Monday 8 July 2019

دشمن سے حفاظت کا مسنون عمل

دشمن سے حفاظت کا مسنون عمل
دعا کی برکت اور کفار کی بے بسی (عجیب ایمان افروز واقعہ)
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ نے ’’آپ بیتی‘‘ میں تقسیمِ ہند کے وقت کی سازشوں اور فتنوں اور قتل وغارت گریوں کے تذکرے میں اپنے ایک متعلق الحاج بابو ایاز صاحب رحمہ اللہ کا ایک حیرت انگیز واقعہ لکھا ہے۔ وہ یہ کہ اس دور میں ان فتنوں کی وجہ سے دہلی سے نظام الدین کو آنا جانا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا،  بازار جاکر راشن بھی لانا سخت خطرناک و مصیبتِ عظمیٰ تھا، سارے راستے مخدوش و مسدود تھے، راشن سبزی منڈی میں ملتا تھا، جہاں سکھ ہی سکھ تھے، کسی کی ہمت وہاں جانے کی نہیں ہو تی تھی؛ مگر الحاج بابو ایاز صاحب رحمہ اللہ اسی حال میں وہاں سے راشن لایا کرتے تھے، ان کے اس طرح جانے سے لوگ حیرت کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ سبزی منڈی سے راشن لے کر نظام الدین آرہے تھے، وہاں سے ایک تانگہ لیا، اس میں ایک بابو جی اور تین سکھ سوار تھے، دلی سے باہر نکل کر ان سکھوں نے یہ کہا کہ تو ہمارے بیچ میں کیسے بیٹھ گیا اور اگر ہم تجھ کو ختم کردیں، تو پھر کیا ہو؟ انھوں نے نہایت جوش اور جرأت و بے باکی سے کہا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں مارسکتے اور ہمت ہو، تو مارکر دکھلاؤ۔ وہ بھی سوچ میں پڑگئے، آپس میں کچھ اشارے کنائے بھی ہوئے اور آستینیں سونت کر کہنے لگے کہ ہم کیوں نہیں مارسکتے؟ انھوں نے اس سے زیادہ جوش سے کہا کہ میرے پاس ایک چیز ہے، تم میرے مارنے پر قادر ہی نہیں ہوسکتے، وہ اللہ کے فضل سے کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ نظام الدین تک سوچتے ہی رہے اور اشارے بھی کرتے رہے۔ ان سے اُترتے وقت پوچھا کہ تم وہ چیز بتلادو کیا ہے؟ بابو جی نے کہا کہ وہ چیز بتلانے کی نہیں ہے اور باقی تم دیکھ چکے ہو کہ تم لوگ باوجود ارادے کے مجھے مار نہ سکے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا بات تھی؟ انھوں نے فرمایا کہ آپ ہی نے مجھے ایک دعا بتلائی ہے:
«اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَجْعَلُکَ فِيْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ ۔» 
(ابو داؤد، کتاب فضائل القرآن، باب ما یقول الرجل إذا خاف قوما، الرقم:۱۵۳۷)​
ترجمہ:”اے اللہ! بے شک ہم تجھے ان(دشمنوں) کے مقابلے میں لاتے ہیں اور ان (دشمنوں) کے شرور سے تیری پناہ مانگے ہیں۔“
میں یہ پڑھتا تھا۔
(آپ بیتی ؍ شیخ الحدیث مولانا زکریا: ۱ ؍ ۵۴۰)
مدینۃ الاولیاء احمدآباد میں ایک مردِ مجاہد تھا۔ نام اُس کا موسیٰ پٹیل، قوم کا بڑا خادِم، شہر میں جب کبھی فسادات ہوتے، بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاریاں عمل میں آتیں، اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے تب ایسے حالات میں گرفتار شدہ مسلم نو جوانوں کے اپنے گھر والے بھی ان کی خیر خبر لینے سے گھبراتے تھے۔ اور وہ مردِ مجاہد موسیٰ صاحب پٹیل یکا و تنہا اپنے اسکوٹر پر غیر مسلموں کے فسادزدہ علاقوں سے بھی بے خوف و خطر گزرجاتا اور گرفتار شدہ مسلم نو جوانوں کی خبر لیتا، انہیں کھانا پہنچاتا، کپڑے پہنچاتا، دوائیاں پہنچاتا، ان کی ضمانت کا انتظام کرواتا۔ لوگوں نے بارہا اس سے دریافت بھی کیا آپ کو فسادیوں کا ڈر نہیں لگتا۔ وہ اکثر ہنس کر بات ٹال جاتا۔ ایک بار کسی سبب سے پولیس نے خود اسے گرفتار کرلیا، بس کیا تھا اس کی گرفتاری کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور باوجود کرفیو کے سارے شہر کی عورتیں پولیس اسٹیشن پر اس کی رہائی کے لیے دھرنا دینے پہنچ گئی۔ پولیس کو ناچار چند گھنٹوں میں بلا کسی کارروائی کے اسےرہا کرنا پڑا۔ اس کے انتقال کے بعد تحقیق کرنے پر کسی قریبی نے یہ عقدہ حل کیا اور بتایا کہ وہ
«اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَجْعَلُکَ فِيْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ ۔» 
کا عامل تھا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔


اسلام اور بزدلی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، صبرو استقلال کے ساتھ مصائب کا مقابلہ کرو، کبھی فساد کی ابتداء مت کرو، اگر فسادی خود تم پر چڑھ آئیں تو ان کو سمجھاؤ، لیکن اگر وہ نہ مانیں اور کسی طرح باز نہ آئیں تو پھر تم معذور ہو، بہادری کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرو اور اس طرح مقابلہ کرو کہ فسادیوں کو چھٹی کا دودھ یاد آجائے، تمہاری تعداد خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو، مگر قدم پیچھے نہ ہٹاؤ اور اپنی غیرت و حرمت کی حفاظت کرتے ہوئے جان دے دو، یہ عزت اور شہادت کی موت ہوگی ـ
اس ملک کو تم نے خون سے سینچا ہے آئندہ بھی اپنے خون سے سینچنے کا عزم رکھو، یہی ملک سے حقیقی وفاداری ہے، اس ملک پر تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسرے باشندے کا.
وفاداری کے اظہار کا جو ڈھنگ تم نے اختیار کر رکھا ہے وہ نہ مفید ہے اور نہ ضروری، آج ملک کے ساتھ وفاداری یہ ہے کہ ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ فرقہ پرستی کے جراثیم کا خاتمہ کردو، وفاداری کے پرانے طور و طریقے اب بدل چکے ہیں، اب افسرانِ حکومت یا حکومت کے ساتھ وفاداری کے کوئی معنی نہیں، جب تک اس ملک میں جمہوریت کا نام و نشان باقی ہے حکومت ہم خود ہیں ـ
مآثرِ شیخ الاسلام
-----------------------
دشمن سے نجات کا عمل کیا ہے؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
سورہٴ قریش، نیز یہ دعا کثرت سے پڑھیں، ان شاء اللہ دشمن سے حفاظت رہے گی ”اللَّہُمَّ إِنَّا نَجْعَلُکَ فِی نُحُورِہِمْ، وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شُرُورِہِمْ“ (دیکھیں، ص: ۳۲۷، ۲۶۱، ط: خزینہٴ علم وادب، لاہور)
------------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/07/blog-post_8.html


No comments:

Post a Comment