Tuesday, 9 July 2019

داماد اور سسرال؛ عزت و احترام کی حفاظت

داماد اور سسرال؛ عزت و احترام کی حفاظت
اسلام ہمیں  باہمی تعلقات و رشتہ داریوں کو نبھانے اور ان کا پاس و لحاظ رکھنے کی تعلیم دیتا ہے، رشتوں میں سے سسرالی رشتے کی بڑی اہمیت ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًاؕ)
اسلام کے معاشرتی نظام میں خاندان کواساسی حیثیت حاصل ہے۔ خاندان کا استحکام ہی تمدن کےاستحکام کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اسلام کے نصابِ حیات قرآن وحدیث میں خاندان کی تشکیل وتعمیر کے لیے واضح احکام وہدایات ملتی ہیں۔ قرآنِ پاک میں سورۃ النساء اسی موضوع کی نمائندگی کرتی ہے۔ نکاح وہ تقریب ِ باوقار ہے جس سےخاندان کےاساسی ارکان مرد وعورت کےسسرال کا 
رشتہ ظہور میں آتا ہے۔ اسلام انسانی رشتوں میں باہمی محبت، احترام، وفا، خلوص، ہمدردی، ایثار، عدل، احسان، اور باہمی تعاون کا درس دیتا ہے میکے ہوں یا سسرال دونوں اپنی جگہ محترم ہیں دونوں اانسان کی بنیادی ضرورت نکاح کےاظہار کا نام ہیں ۔دونوں ہر گھر کی تنظیمی عمارت کا بنیادی ستون ہیں۔مرد وعورت پر سسرال کے حقوق کی ادائیگی اسی طرح یکساں فرض ہے جس طرح ان دونوں کی اپنی ذات کے حقوق ایک دوسرے پر یکساں فرض ہیں اگر دونوں میں سے کوئی ایک چاہتا ہے کہ اس کا شریکِ زندگی اس کے اقربا سے اچھا سلوک کرے تو اپنے زوج کے اقرباء سےاچھا سلوک کرنا اس کا اپنا بھی فرض ہے۔
 سسرال میں عزت بنانا:
داماد اور سسرال والوں کے تعلق پر میرا اپنا ایک الگ نظریہ ہے۔ میں محض اپنا نظریہ آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کررہا ہوں، میری تمام باتوں سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں کیوں کہ ان باتوں کا اسلامی احکامات سے کوئی تعلق نہیں سواۓ ایک یا دو باتوں کے، ایسا نا ہو کہ کوئی سسرال سے جلا ہوا داماد اٹھ کھڑا ہو کہ جمیل صاحب دلیل دیں۔
میرا ایسا ماننا ہے کہ سسرال میں عزت بنانا خود داماد کے ہاتھ میں ہوتا یے، ایک داماد جب سسرال میں جاتا یے تو اس کی نقل و حرکت کا سسرال والوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔
اگر ایک داماد اپنی بیوی کو لیکر میکے جاتا ہے تو ہر بار اسے سسرال میں کھانا کھانے سے گریز کرنا چاہئے، چاۓ یا کولڈ ڈرنک پر گذارا کرے، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر شوہر سال میں چار مرتبہ بیوی کو لیکر سسرال گیا ہے تو اسے چار میں سے تین بار، یا تین میں سے دو بار چاۓ یا کولڈ ڈرنک پر گذارا کرنا چاہئے اور ایک بار کھانا کھانے پر اکتفا کرنا چاہئے۔
داماد جب سسرال جاۓ تو ضرورت کے تحت یہاں سے وہاں حرکت کرے، ایسا نا ہو کہ پانچ منٹ اِس کمرے میں تو پانچ منٹ اُس کمرے میں، ایک آنکھ یہاں تو دوسری آنکھ وہاں، جہاں بیٹھے آخر وقت تک وہیں بیٹھا رہے، بلا ضرورت یہاں وہاں آنے جانے سے اچھے تاثرات مرتب نہیں ہوتے۔ سسرال جانے کے بعد صرف ساس اور سسر اور بیوی کے بھایئوں کے ساتھ مصروفِ گفتگو رہے، بیوی کی بہنوں سے مکمل پردہ کرے، بیوی کی بہنوں سے پردہ شرعی حکم ہے،
بیوی کی بہن کو صرف سلام کا جواب دے دیا جاۓ۔ لمبی کچہری، گپے لڑانا، ہنسی مذاق شرعی اعتبار سے اور دنیاوی اعتبار سے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ ایک داماد کو سسرال میں رات نہیں گذارنی چاہئے، کبھی بہت زیادہ مجبوری پیش آجاۓ تو الگ بات ہے لیکن بلاوجہ، بلا عذر ایک داماد کو سسرال میں رات نہیں گذارنی چاہئے، خواہ بیوی کے بھائی کی شادی ہو، بیوی کی بہن کی شادی ہو یا کوئی بھی بڑی تقریب منعقد ہو داماد کو سسرال میں رات نہیں گذارنی چاہئے، اگر بہت زیادہ مجبوری میں رات رکنا پڑجاۓ تو کوئی مضائقہ نہیں۔
ساس سسر کے ساتھ نہایت ادب و آداب سے گفتگو کی جاۓ اور بیوی کے بھایئوں کو آپ کہ کر پکارا جاۓ۔
سسرال میں بلا ضرورت نا لیٹیں، اگر کمرے میں کوئی نہیں تو تھوڑی دیر کمر سیدھی کرنے کے لئے لیٹ جانے میں کوئی حرج نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ گھر آکر کمر سیدھی کی جاۓ۔
سسرال جاتے وقت سسرال والوں کے لئے مٹھائی، کیک یا فروٹ وغیرہ ضرور لیتے جائیں۔
بیوی میکے میں ہے تو بے وقت بیوی کو فون نا کیا جاۓ، میکے میں بیوی کو بے وقت فون کرنے اور لمبی گفتگو سے انسان سسرال والوں کی نظر میں اپنا معیار گرادیتا ہے، ہاں اگر ضروری کام یا ضروری بات کرنی ہو تو کسی بھی وقت بیوی سے رابطہ کیا جاسکتا یے۔
کوشش کی جاۓ کہ بیوی کو زیادہ دن میکے میں نا چھوڑا جاۓ، بیوی زیادہ دن میکے میں اچھی نہیں لگتی۔
بیوی کو میکے چھوڑتے وقت اسے تمام ضروریات وغیرہ کا مکمل خرچہ دیا جاۓ، شادی کے بعد بیوی کا میکے والوں سے پیسوں کے لئے سوال غیر مناسب یے۔
ہر بار بیوی کی میکے جانے والی درخواست قبول نا کی جاۓ کہ جب بیوی کا دل کیا اور شوہر نے میکے بھیج دیا، ہاں اگر بیوی لمبے عرصے بعد جاتی ہے تو پھر میکے بھیجنے میں دیر نا کی جائے۔ یہ چند باتیں تھیں جو اپ کے سامنے پیش کیں، ان تمام باتوں پر اپنے والد صاحب کو عمل کرتے ہوۓ دیکھا تو میرے دل میں یہ باتیں اترتی گئیں۔
سسرالی رشتے کا ادب و احترام: 
سسرالی رشتے کا ادب و احترام خود سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک فرمان سے ملتا ہے چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: تم مصر فتح کرو گے، جب تم اسے فتح کرو تو وہاں کے لوگوں سے بھلائی کرنا کیونکہ ان (اہلِ مصر) کا احترام ہے اور قرابت داری ہے یا فرمایا کہ سسرالی رشتہ ہے۔ (مسلم، ص1056، حدیث:6494)
یعنی اگرچہ مصر والے معامَلات میں سَخْت ہیں ان کے مِزاج بھی سَخْت ہیں طبیعت بھی تیز ہے مگر تم ان کی سختی برداشت کرنا ان سے برتاؤ اچھا کرنا ان کی سختی کا بدلہ نَرْمی سے کرنا، (کیونکہ ) ہم کو مصر والوں سے دو طرح تعلّق ہے ایک یہ کہ (حضرتِ سیّدتنا) ماریہ قِبْطِیہ (رضی اللہ تعالٰی عنہا) مصر سے آئی تھیں جن کے بَطْن شریف سے (حضرت سیّدنا) ابراہیم ابنِ رسول اﷲ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) پیدا ہوئے، دوسرا تعلق یہ ہے کہ حضرتِ ہاجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مصر ہی سے تھیں، وہ ہماری دادی کا وطن ہے لہذا ان لوگوں سے ہماری قرابت داری بھی ہے۔ مسلمان کو چاہئے کہ اپنے نسبی رشتہ کی طرح سسرالی رشتہ کا بھی احترام کرے، ساس سسر کو اپنا ماں باپ سمجھے،ان کے قرابت داروں کو اپنا عزیز  جانے بلکہ ان کی بستی کا، وہاں کے باشندوں کا احترام کرے کہ وہ ساس و سسر کے ہم وطن ہیں۔ چنانچہ جب حضرت سیّدنا عَمْروبِن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سپہ سالاری میں صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے مصر کا محاصرہ کیا  تو  حملہ کرنے سے پہلے اعلان کیا: ”ہمیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قِبْطِیوں (اہلِ مصر) کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ہے  کیونکہ ان  کا احتِرام ہے اور قرابت داری ہے “۔یہ سن کر ان کے راہِبوں نے کہا: ”اس قدر دُور کی قرابت داری کا لحاظ تو انبیا اور انبیا کے پیروکار ہی کرتے ہیں“۔ (تاریخ طبری، ج 4، ص 107)
اسی طرح سُسْرالی رشتے کی عزّت و توقیر کا ایک مُظاہِرہ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے غزوۂ مُرَیْسِیْع کے موقع پر بھی کیا، چنانچہ جب غزوۂ مریسیع کے موقع پر قبیلہ بنی مُصْطَلِقْ کے لوگ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان  کے قیدی تھے اور رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس قبیلے کے سردار کی بیٹی  حضرت سیدتنا جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح فرماکر انہیں امّہاتُ الْمؤمنین میں شامل فرمایا تو صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نے ”اَصْهَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (یعنی یہ ہمارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سسرالی رشتے دار ہیں)“ کہتے ہوئے سب قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ (ابوداؤد، ج 4، ص 30، حدیث: 3931 ماخوذاً)
ایک داماد کو سسرال کے حق میں کیسا ہونا چاہئے؟ 
(1) داماد کو نیک  سیرت،بااخلاق،خوش مزاج اور خیرخواہ ہونا چاہئے۔
(2) بعض داماد سسرال جاتے ہیں تو ایسی ٹھاٹھ باٹھ سے جاتے ہیں جیسے یہ بادشاہ سلامت ہیں اور سسرال والے ان کی رعایا، پھر وہاں جاکر ایک کے بعد دوسرا حکم ان کی زبان پر جاری ہوجاتا ہے اور جہاں ذرا بھی حکم عدولی ہوئی مابدولت کے ماتھے پر سِلْوٹیں آگئیں اور ایسے ناراض ہوتے ہیں کہ بات چیت تک ختْم کرکے بیوی کو میکے جانے سے روک دیتے ہیں، ایسا  کرنا شَرْعی و اخلاقی اعتبار سے انتہائی نامناسب ہے۔
(3) داماد کو چاہئے کہ ساس اور سسر کو اپنے ماں باپ کی طرح سمجھے اور عزّت کرے۔ یاد رکھو کہ دنیا میں انسان کے چار باپ ہوتے ہیں: ایک تو حقیقی باپ، دوسرے اپنا سسر، تیسرے اپنا استاد، چوتھے اپنا استاذ۔ اگر تم نے اپنے سسر کو بُرا کہا تو سمجھ لو کہ اپنے باپ کو برا کہا۔ (اسلامی زندگی، ص68) 
(4) سسرال میں کوئی بیمار ہو بِالخصوص ساس یا سسر اور انہیں اپنی بیٹی کی خدمت کی حاجت ہو تو داماد کو چاہئے کہ بیوی کو ان کے پاس جانے دے۔ 
(5) انہیں کسی کام میں  اس (یعنی داماد) کی ضَرورت ہوتو اچّھے مشورے دے اور ممکن ہو تو آگے بڑھ کر کام کروائے۔ 
(6) ان کی خوشی و غمی میں حتّی الْامکان شرکت کرے۔ 
(7) سسرال والے مالی مشکلات کا شکار ہوں اور داماد استطاعت رکھتا ہو تو ان کی مدد کرے۔ 
(8) ان کے ساتھ (شَرْعی اجازت کے ساتھ) کچھ نہ کچھ تحفوں کا تبادلہ کرتا رہے تاکہ آپس میں محبت قائم رہے۔ 
(9) سسرال اور والدین کی آپس میں کوئی ناچاقی ہوجائے تو جانبداری سے کام نہ لے بلکہ دونوں طرف مُثبت انداز اختیِار کرے اور باہمی صُلْح اور خوشگوار تعلّقات کی کوشش کرے۔ 
(10) سسرال والے اگر امیر ہوں تو ان کے مال پر نظر نہ رکھے اور اپنے اندر خود داری پیدا کرے۔ 
(11) سسرال کی حمایت میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی یا  اِن کی حمایت میں سسرال کی مخالفت ہرگزنہ کرے، اپنا پرایا خاندان نہ دیکھے بلکہ یہ دیکھے کہ دونوں طرف مسلمان ہیں۔ 
(12) ہمیشہ سسرال ہی میں نہ پڑا رہے بلکہ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں پر بھی توجہ رکھے، اسی طرح ہر دوسرے دن بلاوجہ آنا جانا بھی قدر کھو دیتا ہے اس کا بھی خیال رکھے، نہ تو ہر روز سسرال چلا  رہے اور نہ ہی برسوں کی دوری رکھے۔ 
(13) سسرال سے ہمدردی و حسن سلوک کے ساتھ ساتھ شریعت کی پاسداری بھی ضَروری ہے لہٰذا سسرال کے نامحرم رشتہ داروں سے ضَرور پردہ کرے۔ 
(14) ماں باپ اپنی بیٹی کو جہیز میں جو چاہیں دیں، لیکن داماد کا خود کسی چیز کا مطالبہ کرنا انتہائی نامناسب ہے بلکہ اکثر صورتوں میں رشوت ہے، ایسے داماد کبھی بھی سسرال کی نظر میں مُعزّز نہیں ہوسکتے،  کئی دفعہ تو ایسے مطالبات کی بنیاد پر رشتے مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔



No comments:

Post a Comment