Friday 26 October 2018

بری خصلتوں سے بچیں

بری خصلتوں سے بچیں!!
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا فرمایا، اس میں خیر اور شر دونوں رکھ دئے، اب کچھ لوگوں نے برائی کو اپنے لئے پسند کیا تو برے بن گئے اور جس نے اپنے لئے خیر کو پسند کیا وہ اچھے بن گئے۔
چونکہ یہ دنیا  تضادات کا مجموعہ ہے اس میں آدم جیسا نبی ہے تو ابلیس جیسا لعین بھی ہے، یہاں ملائکہ کا نزول ہوتا ہے اور شیاطین جنات کا بسیرا بھی، ابراہیم جیسا خلیل ہے تو نمرود جیسا مردود بھی ہے، موسیٰ جیسا موحد ہے تو فرعون جیسا بدبخت بھی ہے، وجہ تخلیق کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں تو ابوجہل و ابولہب جیسے متمرد بھی ہیں، صحابہ و اہلبیت جیسی پاکیزہ و مقدس شخصیات ہیں تو مشرکین و منافقین جیسے بدکرار بھی۔ رحمان کے بندے ہیں تو شیطان کی اولاد بھی۔
الغرض خیر و شر، نیکی و بدی، اچھائی و بُرائی دونوں ساتھ ساتھ وقت گزاررہی ہیں، اچھے انسانوں کی صفات کا تذکرہ قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے اور ان جیسی صفات کو پیدا کرنے کا حکم  دیا گیا ہے جبکہ برے انسانوں کا تذکرہ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ ملتا ہے اور ان جیسی صفات ختم کرنے کا حکم بھی ملتا ہے۔
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ الْخَثْعَمِيَّةِ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَى وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الْأَعْلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَهَا وَلَهَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَی وَطَغَى وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَهَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُهَاتِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ هَوًى يُضِلُّهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّهُ
جامع الترمذی، باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض، حدیث نمبر 2372
ترجمہ: حضرت اسماء بنت عمیس خثعمیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: برا شخص وہ ہے جو خود کو دوسروں سے بہتر سمجھے، تکبر کرے اور اللہ کو بھول جائے۔ برا  شخص وہ ہے جو ظلم کرے فساد کرنے میں حد سے تجاوز کرے اور جبار و قہار رب کو بھول جائے۔ برا شخص وہ ہے جو دین داری کو بھول جائے اور دنیا میں مشغول ہوکر قبروں کی ہولناکیوں کو بھول جائے۔ برا شخص وہ ہے جو فتنہ پرور ہو، نافرمانی میں حد سے گزرگیا ہو اور اپنی آغاز و انجام کو بھول بیٹھا ہو۔ برا شخص وہ ہے جو دنیا کو دین کے ذریعے کمائے۔ برا شخص وہ ہے جو دین میں شبہات پیدا کرکے مشکوک بنانے کی کوشش کرے۔ برا شخص وہ ہے جو لالچی ہو اور لالچ اسے زمانے کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرے۔ برا شخص وہ ہے جو نفسانی خواہشات کا پابند ہو اور وہ خواہشات اس کو گمراہ کرتی رہتی ہوں۔ برا شخص وہ ہے جو دنیا کے حرص میں مبتلا ہو اور یہ چیز اسے ذلیل کرتی ہو۔
پہلا  بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ تَخَيَّل واختال، ونَسِىَ الكبيرَ المُتَعالَ۔ 
اس میں تین بڑی خرابیاں ہیں۔
نمبر 1: تخیل …دوسرے کو حقیر سمجھ کر اپنے بارے اعلی و ارفع ہونے کی خوش فہمی میں رہنے والا۔
نمبر2: واختال… غرور اور گھمنڈ میں مبتلا رہنے والا۔
نمبر3: نسی الکبیر المتعال …اپنے کبر و غرور کی وجہ سے اللہ کی بڑائی، عظمت اور جلال کو بھول جانے والا۔
دوسرا  بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ تَجَبَّرَ واعْتَدَى، ونَسِيَ الجَبَّارَ الأَعْلَى۔ 
کمزوروں اور ماتحتوں پر ظلم و جبر کرنے والا اور لڑائی جھگڑے کو پیدا کرکے حد سے تجاوز کرنے والا یہ اس رب کو بھول بیٹھا ہے جو ظالموں اور جابروں کو کیفر کردار تک پہنچانے والا ہے۔
تیسرا بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ سَهَا ولَهَا، ونَسِيَ المَقابِرَ والبِلَا۔ 
خدائی احکامات کونظر انداز کرنے والا، نہ عبادات، نہ معاملات نہ اخلاقیات۔ نہ حلال و حرام کی تمیز۔ یہ قبر اور اس میں مدفون لاشوں کو بھلانے والا۔ آج کے مادہ پرست دور میں اہل اسلام کے کثیر افراد اس  بُرائی میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔
چوتھا بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ عَتَا وطَغَى، ونَسِيَ المُبْتَدَا والمُنْتَهَى 
فتنہ پرور آدمی۔ رشتہ داروں، محلہ داروں اور لوگوں کے مابین نفرتیں پیدا کرنے والا، اخوت و بھائی چارگی کی فضا کو مکدر کرنے والا۔ لگائی بجھائی کو اپنا مشغلہ بنانے والا یہ اپنے آغاز اور انجام کو بھول بیٹھا ہے۔
پانچواں بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ يَخْتِلُ الدنيا بالدِّينِ۔ 
دنیا کے حصول کے لیے دین کو برباد کرنے والا، اپنی عبادات کو ریا اور دکھلاوے کی بھینٹ چڑھانے والا۔ دین داری ظاہر کرکے مال و زر ہتھیانے والا۔
چھٹا بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بالشُّبُهاتِ۔ 
دینی احکامات میں شبہات پیدا کرنے والا، ایسی باتیں بتلانے والا جس سے دین کے بارے شبہات پیدا ہوتے ہوں لوگوں کے دلوں میں وساوس ڈال کر دین سے دور کرنے والا۔
ساتواں بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبدُ عبدٌ طَمَعٌ يَقُودُه۔ 
لالچی آدمی۔ خواہ لالچ مال و زر کا ہو، جاہ و منصب کا ہو، نام و نمود اور شہرت وغیرہ کا ہو۔ یعنی تقدیر الہٰی پر نا خوش شخص۔
آٹھواں بُرا آدمی: بِئْسَ العبدُ عبدٌ هَوًى يُضِلُّه۔ خواہشات نفس کو ناجائز اور حرام طریقوں سے پوری کرنے والا، اس کے لئے نہ اسے مخلوق کی پروا ہے اور نہ ہی خالق کا خوف۔
نواں بُرا آدمی: بِئْسَ العبدُ عبدٌ رَغَبٌ يُذِلُّه بے شرم آدمی۔ ذلت و خواری کے باوجود لوگوں کے طعن و تشنیع سننے کے باوجود، احساس شرمندگی سے عاری انسان۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا  بُرائیوں کی نشاندہی اس لئے فرمائی کہ میری امت کے لوگ ان سے بچیں اگر ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں آج ہم میں من حیث القوم ساری بُرائیاں موجود ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہم خود کو اچھا اور دوسروں کو  بُرا سمجھتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان  بُرائیوں سے نجات پاکر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے غلام بن جائیں۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
وعظ و نصیحت قسط 91
والسلام
محمد الیاس گھمن
وائیاں والی، تحصیل وزیر آباد، ضلع گجرات
جمعرات، 25 اکتوبر ،2018ء

No comments:

Post a Comment