Tuesday 2 July 2019

شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے دعوت طعام؟؟

شادی میں لڑکی والوں کی طرف سے دعوت طعام؟؟

درج ذیل تحریر میں درج مسئلۂِ فقہیہ اور تاریخی روایت کی صحت یا ضعف دریافت کرنا ھے، حضرت مفتی شکیل منصور القاسمی صاحب سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔
سائل: محمد خالد ندوی، لکھنوء، ممبر مرکز البحوث الاسلامیہ العالمی)
طعام مجلسِ عقد کی حیثیت 
——————————
تصدیق وتصویب  تو گروپ کے محققین فرمائیں گے البتہ ایک تاریخی روایت  کے تناظر میں جواب یہ ہے کہ مجلس عقد نکاح کا کھانا بھی جائز اور مباح ہے بشرطیکہ لڑکی والے بخوشی ورغبت کھلارہے ہوں بلکہ اس کھانے کو سنت انبیاء سے تعبیر کیا گیا ہے جیساکہ حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان کا جب شاہ نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نکاح کردیا تو لوگ مجلس نکاح سے اٹھ کر جانے لگے. اس وقت شاہ نجاشی نے تمام حاضرین کو یہی کہہ کرکھانے کے لیے روکا تھا کہ اس موقع سے کھانا کھانا سنت انبیاء ہے چنانچہ البدایہ والنھایہ کے الفاظ ملاحظہ کیجئے
ثُمَّ أَرَادُوا أَنْ يَقُومُوا فَقَالَ: اجْلِسُوا فَإِنَّ مِنْ سُنَّةِ الْأَنْبِيَاءِ إِذَا تَزَوَّجُوا أَنْ يُؤْكَلَ طَعَامٌ عَلَى التَّزْوِيجِ. فَدَعَا بِطَعَامٍ فَأَكَلُوا ثُمَّ تَفَرَّقُوا.
(البدایہ والنھایہ ج 4 ص 144)
       لہٰذا لڑکی والے کے یہاں مجلس نکاح میں دعوت کھانا بھی جائز ہے بلکہ سنت انبیاء ہے بس شرط یہی ہے کہ وہ دعوت کسی ریاکاری کے طور پر نہ ہو اور نہ ہی بالجبر ہو بلکہ لڑکی والے اپنی خوشی سے کھلا رہے ہوں.
فقط واللہ اعلم بالصواب
رضوان احمد قاسمی منورواشریف سمستی پور بہار
26 جون 2019
—————————-
الجواب وباللہ التوفیق 
از: شکیل منصور القاسمی 

شرعی حدود میں رہتے ہوئے طیب خاطر کے ساتھ رسم ورواج کے بغیر بلا کسی دباؤ کے اگر لڑکی والوں کی طرف سے اعزہ، اقرباء مہمانوں اور باراتیوں کے لئے دعوت کا انتظام ہو تو یہ جائز ہے۔ سنت اور مستحب نہیں۔
جواز سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے نکاح کے وقت ایک بکرا ذبح کرکے مہاجرین و انصار کو دعوت دی تھی۔
مصنف عبد الرزاق میں یہ روایت تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
فنی حیثیت سے اسناد میں ضعف ضرور ہے۔ جس کی وجہ سے سنیت کا ثبوت نہیں ہوسکتا لیکن جواز کے اثبات کے لئے اس قدر ہی کافی یے۔ صرف ایک یا دو واقعہ اس قسم کی دعوت کا ملتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی میں اس کا عمومی رواج نہیں ملتا ۔۔۔۔ اس لئے اس کی ترویج بہتر نہیں۔ تاہم جواز سے انکار قطعی درست نہیں۔ ایسی دعوتوں شریک ہونا اور کھانا تناول کرنا جائز ہے۔۔۔
ثم دعا بلالا، فقال: یا بلال! إني زوجت ابنتي ابن عمي، وأنا أحب أن یکون من سنۃ أمتي، إطعام الطعام عند النکاح، فأت الغنم، فخذ شاۃ وأربعۃ أمداد، أو خمسۃ، فاجعل لي قصعۃ لعلي أجمع علیہا المہاجرین، والأنصار۔ الحدیث (مصنف عبدالرزاق، النکاح، تزویج فاطمۃ رضي اﷲ عنہا، المجلس العلمي ۵/ ۴۸۷، رقم: ۹۷۸۲، المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۲۲/ ۴۱۰، رقم: ۱۰۲۲، ۲۴/ ۱۳۲، رقم: ۳۶۲)
وفي حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ خطبہا علی بعد أن خطبہا أبو بکر - إلی قولہ - فقال: أدع لي أبا بکر وعمر وعثمان وعبد الرحمن بن عوف وعدۃ من الأنصار فلما اجتمعوا وأخذوا مجالسہم۔ (شرح الزرقاني مع المواہب اللدنیۃ ۲؍۲-۳ بیروت، بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۱۷؍۳۸۹ میرٹھ)
رشیدیہ ص: ۲۹۷، کتاب الفتاوی ۴/ ۴۱۶،)
تحقیق طلب افراد کے لئے  ذیل میں متعلقہ حدیث مکمل درج کی جاتی ہے:
كانت فاطِمةُ تُذْكَرُ لرسولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فلا يَذْكُرُهَا أَحَدٌ إلَّا صَدَّ عنه، حتَّى يَئِسوا منها، فلقِيَ سَعْدُ بنُ معاذٍ عَلِيًّا، فقال: إنِّي واللَّهِ ما أرى رسولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْبِسُهَا إلَّا عليك. فقال له عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَلِمَ ترى ذلك؟ [فواللَّهِ] ما أنا بأحَدِ الرَّجُلَيْنِ: ما أنا بصاحِبِ دُنْيَا يَلْتَمِسُ ما عندي، وقد عَلِمَ ما لي صفراءُ ولا بيضاءُ، وما أنا بالكافرِ الذي يُترَفَّقُ بها عن دينِه! - يعني يَتألَّفُه بها - إنِّي لأوَّلُ مَن أسلَم! فقال سعدٌ: إنِّي أعزِمُ عليك لتُفَرِّجَنَّها عنِّي ; فإنَّ لي في ذلك فَرَجًا. قال: أقولُ ماذا؟ قال: تقولُ: جِئْتُ خاطبًا إلى اللهِ وإلى رسولِه فاطمةَ بنتَ محمَّدٍ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم. [قال: فانطلَق وهو ثَقيلٌ حَصِرٌ، فقال له النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: " كأنَّ لك حاجةً يا علِيُّ " فقال: أجَلْ جِئْتُك خاطبًا إلى اللهِ وإلى رسولِ اللهِ فاطمةَ بنتَ محمَّدٍ] فقال النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: " مَرْحَبًا ". كَلِمةٌ ضعيفةٌ. ثم رجَع إلى سعدٍ، فقال له: قد فعَلْتُ الذي أمَرْتني به، فلم يزِدْ عليَّ أن رحَّب بي كَلِمةً ضعيفةً. فقال سعدٌ: أَنْكَحَك والذي بعثَه بالحقِّ، إنَّه لا خُلْفَ ولا كَذِبَ عندَه، أعزِمُ عليك لتأتيَنَّه غَدًا، فَلَتَقولَنَّ: يا نبيَّ اللهِ، متى تَبْنيني؟ فقال عليٌّ: هذه أشَدُّ عليَّ مِنَ الأُولى، أوَلا أقولُ يا رسولَ اللهِ حاجتي؟ قال: قُلْ كما أمَرْتُك، فانطلَق عليٌّ، فقال: يا رسولَ اللهِ، متى تَبْنيني؟ قال: " اللَّيلةَ إنْ شاء اللهُ ". ثُمَّ دعا بِلالًا، فقال: " يا بلالُ، إنِّي قد زوَّجْتُ ابنَتي ابنَ عمِّي، وأنا أُحِبُّ أن يكونَ مِن سُنَّةِ أمَّتي الطَّعامُ عندَ النِّكاحِ، فَأْتِ الغَنَمَ، فخُذْ شاةً وأربعةَ أمْدادٍ، واجْعَلْ لي قَصْعةً أجمَعُ عليها المُهاجرين والأنصارَ، فإذا فرَغْتَ فآذِنِّي ". فانطلَق ففعَل ما أمَره به، ثم أتاه بقَصْعةٍ فوضَعها بينَ يدَيه، فطعَن رسولُ اللِه صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في رأسِها، وقال: " أدخِلِ النَّاسَ عليَّ زُفَّةً زُفَّةً، ولا تُغادِرَنَّ زُفَّةٌ إلى غيرِها ". - يعني إذا فرَغَتْ زُفَّةٌ فلا يعودون ثانيةً -. فجعَل النَّاسُ يرِدُونَ، كلَّما فرَغَتْ زُفَّةٌ وَرَدَتْ أخرى، حتَّى فرَغ النَّاسُ. ثمَّ عمَد النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إلى ما فضَل منها، فتفَل فيه وبارَك، وقال: " يا بِلالُ، احمِلْها إلى أُمَّهاتِك، وقُلْ لهُنَّ: كُلْنَ وأطْعِمْنَ مَن غَشِيَكُنَّ ". ثم قام النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حتَّى دخَل على النِّساءِ، فقال: " إنِّي زوَّجْتُ بِنتي ابنَ عمِّي، وقد علِمْتُنَّ مَنزِلتَها منِّي، وأنا دافِعُها إليه فدونَكُنَّ ". فقُمْنَ النِّساءُ فَغَلَّفْنَها مِن طيبِهِنَّ، وألبَسْنَها مِن ثيابِهنَّ، وحَلَّيْنَها مِنْ حُلِيِّهِنَّ، ثُمَّ إنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم دخَل، فلمَّا رأَيْنَه النِّساءُ ذَهَبْنَ، وبينَ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم سِتْرٌ، وتخلَّفَتْ أسماءُ بنتُ عُمَيسٍ رضِيَ اللهُ عنها فقال لها النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: " على رِسْلِكِ، مَن أنت؟ ". قالت: أنا التي أحرُسُ ابنتَك، إنَّ الفتاةَ ليلةَ بِنائِها لابُدَّ لها مِنِ امرأةٍ [تكونُ] قريبةً منها، إنْ عرَضَتْ لها حاجةٌ أو أرادَتْ أمْرًا أفْضَتْ بذلك إليها. قال: " فإنِّي أسالُ إلهي أن يحرُسَكِ مِن بينِ يدَيكِ ومِنْ خَلْفِكِ، وعن يمينِكِ وعن شِمالِكِ، مِنَ الشَّيطانِ الرَّجيمِ ". ثُمَّ صرَخ بفاطمةَ فأقبَلَتْ، فلمَّا رأَتْ عَليًّا جالِسًا إلى النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم[حَصِرَتْ] بَكَتْ، فخَشِيَ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يكونَ بُكاؤها أنَّ عليًّا لا مالَ له، فقال النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: " ما يُبكيكِ؟ ما أَلَوْتُكِ في نفسي، وقد أصَبْتُ لكِ خيرَ أهلي، والَّذي نفسي بيدِه لقد زوَّجْتُكِ سعيدًا في الدُّنيا، وإنَّه في الآخِرةِ لَمِنَ الصَّالحينَ ". فَلانَ منها. فقال النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: " يا أسماءُ، ائتيني بالمِخْضَبِ [فامْلَئيه ماءً] ". فأتَتْ أسماءُ بالمِخْضَبِ، فمَجَّ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فيه، ومسَح في وجهِه وقَدَمَيه، ثُمَّ دعا فاطمةَ، فأخَذ كَفًّا مِن ماءٍ فضرَب به على رأسِها، وكَفًّا بينَ ثَدْيَيْها، ثُمَّ رشَّ جِلْدَه وجِلْدَها، ثم التَزَمها، فقال: " اللهمَّ إنَّها مِنِّي وإنِّي منها، اللهمَّ كما أذهَبْتَ عنِّي الرِّجْسَ وطَهَّرْتَني فطَهِّرْها ". ثُمَّ دعا بمِخْضَبٍ آخَرَ، ثُمَّ دعا عَليًّا، فصنَع به كما صنَع بها، ثُمَّ دعا له كما دعا لها، ثُمَّ قال لهما: " قُومَا إلى بيتِكما، جمَع اللهُ بينَكما [وبارَك] في سِرِّكُما، وأصلَح بالَكما ". ثُمَّ قام وأغْلَق عليهما بابَهما بيدِه. قال ابنُ عبَّاسٍ رضِيَ اللهُ عنهما: فأخْبَرَتْني أسماءُ بنتُ عُمَيسٍ رضِيَ اللهُ عنها أنَّها رَمَقَتْ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لم يزَلْ يدعو لهما خاصَّةً، لا يَشْرَكُهما في دُعائِه أحَدًا حتَّى توارى في حُجْرَتِه صلَّى اللهُ عليه وسلَّم».
الراوي : عبدالله بن عباس | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم: 9/210 | خلاصة حكم المحدث : فيه يحيى بن يعلى وهو متروك
جہاں تک اس میں درج روایت کی صحت وغیرہ کا معاملہ ہے تو یہ روایت طبقات بن سعد ج 10/97صفحہ میں یوں درج ہے:
أخبرنا محمد بن عمر. حدثنا عبد الله بن جعفر عن عثمان بن محمد الأخنسي أن أم حبيبة بنت أبي سفيان ولدت حبيبة ابنتها من عبيد الله بن جحش بمكة قبل أن تهاجر إلى أرض الحبشة. قال عبد الله بن جعفر: وسمعت إسماعيل بن محمد بن سعد يقول:
ولدتها بأرض الحبشة.
قال محمد بن عمر: فأخبرني أبو بكر بن إسماعيل بن محمد بن سعد عن أبيه قال: خرجت من مكة وهي حامل بها فولدتها بأرض الحبشة.
أخبرنا محمد بن عمر. حدثنا عبد الله بن عمرو بن زهير عن إسماعيل بن عمرو بن سعيد بن العاص قال: قالت أم حبيبة: رأيت في النوم عبيد الله بن جحش زوجي بأسوأ صورة وأشوهه ففزعت. فقلت: تغيرت والله حاله. فإذا هو يقول حيث أصبح: يا أم حبيبة إني نظرت في الدين فلم أر دينا خيرا من النصرانية وكنت قد دنت بها. ثم دخلت في دين محمد ثم قد رجعت إلى النصرانية. فقلت: والله ما خير ۔۔۔۔۔۔۔۔ فقال: اجلسوا فإن سنة الأنبياء إذا تزوجوا أن يؤكل طعام على التزويج. فدعا بطعام فأكلوا ثم تفرقوا.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
دلائل النبوہ للبیہقی 462/3 ابن عبد البر کی الاستیعاب 204/6.زرقانی کی شرح المواہب اللدنیہ 406/4. بیہقی کے استاذ وشیخ امام حاکم کی مستدرک 21/4.
 حافظ کی الإصابة ج 651/7
اعلاء السنن کتاب النکاح 19/6)
طبقات بن سعد  کی روایت میں (پہر اسی طریق سے حاکم اور حافظ وغیرہ نے بھی روایت کی ہے )بطریق ابن لہیعہ محمد بن عمر واقدی  راوی ہے 
اور واقدی کی روایت میں ائمہ جرح وتعدیل کا بہت سخت کلام ہے جو ہم نیچے پیش کررہے ہیں ۔
لہذا یہ سند بالکل بیکار ہے اس سے سنیت جیسے کسی مسئلے کا ثبوت مشکل ہے ۔
محمد بن عمر واقدی
——————
امام بخاری رحمہ اللہ نے التاریخ الکبیر جلد 1 ص: 178 میں فرمایا: معمر اور مالک سے روایت نقل کرنے والے، بغداد کے قاضی محمد بن عمر واقدی کے تئیں محدثین نے سکوت اختیار کیا ہے، احمد اور ابن نمیر نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ ان کا انتقال 207 یا اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہوا۔ (ملاحظہ ہو الضعفاء الصغير ص: 109)
ابن ابی حاتم (متوفی 327) نے کتاب الجرح والتعدیل جلد :8 ص: 20 میں فرمایا: ابو عبداللہ محمد بن عمر محمد واقدی اسلمی قاضی، بنو سہم کے مولی ہیں، بغداد میں عہدہ قضا پر متمکن رہے اور وہیں وفات ہوئی۔ معمر، ابن ابی ذئب، مالک، اوزاعی اور ثوری سے روایت کی۔ اور محمد بن عمر واقدی سے ابوبکر بن شیبہ اور یحیی بن ابی الخصیب نے روایت کی ہے۔ میں نے اپنے والد کو ایسا کہتے ہوئے سنا۔
ابو محمد کہتے ہیں: واقدی سے حامد بن یحیی بلخی، عبدالرحمن، میرے والد ، معاویہ بن صالح بن ابی عبیداللہ الاشعری دمشقی نے کہا: میں نے سنید بن داؤد کو کہتے ہوئے سنا: ہم لوگ ہشیم کی خدمت میں حاضر تھے کہ واقدی کا مجلس میں آنا ہوا، ہشیم نے واقدی سے اس کی محفوظات اور یاد کردہ حدیثوں کے متعلق پوچھا، اس دوران واقدی نے اس سے کہا: ابومعاویہ آپ کی محفوظات کی تعداد کیا ہے؟ تو اس نے باب کی پانچ یا چھ مرویات کا تذکرہ کیا۔ پھر انھوں نے واقدی سے پوچھا، آخر آپ کی مرویات کتنی ہیں؟ تو واقدی نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،  صحابہ اور تابعین کی تیس احادیث کا ذکر کیا، سنید بن داود کہتے ہیں: میں نے مالک اور ابن ابی ذئب سے پوچھا تو ہشیم کا چہرہ نقل حدیث کے باب میں دروغ گوئی کی وجہ سے ناگواری سے افسردہ پایا۔ پھر واقدی مجلس سے اٹھ کر چلے گئے، ہشیم نے فرمایا: اگر یہ جھوٹا ہے تو دنیا میں اس کے جیسا کوئی جھوٹا نہیں ہے اور اگر سچا ہے تو پوری دنیا میں اس کا کوئی ہم پلہ نہیں۔
یونس بن عبدالاعلی کہتے ہیں: مجھے امام شافعی نے بتایا: واقدی کی کتابیں جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ ( الجرح والتعديل:8/ 92) 
احمد بن حنبل کہتے ہیں: واقدی حدیثوں کو بیان کرتے ہوئے قلب کیا کرتے تھے۔ اسحاق بن راھویہ کہتے ہیں: واقدی میرے نزدیک خود ساختہ حدیث بیان کرنے والوں کے زمرے میں ہے۔ یحیی بن معین کہتے ہیں: واقدی سے حدیثیں نہیں لکھی جائیں گی؛ کیوں کہ وہ معدوم کے درجے میں ہیں۔ عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے محمد بن عمر واقدی کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: وہ حدیث کے باب میں  متروک ہے۔
یحیی بن معین کہتے ہیں: ہمیں واقدی کی روایت کردہ حدیثوں میں غور و فکر سے معلوم ہوا کہ اس کی حدیث بسند مدنیین نا معلوم شیوخ سے منکر ہیں۔ ہم نے کہا: ممکن ہے وہ منکر احادیث واقدی کی جانب سے ہوں اور اس کا بھی امکان ہے کہ وہ احادیث  مجھول شیوخ کی ہوں۔ پھر ہم نے واقدی کی ابن ابی ذئب اور معمر سے روایت کے متعلق تحقیق کی تو پتا چلا کہ ان کی حدیثیں ٹھیک ہیں، پھر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں شیوخ سے منکر روایتیں بیان کی ہوئی ہیں بعد میں معلوم ہوا کہ منکر احادیث اسی کی ہیں اس لیے ہم نے واقدی کی روایت کردہ حدیثیں چھوڑ دی ہیں۔
عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے ابو زرعہ سے محمد بن عمر واقدی کے متعلق پوچھا، تو انھوں نے فرمایا: وہ ضعیف ہے۔ میں نے پوچھا اس سے حدیثیں لکھی جاسکتی ہیں؟ فرمایا: مجھے اس پر اعتبار پسند نہیں ہے،  لوگوں نے اس سے احادیث کی روایت ترک کی ہوئی ہیں۔ 
محمد بن عمر واقدی کے متعلق امام نسائی (متوفی: 303) نے اپنی کتاب الضعفاء والمتروكين ص: 233 میں فرمایا: محمد بن عمر واقدی متروک الحدیث ہے۔
ابو العرب نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ مدینہ منورہ میں سات لوگ ایسے تھے جو خود ساختہ سند تیار کرتے تھے ان میں ایک نام واقدی کا ہے۔
   امام نسائی نے الضعفاء والمتروكين میں فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹی احادیث نقل کرنے والے مشہور چار لوگ ہیں: مدینہ منورہ میں واقدی، خراسان میں مقاتل، شام میں محمد بن سعید مصلوب اور چوتھے بھی ذکر کیا۔ 
ابن عدی کہتے ہیں: واقدی کی احادیث نا محفوظ ہیں، یہ آفت اسی کی پیدا کردہ ہے۔
ابن مدینی کہتے ہیں: واقدی کے پاس بیس ہزار بے اصل حدیثیں ہیں۔ ایک دیگر مقام پر ابن مدینی نے کہا: واقدی نقل روایت کا اہل نہیں ہے، ابراہیم بن ابی یحیی بھی دروغ گو ہے مگر میرے نزدیک واقدی سے بہتر ہے۔
 امام ابو داؤد کہتے ہیں: میں واقدی کی احادیث لکھتا ہوں اور نہ اس سے احادیث روایت کرتا ہوں، بلاشبہ وہ حدیث وضع کرنے والوں میں ہے، کتاب میں غور و فکر سے واقدی کا حال ظاہر ہے۔ واقدی نے یمن کی فتح مندی اور اسود عنسی کے متعلق امام زھری سے غلط روایتیں نقل کیں۔ بندار کہتے ہیں: میری نظر میں واقدی سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں۔ 
ابو بشر دولابی اور عقیلی نے نے واقدی کو متروک الحدیث بتایا۔
علامہ نووی نے شرح المھذب کی کتاب الغسل میں واقدی کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق نقل کیا ہے۔ (366- 368/9) 
علامہ ذہبی نے بھی المیزان میں واقدی کے کمزور ہونے پر اجماع ذکر کیا ہے۔ ہمارے بعض مشائخ نے واقدی کی ناپختہ باتوں پر گرفت کی ہے۔
دار قطنی کہتے ہیں: واقدی کا کمزور ہونا اس کی حدیثوں سے ظاہر ہے۔ (السنن: 164/2، 192، 212).
الضعفاء والمتروكين میں واقدی کو مختلف فیہ راوی بتایا گیا ہے، نیز اس کی احادیث سے ضعیف ہونا آشکارا ہے۔ (الترجمة: 477) 
جوزجانی کہتے ہیں: واقدی حدیثوں کے متعلق اطمینان بخش انسان نہیں تھا۔ (أحوال الترجمة، الترجمة 228) 
ابو زرعہ نے واقدی کا تذکرہ اپنی کتاب أسامي الضعفاء میں کیا ہے۔ (أبو زرعة الرازي:  656)
ابن حبان نے المجروحين  میں ذکر کیا ہے کہ واقدی، ثقہ راویوں سے مقلوب اور معضل احادیث نقل کرتا تھا، بسا اوقات بالقصد جان بوجھ کر احادیث میں قلب کرتا تھا؛ اسی لیے امام احمد بن حنبل اس کو کذاب قرار دیتے تھے۔ (290/2)
ابن عدی نے الکامل میں متعدد احادیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا: میری املا کردہ یہ حدیثیں واقدی کی ہیں، جن کا میں نے تذکرہ نہیں کیا ہے۔ یہ ساری حدیثیں محفوظ نہیں ہیں۔ جن ثقہ اور معتبر راویوں سے واقدی یہ احادیث نقل کررہے ہیں ان سے یہ احادیث واقدی کے علاوہ کسی دوسرے راوی سے محفوظ نہیں ہیں، یہ فتنہ واقدی کا جنم دیا ہوا ہے، واقدی کے احادیث کی متون محفوظ نہیں ہیں۔ وہ مکمل ضعیف راوی ہے۔ (الکامل/ الورقة: 85)
بزار کہتے ہیں: واقدی کے متعلق لوگوں نے کلام کیا ہے، اس کی احادیث منکر ہیں۔ (کشف الأستار: 356، 1026) 
 خطیب نے اپنی تاریخ میں عباس بن عبدالعظیم عنبری کے حوالے سے لکھا ہے: واقدی میرے نزدیک عبدالرزاق سے اچھا ہے۔ (11/3)
آجری سے منقول ہے: ابو داؤد سلیمان بن الاشعث سے  کسی نے واقدی کی بابت پوچھا: فرمایا: میں اس کی احادیث نہیں لکھتا ہوں (15/3)
امام ذہبی نے فرمایا: واقدی بالاتفاق متروک الحدیث ہے۔ (المغني :2/ الترجمة 5861) 
ابن الجوزی نے ابو حاتم کے حوالے سے واقدی کو وضاع بتایا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
-------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/07/blog-post_19.html


No comments:

Post a Comment