Friday 12 January 2018

جہنم کے سانس لینے کی حقیقت

جہنم کے سانس لینے کی حقیقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مفتی صاحب  
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ      
امید ہے کہ بفضل اللہ آنجناب بخیر ہونگے ایک بات سمجھنی ہے اور وہ یہ کہ سردی اور گرمی دوزخ کے سانس لینے کی وجہ سے ہے تو پھر ایک ہی وقت میں کسی جگہ سردی اور کسی جگہ گرمی اور دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ کسی جگہ سردی کے موسم میں سردی زیادہ پڑتی ہے جبکہ دوسری جگہ کم یہی حال گرمی کا بھی ہے کہ کہیں کم کہیں زیادہ، ایسا کیوں ہوتا ہے، جواب دے کر ممنون فرمائیں
سہیل احمد قاسمی۔
جوگیا۔ کھگڑیا۔ بہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
جہنم نے حضور باری تعالی میں شکایت کی کہ شدت  تپش وحبس کی وجہ سے میرا ایک حصہ دوسرے کو کھائے جارہا ہے۔  (میرا علاج کیا ہو؟)
حق  جل مجدہ نے اسے سال میں دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت مرحمت فرمادی ۔ایک گرمی میں ۔دوسری سردی میں۔
موسم گرما کی گرمی جہنم کی اسی ششماہی نفس وسانس لینے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اور  اسی طرح موسم سرما کی سردی جہنم  کے طبقہ زمہریر کے سانس لینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
512 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَدِينِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَفِظْنَاهُ مِنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ وَاشْتَكَتْ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا فَقَالَتْ يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنْ الْحَرِّ وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنْ الزَّمْهَرِيرِ
صحيح البخاري.
617 وَحَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَتْ النَّارُ رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا فَأْذَنْ لِي أَتَنَفَّسْ فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ فَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ بَرْدٍ أَوْ زَمْهَرِيرٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ وَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ حَرٍّ أَوْ حَرُورٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ
صحيح مسلم
چونکہ گرمی اور سردی شدت غضب الہی کا اظہار ہے۔جبکہ نماز مناجات الہی کا نام ہے ۔
شہنشاہ کائنات کے جلال وغضب کے وقت اس سے مناجات وسرگوشیاں کرنا حماقت ہے اور خطرات سے خالی نہیں ۔اس لئے شدت گرمی کے وقت موسم گرما میں ظہر کی نماز ابراد : یعنی ٹھنڈا کرکے پڑھنے کا حکم ہے ۔جو حنفیہ کا مذہب ہے ۔
جبکہ دوسرے ائمہ مجتہدین کا خیال ہے کہ جب اللہ سخت غصے میں ہوں۔اوراسی غضب الہی کی وجہ سے جہنم اپنی گرمی و حرارت باہر پہینکتی ہے۔ تو عین جلال الہی کے وقت   جلدی سے ظہر پڑھ لو ! سبحان اللہ !!
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جہنم کی شدت وحرارت اس قدر سخت ہے کہ اگر اس کا ایک معمولی ذرہ بھی براہ راست زمین  میں منتقل ہوجائے تو ساری دنیا جل کر خاکستر ہوجائے ۔ دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے !
تو پہر جہنم کا اپنی سانس دنیا میں لینے کا مطلب کیا ہے ؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ کرہ شمس ۔۔۔جو کہ حقیقت میں زمین سے کئی سو گنا زیادہ بڑا بھی  ہے  اور مظبوط بھی ۔۔گرمی کے موسم میں جہنم کے محاذات وبرابر میں ہوتا ہے اور سردی کے موسم میں جہنم کے طبقہ زمہریر کے سامنے ۔پہر وہ جہنم کی سانس کی ساری گرمی (فیح جہنم )وسردی اپنے اندر  جذب کرلیتا ہے۔اور وہ اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے حسب ضرورت،  حکمت ، مصلحت اور منشاء خداوندی زمین اور زمین والوں کو گرمی وسردی فراہم اور منتقل کرتا ہے۔۔۔
جہنم راست اپنی سانس زمین پہ ڈالدے تو سارا نظام کائنات یکسر ختم ہوجائے گا۔اس لئے سورج جہنم کی تپش اپنے اندر جذب کرکے حسب ضرورت وحاجت دنیا میں منتقل کرتا ہے۔
ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کہ زمین اپنی اصلیت کے اعتبار سے بالکل بارد ویابس یعنی خشک اور ٹھنڈی ہے۔یہاں کسی کا زندہ رہنا مشکل تھا۔سورج فیح جہنم سے کشیدکردہ یبس وبرودت زمین پر منتقل کرکے یہاں مخلوقات کی زندگی کو ممکن بنایا ۔اور یہاں غلے وحوائج کی اشیاء زمین سے اگ پائیں۔
پہر شمسی نظام ایسا طے ہوا کہ  مکمل چوبیس گھنٹوں میں نہ  مکمل برودت ہے نہ یبوست ۔بلکہ  کم وبیش بارہ گھنٹے دن کے یبوست کے رہتے ہیں باقی رات کے حصوں میں نسبتا برودت وظلمت طاری ہوجاتی ہے تاکہ لوگ آرام کرسکیں۔ 
وجعل الليل سكنا.
اگر یہ اختلاف نہ ہوتا تو لوگوں کی زندگی اجیرن بن جاتی ۔
الغرض جہنم راست دنیا میں اپنی سانس نہیں پہینکتی ہے۔بلکہ کرہ شمس اسے جذب کرکے اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے (والشمس تجري لمستقر لها ) حسب ضرورت وحاجت اہل دنیا کو گرمی وسردی منتقل کرتا ہے۔نظام ارض و کائنات کے جاری وباقی رہنے کے لئے حرارت وبرودت کی شدت وخفت کا اختلاف ضروری تھا ۔اگر موسموں میں یکسانیت ہوجائے تو زمین کا نظام متاثر ہوجائے گا۔۔۔
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کو زیب ہے اختلاف سے۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی۔
بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment