Saturday, 27 July 2019

احتساب

احتساب:-
احتساب کا لغوی معنی:
احتساب (ح․ س․ ب) سے ماخوذ ہے جس کا معنی شمار کرنا اور گننا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے: حسبت الشی احسبہ اذا اعددتہ۔​
اصطلاحی معنی:
امام ماوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”أن ینصح الانسان فی شاکلة‘وضاھاہ وان کان مذموماً استدرکہ ان امکن وانتھی عن مثلہ فی المستقبل“۔
ترجمہ: انسان دن کے اجالے میں اور رات کے اندھیرے میں اس سے صادر ہونے والے اعمال کا جائزہ لے۔ اگر وہ اعمال اچھے ہوں تو انہیں جاری رکھے اور ان جیسے اعمال مزید کرے، اگر اعمال برے ہو ں تو ان کی جانچ پڑتال کرے اور ان سے اور ان جیسے دیگر اعمال و افعال سے رک جائے اور آئندہ کبھی نہ کرے۔ (ادب الدنیا والدین: ص342)
نفس کا معنی یہ ہے کہ وہ روح ، جسم اور خون کا ایک ایسا لطیف مادہ ہے جو کہ ان تینوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے اگر کوئی ایک بھی باقی نہ رہیں تو کسی کی حیات و زندگی باقی نہ رہے گی۔
نفس کی تین قسمیں ہیں:
(1) نفس امّارہ: جو انسان کو شہوات و ملذات کی طرف راغب کرتا ہے اور دل کو پستی اور برے اخلاق و عادات کی طرف کھینچتا ہے۔
(2) نفس لوامہ: وہ نفس ہے کہ جب بتقاضائے بشریت انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر ندامت کے آنسو بہاتا ہے۔
(3) نفس مطمئنہ: وہ نفس ہے جو گندی عادات و صفات سے پاک و صاف ہوتا ہے اور عمدہ اخلاق و کردار سے متصف ہوتا ہے۔
واضح ہو کہ آخرت کی کامیابی کے حصول کے لیے نفس کو تمام گناہوں سے پاک و صاف کرنا ضروری ہے اس کے بغیر جنت کا حصول نا ممکن ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (سورة الشمس 7 تا 10)ترجمہ : ”قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی ۔ پھر سمجھ دی اس کو برائی اور بچ کر نکلنے کی۔ جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملادیا وہ ناکام ہوا“۔
نبی اللہﷺ اپنے نفس کے لیے دعائیں مانگتے رہتے تھے آپﷺ کی یہ دُعا منقول ہے: ”اللھم آتِ نفسی ھواھا انت خیر من زکاہا انت ولیھا ومولاھا“ اے اللہ میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کردے اس لیے کہ تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے بلاشبہ تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے۔( ٍصخيح مسلم )

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو قیامت کے دن کے احتساب سے بار بار ڈرایا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(الحشر19 - 18 )ترجمہ: ” اے ایمان والو !اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل( قیامت) کے واسطے اس نے اعمال کا (کیا) ذخیرہ بھیجا ہے۔ اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنھوں نے اللہ کے (احکامات) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انھیں اپنی جانوں سے غافل کردیا ۔ اور ایسے ہی لوگ نافرمان( فاسق) ہوتے ہیں۔

علامہ ابن القیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: یدل علی محاسبة النفس قولہ تعالی﴿یا ایھا الذین آمنوا…الخ﴾ فیقول سبحانہ وتعالی لینظر احدکم ماقدم لیوم القیامة من الأعمال: ام من الصالحات التی تنجیہ ام من السےئات التی توبقہ۔( اغاثة اللفھان لابن القیم: ج۱/۱۵۱)
یہ آیت محاسبہ نفس کے وجود پر دلالت کرتی ہے لہٰذا ہر شخص کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس نے روز قیامت کے لیے کون سے اعمال بھیجے ہیں۔ کیا نیک اعمال جو اسے دوزخ سے نجات دیں گے یا برے اعمال جو اسے تباہ و برباد کردیں گے۔

بروز قیامت انسان کے سارے اعمال اس کے سامنے پیش کردےئے جائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ اب تم اپنا حساب دیکھ لو اور خود ہی بتاو کہ تم کس قابل ہو جنت یا جہنم کے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (بنی اسرائیل14 - 13) ترجمہ : ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہٴ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے (اوپر) کھلا ہوا پائے گا، لے خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے آج تو تو خود ہی حساب لینے کو کافی ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا محاسبہٴ نفس:
حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ہوئی تو انھوں نے فرمایاحنظلہ کیسے ہو؟ میں نے کہا :حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔ ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم نبی اکرمﷺ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و جہنم کی یا د دلاتے ہیں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ گویا ہم اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور بیوی بچوں اور جائداد وغیرہ میں مشغول ہوجاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم اس جیسی کیفیت ہماری بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ میں اور ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) چل پڑے اورآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ حنظلہ منافق ہوگیا ہے آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ جنت و جہنم کی یاد دلاتے ہو تو کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ گویا ہم انھیں دیکھ رہے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے جدا ہوجاتے ہیں اور معاشی امور میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ہمیشہ اس حال پر رہ جاوٴ جس حال میں میرے پاس اور ذکر میں ہوتے تو فرشتے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ ایک گھڑی دوسری گھڑی سے مختلف ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 2750)
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک باغ میں گئے۔ جب وہ ذرا مجھ سے دور ہوگئے اور میرے اور ان کے درمیان دیوار حائل ہوگئی تو اپنے نفس کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ عمر بن خطاب(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تو اپنے آپ کو امیرالمومنین سمجھتا ہے۔ اللہ کی قسم یا تو تو اللہ سے ڈرنے والا بن جا یا پھر عذاب بھگتنے کے لیے تیار ہوجا۔ (محاسبة النفس لا بن ابی الدنیا ص 23 )

مشہور صحابی رسولﷺ عمروبن العاص کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ اپنے چہرے کو دیوار کی طرف کرکے خوب روئے۔ اس حالت میں ان کے فرزند ان سے کہنے لگے کہ ابا جان کیا رسول اللہﷺ نے آپ کو فلاں فلاں خوشخبریاں نہیں دیں ہیں انھوں نے ان کی طرف منھ پھیر کر کہا کہ تمام اعمال میں سب سے افضل ترین عمل شہادتین کا اقرار ہے۔ میری زندگی تین مختلف ادوارپر مشتمل ہے ایک دور وہ تھا کہ نبی اکرمﷺ سے دشمنی رکھنے والا مجھ سے زیادہ کوئی اور نہ تھا۔ اس دور میں اگر میں آپ پر قابو پالیتا اور معاذاللہ آپ کو قتل کر دیتا اور اگر اسی حالت میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔دوسرا دور جب اللہ نے میرے دل میں ایمان ڈال دی میں آپﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ(ﷺ) اپنا داہنا ہاتھ لاےئے تاکہ میں اسلام پر بیعت کروں، آپﷺ نے داہنا ہاتھ پھیلایا، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپﷺ نے فرمایا عمرو یہ کیا معاملہ ہے ؟میں نے عرض کیا: کہ میرے کچھ شرائط ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا :وہ شرائط کیا ہیں؟میں نے کہا :کہ میرے سابقہ گناہ معاف کر دےئے جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: کہ تمھیں نہیں معلوم کہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح ہجرت ماقبل ہجرت کے سارے گناہ ختم کردیتی ہے اور حج بھی پہلے ہونے والے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ اس دو ر میں رسول اللہﷺ سے زیادہ محبوب میرے دل میں اور کوئی شخصیت نہ تھی اور میں بطور تعظیم رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھ بھی نہیں سکاہوں۔ اگر کوئی مجھ سے آپﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کی فرمائش کرے تو میں بیان نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھا بھی نہیں۔ اگر اس دور میں میری وفات ہوتی تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔
تیسرا وہ دور آیا کہ ہم سے کئی کام ایسے ہوئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس میں میرا کیا حال ہوگا۔ جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ وماتم کرنے والی نہ آئے اور مجھے دفن کردو تو آہستہ آہستہ مجھ پر مٹی ڈالو، میرے قبر پر اتنی دیر تک(میرے لیے دُعا و استغفار میں) کھڑے رہو جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جا تا ہے تاکہ میں (تمہاری دعا و استغفار سے)انس حاصل کروں اور دیکھوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( مسلم /حدیث نمبر121)

پہلے اپنا محاسبہ:
ایک مسلمان کے لیے کہ وہ اپنے نفس کا بذات خود محاسبہ کرے اور اس بات کا اندازہ لگائے کہ قیامت کے دن کے لیے کون سا توشہ روانہ کیا ہے۔
چنانچہ میمون بن مھران رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”لایکون الرجل لقیتا حتی یکون لنفسہ اشد محاسبة من الشریک لشریکہ“(اغاثة اللفھان:95)
کوئی شخص اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ اس سے زیادہ نہ کرے جیسا کہ ایک شریک اپنے دوسرے شریک اور پارٹنر سے کرتا ہے۔ حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ”لاتلقی المومن الا یعاتب نفسہ“ موٴمن تمہیں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہوا ہی ملے گا(اغاثة اللفھان:96)
افسوس کہ آج ایسے افراد کی بہت کمی ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی جنھیں تلاش رہتی ہے کہ کوئی ان کی کوتاہیوں کی خبر دے۔ عوام سے لے کر اہل علم تک سب دوسروں کے عیوب کی تلاش میں سرگرداں ہیں ان کو اپنے اندر جھانکنے کی فرصت ہی نہیں۔ احتساب و محاسبہ تودرکنار اب ہر جگہ تملق و چاپلوسی کا دور دورہ ہے۔ جو جتنا بڑا چاپلوس ہے اس کی اتنی ہی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ اور دربار میں اعلیٰ مقام ملتا ہے۔ تملق و چاپلوسی ایک بیماری کا روپ اختیار کرچکی ہے۔
کمینہ صفت انسانوں نے اسے عروج و بلندی پانے کا ایک آسان ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ سچ ہے #
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دنیا میں جسے دیکھو خوشامد کا ہے بندہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو محاسبہ نفس کی توفیق عطا فرمائیں( آمین )
مولانا محمد ساجد رشیدی

No comments:

Post a Comment