دوسری شادی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال اللہ تعالی: فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ وثلٰث وربٰع (القرآن)
(پس تم نکاح کرو ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں دو دو، تین تین اور چار چا ر)
17 فروری بروز جمعرات لاہور میں جامعہ منظور الاسلامیہ کے استاذ حدیث اورحضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب زید مجدھم کے خلیفہ مجاز صوفی محمد اکرم صاحب زید لطفہ کے ہاں مقیم تھا کہ صبح ناشتے کے موقع پر دوسری شادی کے موضوع پر بات چھڑ گئی۔ اس مجلس میں مولانا محمد اکرم صاحب کے علاوہ حضرت مولانا صوفی محمد سرور مجدھم کے بڑے صاحبزادے مولانا عتیق الرحمن صاحب، سعودی عرب میں بیس سال گزار کر پاکستان آئے ہوئے قاری عطاء الرحمن صاحب اور حافظ جی (صوفی محمد اکرم صاحب کے سسر) کے علاوہ چند دوسرے ساتھی بھی موجود تھے، دوسری شادی کے موضوع پر سب سے زیادہ پر جوش اور مخلص قاری عطاء الرحمن صاحب تھے جن کے اخلاص کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے طے کر رکھا ہے کہ میں اپنی بیٹیاں صرف ان حضرات کے نکاح میں دوں گا جو دوسری شادی کرنا چاہتے ہوں گے انہیں اس بات پر حیرت تھی کہ لوگ چور اچکوں، رشوت خوروں، بے نمازوں اور گمراہوں کو اپنی بیٹیاں دے دیتے ہیں مگر انہیں نہیں دیتے جو دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔
حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ دوسری شادی گناہ صغیرہ نہیں گناہ کبیرہ شمار ہوتی ہے اس حوالے سے انہوں نے اپنا تجربہ سناتے ہوئے بتایا کہ کئی سال پہلے میں نے اپنی اہلیہ کی علالت کی وجہ سے دوسری شادی کا ارادہ کیا تو اس کے مثبت اور منفی دو نتیجے نکلے ۔مثبت نتیجہ تو یہ نکلا کہ اہلیہ بھلی چنگی ہوکر کھڑی ہوگئی کہ مجھے تو کچھ بھی نہیں اور منفی نتیجہ یہ نکلا کہ رشتہ داروں نے طعنے دے دے کر جینا دو بھر کر دیا ۔ میں جب اپنے گائوں میں گیا تو ان میں سے بعض پوری سنجیدگی سے کہتے تھے: ’’حافظ جی! اساں تے تہانوں شریف آدمی سمجھدے ساں‘‘ (ہم تو آپ کو شریف آدمی سمجھتے تھے)
شور کوٹ میں ایک مدرسے کے شیخ الحدیث جو کہ مجاز بیعت بھی ہیں انہوں نے دوسری شادی کرلی تو کئی مریدوں نے بیعت توڑدی۔ ایک مریدنی نے خط لکھا کہ پہلے میں تہجد میں آپ کے لئے دعا کیا کرتی تھی اب بد دعا کرتی ہوں ایک سلجھا ہوا اور صاحب ثروت ڈاکٹر ان کے گھر میں راشن دیا کرتا تھا، اس نے راشن بند کر دیا ۔کئی دوسرے دوستوں نے قطع تعلقی کر لی ۔
یہ ایک واقعہ نہیں اس جیسے بے شمار واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگ جہالت اور دجالی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ایک سے زائد شادی کو گناہ سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن کے نصوص ، حدیث کی تصریحات ، انبیاء کے حالات ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت، قدیم اور جدید مشاہدات و تجربات اور عقلی و نقلی دلائل سے نہ صرف تعدد ازواج کا ثبوت ملتا ہے بلکہ اس مٹی ہوئی سنت کو زندہ کرنے کے فوائد اور اس سے اعراض کے نقصانات سامنے آتے ہیں۔ مانا کہ ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں رہا مانا کہ ایسا کرنے سے لوگوں کی زبانیں کھلتی اور انگلیاں اٹھتی ہیں مانا کہ دوسری ، تیسری اور چوتھی شادی کرنے والے کو عیاش اور شہوت پرست سمجھا جاتا ہے، مگر کیا محض رسم و رواج اور طعن و تشنیع کے ڈر سے اللہ اور رسول کے حکموں کو نظر انداز کر دیا جائے گا ؟ خواہ اس کے نتیجے میں لاکھوں بیٹیاں بے نکاحی بیٹھی رہیں، بدکاری عام ہوتی رہے؟
کون نہیں جانتا کہ فطرتاً مرد تعدد پسند ہے ۔ اس کے اس فطری تقاضے کو پورا کرنے کے لیے کچھ لوگ متعہ کو جائز قرار دیتے ہیں بعض عرب ممالک میں ’’نکاح یسیر‘‘ کے جواز کی بات چل رہی ہے۔ اہل مغرب نے مردوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ ہر رات نئی عورت کے ساتھ گزار سکتے ہیں. اس میں شک نہیں کہ اکثر مرد ایک ہی بیوی کے ساتھ پوری زندگی گزاردیتے ہیں اور اس پر مطمئن رہتے ہیں مگر ہر مرد ایسا نہیں ہوتا۔ بے شمار ایسے بھی ہیں جو تعدد چاہتے ہیں شریعت انہیں اجازت بھی دیتی ہے مگر وہ پہلی بیوی یا اپنے خاندان اور معاشرے کے عام افراد کے طعنوں کے ڈر سے دوسری شادی نہیں کرتے پھر یا تو دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں یا پھر ناجائز تعلقات کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ اسلام فطری اور جائز راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے یعنی اپنے حالات کے مطابق دو دو، تین تین اور چار چار شادیاں کرلو۔
قاری عطاء الرحمن صاحب کا کہنا یہ تھا کہ اس صورت حال کی کچھ ذمہ داری علماء پر بھی عائد ہوتی ہے جن میں سے بعض تعدد کا جواز تو بیان کر دیتے ہیں مگر نہ تو خود دوسری شادی کرتے ہیں نہ دوسری کی خواہش رکھنے والوں کو رشتہ دیتے ہیں حالانکہ بسا اوقات نا تجربہ کار نوجوانوں کے مقابلے میں پختہ عمر والے زیادہ با وفا اور سنجیدہ ہوتے ہیں ۔
قاری صاحب کی درد بھری اور معقول گفتگو سے متاثر ہوکر مولانا عتیق الرحمن صاحب نے تجویز پیش کی کہ ایسی جماعت تشکیل دی جائے جو نہ صرف تعدد ازواج جیسی مٹی ہوئی سنت کو زندہ کرنے کی تحریک چلائے بلکہ شریعت کے حکم کے مطابق وراثت کی تقسیم پر بھی مسلمانوں کو آمادہ کرے اس سلسلے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس تحریک کے علمبرداروں کو سب سے پہلے خود عملی نمونہ بن کر دکھانا چاہئے ۔ چنانچہ قاری صاحب نے مجھے ترغیب دی کہ سب سے پہلے آپ دوسری شادی کریں بلکہ اسی مجلس میں اعلان کر دیں۔ رشتے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ایک اچھی شکل و صورت والی حافظہ عالمہ آپ کے لئے موجود ہے۔ آپ بس رضامندی ظاہر کر دیں مگر میں نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیے بغیر رشتہ قبول کرنے سے معذرت کرلی۔
اللہ کی قسم ! یہ بھی محض قرآن کی نسبت اور خدمت کی برکت ہے کہ ایک معذور اور صاحب اولاد انسان کو اچھے اچھے رشتوں کی پیش کش ہو رہی ہے اور وہ بھی بغیر کسی تگ و دو اور سلسلہ جنبانی کے ۔
الحمد للہ ! میں شروع ہی سے تعدد ازواج کا قائل رہا ہوں اور اس موضوع پر لکھنے والوں کی نہ صرف میں نے حوصلہ افزائی کی بلکہ ان میں سے بعض کی کتابوں پر تقریظ لکھنے کی سعادت بھی مجھے حاصل ہوئی ۔ منبر و محراب سے بھی میں نے وقتاً فوقتاً آواز اٹھائی کیونکہ میں پوری دیانت داری سے فحاشی کا راستہ روکنے اور بے نکاحی خواتین کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور اپنوں اور غیروں کے طعنے سننے سے بچانے کے لیے ہر اس شخص کے لیے ایک سے زائد شادیاں مناسب سمجھتا ہوں۔
٭ جس کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔
٭ وہ سب کے حقوق ادا کرسکتا ہو۔
٭ عدل کرسکتا ہو۔
٭ کثرت اولاد کے ذریعے امت میں اضافہ کرنا چاہتا ہو اور جس کا خیال یہ ہو کہ تعدد کی وجہ سے میرے گھر کا سکون تباہ نہیں ہوگا اور گھر کے سکون کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلی بیوی کی ذہن سازی کی جائے ، اسے یقین دلایا جائے کہ اس کی حق تلفی نہیں ہوگی اور اس کی تھوڑی سی قربانی سے ایک بے نکاحی کا گھر بس جائے گا۔ جب ہم قربانی کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کی نظر صرف اس قربانی کی طرف جاتی ہے جو پہلی بیوی دیتی ہے یا جو دوسری بیوی بننا قبول کرتی ہے حالانکہ قربانی صرف عورت کی نہیں ہوتی مرد کی بھی ہوتی ہے وہ مرد قابل تعریف ہے جو حلال روزی کما کر دو گھروں کو آباد کرتا ہے اور کسی ایک کے ساتھ بھی ظلم اور زیادتی کا ارتکاب نہیں کرتا ۔ عام طور پر اسے مرد کی عیاشی سے تعبیر کر دیا جاتا ہے حالانکہ عیاشی تو تب ہوتی جب وہ نکاح کے بغیر ادھر ادھر منہ مارتا اور اپنے اوپر کوئی ذمہ داری نہ لیتا ۔
نکاح کی صورت میں بیوی اور پھر اس سے پیدا ہونے والے بچوں کی تربیت اور پرورش کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے والے کو ہم کیسے عیاش کہہ سکتے ہیں؟ اور اگر عیاشی کا طعنہ دیے بغیر کسی کو سکون نہیں ملتا تو ہم عرض کریں گے کہ اگر یہ عیاشی ہے تو شریعت کے دائرے میں ہے اور اس کی اجازت خود اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے مگر سخت اندیشہ ہے کہ کل کلاں پہلی شادی کو بھی عیاشی یا کچھ اور قرار دے کر قابل نفرت عمل نہ بنا دیا جائے ۔ دجالیت کے علمبرداروں کی یہی کوشش ہے کہ وہ نکاح جیسا مبارک عمل ختم کرکے حرام کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں ۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل تر بنا دیں ۔
تعدد ازواج بھی اس سلسلے میں اہم کر دار ادا کر سکتا ہے نہ صرف یہ کہ مردوں میں ’کثیر الازواجی‘ عرف کو فروغ دیا جائے بلکہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ کوئی بھی خاتون خواہ وہ کنواری ہو یا مطلقہ اور بیوہ، بغیر شوہر کے نہ رہے، شرط یہ ہے کہ وہ نکاح کرنا چاہتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں اگر اپنے بچوں کا مستقبل بنانے اور سر چھپانے کا ٹھکانہ حاصل کرنے کے لیے مطلقہ اور بیوہ کو اپنے بعض حقوق سے دستبردار بھی ہونا پڑے تو ہوجانا چاہئے ورنہ ممکن ہے اسے زندگی بھر اپنوں اور غیروں کے طعنے سننا پڑیں اور زکوۃ خیرات پر گزر بسر کرنی پڑے کیونکہ عوام کے ذہنوں میں یہ بات تقریباً راسخ ہو چکی ہے کہ جو بیوہ ہوتی ہے وہ زکوۃ کی مستحق ہوتی ہے ۔
میں نے جب کبھی تعدد ازواج کی حمایت میں آواز اٹھائی مجھے اس اعتراض کا سامنا کرنا پڑا کہ جب یہ اتنا اچھا بلکہ آج کے حالات میں اہم عمل ہے تو آپ خود اس کی ہمت کیوں نہیں کرتے؟ اس اعتراض کے جواب میں ہمیشہ یہ عرض کرتا ہوں کہ الحمد للہ! میری ازدواجی زندگی بہت اچھی گزررہی ہے اور میں دوسری بیوی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور یہ ہے بھی حقیقت۔ اللہ تعالی نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے جو بیوی عطا کی ہے وہ وفا دار اور حیا، صورت اور سیرت میں ممتاز ترین ہے ۔ اگر میں اسے لاکھوں میں ایک کہوں تو بالکل غلط نہیں ہوگا۔ ہمارے درمیان مثالی محبت ہے مگر گزشتہ چند سالوں سے اسے کبھی کبھی سر اور جوڑوں میں ایسا شدید درد اٹھتا ہے کہ چلنا پھرنامحال ہو جاتا ہے کئی کئی راتیں نیند نہیں آتی اور بھوک بھی ختم ہو جاتی ہے اس وجہ سے ہمارے درمیان کئی بار دوسری شادی کے حوالے سے بات ہوئی تاکہ آنے والی ہم دونوں کی مشترکہ خدمت کرے ۔
لاہور سے واپس آنے کے بعد میں نے ’’مسجد توابین‘‘ میں مذکورہ موضوع پر چند بیانات کئے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اگرچہ دوسری شادی فرض اور واجب کا درجہ نہیں رکھتی مگر ہ مارے ہاں جس طرح دو تین یا چار شادیاں کرنے والے کو اچھوت بنا دیا جاتا ہے اور اسے گندی نظروں سے دیکھا جاتا ہے یہ بھی ہرگز مناسب نہیں ہے۔ میں نے خواتین کو بھی سمجھایا کہ وہ اپنے شوہروں کو بخوشی دوسری شادی کی اجازت دیں اور مردوںسے بھی گزارش کی کہ وہ اسے نہ تو عار سمجھیں اور نہ ہی گناہ۔ البتہ اقدام سے پہلے اپنے اہل و عیال کی ذہن سازی ضروری کرلیں، کیونکہ اخلاقی طور پر پہلی بیوی کے جذبات نظر انداز کردینا ہرگز مناسب نہیں، خصوصاً ایسی خاتون جس نے زندگی کے مشکل دنوں میں ساتھ دیا ہو، اور ایسے انسان کو تو میں انتہائی گھٹیا سمجھتا ہوں جو گھر میں دوسری بیوی آنے کے بعد پہلی بیوی کے حقوق پامال کرے یا اسے تذلیل و تحقیر کا نشانہ بنائے ۔ جو جوشیلے دوست پہلی بیوی کی ذہن سازی کیے بغیر سوکن گھر میں لا بٹھاتے ہیں ان میں سے اکثر بعد میں پریشان ہوتے ہیں۔ ایسی خواتین انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں جو سوکن کو بخوشی قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں ہمارے ہاں سوکن کا لفظ دشمنی، نفرت، زیادتی اور حسد کا استعارہ بن چکا ہے ۔
آج کے نفرت زدہ ماحول میں شاید کسی کو یقین نہ آئے مگر حقیقت یہی ہے کہ میرے بیان سے سب سے پہلے میری اہلیہ ہی متاثر ہوئیں اور انہوں نے نہ صرف مجھے دوسری شادی کی اجازت دے دی بلکہ میرے لیے رشتے کا انتخاب بھی از خود کیا۔ دوسرا بظاہر ناقابل یقین واقعہ یہ پیش آیا کہ جس لڑکی کو میری اہلیہ نے پسند کیا خود اسے اور اس کے سگے بھائی کو ایسے خواب دکھائی دیے جو میرے ساتھ رشتے کے حق میں تھے اور انہوں نے خود ہی رشتے کی پیش کش کر دی ۔ خوب استخارہ کے بعد میں نے نکاح ثانی کا ارادہ کر لیا ہے ، جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ہمارے ہاں اسے سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے کو گالیاں تک دی جاتی ہیں، اس لئے میں نے اس تحریر کے ذریعے سارے معاملے کی وضاحت ضروری سمجھی ہے ۔ امید ہے میرا اور میری اہلیہ کا یہ عمل بہت سوں کے لیے قابل تقلید مثال ثابت ہوگا۔ جہاں تک ہمارے رشتہ داروں، محبت کرنے والے خواتین و حضرات اور ناقدین کا تعلق ہے ، میں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے زیر نظر مسئلہ کی تائید میں چند ٹھوس دلائل پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ یہ دلائل چند نکات کی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس موضوع پر سیر حاصل مطالعہ کے لئے آخرمیں چند کتابوں کے نام دیے جائیں گے وہ بھی دیکھ لی جائیں۔
٭ سورہ نساء میں ہے:
’’پس نکاح کرو ان عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں، دودو سے اور تین تین سے اور چار چار سے، پس اگر تمہیں خوف ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی سے کرو۔ یا پھر ان باندیوں پر اکتفا کرو جن کے تم مالک ہو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے گنتی کو ایک سے نہیں بلکہ دودو، تین تین اور چار چار شادیوں سے شروع کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل حکم ایک سے زیادہ نکاح کرنے کا ہے ، البتہ اگر کوئی عدل نہ کرسکتا ہو تو وہ ایک پر ہی اکتفا کرے۔
(روح المعانی 194/4)
٭ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’نکاح کرو اس لئے کہ اس امت میں بہتر وہ ہے جس کی بیویاں زیادہ ہیں۔
(بخاری ، 4782)
انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی ازدواجی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو تاریخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تین، حضرت یعقوب علیہ السلام کی چار، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چار، حضرت دائود علیہ السلام کی نو اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیویوں اور تین سو حرموں کا ذکر ملتا ہے۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گیارہ بیویاں تھیں۔
خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت بھی تعدد کی تائید کرتی ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے چار، حضرت عمر فاروق نے آٹھ نکاح کئے.
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں بسا اوقات کسی عورت سے نکاح کرتا ہوں حالانکہ مجھے نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی اور زوجہ سے ہم بستری کرتا ہوں حالانکہ مجھے جماع کی خواہش نہیں ہوتی، کیونکہ میں یہ بات پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالی میرے ذریعے اتنی اولاد پیدا کرے جس کی کثرت کی وجہ سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے پیغمبروں پر فخر کرسکیں ۔‘‘
(تفسیر قرطبی 328/9)
٭ دوسری شادی زندگی کے کسی بھی دور میں کی جا سکتی ہے ہمارے ہاں صورت یہ ہے کہ کوئی بڑی عمر میں دوسری شادی کرے تو کہا جاتا ہے کتنی بے شرمی ہے کہ بچوں کی شادی کی بجائے اپنی شادی کی جا رہی ہے ۔ اگر کوئی جوانی میں کرے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر زمانہ قریب کے بزرگان دین تک عمر کے کسی بھی حصہ میں شادی کرتے رہے ہیں۔ محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ نے غالباً 75 سال کی عمر میں نوجوان خاتون سے شادی کی تھی ۔ فقیہ العصر مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ کے والد نے سو سال کی عمر میں شادی کی اور اس سے بچے بھی پیدا ہوئے ۔ حضرت مولانا فضل رحمن رحمہ اللہ کی عمر سو سال سے بھی زائد تھی جب انہوں نے دوسری شادی کی تھی۔
٭ یہ ضروری نہیں کہ دوسری شا دی صرف اس صورت میں کی جاسکتی ہے جب پہلی بیوی سے تعلقات خراب ہوجائیں یا وہ بدصورت، لاولد یا بیمار ہو۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کی صورت و سیرت اور ذکاوت و ذہانت بھی مثالی تھی ۔ اس کے باوجود آپ نے ان سے نکاح کے بعد سات مزید عورتوں سے نکاح فرمایا۔
٭ یہ بھی ضروری نہیں کہ دوسری شادی مطلقہ یا بیوہ ہی سے کی جائے اس لئے کہ ہمارے سینے میں دل اور دل میں جذبات رکھنے والے اللہ نے ’’ما طاب لکم‘‘ فرما کر اپنی پسندیدہ عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے ۔ باوجودیکہ خود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کے سوا مطلقہ اور بیوہ عورتوں سے نکاح فرمائے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کنواری اور جوان عورتوں سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا۔
٭ اس حقیقت سے تو خیر کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام نے نہ صرف تعدد کی اجازت دی ہے بلکہ اس میں بہت سارے منافع بھی پوشیدہ ہیں البتہ اکثر خواتین کو یہ اندیشہ پریشان کرتا ہے کہ گھر میں دوسری اور نئی نویلی بیوی آجانے کی صورت میں مجھے نظر انداز کردیا جائے گا اور یہ اندیشہ اتنا بے بنیاد بھی نہیں ہوتا کیونکہ بعض شوہر واقعتاً ایسا ہی کرتے ہیں وہ پہلی بیوی کو نظر انداز ہی نہیں کرتے بسا اوقات دوسری کی خوش رکھنے کے لئے پہلی پر ہاتھ بھی چلانے لگتے ہیں بالخصوص وہ شوہر جو کسی بے حجاب اور بے حیا عورت کے محض حسن سے متاثر ہوکر اسے اپنے عقد میں لے آتے ہیں ان کی طرف سے ایسے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں بلکہ ایسی عورتیں خود انہیں ظلم اور زیادتی پر اکساتی ہیں۔ ایسے ظالم شوہروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے تعدد کی اجازت صرف انہیں دی ہے جو عدل کر سکتے ہوں ۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ عدل کا معاملہ نہ کیا تو قیامت کے دن وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ مفلوج ہوگا۔‘‘ (ترمذی، مشکوۃ) دوسری شادی کی ترغیب کا مقصد صرف یہ نہیں کہ شریعت کے مطابق حقوق ادا کرنے کی سکت رکھنے والے حضرات اس مٹتی ہوئی سنت کو زندہ کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں بلکہ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ جن کی بیٹیاں اور بہنیں بے نکاحی گھر میں بیٹھی ہوئی ہیں وہ ایسے شریف اور سنجیدہ مردوں کو رشتہ دینے کے لئے تیار ہوجائیں جو دوسری شادی کرنا چاہتے ہوں۔
٭ یہ بات خاص طور پر ملحوظ رکھنی چاہئے کہ عقلی اور نقلی دلائل کی کثرت کے باوجود چونکہ ہمارے ہاں دوسری شادی کا ماحول نہیں ہے ، اس لئے اس وادی پر خار میں سوچ سمجھ کر قدم رکھنا چاہئے ۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ جب تک پہلی بیوی اور بچوں (بالخصوص جبکہ بڑے ہوں) کی ذہن سازی نہ کرلی جائے ، تب تک دوسری شادی نہیں کرنی چاہیے ، ورنہ ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ گھر کا امن اور سکون تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ ٭ آخر میں اس موضوع پر لکھی گئی چند کتابوں کے نام دیے جا رہے ہیں، امید ہے کہ ان کے مطالعہ سے بہت سارے اشکالات رفع ہو جائیں گے اور اطمینانِ مزید نصیب ہوگا۔
-1 ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟ تالیف مولانا طارق مسعود صاحب۔ (اس کتاب پر بندہ نے بھی تقریظ لکھی ہے۔)
-2 اسلامی نظریہ تعدد ازواج: تالیف محمد سلیم الدین آغا رحمہ اللہ (اس کتاب پر مفتی ابو لبابہ شاہ منصور زید مجدہم کی تصدیق ثبت ہے اس کتاب کے مولف کتاب شائع ہونے سے قبل محض 28 سال کی عمر میں انتقال فرماگئے)
-3 فضل تعدد زوجات (شیخ خالد الجریس، ریاض)
-3 فضل تعدد زوجات (شیخ خالد الجریس، ریاض)
-4 عائلی قوانین شریعت کی روشنی میں۔
-5 اسلامی شادی ۔
-6 اسلام کا نظام عفت و عصمت۔ -
7 شادی سے شادیوں تک۔ (یہ دو امریکی خواتین، ام عبد الرحمن ہرش فیلڈ اور ام یاسمین رحمن کے قلم سے اپنی نوعیت کی بہترین تصنیف ہے)
-8 اسلام اور جنسیات۔
نوٹ: یہ عاجز تحریر اور تقریر کے ذریعے نوجوان اولاد کے رشتے جلد کروانے، عقد نکاح سادگی سے کرنے، رشتے میں سیرت اور دین داری کو معیار بنانے، ہندوانہ اور ظالمانہ رسموں سے بچنے، بوقت ضرورت دوسری شادی کو گناہ نہ سمجھنے کی ترغیب تو دے سکتا ہے مگر بہت سارے اعذار اور مصروفیات کی بنا پر رشتے نہیں کرواسکتا۔ لہذا نکاح اول یا ثانی کی خواہش رکھنے والے حضرات و خواتین یا والدین اس مقصد کے لئے اس کی طرف ہرگز رجوع نہ کریں۔
تحریر: داعی قرآن مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہید
قال اللہ تعالی: فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ وثلٰث وربٰع (القرآن)
(پس تم نکاح کرو ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں دو دو، تین تین اور چار چا ر)
17 فروری بروز جمعرات لاہور میں جامعہ منظور الاسلامیہ کے استاذ حدیث اورحضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب زید مجدھم کے خلیفہ مجاز صوفی محمد اکرم صاحب زید لطفہ کے ہاں مقیم تھا کہ صبح ناشتے کے موقع پر دوسری شادی کے موضوع پر بات چھڑ گئی۔ اس مجلس میں مولانا محمد اکرم صاحب کے علاوہ حضرت مولانا صوفی محمد سرور مجدھم کے بڑے صاحبزادے مولانا عتیق الرحمن صاحب، سعودی عرب میں بیس سال گزار کر پاکستان آئے ہوئے قاری عطاء الرحمن صاحب اور حافظ جی (صوفی محمد اکرم صاحب کے سسر) کے علاوہ چند دوسرے ساتھی بھی موجود تھے، دوسری شادی کے موضوع پر سب سے زیادہ پر جوش اور مخلص قاری عطاء الرحمن صاحب تھے جن کے اخلاص کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے طے کر رکھا ہے کہ میں اپنی بیٹیاں صرف ان حضرات کے نکاح میں دوں گا جو دوسری شادی کرنا چاہتے ہوں گے انہیں اس بات پر حیرت تھی کہ لوگ چور اچکوں، رشوت خوروں، بے نمازوں اور گمراہوں کو اپنی بیٹیاں دے دیتے ہیں مگر انہیں نہیں دیتے جو دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔
حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ دوسری شادی گناہ صغیرہ نہیں گناہ کبیرہ شمار ہوتی ہے اس حوالے سے انہوں نے اپنا تجربہ سناتے ہوئے بتایا کہ کئی سال پہلے میں نے اپنی اہلیہ کی علالت کی وجہ سے دوسری شادی کا ارادہ کیا تو اس کے مثبت اور منفی دو نتیجے نکلے ۔مثبت نتیجہ تو یہ نکلا کہ اہلیہ بھلی چنگی ہوکر کھڑی ہوگئی کہ مجھے تو کچھ بھی نہیں اور منفی نتیجہ یہ نکلا کہ رشتہ داروں نے طعنے دے دے کر جینا دو بھر کر دیا ۔ میں جب اپنے گائوں میں گیا تو ان میں سے بعض پوری سنجیدگی سے کہتے تھے: ’’حافظ جی! اساں تے تہانوں شریف آدمی سمجھدے ساں‘‘ (ہم تو آپ کو شریف آدمی سمجھتے تھے)
شور کوٹ میں ایک مدرسے کے شیخ الحدیث جو کہ مجاز بیعت بھی ہیں انہوں نے دوسری شادی کرلی تو کئی مریدوں نے بیعت توڑدی۔ ایک مریدنی نے خط لکھا کہ پہلے میں تہجد میں آپ کے لئے دعا کیا کرتی تھی اب بد دعا کرتی ہوں ایک سلجھا ہوا اور صاحب ثروت ڈاکٹر ان کے گھر میں راشن دیا کرتا تھا، اس نے راشن بند کر دیا ۔کئی دوسرے دوستوں نے قطع تعلقی کر لی ۔
یہ ایک واقعہ نہیں اس جیسے بے شمار واقعات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگ جہالت اور دجالی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر ایک سے زائد شادی کو گناہ سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن کے نصوص ، حدیث کی تصریحات ، انبیاء کے حالات ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت، قدیم اور جدید مشاہدات و تجربات اور عقلی و نقلی دلائل سے نہ صرف تعدد ازواج کا ثبوت ملتا ہے بلکہ اس مٹی ہوئی سنت کو زندہ کرنے کے فوائد اور اس سے اعراض کے نقصانات سامنے آتے ہیں۔ مانا کہ ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں رہا مانا کہ ایسا کرنے سے لوگوں کی زبانیں کھلتی اور انگلیاں اٹھتی ہیں مانا کہ دوسری ، تیسری اور چوتھی شادی کرنے والے کو عیاش اور شہوت پرست سمجھا جاتا ہے، مگر کیا محض رسم و رواج اور طعن و تشنیع کے ڈر سے اللہ اور رسول کے حکموں کو نظر انداز کر دیا جائے گا ؟ خواہ اس کے نتیجے میں لاکھوں بیٹیاں بے نکاحی بیٹھی رہیں، بدکاری عام ہوتی رہے؟
کون نہیں جانتا کہ فطرتاً مرد تعدد پسند ہے ۔ اس کے اس فطری تقاضے کو پورا کرنے کے لیے کچھ لوگ متعہ کو جائز قرار دیتے ہیں بعض عرب ممالک میں ’’نکاح یسیر‘‘ کے جواز کی بات چل رہی ہے۔ اہل مغرب نے مردوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ ہر رات نئی عورت کے ساتھ گزار سکتے ہیں. اس میں شک نہیں کہ اکثر مرد ایک ہی بیوی کے ساتھ پوری زندگی گزاردیتے ہیں اور اس پر مطمئن رہتے ہیں مگر ہر مرد ایسا نہیں ہوتا۔ بے شمار ایسے بھی ہیں جو تعدد چاہتے ہیں شریعت انہیں اجازت بھی دیتی ہے مگر وہ پہلی بیوی یا اپنے خاندان اور معاشرے کے عام افراد کے طعنوں کے ڈر سے دوسری شادی نہیں کرتے پھر یا تو دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں یا پھر ناجائز تعلقات کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ اسلام فطری اور جائز راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے یعنی اپنے حالات کے مطابق دو دو، تین تین اور چار چار شادیاں کرلو۔
قاری عطاء الرحمن صاحب کا کہنا یہ تھا کہ اس صورت حال کی کچھ ذمہ داری علماء پر بھی عائد ہوتی ہے جن میں سے بعض تعدد کا جواز تو بیان کر دیتے ہیں مگر نہ تو خود دوسری شادی کرتے ہیں نہ دوسری کی خواہش رکھنے والوں کو رشتہ دیتے ہیں حالانکہ بسا اوقات نا تجربہ کار نوجوانوں کے مقابلے میں پختہ عمر والے زیادہ با وفا اور سنجیدہ ہوتے ہیں ۔
قاری صاحب کی درد بھری اور معقول گفتگو سے متاثر ہوکر مولانا عتیق الرحمن صاحب نے تجویز پیش کی کہ ایسی جماعت تشکیل دی جائے جو نہ صرف تعدد ازواج جیسی مٹی ہوئی سنت کو زندہ کرنے کی تحریک چلائے بلکہ شریعت کے حکم کے مطابق وراثت کی تقسیم پر بھی مسلمانوں کو آمادہ کرے اس سلسلے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس تحریک کے علمبرداروں کو سب سے پہلے خود عملی نمونہ بن کر دکھانا چاہئے ۔ چنانچہ قاری صاحب نے مجھے ترغیب دی کہ سب سے پہلے آپ دوسری شادی کریں بلکہ اسی مجلس میں اعلان کر دیں۔ رشتے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے ایک اچھی شکل و صورت والی حافظہ عالمہ آپ کے لئے موجود ہے۔ آپ بس رضامندی ظاہر کر دیں مگر میں نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیے بغیر رشتہ قبول کرنے سے معذرت کرلی۔
اللہ کی قسم ! یہ بھی محض قرآن کی نسبت اور خدمت کی برکت ہے کہ ایک معذور اور صاحب اولاد انسان کو اچھے اچھے رشتوں کی پیش کش ہو رہی ہے اور وہ بھی بغیر کسی تگ و دو اور سلسلہ جنبانی کے ۔
الحمد للہ ! میں شروع ہی سے تعدد ازواج کا قائل رہا ہوں اور اس موضوع پر لکھنے والوں کی نہ صرف میں نے حوصلہ افزائی کی بلکہ ان میں سے بعض کی کتابوں پر تقریظ لکھنے کی سعادت بھی مجھے حاصل ہوئی ۔ منبر و محراب سے بھی میں نے وقتاً فوقتاً آواز اٹھائی کیونکہ میں پوری دیانت داری سے فحاشی کا راستہ روکنے اور بے نکاحی خواتین کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور اپنوں اور غیروں کے طعنے سننے سے بچانے کے لیے ہر اس شخص کے لیے ایک سے زائد شادیاں مناسب سمجھتا ہوں۔
٭ جس کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔
٭ وہ سب کے حقوق ادا کرسکتا ہو۔
٭ عدل کرسکتا ہو۔
٭ کثرت اولاد کے ذریعے امت میں اضافہ کرنا چاہتا ہو اور جس کا خیال یہ ہو کہ تعدد کی وجہ سے میرے گھر کا سکون تباہ نہیں ہوگا اور گھر کے سکون کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلی بیوی کی ذہن سازی کی جائے ، اسے یقین دلایا جائے کہ اس کی حق تلفی نہیں ہوگی اور اس کی تھوڑی سی قربانی سے ایک بے نکاحی کا گھر بس جائے گا۔ جب ہم قربانی کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کی نظر صرف اس قربانی کی طرف جاتی ہے جو پہلی بیوی دیتی ہے یا جو دوسری بیوی بننا قبول کرتی ہے حالانکہ قربانی صرف عورت کی نہیں ہوتی مرد کی بھی ہوتی ہے وہ مرد قابل تعریف ہے جو حلال روزی کما کر دو گھروں کو آباد کرتا ہے اور کسی ایک کے ساتھ بھی ظلم اور زیادتی کا ارتکاب نہیں کرتا ۔ عام طور پر اسے مرد کی عیاشی سے تعبیر کر دیا جاتا ہے حالانکہ عیاشی تو تب ہوتی جب وہ نکاح کے بغیر ادھر ادھر منہ مارتا اور اپنے اوپر کوئی ذمہ داری نہ لیتا ۔
نکاح کی صورت میں بیوی اور پھر اس سے پیدا ہونے والے بچوں کی تربیت اور پرورش کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے والے کو ہم کیسے عیاش کہہ سکتے ہیں؟ اور اگر عیاشی کا طعنہ دیے بغیر کسی کو سکون نہیں ملتا تو ہم عرض کریں گے کہ اگر یہ عیاشی ہے تو شریعت کے دائرے میں ہے اور اس کی اجازت خود اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے مگر سخت اندیشہ ہے کہ کل کلاں پہلی شادی کو بھی عیاشی یا کچھ اور قرار دے کر قابل نفرت عمل نہ بنا دیا جائے ۔ دجالیت کے علمبرداروں کی یہی کوشش ہے کہ وہ نکاح جیسا مبارک عمل ختم کرکے حرام کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں ۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل تر بنا دیں ۔
تعدد ازواج بھی اس سلسلے میں اہم کر دار ادا کر سکتا ہے نہ صرف یہ کہ مردوں میں ’کثیر الازواجی‘ عرف کو فروغ دیا جائے بلکہ ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ کوئی بھی خاتون خواہ وہ کنواری ہو یا مطلقہ اور بیوہ، بغیر شوہر کے نہ رہے، شرط یہ ہے کہ وہ نکاح کرنا چاہتی ہو۔ میں سمجھتا ہوں اگر اپنے بچوں کا مستقبل بنانے اور سر چھپانے کا ٹھکانہ حاصل کرنے کے لیے مطلقہ اور بیوہ کو اپنے بعض حقوق سے دستبردار بھی ہونا پڑے تو ہوجانا چاہئے ورنہ ممکن ہے اسے زندگی بھر اپنوں اور غیروں کے طعنے سننا پڑیں اور زکوۃ خیرات پر گزر بسر کرنی پڑے کیونکہ عوام کے ذہنوں میں یہ بات تقریباً راسخ ہو چکی ہے کہ جو بیوہ ہوتی ہے وہ زکوۃ کی مستحق ہوتی ہے ۔
میں نے جب کبھی تعدد ازواج کی حمایت میں آواز اٹھائی مجھے اس اعتراض کا سامنا کرنا پڑا کہ جب یہ اتنا اچھا بلکہ آج کے حالات میں اہم عمل ہے تو آپ خود اس کی ہمت کیوں نہیں کرتے؟ اس اعتراض کے جواب میں ہمیشہ یہ عرض کرتا ہوں کہ الحمد للہ! میری ازدواجی زندگی بہت اچھی گزررہی ہے اور میں دوسری بیوی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور یہ ہے بھی حقیقت۔ اللہ تعالی نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے جو بیوی عطا کی ہے وہ وفا دار اور حیا، صورت اور سیرت میں ممتاز ترین ہے ۔ اگر میں اسے لاکھوں میں ایک کہوں تو بالکل غلط نہیں ہوگا۔ ہمارے درمیان مثالی محبت ہے مگر گزشتہ چند سالوں سے اسے کبھی کبھی سر اور جوڑوں میں ایسا شدید درد اٹھتا ہے کہ چلنا پھرنامحال ہو جاتا ہے کئی کئی راتیں نیند نہیں آتی اور بھوک بھی ختم ہو جاتی ہے اس وجہ سے ہمارے درمیان کئی بار دوسری شادی کے حوالے سے بات ہوئی تاکہ آنے والی ہم دونوں کی مشترکہ خدمت کرے ۔
لاہور سے واپس آنے کے بعد میں نے ’’مسجد توابین‘‘ میں مذکورہ موضوع پر چند بیانات کئے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اگرچہ دوسری شادی فرض اور واجب کا درجہ نہیں رکھتی مگر ہ مارے ہاں جس طرح دو تین یا چار شادیاں کرنے والے کو اچھوت بنا دیا جاتا ہے اور اسے گندی نظروں سے دیکھا جاتا ہے یہ بھی ہرگز مناسب نہیں ہے۔ میں نے خواتین کو بھی سمجھایا کہ وہ اپنے شوہروں کو بخوشی دوسری شادی کی اجازت دیں اور مردوںسے بھی گزارش کی کہ وہ اسے نہ تو عار سمجھیں اور نہ ہی گناہ۔ البتہ اقدام سے پہلے اپنے اہل و عیال کی ذہن سازی ضروری کرلیں، کیونکہ اخلاقی طور پر پہلی بیوی کے جذبات نظر انداز کردینا ہرگز مناسب نہیں، خصوصاً ایسی خاتون جس نے زندگی کے مشکل دنوں میں ساتھ دیا ہو، اور ایسے انسان کو تو میں انتہائی گھٹیا سمجھتا ہوں جو گھر میں دوسری بیوی آنے کے بعد پہلی بیوی کے حقوق پامال کرے یا اسے تذلیل و تحقیر کا نشانہ بنائے ۔ جو جوشیلے دوست پہلی بیوی کی ذہن سازی کیے بغیر سوکن گھر میں لا بٹھاتے ہیں ان میں سے اکثر بعد میں پریشان ہوتے ہیں۔ ایسی خواتین انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں جو سوکن کو بخوشی قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں ہمارے ہاں سوکن کا لفظ دشمنی، نفرت، زیادتی اور حسد کا استعارہ بن چکا ہے ۔
آج کے نفرت زدہ ماحول میں شاید کسی کو یقین نہ آئے مگر حقیقت یہی ہے کہ میرے بیان سے سب سے پہلے میری اہلیہ ہی متاثر ہوئیں اور انہوں نے نہ صرف مجھے دوسری شادی کی اجازت دے دی بلکہ میرے لیے رشتے کا انتخاب بھی از خود کیا۔ دوسرا بظاہر ناقابل یقین واقعہ یہ پیش آیا کہ جس لڑکی کو میری اہلیہ نے پسند کیا خود اسے اور اس کے سگے بھائی کو ایسے خواب دکھائی دیے جو میرے ساتھ رشتے کے حق میں تھے اور انہوں نے خود ہی رشتے کی پیش کش کر دی ۔ خوب استخارہ کے بعد میں نے نکاح ثانی کا ارادہ کر لیا ہے ، جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ہمارے ہاں اسے سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے کو گالیاں تک دی جاتی ہیں، اس لئے میں نے اس تحریر کے ذریعے سارے معاملے کی وضاحت ضروری سمجھی ہے ۔ امید ہے میرا اور میری اہلیہ کا یہ عمل بہت سوں کے لیے قابل تقلید مثال ثابت ہوگا۔ جہاں تک ہمارے رشتہ داروں، محبت کرنے والے خواتین و حضرات اور ناقدین کا تعلق ہے ، میں ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے زیر نظر مسئلہ کی تائید میں چند ٹھوس دلائل پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ یہ دلائل چند نکات کی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس موضوع پر سیر حاصل مطالعہ کے لئے آخرمیں چند کتابوں کے نام دیے جائیں گے وہ بھی دیکھ لی جائیں۔
٭ سورہ نساء میں ہے:
’’پس نکاح کرو ان عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں، دودو سے اور تین تین سے اور چار چار سے، پس اگر تمہیں خوف ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی سے کرو۔ یا پھر ان باندیوں پر اکتفا کرو جن کے تم مالک ہو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے گنتی کو ایک سے نہیں بلکہ دودو، تین تین اور چار چار شادیوں سے شروع کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل حکم ایک سے زیادہ نکاح کرنے کا ہے ، البتہ اگر کوئی عدل نہ کرسکتا ہو تو وہ ایک پر ہی اکتفا کرے۔
(روح المعانی 194/4)
٭ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’نکاح کرو اس لئے کہ اس امت میں بہتر وہ ہے جس کی بیویاں زیادہ ہیں۔
(بخاری ، 4782)
انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی ازدواجی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو تاریخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تین، حضرت یعقوب علیہ السلام کی چار، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چار، حضرت دائود علیہ السلام کی نو اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیویوں اور تین سو حرموں کا ذکر ملتا ہے۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گیارہ بیویاں تھیں۔
خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت بھی تعدد کی تائید کرتی ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے چار، حضرت عمر فاروق نے آٹھ نکاح کئے.
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں بسا اوقات کسی عورت سے نکاح کرتا ہوں حالانکہ مجھے نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی اور زوجہ سے ہم بستری کرتا ہوں حالانکہ مجھے جماع کی خواہش نہیں ہوتی، کیونکہ میں یہ بات پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالی میرے ذریعے اتنی اولاد پیدا کرے جس کی کثرت کی وجہ سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے پیغمبروں پر فخر کرسکیں ۔‘‘
(تفسیر قرطبی 328/9)
٭ دوسری شادی زندگی کے کسی بھی دور میں کی جا سکتی ہے ہمارے ہاں صورت یہ ہے کہ کوئی بڑی عمر میں دوسری شادی کرے تو کہا جاتا ہے کتنی بے شرمی ہے کہ بچوں کی شادی کی بجائے اپنی شادی کی جا رہی ہے ۔ اگر کوئی جوانی میں کرے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر زمانہ قریب کے بزرگان دین تک عمر کے کسی بھی حصہ میں شادی کرتے رہے ہیں۔ محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ نے غالباً 75 سال کی عمر میں نوجوان خاتون سے شادی کی تھی ۔ فقیہ العصر مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ کے والد نے سو سال کی عمر میں شادی کی اور اس سے بچے بھی پیدا ہوئے ۔ حضرت مولانا فضل رحمن رحمہ اللہ کی عمر سو سال سے بھی زائد تھی جب انہوں نے دوسری شادی کی تھی۔
٭ یہ ضروری نہیں کہ دوسری شا دی صرف اس صورت میں کی جاسکتی ہے جب پہلی بیوی سے تعلقات خراب ہوجائیں یا وہ بدصورت، لاولد یا بیمار ہو۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کی صورت و سیرت اور ذکاوت و ذہانت بھی مثالی تھی ۔ اس کے باوجود آپ نے ان سے نکاح کے بعد سات مزید عورتوں سے نکاح فرمایا۔
٭ یہ بھی ضروری نہیں کہ دوسری شادی مطلقہ یا بیوہ ہی سے کی جائے اس لئے کہ ہمارے سینے میں دل اور دل میں جذبات رکھنے والے اللہ نے ’’ما طاب لکم‘‘ فرما کر اپنی پسندیدہ عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے ۔ باوجودیکہ خود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کے سوا مطلقہ اور بیوہ عورتوں سے نکاح فرمائے مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کنواری اور جوان عورتوں سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا۔
٭ اس حقیقت سے تو خیر کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام نے نہ صرف تعدد کی اجازت دی ہے بلکہ اس میں بہت سارے منافع بھی پوشیدہ ہیں البتہ اکثر خواتین کو یہ اندیشہ پریشان کرتا ہے کہ گھر میں دوسری اور نئی نویلی بیوی آجانے کی صورت میں مجھے نظر انداز کردیا جائے گا اور یہ اندیشہ اتنا بے بنیاد بھی نہیں ہوتا کیونکہ بعض شوہر واقعتاً ایسا ہی کرتے ہیں وہ پہلی بیوی کو نظر انداز ہی نہیں کرتے بسا اوقات دوسری کی خوش رکھنے کے لئے پہلی پر ہاتھ بھی چلانے لگتے ہیں بالخصوص وہ شوہر جو کسی بے حجاب اور بے حیا عورت کے محض حسن سے متاثر ہوکر اسے اپنے عقد میں لے آتے ہیں ان کی طرف سے ایسے واقعات زیادہ پیش آتے ہیں بلکہ ایسی عورتیں خود انہیں ظلم اور زیادتی پر اکساتی ہیں۔ ایسے ظالم شوہروں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے تعدد کی اجازت صرف انہیں دی ہے جو عدل کر سکتے ہوں ۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’اگر کسی شخص کی دو بیویاں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ عدل کا معاملہ نہ کیا تو قیامت کے دن وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ مفلوج ہوگا۔‘‘ (ترمذی، مشکوۃ) دوسری شادی کی ترغیب کا مقصد صرف یہ نہیں کہ شریعت کے مطابق حقوق ادا کرنے کی سکت رکھنے والے حضرات اس مٹتی ہوئی سنت کو زندہ کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں بلکہ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ جن کی بیٹیاں اور بہنیں بے نکاحی گھر میں بیٹھی ہوئی ہیں وہ ایسے شریف اور سنجیدہ مردوں کو رشتہ دینے کے لئے تیار ہوجائیں جو دوسری شادی کرنا چاہتے ہوں۔
٭ یہ بات خاص طور پر ملحوظ رکھنی چاہئے کہ عقلی اور نقلی دلائل کی کثرت کے باوجود چونکہ ہمارے ہاں دوسری شادی کا ماحول نہیں ہے ، اس لئے اس وادی پر خار میں سوچ سمجھ کر قدم رکھنا چاہئے ۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ جب تک پہلی بیوی اور بچوں (بالخصوص جبکہ بڑے ہوں) کی ذہن سازی نہ کرلی جائے ، تب تک دوسری شادی نہیں کرنی چاہیے ، ورنہ ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ گھر کا امن اور سکون تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ ٭ آخر میں اس موضوع پر لکھی گئی چند کتابوں کے نام دیے جا رہے ہیں، امید ہے کہ ان کے مطالعہ سے بہت سارے اشکالات رفع ہو جائیں گے اور اطمینانِ مزید نصیب ہوگا۔
-1 ایک سے زائد شادیوں کی ضرورت کیوں؟ تالیف مولانا طارق مسعود صاحب۔ (اس کتاب پر بندہ نے بھی تقریظ لکھی ہے۔)
-2 اسلامی نظریہ تعدد ازواج: تالیف محمد سلیم الدین آغا رحمہ اللہ (اس کتاب پر مفتی ابو لبابہ شاہ منصور زید مجدہم کی تصدیق ثبت ہے اس کتاب کے مولف کتاب شائع ہونے سے قبل محض 28 سال کی عمر میں انتقال فرماگئے)
-3 فضل تعدد زوجات (شیخ خالد الجریس، ریاض)
-3 فضل تعدد زوجات (شیخ خالد الجریس، ریاض)
-4 عائلی قوانین شریعت کی روشنی میں۔
-5 اسلامی شادی ۔
-6 اسلام کا نظام عفت و عصمت۔ -
7 شادی سے شادیوں تک۔ (یہ دو امریکی خواتین، ام عبد الرحمن ہرش فیلڈ اور ام یاسمین رحمن کے قلم سے اپنی نوعیت کی بہترین تصنیف ہے)
-8 اسلام اور جنسیات۔
نوٹ: یہ عاجز تحریر اور تقریر کے ذریعے نوجوان اولاد کے رشتے جلد کروانے، عقد نکاح سادگی سے کرنے، رشتے میں سیرت اور دین داری کو معیار بنانے، ہندوانہ اور ظالمانہ رسموں سے بچنے، بوقت ضرورت دوسری شادی کو گناہ نہ سمجھنے کی ترغیب تو دے سکتا ہے مگر بہت سارے اعذار اور مصروفیات کی بنا پر رشتے نہیں کرواسکتا۔ لہذا نکاح اول یا ثانی کی خواہش رکھنے والے حضرات و خواتین یا والدین اس مقصد کے لئے اس کی طرف ہرگز رجوع نہ کریں۔
تحریر: داعی قرآن مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہید
No comments:
Post a Comment