انے مفاسد سے بچتے ہوئے دعوت اسلام کو عرب کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے اس موقع کا بھرپور استعمال فرمایا، یہی چیز حضرت ابوذر غفاریؓ وغیرہ کے دامن اسلام میں آنے کا ذریعہ بنا ، اور یہیں سے اسلام کی کرن مدینہ کی سرزمین تک پہنچی اورایک آفتاب عالم تاب بن کر پورے عالم پر درخشاں ہوئی ۔
لیکن ابھی عرب سے باہر اسلام کو پہنچانے کا مرحلہ باقی تھا اور اس کے لئے خط و کتابت کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا ؛ چنانچہ ہجرت کے چھٹے سال جب اہل مکہ سے صلح ہوگئی، جو ’صلح حدیبیہ‘ کے نام سے جانی جاتی ہے اور اہل مکہ کی یلغارِ مسلسل سے مسلمانوں کو کچھ اطمینان ہوا تو آپ انے پہلا کام یہی کیا کہ عرب کے گرد و پیش موجود بڑی طاقتوں اور اس وقت کی معلوم دنیا کے حکمرانوں تک دعوتی خطوط بھیجے ، حدیث کی متداول کتابوں میں تو چھ فرماں رواؤں کے نام خطوط کا ذکر ملتا ہے ؛ لیکن دنیائے تحقیق کے تاجدار ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحبؒ کے بقول ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ، یہاں تک کہ چین تک یہ دعوت پہنچائی گئی ، گویا آپ انے دور دراز علاقوں تک پیغام حق پہنچانے کے لئے پوری وسعت کے ساتھ اس ذریعۂ ابلاغ کا استعمال فرمایا۔
کائنات میں ارتقاء کا عمل جاری ہے ، ہر صبح جب طلوع ہوتی ہے تو اپنے جلو میں ترقی کا ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے اور ہر شب جب کائنات کی فضاء پر چھاتی ہے تو وہ کسی نئی حقیقت سے پردہ اُٹھانے کا مژدہ سناتی ہے ، ترقی کا یہ سفر جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے ، اسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری قوت اور تیز گامی کے ساتھ جاری و ساری ہے ؛ بلکہ اس میدان میں ٹکنالوجی کی ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلہ زیادہ تیز ہے ، ہم لوگوں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ اس وقت ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ ہی بہت بڑی چیز تھی اور فون وٹیلی گرام کو حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ؛ لیکن آج اگر کوئی شخص ان ایجادات کو حیرت و رشک کی نظر سے دیکھے تو بچے بھی اس پر ہنسیں گے ؛ چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دُور دُور تک اپنی بات پہنچانے کو آسان کردیا اور اس کی رفتار ہوا کی رفتار سے بھی بڑھ گئی ، افسوس کہ مسلمان ان تمام مرحلوں میں مسلسل پسماندگی کا شکار رہے ، ہم ترقی کے قافلہ کا سالار بننے کی بجائے اس قافلہ میں شامل آخری فرد بھی نہ بن سکے اور گرد کارواں بننے ہی کو اپنے لئے بڑی نعمت سمجھا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر عالمی اعتبار سے یہودی حاوی ہوگئے وطن عزیز ہندوستان میں فرقہ پرستوں کا بول بالا ہوگیا ، اور میڈیا کے ہتھیار سے ہمارے ملی مفادات ، تہذیبی اقدار ، قومی وقار اور دینی افکار کا اس طرح قتل کیا گیا کہ شاید توپ اور ٹینک کے گولوں اور فائیٹر جہازوں کی طرف سے ہونے والی آگ کی برسات بھی ہمیں اس درجہ نقصان نہیں پہنچا پاتی: 
’’فیا اسفاہ ویا عجباہ‘‘!
ادھر بیس سے پچیس سال کے درمیان ابلاغ کے ایسے ذرائع عام ہوئے ، جن کو ’سوشل میڈیا ‘ کہا جاتا ہے، اس کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس پر اب تک حکومت یا کسی خاص گروہ کی اجارہ داری نہیں ہے، خدا کرے یہ صورت حال باقی رہے ، اس میں خاصا تنوع بھی ہے، جس میں واٹس اپ، فیس بک، یوٹیوب ، ٹیوٹر، اسکائپ وغیرہ شامل ہیں ؛ لیکن یہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور خس و خاشاک بھی ، اس میں صاف شفاف پانی بھی اُنڈیلا جاسکتا ہے اور گندہ بدبودار فُضلہ بھی، اس سے دینی، اخلاقی اور تعلیمی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جاسکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی ، دوسری طرف اس کا اثر اتنا وسیع ہوچکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا نفوذ اس درجہ کا ہے کہ اس کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ؛ اس لئے اگرچہ بہت سے لوگوں نے خلوص اور بہتر جذبہ کے ساتھ اس کو روکنے کی کوشش کی ؛ لیکن بالآخر انھیں اس کی سرکش موجوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑا؛ اس لئے اب ہمیں اس ذریعہ ابلاغ کے مثبت اور منفی اور مفید و نقصاندہ پہلو کا تجزیہ کرنا چاہئے اور اس سلسلہ میں تمام مسلمانوں اور خاص کر ملت کی نوجوان نسل کی رہنمائی کرنی چاہئے۔
٭ سوشل میڈیا کے جو منفی اور نقصاندہ پہلو ہیں، وہ یہ ہیں:
(۱) یہ جھوٹی خبریں پھیلانے کا ایک بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے اور اکثر بہت سی باتیں کسی تحقیق کے بغیر اس میں ڈال دی جاتی ہیں ؛ کیوںکہ اس پر حکومت یا کسی ذمہ دار ادارہ کی گرفت نہیں ہے ،جب کہ اسلام نے ہمیں جھوٹ تو جھوٹ ؛ ہر سنی ہوئی بات نقل کردینے اور بلا تحقیق کسی بات کو آگے بڑھانے سے بھی منع کیا ہے ۔ (حجرات: ۶)
(۲) عام جھوٹی خبروں کے علاوہ یہ لوگوں کی غیبت کرنے ، ان کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنے ، یہاں تک کہ لوگوں پر بہتان تراشی اورتہمت اندازی کے لئے بھی وسیلہ بن گیا ہے اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب کسی اچھے آدمی کے بارے میں کوئی بُری بات کہی جائے ، خواہ وہ بات کتنی ہی ناقابل اعتبار ہو تو لوگ اس کا آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں ، جس کی کھلی مثال رسول اللہ اکے زمانہ میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت کا واقعہ ہے ، جو خود عہد نبوی میں پیش آیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی منافقین کے اس سازشی پروپیگنڈہ سے متاثر ہوگئے ۔
(۳) اس ذریعہ ابلاغ کو نفرت کی آگ لگانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لئے بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے ، فرقہ پرست عناصر تو یہ حرکت کرتے ہی ہیں ؛ لیکن خود مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دینے میں اس کا بڑا اہم رول رہا ہے ، اس میڈیا پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت دشمن جذباتی مقررین کی تقریریں بھی موجود ہیں اور مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان مناظروں کی شرمناک محفلیں بھی ، جو بہت تیزی سے باہمی نفرت کو جنم دیتی اور فساد کی آگ بھڑکاتی ہیں ۔
(۴) اس میڈیا کا دہشت گردی اور تشدد کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے اور استعمال کرنے والوں میں مختلف مذاہب کے خود ساختہ نمائندے شامل ہیں ، جنھوںنے لوگوں کی نگاہوں میں دُھول جھونکنے کے لئے مذہب کا مقدس لباس پہن رکھا ہے۔
(۵) اس ذریعہ ابلاغ کا سب سے منفی پہلو ’ فحشاء ‘ کی اشاعت اور بے حیائی کی تبلیغ ہے، جو چیز انسان کو اپنے خلوت کدہ میں گوارہ نہیں ہوسکتی ، وہ یہاں ہر عام و خاص کے سامنے ہے، یہ اخلاقی اقدار کے لئے تباہ کن اور شرم و حیاء کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں، اور افسوس کہ حکومتیں ایسی سائٹوں کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتیں ، ورنہ سماج بے حیائی کے اس سیلاب بلاخیز سے بچ سکتا تھا ۔
٭ ان منفی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کے بہت سے مثبت اور مفید پہلو بھی ہیں اور اس کا صحیح استعمال کرکے اسلامی اور انسانی نقطۂ نظر سے بہت سے
اچھے کام کئے جاسکتے ہیں ، جن کا تذکرہ مناسب ہوگا:
(۱) بچوں ، جوانوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور عام مسلمانوں میں ان کی ضرورت کے لحاظ سے دین کی تعلیم واشاعت اور اخلاقی تربیت کے لئے اس کو آسانی کے ساتھ بہت مؤثر طریقہ پر استعمال کیا جاسکتا ۔
(۲) اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اور زیادہ تر اسی راستہ سے کی جاتی ہیں ، اسی میڈیا سے ان کا مؤثر طورپر رد کیا جاسکتا ہے ۔
(۳) تعلیم کے لئے اب یہ ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور جیسے ایک طالب علم کلاس روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا ہے ، یا اپنے ٹیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کلاس روم کی کمی کو پورا کرتا ہے ؛ اسی طرح وہ اس ذریعہ ابلاغ سے بھی علم حاصل کرسکتا اور اپنی صلاحیت کو پروان چڑھاسکتا ہے ، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کو ردہ دیہات میں بیٹھے ہوئے طالب علم کے لئے بھی اس کے ذریعہ مشرق و مغرب کے ماہر ترین اساتذہ سے کسب ِفیض کرنا ممکن ہے ، ایسے تعلیمی مفادات کے لئے اس ذریعہ سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
(۴) صحت و علاج کے شعبہ میں بھی اس سے مدد لی جاسکتی ہے ؛ بلکہ لی جارہی ہے، اس کے ذریعہ ماہر ترین معالجین سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ، یہاں تک کہ ہندوستان میں ایک ڈاکٹر آپریشن کرتے ہوئے امریکہ کے کسی ڈاکٹر کے مشورہ سے مستفید ہوسکتا ہے ۔
(۵) موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا نیز نیشنل اور انٹر نیشنل الیکٹرانک میڈیا جھوٹی خبریں بنانے اور پھیلانے ، نیز سچی خبروں کو دبانے اور چھُپانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میںلگا ہوا ہے اور نہایت مہارت کے ساتھ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بناکر پیش کررہا ہے ، ان حالات میں سوشل میڈیا کے ذریعہ سچائی کو پیش کرنے اور جھوٹ کی قلعی کھولنے کی اہم خدمت انجام دی جاسکتی ہے ؛ چنانچہ عالمی وملکی سطح پر کئی واقعات ایسے ہیں، جن میں سوشل میڈیا کی حقیقت بیانی نے ظالموں اور دروغ گویوں کو شرمندہ کیا ہے ۔
٭ ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی مضرتوں سے نئی نسل کو بچایا جائے ؛ کیوںکہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں ، اور اس ذریعہ کو بالکل ختم کردینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے لئے یہی حکم ہے کہ اس کو مفید طریقہ پر استعمال کیا جائے اور نقصاندہ پہلوؤں سے بچا جائے ، جس چاقو سے کسی جانور کو حلال طریقہ پر ذبح کیا جاسکتا ہے اور کسی بیمار کو نشتر لگایا جاسکتا ہے ، وہی چاقو کسی بے قصور کے سینہ میں پیوست بھی کیا جاسکتا ہے ، تو ہمارے لئے یہی راستہ ہے کہ ہم چاقو کے صحیح استعمال کی تربیت کریں۔
اس پہلو سے سوشل میڈیا میں جن باتوں سے نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے، ان میں چند اہم نکات یہ ہیں:
(۱) چھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو، اس سے دُور رکھا جائے ؛ تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ ہوجائے ، جو ان کے ذہن کو پراگندہ کردے ، یا قتل و ظلم کے مناظر دیکھ کر ان میں مجرمانہ سوچ پیدا ہوجائے ۔
(۲) طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کرلینا چاہئے ؛ کیوںکہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنادیتا ہے اور پیغامات کی تسلسل کی وجہ سے وہ بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کا خوگر ہوجاتا ہے کہ اصل کام سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے ، یہ بھی ایک طرح کا لہو و لعب ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ صحت کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت نقصاندہ ہے ۔
(۳) جو عمل عام حالات میں جائز نہیں ہے ، وہ ان ذرائع کے ذریعہ بھی جائز نہیں ہے، جیسے: جھوٹ، بہتان تراشی، لوگوں کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنا ، مذاق اُڑانا ، سب و شتم کے الفاظ لکھنا یا کہنا، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان سے بچنا شرعی فریضہ ہے۔
(۴) ایسی خبریں لکھنا یا ان کو آگے بڑھانا جن سے اختلاف بڑھ سکتا ہے ، جائز نہیں ہے ، اگرچہ کہ وہ سچائی پر مبنی ہوں ؛ اس لئے کہ جو سچ مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کرتا ہو اور انسان اور انسان کے درمیان نفرت کی بیج بوتا ہو ، اس سے وہ جھوٹ بہتر ہے ، جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور اختلاف کو اتحاد سے بدلنے کا کردار ادا کرسکے ۔
(۵) ایسی چیزیں دیکھنا ، دِکھانا ، لکھنا اور پڑھنا ، سب کا سب حرام ہے ، جو فحشاء اور بے حیائی کے دائرہ میں آتا ہو ، خواہ وہ تصویر کی شکل میں ہو یا آواز کی ، تحریر کی شکل میں ہو یا کارٹون کی ، شعر کی شکل میں ہو یا لطیفہ کی ، ان سے اپنی حفاظت کرنا اس دور میں نوجوانوں کے لئے بہت بڑا جہاد اور ایک عظیم عبادت ہے ۔
(۶) سوشل میڈیا پر اسلام اور پیغمبر اسلام ، مسلمانوں کی تاریخ اور مقدس مقامات وشخصیات کے بارے میں ایسی نازیبا باتیں بھی آجاتی ہیں ، جو بجا طورپر نوجوان تو کیا ہر مسلمان کے خون کو گرمادینے اور دل کو کَھولادینے کے لئے کافی ہیں ؛ لیکن اس کے باوجود ہمیں صبر ، سنجیدگی اورمتانت سے کام لینا چاہئے اور ایسے جذباتی ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ، جو نفرت کو بڑھانے والا ہو ، اگر ناشائستہ باتو ںپر اس طرح کے کومنٹ (Comment) کئے گئے تو جو لوگ اسلام ، امن اور انسانیت کے دشمن ہیں ، ان کا مقصد پورا ہوجائے گا ، اس کی بجائے علم کی روشنی میں مدلل اور سنجیدہ طریقہ پر ان کا جواب دینا اور ان کی بات پر ریمارک کرنا چاہئے؛ کیوںکہ جذبات و اشتعال سے وہ لوگ کام لیتے ہیں ، جن کے پاس دلیل کی قوت نہیں ہوتی ، جن کے پاس دلیل کا ہتھیار موجود ہو ، ان کو بے برداشت ہونے کی ضرورت نہیں۔
(۷) نہایت قابل توجہ بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو ایسی سائٹوں سے دُور رہنا چاہئے ، جن کا تعلق دہشت گردوں جیسے ’’داعش‘‘ وغیرہ سے ہے ، ان کے قریب بھی جانے سے بچنا چاہئے ؛ کیوںکہ یہ چیز غلط راستہ پر لے جاتی ہے ، یا کم سے کم شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے؛ اس لئے نوجوانوں کو تہمت کے ان مواقع سے دُور رہنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے ، جو ان کو غلط راستہ پر ڈال دے ، یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا راستہ کھول دے ؛ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی بھی قسم کی اقدامی یا جوابی دہشت گردی کو پسند نہیں کرتا ؛ کیوںکہ اس میں بے قصور لوگوں کی موت ہوجاتی ہے، اسلام تو امن و انسانیت، عفو و درگذر اور محبت و بھائی چارہ کا پیغامبر ہے نہ کہ نفرت اور ظلم کا سوداگر :
میرا پیغام ، محبت ہے جہاں تک پہنچے
مولانا خالد سیف اﷲ
........... 
 فیس بک اور اس کا شرعی حکم
30 May 2013 at 09:57


سوال :     فیس بک سوشل ویب سائٹ کا رکن بننے اور اس کو استعمال کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟
     تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ۔ حکم شرعی بیان کرنے سے قبل معلوماتِ عامہ کیلئے ویب سائٹ سے متعلقہ چند باتوں کی وضاحت یہاں کی جا رہی ہے ۔
اول:     اس ویب سائٹ کا بانی امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کا طالب علم مارک زکر برگ ہے، جس نے ٢٠٠٤ ء کے آغاز میں اس ویب سائٹ کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں اس ویب سائٹ کا استعمال یونیورسٹی کے اندر صرف طالب علموں تک محدود تھا تاہم بعد میں ویب سائٹ کا نیٹ ورک بوسٹن کی دوسری یونیورسٹیوں تک بھی پھیل گیا۔ یہاں تک کہ ٢٠٠٦ء کے آخر تک اس کا نیٹ ورک پوری دنیا تک پھیلا دیا گیا۔
    ویب سائٹ کو بنانے کا مقصد لوگوں کے درمیان آپس کی جان پہچان اور سماجی رابطوں کو بڑھانا تھا ۔ ویب سائٹ کی انتہائی تیز رفتار مقبولیت کی وجہ سے اب صورتحال یہ ہے کہ اس کو انٹر نیٹ پر دنیا کے اہم ترین مجازی حلقے کی حیثیت حاصل ہے۔ ویب سائٹ پر دئیے گئے آفیشل اعداد و شمار کے مطابق دسمبر ٢٠١١ء کے آخر تک اس ویب سائٹ کے فعال اراکین کی تعداد ٨٥ کروڑ تھی جو کہ مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کو عرب اور دیگر مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر قبول کر لیا گیا ہے ۔ ویب سائٹ ٧٠ زبانوں میں دستیاب ہے اور اس کے نگران کار ابھی مزید زبانوں کو شامل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
دوم:    فیس بک کی دنیا میں آپ اپنی بات کا اظہار اور ابلاغ ، لکھ کر اور زبانی طور پر (chatting) دونوں طرح کر سکتے ہیں اور ابلاغ کے ان ذرائع میں لوگوں کیلئے فائدہ و نقصان دونوں کا امکان ہے ۔ مگر انکے علاوہ اور بہت سے پہلووں سے یہ ویب سائٹ اسی طرح کی دیگر ویب سائٹس سے درج ذیل وجوہات کی بنا پر امتیازی حیثیت رکھتی ہے :
ا۔     ویب سائٹ استعمال کرنے والوں کی ذاتی معلومات تک رسائی ہونا اور وہ بھی اس طریقے سے کہ معمولی جان پہچان رکھنے والے دو افراد بلکہ اجنبی بھی بغیر باہمی گفتگو کیے اور ایک دوسرے سے ملے بغیر، پوری تفصیل کے ساتھ ایک دوسرے کی ذاتی دلچسپیاں ، ذاتی تصاویر ، تعلیم ، خاندان ، ذریعہ معاش ، معاشی حالت، دوست احباب، پسند، ناپسند، ماضی اور حال کی سرگرمیوں اور ماحول ، عالمی و مقامی خبروں پر اس کے تبصرے اور آرا عموماً بغیر اس سے دریافت کیے معلوم کر سکتا ہے ۔ ذاتی معلومات تک ایسی تفصیلی رسائی کے منفی اور ناخوشگوار نتائج پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں ۔ کچھ مثالیں ہم یہاں درج کیے دیتے ہیں ۔
(الف)    سماجی تعلقات استوار کرنے کی سہولت نے دو محبت کرنے والے افراد (یعنی لڑکا اور لڑکی ) کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے خاندان کے علم میں لائے بغیر اپنے پرانے تعلقات کو پھر سے بحال کر لیں ۔ نتیجہ یہ کہ ناشائستہ اور غیر شرعی روابط کا پھر سے آغاز ہوا اور نوبت لڑکا یا لڑکی کی موجودہ شریکِ حیات سے بے وفائی اور بالآخر طلاق تک جاپہنچی۔
    مصر کے سرکاری ادارے ''قومی تحقیقی مرکز برائے معاشرتی و سماجی جرائم'' کی ایک ٹیم نے فیس بک ویب سائٹ پر اپنے متعدد ہفتوں کے مطالعہ کے بعد ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی ہے جس میں انھوں نے اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کے سنگین نتائج کو یکجا کیا ہے ۔ بہت سی اہم باتوں کے علاوہ انھوں نے نوٹ کیا کہ ''اس ویب سائٹ کے بہت سے وزیٹرز اپنی پہلی محبت کو پانے اور سابقہ تعلقات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یوں انھوں نے اپنے خاندان سے باہر غیر شرعی اور ناشائستہ تعلقات کو از سرِ نو استوار کر لیا ۔ یہ صورتحال ایک مسلمان خاندان کی زندگی اور شادی ایسے مضبوط خاندانی رشتے کیلئے کہ بہت خطرناک ہے ۔ ''
(ب)     کچھ غیر ملکی جاسوسی ایجنسیوں نے فیس بک کے کچھ ممبرز کو خود ان کے اپنے بارے میں انہی کی مہیا کردہ تفصیلات دیکھ کر ، جس سے ان کی معاشی صورتحال ، سماجی رتبے اور روزمرہ کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا تھا ، ان تفصیلات کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے انھیں مجبور کیا کہ وہ ان کیلئے جاسوسی کی خدمات سر انجام دیں ۔
    ایک غیر ملکی اخبار نے ایک ایسے یہودی جاسوسی نیٹ ورک کا کھوج لگایا جو خاص مسلمان اور عرب ممالک کے نوجوانوں کو جاسوسی کے کام کیلئے بھرتی کرتا تھا۔ محیط ویب سائٹ پر ایک فرانسیسی اخبار (٢٥ جمادی الاولی ١٤٣١ھ) کے حوالے سے ان یہودی ہتھکنڈوں کی کہانی بیان کی گئی جن کے ذریعے یہودی ، فیس بک ممبرز کو اپنے اداروں کیلئے انھیں ڈرا دھمکا کر ، بلیک میل کر کے یا لالچ دے کر جاسوسی کے کام پر مجبور کرتے ہیں اور باالآخر انھیں اپنا ایجنٹ بنا لیتے ہیں ۔ فرنچ یونیورسٹی کے کالج برائے نفسیات کے پروفیسر اور کتاب ''انٹرنیٹ کی شر انگیزیاں '' کے مصنف گیرلڈ نائر بیان کرتے ہیں : '' یہ نیٹ ورک مئی ٢٠٠١ ء میں دریافت ہوا ۔ یہ نیٹ ورک اس خاص گروپ کا حصہ تھا جسے اسرائیلی جاسوسی کے خاص ادارے براہِ راست چلاتے ہیں ۔ اور جن کے قیام کا خاص مقصد تیسری دنیا کے نوجوانوں کوجاسوسی کیلئے بھرتی کرنا ہے ۔ خصوصا ان عرب ریاستوں ، جو اسرائیل کے لیے دشمنی کے جذبات رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جنوبی امریکہ کے نوجوانوں کو اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر فوکس کیا جاتا ہے ۔
    درحقیقت، جاسوسی نیٹ ورکس کیلئے بھرتیوں کا یہ عمل تو فیس بک ویب سائٹ کی تاسیس سے بھی پہلے کا جاری ہے ۔ البتہ فیس بک اور اسی طرح کی دوسری ویب سائٹ نے جاسوسی نیٹ ورکس اور سراغرساں ایجنسیوں کو یہ سہولت ضرور فراہم کی ہے کہ وہ جاسوسی کے لیے مناسب افراد کی بھرتی ، ان ویب سائٹس پر انھی افراد کی مہیا کردہ معلومات کی روشنی میں اور منتخب افراد سے براہ راست چیٹنگ کے ذریعے اپنی بھرتیوں کا عمل آسان بنا سکیں ۔
(ج)     فیس بک اراکین کی ذاتی معلومات کو دیکھتے ہوئے ان کی شناخت کو چرانا اور اس کے ذریعے ان کے بینک اکانٹس کو ہیک (hack) کرلینا ۔
٢۔      اس ویب سائٹ کے عالمی سطح پر وسیع پھیلاؤ نے اسے ایک ایسی گلوبل چیٹ سائٹ بنا دیا ہے جو دنیا جہان سے لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے ۔ فیس بک ویب سائٹ کی اس سہولت نے کہ لوگ ویب سائٹ کی سوشل سرگرمیوں میں براہِ راست داخل ہوئے بغیر (جیسے ہاٹ میل ، یاہو میل اور سکائپ کے میسنجرز) ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے ہیں ، معاملے کو سنگین بنا دیا ہے اور بالخصوص جب آپ کو ویب سائٹ کا پروگرام یہ سہولت بھی مہیا کرے کہ آپ اپنے ساتھی سے گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی متحرک تصویر بھی ملاحظہ کر سکیں (یعنی ویب کیم کے ذریعے چیٹنگ کرنے کی سہولت) تو خلوت میں کی گئی ایسی گپ شپ عموما منفی نتائج پر ختم ہوتی ہے اور اس بات کا ان لوگوں کو بخوبی اندازہ ہے جو انٹرنیٹ اور میسینجرز کو استعمال کرتے ہیں ۔ چیٹنگ کرنے کے منفی نتائج اور بالعموم اس کے نتیجے میں گناہ گارانہ تعلقات کے پیدا ہونے کے علاہ مختصراً اس کے مضر اثرات درج ذیل ہیں :

(الف)     لوگوں سے جان پہچان بنانے کیلئے طویل گفتگو کے نتیجے میں قیمتی وقت کا ضیاع
    عقلمند مسلمان کو احساس کرنا چاہیے کہ اس کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہے اور وہ دنیا پر ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا ۔ آخرِ کار ایک دن اسے اپنے پروردگار سے ملنا ہے جو اس سے پوچھے گا کہ میں نے تمھیں جوانی دی ، تو اس متاعِ عزیز کو کہاں خرچ کیا؟ تمھیں زندگی بخشی ، تو کہاں صرف کی اور کیسے گزاری ؟ سو صاحبِ بصیرت کو سوچنا چاہیے کہ اس امت کی پہلی نسلیں اوراس امت کے علماء اس زندگی اور اس کی قلیل مدت کے بارے میں کیا سوچا کرتے تھے ؟
    ابنِ عقیل حنبلی ؒ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ''مجھے یہ گوارا نہیں کہ میں اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کروں ، اس لیے جب میں تقریر و تدریس اور علمی بحث و مباحثہ سے فارغ ہوتا ہوں یا جب میں کتاب پڑھنا بند کرتا ہوں تو آرام کے لیے لیٹتے ہیں میں نئے خیالات کے لیے غور و خوض اور سوچ بچار شروع کر دیتا ہوں اورجو علمی نکات میں اپنے درس اور کتابوں کے لیے اکٹھے کرتا ہوں ؛ ان کو اپنی استراحت کے دوران ہی عمیق غور و فکر سے پختہ کر لیتا ہوں ۔ اور میں اپنا علم بڑھانے میں بہت ہی زیادہ حریص ہوں ۔ اب جبکہ میری عمر ٨٠ برس ہے تو میرا علم کی تحصیل کا شوق اس وقت سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے جب میری عمر صرف برس تھی۔ ''                         

(منقول از ''المنتظم (٢١٤/٩) مولفہ ابن جوزیؒ)
    ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ''آدمی کا تمام وقت اس کی دنیاوی زندگی اور ہمیشہ کی زندگی کی میں محصور ہے ۔ اب یہ ہمیشہ کی زندگی اس کے لیے ہمیشہ کی رحمت بنتی ہے یا زحمت ، اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس طرح گزارتا ہے ۔ وقت سرعت رفتار سے گزر جاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص اس وقت کو خدا کی مدد سے خدا کی رضا کے حصول میں صرف کرے تو اس کا وہ وقت جو اس نے فضول میں گنوادیا تو وہ اس کے کھاتے میں نہیں لکھا جائے گا۔ اور اگر وہ شخص جانوروں کی طرح اس وقت کو گزارے ، سستی ، کاہلی ، غفلت ، فضول عیاشیوں اور نفس کی بے لگام خواہشات پوری کرنے میں ہی سارا وقت برباد کر دے اور صورتحال یہ ہو کہ اگر اس کے وقت کا قیمتی ترین حصہ علیحدہ کیا جائے تو وہ اس کے سونے اور کاہلی و غفلت کے حصے میں آئے تو پھر ایسی زندگی سے تو موت اس کے لیے بہتر ہے ۔ (الجواب الکافی ، ص١٠٩)
(ب)     مردوں اور عورتوں میں گناہ گارانہ تعلقات کا قائم ہونا جو باالآخر ایک مستحکم خاندان کی بربادی کی وجہ بنتے ہیں ۔
    مصر کے قومی مرکز کے مطالعے میں ، جس کا کہ اوپر حوالہ دیا گیا ، میں کہا گیا ہے کہ:
    ''طلاق کے ہر پانچ میں سے ایک کیس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آئی کہ زوجین میں سے ایک کو اس بات کا پتہ چلا کہ اس کے ساتھی نے انٹرنیٹ اور فیس بک کے ذریعے اپنی پرانی محبت کو ڈھونڈ نکالا ہے اور اب ان کے درمیان دوبارہ عشق و محبت کے تعلقات بحال ہو گئے ہیں ''۔ ہم اس پہلے بہت سے فتاوی میں عورت اور مرد کے درمیان بات چیت، میل جول ابلاغ و اظہار کے جدید ذرائع کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے تفصیلی جوابات پیش کر چکے ہیں ۔ تفصیل کے لیے درج ذیل سوالات 78375, 34841, 23349, 20949, 26890 اور 82702 کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
سوم:         اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے میں بہت سے فائدے بھی ہیں، جن سے صاحب بصیرت اور عقلمند لوگ مستفید ہوتے ہیں اور جو لوگوں کو سیدھے رستے کی طرف رہنمائی کرنے کے بے حد خواہشمند ہیں۔ ایسے لوگ اپنے نیک مقاصد کیلئے ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کو بہت خوبی اور ذہانت سے استعمال کرتے ہیں جیسے انٹرنیٹ ، موبائل فونز اور سیٹلائٹ چینلز وغیرہ ۔ یہ لوگوں کی زندگیوں میں داخل ہو کر ان کو ان کے دین اور ان کے رب کی طرف بلاتے ہیں ، یوں دین کی بخوبی خدمت کرتے ہیں ۔ خصوصا اجتماعی طور پر کی گئی ایسی تمام سرگرمیاں قابل تحسین ہیں جو نیک مقاصد کے حصول کے لیے جدید ذرائع کو بطور چینل کے استعمال کرتی ہیں اور اس میں یہ فائدہ بھی ہے کہ اجتماعی سرگرمیوں کی نسبت اس قسم کی انفرادی کوششوں کو جدید ذرائع ابلاغ میں زیادہ مزاحمت درپیش ہوتی ہے ۔فیس بک ویب سائٹ کی مفید باتوں میں سے چند یہ ہیں:
١۔     کبار علماء اور داعیین کے ذاتی پیجز ، جس میں لوگوں کے لیے پندو نصائح کے علاہ ان کو درپیش مسائل کے احسن جوابات دئیے جاتے ہیں ۔خصوصا وہ پیجز جو کسی ٹیم ورک کی صورت میں کام کر رہے ہیں ۔ کیونکہ ٹیم ورک کی صورت میں اس ٹیم کی قیادت ، گروپ کے بانی اور ٹیم ممبرز میں مضبوط سماجی تعلقات قائم ہوتے ہیں ۔ ٹیم ممبرز متنوع دینی ، سماجی، ثقافتی، سیاسی و تعلیمی موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں ۔ تصاویر، آڈیو اور ویڈیو کلپس، مفید مضامین، مختصر و لمبی تحریروں اور کتابوں کے لنکس، اچھی ویب سائٹس کے لنکس ، مختلف موضوعات پر تبصرہ و اظہار خیال، آپس میں مشورہ، تعمیری بحث مباحثہ اور گروپ کی صورت میں سوال و جواب کی تیز و آسان سہولیات اس ویب سائٹ کی ایسی خصوصیات ہیں جو اسے نہ صرف تکنیکی طور پر اس طرح کی دیگر ویب سائٹ سے ممتاز کرتی ہیں بلکہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کا جواز بھی عطا کرتی ہیں۔
٢۔      بین الاقوامی اداروں اور کمپنیوں کا اس ویب سائٹ کے استعمال کنندگان کو عالم اسلام میں درپیش واقعات کی خبر رسانی ، مقبوضہ علاقوں کی صورتحال سے آگاہی ، عالم اسلام کی مزاحمتی قوتوں کی اپ ڈیٹس فراہم کرنا ، خصوصا ان خبروں کو جنھیں کافر میڈیا خصوصی طور پر نظر انداز کرتا ہے ، جنھیں بہ زور دبا دیا جاتا ہے یا ایسی خبروں کے سورسز یعنی میگزین ، ویب سائٹ ، فورم وغیرہ کو بلاک کر دیا جاتا ہے ۔
٣۔     مفید ، کار آمد اور معلوماتی کتابوں، مضامین اور ویب سائٹس کو دوسرے ویزیٹرز تک پہنچانا
٤۔         دوستوں، رشتے داروں اور خصوصا ان لوگوں جو دور دراز مقامات پر ہیں ؛سے بات چیت اور گفتگو کے آسان مواقع فراہم ہونا ۔ تعلقات کو قائم و دائم رکھنے اور رشتوں کو مضبوط بنانے میں کمیونیکیشن بہت اچھا اثر ڈالتی ہے اور اس کی اسلام میں حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔
چہارم:     فیس بک کا ممبر بننے کے حوالے سے جہاں تک شرعی حکم کا تعلق ہے یہ بات اس شخص کی نیت پر منحصر ہے ، جو اس کا رکن بننا چاہ رہا ہے ۔ اگر تو وہ کوئی صاحب علم ہے ، یا طالب علم ہے یا کسی دعوتی گروپ کا حصہ ہے تو پھر اس بات کی اجازت ہے اور ان فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے جو اس ویب سائیٹ کی طرف سے لوگوں کو دئیے جا رہے ہیں ، یہ عمل مفید بھی ہے ۔ لیکن اس شخص کے لیے جو اسے تخریبی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے یا ان افراد کے لیے جن کے بہکنے کی یا کسی تخریبی گروہ کا حصہ بن جانے کی یا دیگر مخرب اخلاق سرگرمیوں میں مشغول ہونے یا فتنوں میں مبتلا نہ ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی ، خصوصا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ؛ تو ایسے افراد کے لیے شرعاً اس کا رکن بننے کی اجازت نہیں ہے ۔
وہ شخص جو حقائقِ وقت سے آگاہ ہے، اور اس صنعتی دور کی پیدا کردہ تعیشات، منہ زور خواہشات ، حلال حرام کی تفریق کیے بغیر لذتوں کی طلب ، خاندانی و سماجی رشتوں کے کمزور ہوتے بندھن ، اور وہ فتنے جو ہم سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں ان سے بخوبی آگاہ ہے ؛ تو ایسی صورتحال میں وہ کسی فقیہ یا مفتی پر اعتراض نہیں کریگا جو کسی ایسی شے سے منع کر رہے ہیں جس میں جزوی یا کلی طور پر نقصان کا اندیشہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی شے میں موجود قلیل فائدہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اب مکمل طور پر جائز ہو گئی ہے کیونکہ کسی بھی شخص کے لیے یہ خدشہ ہمیشہ موجود رہے گا کہ وہ اس شے کے قلیل فائدے سے صرفِ نظر کر کے اس کے کثیر نقصان میں مبتلا ہو جائے خصوصا جبکہ غیر شرعی لذتوں اور فتنوں کی طرف شیطان ہمہ وقت انسان کو بھٹکاتا رہتا ہے۔ اگر کسی شے کے اچھے اور مفید طلب پہلو زیادہ ہیں اور برے اور نقصان دہ پہلو کم ہیں تب ہی ہم مکمل وثوق اور اطمینان کے ساتھ اس چیز کے جائز ہونے کا حکم دے سکتے ہیں ۔اگر چہ پہلے پہل ہمارے کچھ علماء حضرات سیٹلائٹ چینلز کے بارے میں ان میں موجود خالص شر اور نقصان کی وجہ سے بہت سخت موقف رکھتے تھے ، تا ہم بعد میں جب ان میں عظیم مفید طلب کام شروع ہوئے اور مکمل اسلامی چینلز کی بنیادیں رکھی گئیں اور ان چینلز کے لیے ایسے ناظرین دستیاب ہو گئے جو صرف انھی اسلامی چینلز کی طلب رکھتے تھے ، تو یہ نقطہ نظر کہ یہ چینلز جائز ہیں ، بھی اپنی جگہ پر ثابت ہو گیا ۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے مستند علماء ان چینلز کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور بہت سے مفید پروگرامز ان کی طرف سے ناظرین کیلئے پیش کیے جاتے ہیں ۔
وہ شخص جو فیس بک اور اس طرح دیگر ویب سائٹس پر اپنے آپ کو غیر شرعی امور کے ارتکاب سے بچا نہیں سکتا اور اپنے نفس پر قابو نہیں پا سکتا ، تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان ویب سائٹس کا حصہ بنے ۔ یہ جواز صرف اسی شخص کے لیے مخصوص ہے جو شرعی رہنمائی کے مطابق انھیں استعمال کرے ، اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اپنی خواہشات کو کنٹرول کر سکے اور جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ ان ویب سائٹس کے استعمال سے اپنی ذات کو نفع پہنچائے گا اور دوسرے اس کی ذات سے فائدہ اٹھائیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ظاہر و پوشیدہ فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ اور وہی سیدھے رستے کی طرف رہنمائی دینے والا ہے ۔ واللہ اعلم
شیخ صالح المنج

https://www.facebook.com/notes/al-furqan%D8%A7%D9%84%D9%81%D8%B1%D9%82%D8%A7%D9%86/%D9%81%DB%8C%D8%B3-%D8%A8%DA%A9-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%D8%A7-%D8%B4%D8%B1%D8%B9%DB%8C-%D8%AD%DA%A9%D9%85/496891827050614/
...... 
فیس بک کےا ستعمال کا حکم
استفتاء:مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ یہ جو سوشل ویب سائٹ ہے،جیسے فیس بک وغیرہ،اس کو استعمال کر سکتے ہیں؟پچھلے سال جن وجوہات کی بناء پر پاکستان میں اس کو بند کیا گیا تھا کیا اس کے بعد اس کا استعمال درست ہے؟
الجواب حامدة و مصلية:
شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان کا استعمال مباح ہے البتہ بالعموم ان میں اشتغال سے آدمی راہ راست سے ہٹ جاتا ہے،اور قیمتی اوقات کا ضیاع ہوتا ہے اس لیے احتیاط بچنے میں ہے. (دارالافتاء دار العلوم دیوبند،فتوی نمبر:68711)
کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:من حسن اسلام المرء ترکه مالا يعنيه.(زاد الطالبين:14،ط:مكتبة البشرى)
وفى الدر:وكل ما يؤدى إلى ما لا يجوز لا يجوز.(6/360)
والله أعلم بالصواب
زوجه خليل الله
صفہ آن لائن کورسز
24-جمادی الاولی-1438ھ.
26-فروری-

http://www.suffahpk.com/facebook-ka-istimal/
 ......
سوال # 156042
حضرات مفتیان کرام سے مودبانہ گزارش ہے کہ کیا ہم فیس بک یا وہاٹس ایپ ائی ڈی پر پہچان کیلئے چہرے کی تصویر لگاسکتے ہیں۔
براہ مہربانی جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرماویں۔

جواب: شریعت میں اپنی یا کسی بھی جان دار کی تصویر بنانا، تصویر بنوانا اور تصویر رکھنا وغیرہ سب ناجائز ہے اور فیس بک یا واٹس ایپ آئی ڈی پر شناخت (پہچان)کے لیے تصویر لگانا شرعی ضرورت کے دائرہ میں نہیں آتا، یعنی: اس میں آدمی کے لیے نہ تو کوئی قانونی مجبوری ہے اور نہ ہی اس کے نہ رکھنے میں کوئی ضرر ونقصان پایا جاتا ہے اور شناخت کے لئے دیگر مختلف چیزیں بھی ہوسکتی ہیں، نیز ضرورت پر بذریعہ فون رابطہ سے بھی شناخت حاصل کی جاسکتی ہے؛ اس لئے فیس بک یا واٹس ایپ آئی ڈی پرشناخت کے لئے اپنی یا کسی بھی جان دار کی تصویر رکھنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔

http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Halal--Haram/156042
......

No comments:

Post a Comment